Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

59 - 63
سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی
کل جمعرات کا دن اسلام آباد میں گزرا، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حسب معمول اسباق سے فارغ ہو کر حافظ شفقت اللہ کے ہمراہ ظہر سے قبل اسلام آباد پہنچا۔ ان دنوں سودی نظام کے خاتمہ کے حوالہ سے وفاقی شرعی عدالت میں کیس کی سماعت جاری ہے جس کی پیروی جماعت اسلامی کی طرف سے جناب قیصر امام ایڈووکیٹ اور تنظیم اسلامی کی طرف سے حافظ عاطف وحید کر رہے ہیں۔ میں نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے چند علماء کرام سے بات کی تھی کہ اس سلسلہ میں کیس کی پیروی کرنے والے حضرات کے ساتھ رابطہ میں رہ کر تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رہنا چاہیے اور ان کے ساتھ معاونت و شرکت کی کوئی صورت نکالنی چاہیے اس لیے کہ ملک بھر کے علماء کرام کا بالعموم اور اسلام آباد کے علماء کرام کا بالخصوص اس کیس سے لاپروا اور بے تعلق رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس پر طے ہوا کہ ایک مشترکہ اجلاس کا اہتمام کیا جائے تاکہ باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی ترتیب طے کی جا سکے۔
چنانچہ اس مقصد کے لیے راقم الحروف کی دعوت پر ۱۶ فروری کو ۳ بجے دن جامع مسجد عثمان غنیؓ، بلند مارکیٹ، جی ٹین ون، اسلام آباد میں اجلاس منعقد ہوا جس میں اسلام آباد کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ کیس کی پیروی کرنے والوں کی طرف سے حافظ عاطف وحید ، جناب قیصر امام ایڈووکیٹ، جناب سیف اللہ گوندل اور پروفیسر محمد یوسف فاروقی شریک ہوئے۔ تفصیلات سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے حوالہ سے جن نکات پر بحث جاری ہے وہ کم و بیش وہی مباحث ہیں جو اس سے قبل وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں تفصیل کے ساتھ زیر بحث آچکے ہیں اور جن کے بارے میں دونوں اعلیٰ عدالتیں واضح فیصلہ دے چکی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوا کہ مسئلہ عدالتوں کا نہیں بلکہ اصل رکاوٹ حکومت اور بڑے مالیاتی اداروں کی طرف سے ہے کہ وہ اس اہم ترین قومی اور دینی مسئلہ کو اعلیٰ عدالتوں کے درمیان الجھائےرکھنا چاہتے ہیں تاکہ وقت کسی نہ کسی طرح گزرتا رہے اور سودی نظام کے تسلسل کو جتنا زیادہ ہو سکے جاری رکھا جا سکے۔ سادہ سی بات ہے کہ دستور پاکستان نے ۱۹۷۳ء سے حکومت پاکستان کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ ملک کو جلد از جلد سودی نظام سے نجات دلائے لیکن اس کے باوجود حکومت اور اس کی پشت پناہی کے ساتھ بڑے مالیاتی ادارے گزشتہ دو عشروں سے اعلیٰ عدالتوں میں گھما پھرا کر اس مسئلہ کو مسلسل لٹکائے ہوئے ہیں اور اب بھی ان کی حکمت عملی یہی دکھائی دیتی ہے کہ سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل بدستور جاری رکھا جائے۔
دینی طبقات کی بے بسی یہ ہے کہ وہ عملی طور پر صرف مطالبات ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ تو اتنی پارلیمانی قوت ہوتی ہے کہ وہ جمہوری ذرائع سے اپنے مطالبات کو عملی جامہ پہنا سکیں، اور نہ ہی ملک کے دیگر ریاستی اداروں میں ان کی کوئی نمائندگی نظر آتی ہے کہ وہ منظور شدہ قوانین کو حقیقی معنوں میں نافذ کروا سکیں۔ بہرحال حسب صورتحال دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ حکومت سے دوٹوک مطالبہ کریں کہ وہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے اپنی دستوری ذمہ داری کو فوری طور پر پورا کرے۔ اس مطالبہ کو مؤثر بنانے کے لیے دینی حلقوں اور رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے ملی مجلس شرعی پاکستان اور اس کے تحت تحریک انسداد سود پاکستان کے فورم پر پہلے سے تھوڑا بہت کام جاری ہے اور ملک میں مختلف مقامات پر دینی راہنماؤں اور جماعتوں کے مشترکہ اجتماعات کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔ جبکہ اس کے لیے اسلام آباد کے علماء کرام اور سول سوسائٹی کو منظم کرنے کی زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں اجلاس میں ’’تحریک انسداد سود رابطہ کمیٹی اسلام آباد‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور مولانا محمد رمضان علوی کو اس کا کنوینر مقرر کیا گیا جبکہ اس کے دیگر ارکان یہ ہوں گے۔ مولانا تنویر احمد علوی، مولانا خلیق الرحمان چشتی، مولانا ظہور الٰہی، مولانا ثناء اللہ غالب، حافظ سید علی محی الدین، مولانا مفتی محمد سیف الدین، مولانا محمد اسحاق صابری اور مولانا عبد القدوس محمدی۔
اجلاس میں طے پایا کہ اس سلسلہ میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، تاجر راہنماؤں، وکلاء برادری اور دیگر طبقات سے رابطہ کر کے انہیں سودی نظام کی تباہ کاریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس قومی مطالبہ کی حمایت کے لیے منظم و متحرک کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ سودی نظام کا خاتمہ حکومت کی شرعی اور دستوری ذمہ داری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل سودی قوانین کا تعین اور وضاحت کر کے قابل عمل متبادل نظام تجویز کر چکی ہے اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں غیر سودی مالیاتی نظام کا کامیاب تجربہ جاری ہے۔ اس لیے ملک میں سودی نظام کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے اپنی دستوری ذمہ داری کو پورا کرے اور اس کے لیے عملی اقدامات کا اہتمام کرے۔ اجلاس میں طے پایا کہ اس سلسلہ میں رابطہ کمیٹی سیاسی و دینی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت اور پارلیمنٹ کے سرکردہ ارکان سے ملاقاتیں کر کے ان سے بھی مؤثر توجہ کی درخواست کرے گی۔ اس کے ساتھ یہ بھی طے ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت میں کیس کی پیروی کرنے والے حضرات سے مسلسل رابطہ رکھا جائے گا اور ان کے ساتھ اخلاقی و علمی معاونت کا اہتمام کیا جائے گا۔
اجلاس سے فارغ ہو کر اسلام آباد میں سب سےپہلے بننے والی مسجد ’’اولیٰ مسجد‘‘ میں حاضری ہوئی جہاں نماز مغرب کے بعد مولانا قاری عزیز الرحمان نے حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور حضرت قاری محمد انورؒ کی یاد میں تعزیتی نشست کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اسلام آباد کے بہت سے علماء کرام مجتمع تھے، مولانا قاضی عبد الرشید، مولانا قاضی مشتاق احمد اور راقم الحروف کے علاوہ دیگر حضرات نے خطاب کیا اور ان بزرگوں کی دینی و ملی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی دینی جدوجہد کا تسلسل جاری رکھنے کا عزم کیا اور ان کے لیے مغفرت و بلندیٔ درجات کی دعا کی گئی۔ تعزیتی نشست سے فارغ ہونے کے بعد ہم فیض آباد کے جنرل بس اسٹینڈ سے گوجرانوالہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۸ فروری ۲۰۱۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter