Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

36 - 63
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام
بھارتی پنجاب کے معروف قانون دان ہرچند سنگھ باٹھ نے، جو وکلاء کی انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے، گزشتہ روز ’’پاکستان فورم‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ
’’دونوں ملکوں کے قانونی نظام میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کیونکہ یہ انگریز کا بنایا ہوا ہے۔ ہم آج تک اس میں اپنی ضروریات کے مطابق تبدیلی نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ انگریز نے تمام قوانین اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لیے بنائے تھے، ہمیں چاہیے تھا کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ضرورت کے تحت تبدیلیاں کرتے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔‘‘
یہ بات نئی نہیں ہے اور ہم فقیر لوگ ایک عرصے سے یہ گزارش کرتے آرہے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد وقتی ضرورت کے تحت تعطل اور خلاء سے بچنے کے لیے تو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ کو برقرار رکھنا شاید ہماری مجبوری تھی لیکن اسے ملک کے مستقل قانون کی حیثیت دے دینا ہماری معاشرتی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ اسلامی نظریے کے تحت ایک الگ ملک پاکستان کے قیام کے اہداف سے مطابقت رکھتا ہے۔ ہمارا مروجہ قانونی نظام اور نافذ شدہ قوانین 1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں برطانوی حکومت کی براہ راست عملداری قائم ہونے کے بعد نوآبادیاتی مقاصد کے لیے نافذ کیے گئے تھے اور یہ نوآبادیاتی نظام ہی سے مطابقت رکھتے تھے۔ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ نوآبادیاتی حکمرانوں کو ایسے ہی نظام قانون اور قوانین کی ضرورت تھی جو ان کی حکمرانی کو طول دے سکیں اور جن کے ذریعے وہ اپنے نوآبادیاتی عزائم کی تکمیل کر سکیں۔
یہ بات خود ایک انگریز بیوروکریٹ پینڈرل مون (Penderel Moon) نے بھی اپنی آپ بیتی اور یادداشتوں میں واضح کی ہے،ؔ جو کئی بار چھپ چکی ہے۔ پینڈرل مون نے سالہا سال تک برطانوی سول سروس کے تحت پنجاب اور دیگر علاقوں میں انتظامی اور عدالتی خدمات انجام دی ہیں اور طویل تجربے اور مشاہدات کے بعد اس امر کا کھلے بندوں اعتراف کیا ہے کہ برطانوی دور کا نافذ کردہ قانونی نظام برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش کے لوگوں کے مزاج و نفسیات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اور وہ ان کے مسائل و تنازعات کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھانے اور پیچیدہ بنانے کا کام کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی نوآبادیاتی حکومت اپنی نوآبادی کو قبضے میں رکھنے کے لیے یہی کچھ کر سکتی ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ نوآبادیاتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی اسی قانونی نظام اور قوانین کو باقی رکھا گیا ہے اور خود اپنی ضروریات کے مطابق بھی اس میں کسی قسم کے رد و بدل کو روا نہیں رکھا جا رہا ہے۔ ہرچند سنگھ باٹھ نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے اور حسرت کا اظہار کیا ہے کہ ہم ابھی تک اپنی ضروریات کے تحت ان قوانین میں کوئی رد و بدل نہیں کر سکے۔
بھارت میں عام لوگوں کی ضروریات کیا تقاضہ کرتی ہیں اس کے بارے میں تو ہرچند سنگھ باٹھ ہی بہتر طور پر رہنمائی کر سکتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں پاکستان میں ہماری ضروریات کا دائرہ کیا ہے؟ اس کے حوالے سے ہم خود کچھ عرض کرنے کی بجائے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زبان سے ان ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ قانونی نظام اور قوانین کے دائرے میں اس نئے ملک میں ان کے نزدیک کیا تبدیلیاں رونما ہونا ضروری تھیں۔ قائد اعظمؒ نے 1944ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے لیڈر گاندھی کے نام اپنے معروف خط میں فرمایا تھا کہ
’’قرآن مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے، اس میں مذہبی و مجلسی، دیوانی و فوجداری، عسکری و تعزیری، معاشی و معاشرتی، غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام موجود ہیں۔ لہٰذا میں جب یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہے تو حیات اور مابعد الممات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں‘‘۔
جناب محمد علی چراغ نے اپنی تصنیف ’’قائد اعظم کے مہ و سال‘‘ میں 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے قائد اعظمؒ کے خطاب کا ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ
’’اسلام کے اصول و ضوابط آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام محض رسوم، روایات، اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام میں انسان اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہے، مساوات اور آزادی و اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں۔ ہم دستور پاکستان بنائیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ یہ اعلیٰ آئینی نمونہ ہے۔‘‘
’’قائد اعظمؒ کے مہ و سال‘‘ میں ہی ان کا وہ خطاب مذکور ہے جو انہوں نے یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے کیا تھا اور اس میں کہا تھا کہ
’’مغرب کے نظام معاشیات نے متعدد مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ میں اسلامی نظریات کے مطابق آپ کے یہاں نظام معیشت دیکھنے کا متمنی ہوں۔‘‘
قائد اعظمؒ کے ان ارشادات اور ان کے دیگر درجنوں فرمودات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں قانونی نظام اور قوانین کے حوالے سے کس قسم کی تبدیلیوں کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ اسلام کے معاشی اور معاشرتی قوانین کو بروئے کار لانے کے متمنی تھے اور مغرب کے نظام معیشت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق ملک میں ایک نئے معاشی نظام اور اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل چاہتے تھے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ’’انڈیا ایکٹ‘‘ سے چمٹے ہوئے ہیں اور دستور میں اسلامی نظام حیات اور اسلامی قوانین کی ترویج کی گارنٹی واضح طور پر موجود ہونے کے باوجود قوم کو قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قومی سطح پر خلفشار کا شکار ہیں۔
ہم ایمان و یقین کا اظہار قرآن و سنت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن ہماری وفاداری نوآبادیاتی نظام و قوانین کے ساتھ ہے۔ ہم نے دستور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کر رکھا ہے لیکن اس حاکمیت اعلیٰ کو اپنے قانونی نظام اور معاشرتی و معاشی سسٹم میں دخل اندازی کا حق دینے کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہیں۔ یہ دہری وفاداری ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتی جا رہی ہے جس کی ایک جھلک دہری شہریت کے حوالے سے ہونے والی بحث میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ہمارے بہت سے دوستوں بلکہ دانشوروں کو بھی اس بات میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہو رہی کہ ایک شخص ملکہ برطانیہ کا وفادار بھی ہو اور اس وفاداری کو پوری طرح قائم رکھتے ہوئے دستور پاکستان کے تحت اللہ تعالیٰ کی وفاداری کا حلف بھی اٹھا لے، اور پھر زندگی بھر دونوں وفاداریوں کا تمغہ اپنے سینے پر سجائے رکھے۔
مجھے اس موقع پر شکاگو میں قائم بہائیوں کا ایک مرکز یاد آرہا ہے جس میں وحدت ادیان کے تصور کے تحت ایک بڑے ہال میں مسجد، مندر، چرچ، گوردوارہ، اور سینی گاگ کے الگ الگ پورشن ایک ہی چھت کے نیچے بنائے گئے ہیں ۔1989ء میں یہ مرکز دیکھنے کا اتفاق ہوا تو مرکز کے انچارج نے بتایا کہ ہم نے مسجد اور مندر کو ایک ہی چھت کے نیچے جمع کر دیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مسجد اور مندر کو تو آپ نے ایک چھت کے نیچے جمع کر لیا ہے لیکن مجھے یہ سمجھائیں کہ توحید اور شرک کو آپ نے اس چھت کے نیچے آخر کس طرح اکٹھے کر دیا ہے؟ اسی چھت کے نیچے اللہ تعالیٰ ’’وحدہ لا شریک لہ‘‘ بھی ہے اور اسی ہال میں اس کے ساتھ دیگر شریکوں کی پوجا بھی کی جا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے کہ ہم پاکستانی بھی کم و بیش اسی طرح کی صورتحال اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا دامن بھی ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور برطانوی نوآبادیاتی دور کی یادگار معاشی، معاشرتی، اور قانونی نظام کی وفاداری سے دستبردار ہونے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ بقول غالب
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter