Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

35 - 63
نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت
’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر جہاد کی شرعی حیثیت، موجودہ معروضی حالات میں اس کی عملی صورتوں اور دنیا کے مختلف حصوں میں جہادی تحریکات کے طریق کار کے حوالے سے مباحثہ کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے اور کم وبیش اس سلسلے میں رائے رکھنے والے اکثر دوستوں کا نقطہ نظر کسی نہ کسی پہلو سے سامنے آ چکا ہے۔ ہمارا مقصد اس قسم کے مباحث سے یہی ہوتا ہے کہ ملی اور قومی سطح کے مسائل میں علمی اور فکری طور پر رائے رکھنے والے حضرات کا نقطہ نظر قارئین کے سامنے آئے تاکہ انھیں کھلے ماحول میں مسئلہ کے تمام پہلووں کو ملحوظ رکھتے ہوئے رائے قائم کرنے میں آسانی ہو۔ اس کے ساتھ ہی ہماری کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی بھی مسئلے پر بحث ومباحثہ ’’مکالمہ‘‘ کے دائرے میں رہے اور باہمی مورچہ بندی کی شکل نہ اختیار کرنے پائے، چنانچہ اس سلسلے میں جاری بحث ومباحثہ کا رخ اسی مسئلے کے ایک دوسرے اہم پہلو کی طرف موڑتے ہوئے ہم ایک علمی وفکری مکالمہ کا آغاز کر رہے ہیں جو نہ صرف ملت اسلامیہ کی نئی پود کے ذہنوں میں بیسیوں سوالات کی صورت میں گردش کر رہا ہے بلکہ عالم اسلام میں نفاذ اسلام کی تحریکات کی بھی ایک علمی وفکری ضرورت ہے۔
یہ سوال قیام پاکستان کے فوراً بعد اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ایک نئی نظریاتی ریاست کا دستوری ڈھانچہ کیا ہوگا اور اس کی تشکیل میں مختلف مذہبی مکاتب فکر کے باہمی اختلافات کا کس حد تک عمل دخل ہوگا؟ چنانچہ اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات قوم کے سامنے پیش کیے تھے تاکہ پاکستان کے دستوری ڈھانچے اور قانونی نظام کے بارے میں دینی حلقوں کا متفقہ موقف سامنے آ جائے اور یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ یہ مذہبی مکاتب فکر تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود دستوری اور قانونی نظام کے معاملات میں یکسو اور متفق ہیں اور ان کے اختلافات ملک کو ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت دینے میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی منظوری اور اس پر تمام دینی حلقوں کا اتفاق بھی دستور وقانون کے بارے میں ان کے اتفاق اور ہم آہنگی کا مظہر تھا، حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت اور جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور تک اسلامائزیشن کے لیے ہونے والی پیش رفت کا پس منظر بھی یہی تھا، لیکن ’’جہاد افغانستان‘‘ کے بعد رونما ہونے والی علاقائی تبدیلیوں کے ماحول میں اس دستوری جدوجہد کے بارے میں دو م مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے ہیں:
ایک نقطہ نظر سیکولر حلقوں کا ہے کہ قرارداد مقاصد سے اب تک نفاذ اسلام کے لیے ہونے والے تمام اقدامات غلط ہیں اور ان سب پر خط تنسیخ کھینچنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا نقطہ نظر بعض دینی حلقوں کی طرف سے یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے پرامن دستوری اور آئینی جدوجہد ناکام ہو چکی ہے اور اب ہتھیار اٹھائے بغیر اس ملک میں نفاذ شریعت کی کوئی عملی صورت باقی نہیں رہی۔
چنانچہ اس فضا میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کشمکش او رمحاذ آرائی کے جو نئے رخ سامنے آئے ہیں، اس میں یہ سوال ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ:
آج کے دور میں پاکستان یا کسی بھی اسلامی ریاست کا دستوری ڈھانچہ کیا ہو سکتا ہے اور خلافت کی عملی شکل کیا ہوگی؟
ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے : (۱) دستوری اور قانونی جدوجہد (۲) عوامی دباؤ اور احتجاج کا تحریکی راستہ اور (۳) ہتھیار اٹھا کر عسکری جدوجہد میں سے کون سا طریقہ قابل عمل ہے اور ملک کے دینی حلقوں کو اس حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟
ہم اس حوالے سے جس مباحثہ کا آغاز کر رہے ہیں، وہ انھی دو سوالات کے دائرے میں ہوگا اور اس سلسلے میں کسی بھی نقطہ نظر کے بارے میں ایسی تحریریں شامل اشاعت کی جائیں گی جو خالصتاً علمی وفکری بنیاد پر شستہ اور مثبت انداز میں تحریر کی گئی ہوں اور مناظرانہ اسلوب اور باہمی تحقیر واستہزا کے مواد سے خالی ہوں۔ بحث کے آغاز میں ہم ایجنڈے کے طور پر قرارداد مقاصد اور علما کے ۲۲ نکات کے علاوہ ایک تفصیلی مضمون بھی شائع کر رہے ہیں جو راقم الحروف نے کراچی کے ایک نشریاتی ادارے کے سوال نامے کے جواب میں تحریر کیا ہے۔
ارباب علم ودانش سے گزارش ہے کہ وہ وقت کی اس اہم ترین ضرورت کی طرف توجہ فرمائیں اور ایک خوب صورت اور معیاری علمی وفکری مباحثہ کی شکل میں امت مسلمہ کی نئی نسل کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے دستوری اور قانونی تقاضوں کے سلسلے میں عالم اسلام کی دینی تحریکات کی بھی راہ نمائی فرمائیں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
دسمبر ۲۰۱۰ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter