Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

47 - 63
اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل
لاہور سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ میں 4 ستمبر کو چھپنے والی یہ خبر ملاحظہ فرمائیے:
’’عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والے خاندان کا اہل خانہ اور رشتہ داروں نے سماجی بائیکاٹ کرتے ہوئے گھر سے نکال دیا۔ قبول اسلام کرنے والی چار بچوں کی ماں اپنے معذور شوہر کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھا کر انصاف کے لیے لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئی۔ خانیوال کے چک 33 کی رہائشی رچل اور اس کے معذور شوہرپطرس خلیل جوزف نے ایک سال قبل اپنے چار بچوں کے ہمراہ اسلام قبول کر لیا۔ قبول اسلام کے بعد رچل نے اپنا نام میمونہ اور پطرس خلیل جوزف نے اپنا نام بلال رکھا تو ان کے خاندان اور رشتہ داروں نے انہیں بچوں سمیت گھر سے نکال دیا۔ نو مسلم خاندان رشتہ داروں کی بے اعتنائی کے بعد لاہور آگئے اور ایک سال سے پارکوں اور مسجدوں کے باہر رہنے پر مجبور ہیں۔ نو مسلم خاتون کا معذور شوہر درباروں سے اپنے بچوں کے لیے کھانا لا کر ان کا پیٹ پال رہا ہے۔ نو مسلم جوڑا آٹھ سالہ عائشہ، چھ سالہ مقدس، چار سالہ حسن اور ڈیڑھ سالہ غلام حسین کو اپنے ہمراہ لے کر دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ نو مسلم خاتون کا سب سے چھوٹا بیٹا غلام حسین پیدائشی طور پر ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہے۔‘‘
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیر مسلم اقلیتیں اچھی خاصی تعداد میں رہتی ہیں اور انہیں دستور کے مطابق شہری حقوق حاصل ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے اندر تبلیغ کرنے اور انہیں غیر مسلم بنانے کے مواقع بھی انہیں میسر ہیں جن سے مسیحی اقلیت کے مشنری ادارے اور قادیانی مبلغین سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ مسیحی مشنریوں کی طرح غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے کوئی منظم کام قومی سطح پر موجود نہیں ہے اور نہ ہی حکومتی یا پرائیویٹ سطح پر اس قسم کی کوئی تحریک پائی جاتی ہے۔ مختلف مقامات پر کچھ افراد یا مقامی ادارے ضرور اس طرف توجہ دیتے ہیں جن کی کوشش سے بہت سے لوگ مسلمان بھی ہو جاتے ہیں، مگر مسلمان ہو جانے کے بعد انہیں جو مسائل درپیش ہوتے ہیں ان کا کوئی مناسب حل معاشرتی سطح پر دیکھنے میں نہیں آتا۔
مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں خطابت کے گزشتہ پینتالیس سالہ دور میں سیکڑوں افراد اور بیسیوں خاندان میرے سامنے مسلمان ہوئے ہیں۔ میرا معمول یہ ہے کہ نو مسلم افراد اور خاندانوں کا جس علاقے سے تعلق ہو وہاں کے کسی سرکردہ دوست کو توجہ دلا دیتا ہوں کہ ان کا خیال رکھیں اور مشکلات میں ان سے تعاون کریں۔ مگر ظاہر ہے کہ میں بھی صرف توجہ ہی دلا سکتا ہوں، اس کا اہتمام کرنا اور دوستوں سے بار بار کہنا میرے بس میں نہیں ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کسی دردمند صاحب خیر یا احساس رکھنے والے عالم دین کے رابطہ میں آجائیں تو کچھ نہ کچھ گزارہ ہو جاتا ہے۔ ورنہ نو مسلم حضرات اسی طرح بھٹکتے رہتے ہیں، کچھ مجبور ہو کر واپس چلے جاتے ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لیے بھیک اور خیرات کے عادی ہو جاتے ہیں۔
نو مسلموں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ قبول اسلام کے بعد اپنے سابقہ ماحول سے کٹ جاتے ہیں، رشتہ داروں کے قطع تعلق کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگ روزگار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثریت کو نہ نیا ماحول قبول کرتا ہے اور نہ ہی مناسب روزگار ملتا ہے۔ اسی طرح پرانے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں جبکہ نو مسلم ہونے کی وجہ سے نہ انہیں کوئی رشتہ ملتا ہے اور نہ ہی ان کا رشتہ کوئی قبول کرتا ہے۔ اور وہ ایک مسلمان معاشرے میں اچھوت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انہیں وہ معاشرتی تحفظ اور قدر و منزلت میسر نہیں آتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔ اور ان کے بیٹے بیٹیاں رشتوں کے انتظار میں عمر گزار دیتے ہیں۔
اس صورت حال کی وجہ اسلام اور اس کی تعلیمات نہیں بلکہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے جو خود اپنی جگہ طبقاتی اونچ نیچ اور برادری ازم کے احساس برتری کا شکار ہے۔ اور یہی رویہ جب کسی نو مسلم کو درپیش ہوتا ہے تو اس کے لیے اس کا عذاب ڈبل ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ پہلی برادری سے کٹ چکا ہوتا ہے، نئی برادری اسے قبول نہیں کرتی اور معاشرتی قدر و منزلت اور نئی رشتہ داریوں سے محرومی کے ساتھ اگر روزگار کا مسئلہ بھی شامل ہو جائے تو اس فرد یا خاندان کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔
ہمارے محترم دوست مولانا عبد الرؤف فاروقی نے جامعہ اسلامیہ کامونکی میں مذاہب کے تقابلی مطالعہ و تحقیق کا مرکز بنایا تو ہمارے درمیان مشاورت ہوئی کہ اس کے ساتھ نو مسلم افراد اور خاندانوں کو سنبھالنے کی بھی کوئی صورت نکالنی چاہیے۔ اور انہیں سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ان کی ضروری دینی تعلیم اور تربیت کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ کیونکہ قبول اسلام کے بعد انہیں دینی تعلیم و تربیت کے بغیر اسی حال پر چھوڑ دینا قطعی طور پر غلط بات ہے۔ اس سے وہ قبول اسلام کے فوائد و ثمرات سے بالکل محروم رہ جائیں گے۔ مولانا فاروقی اور ان کے رفقاء نے اپنی حد تک تھوڑا بہت بندوبست کیا ہے اور کچھ حضرات کو سنبھالا بھی ہے مگر نچلی سطح کے چند ایک ادارے آخر کتنا کام کر سکیں گے؟
کچھ عرصہ قبل غیر مسلموں میں دعوت اسلام کی ضرورت اور اس کے تقاضوں کے موضوع پر ایک مذاکرہ میں شرکت کا موقع ملا تو یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی معاشرہ میں غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کی راہ میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ غیر مسلموں کی ذہنی سطح اور ان کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے اور پھر دعوت دینے کا کوئی منظم پروگرام ملکی سطح پر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ (۲) دوسری یہ کہ ہمارا مسلکی طور پر یہ باہمی منافرت کا ماحول ایک غیر مسلم کو قبول اسلام کے حوالہ سے کنفیوژ کر دیتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر کے کون سے کیمپ میں جائے گا؟ (۳) تیسری رکاوٹ یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والا پہلے معاشرے سے کٹ جانے کے باوجود نئے معاشرے کے لیے اس درجہ میں قابل قبول نہیں ہوتا جو اس کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے جس سے وہ معاشرتی تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔
مذاکرہ کے شرکاء کا خیال تھا کہ اگر ان رکاوٹوں کو دور کرنے کا کوئی بندوبست کیا جا سکے تو خود پاکستان کے اندر دعوت اسلام کا ایک وسیع میدان موجود ہے۔
بہرحال خانیوال کے ایک گاؤں کی یہ نو مسلم فیملی مذکورہ بالا خبر کے مطابق لاہور میں جس طرح ایک سال سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے وہ ہم سب کے لیے ’’لمحۂ فکریہ‘‘ ہے۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اس کے لیے کیا کیا ہے؟ لیکن دراصل یہ کام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت مذہبی امور کا ہے کہ وہ کوئی ایسا نیٹ ورک ضرور بنائے جس کے تحت نو مسلم افراد اور خاندانوں کو باعزت طور پر سنبھالا جا سکے اور اس کے ساتھ رفاہی تنظیموں اور دینی اداروں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کی نزاکت کو محسوس کریں اور باہمی مشاورت کے ساتھ اس کا کوئی حل نکالیں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۲ ستمبر ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter