Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

10 - 63
حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت
21 نومبر کو مدرسہ عثمانیہ سیٹلائٹ ٹاؤن جھنگ کے ایک جلسہ میں شریک ہونا تھا جو کہ عشاء کی نماز کے بعد تھا۔ لیکن صبح نماز فجر کے بعد درس اور چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر جلدی گوجرانوالہ سے چل پڑا، خیال تھا کہ دو چار گھنٹے فیصل آباد میں گزاروں گا اور کچھ دوستوں سے ملاقات کر کے پچھلے پہر جھنگ چلا جاؤں گا۔ مگر سات بجے کے لگ بھگ گوجرانوالہ میں شیخوپورہ موڑ پر واقع فلائنگ کوچ کے اڈے پر پہنچا تو وہاں فیصل آباد کے لیے کوئی گاڑی موجود نہیں تھی جبکہ مسافر کافی تعداد میں کھڑے تھے۔ عملے کا شخص ان سے کہہ رہا تھا کہ اب کوئی گاڑی فیصل آباد نہیں جائے گی اور نہ ہی وہاں سے آئے گی اس لیے شیخوپورہ کی ویگن پر سوار ہو کر وہاں چلے جائیں، وہاں سے شاید فیصل آباد کی کوئی سواری مل جائے۔ شیخوپورہ کی ویگن اسی اڈے پر کھڑی تھی اور اس میں جگہ کم نظر آرہی تھی اس لیے میں نے پوچھنے میں وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور جلدی سے ویگن میں گھس گیا۔
ایک ہاکر کے ہاتھ میں اخبارات دیکھے تو ایک اخبار کی سرخی پر سرسری نظر پڑی جس میں ایک روز قبل فیصل آباد میں ہونے والی ڈکیتی کی خبر تھی اور اس واقعہ میں نصف درجن کے قریب افراد کی ہلاکت کا ذکر تھا۔ اس سے ذہن میں خیال آیا کہ شاید اس واقعہ کے حوالے سے فیصل آباد میں کوئی ہڑتال وغیرہ کا قصہ چل رہا ہوگا۔ چنانچہ اسی کیفیت میں شیخوپورہ پہنچے تو وہاں کے بتی چوک میں فیصل آباد کے لیے سواریوں کا ہجوم تھا مگر گاڑیاں ندارد۔ کچھ دیر وہاں گھومتا رہا پھر اچانک ایک بس آئی جس کے کنڈیکٹر نے فیصل آباد کی آواز لگائی تو دوسرے مسافروں کے ساتھ ساتھ میں بھی بس کی طرف لپکا اور تھوڑی سی تگ و دو کے بعد سوار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
جب ساڑھے دس بجے کے قریب فیصل آباد پہنچے تو یہ عقدہ کھلا کہ ڈکیتی کی واردات وغیرہ کا کوئی قصہ نہیں ہے بلکہ یہ صورتحال وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی تشریف آوری کی برکت سے ہے جو فیصل آباد موٹروے کی تعمیر کا افتتاح کرنے کے لیے پہنچنے والے ہیں۔ ان کے استقبال کے لیے مختلف علاقوں سے لوگوں کو لانے کی غرض سے انتظامیہ نے دو روز سے بسوں اور ویگنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر رکھی ہے۔ جو گاڑیاں اس پکڑ دھکڑ سے بچ گئی ہیں وہ پکڑے جانے کے خوف سے کونوں کھدروں میں دبکی کھڑی ہیں اور مسافر دو روز سے سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں۔ فیصل آباد میں کچھ وقت جامعہ مدینۃ العلم میں گزارا پھر اس کے بعد سنت پورہ میں جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مرکزی راہنما حضرت مولانا عزیز الرحمن انوری مرحوم کی وفات پر ان کے بیٹوں سے تعزیت کی۔
ظہر کی نماز پڑھ کر جھنگ کے لیے روانہ ہوا تو بسوں اور ویگنوں کے اڈوں پر نیم ہڑتال کی کیفیت بدستور موجود تھی۔ پاکستان شریعت کونسل کے راہنما حاجی ضیاء الدین صاحب جو نیو گرین مارکیٹ میں گلاس مرچنٹ ہیں، مجھے اپنی گاڑی میں مختلف اڈوں پر گھماتے رہے مگر جھنگ کے لیے کوئی سواری نہ ملی۔ پھر تین بجے کے بعد جب میاں محمد نواز شریف صاحب کا استقبال کرنے والا ہجوم واپس آیا تو میں جنرل بس اسٹینڈ سے جھنگ کے لیے بس میں سوار ہو سکا۔
وزیراعظم نے فیصل آباد پنڈی بھٹیاں موٹر وے کی تعمیر کا افتتاح تو کر لیا اور ان کے استقبال کے لیے ایک بڑا ہجوم بھی انتظامیہ اور ممبران اسمبلی نے جمع کر لیا لیکن اس دوران فیصل آباد کے شہریوں پر کیا بیتی؟ اس کا ذکر اس روز فیصل آباد سے شائع ہونے والے شام کے ایک اخبار نے اپنی رپورٹ میں ان الفاظ میں کیا ہے:
’’وزیراعظم پاکستان کے دورۂ فیصل آباد کے موقع پر بسیں اور ویگنیں استقبال کے لیے پکڑنے کے باعث سڑکیں ویران ہوگئیں اور لوگ ۲۰/۲۰ میل کا سفر بھی موٹر سائیکل، رکشوں، تانگوں، گدھا گاڑیوں اور ٹرکوں پر کرتے رہے۔ جبکہ پولیس نے شادیوں کے لیے بک کی گئی درجنوں گاڑیاں بھی پکڑلیں جس کے باعث براتیں ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر لے جانا پڑیں۔ فیصل آباد پولیس نے بسوں اور ویگنوں کے کاغذات چھین کر انہیں پولیس لائن اور اقبال اسٹیڈیم میں 19 نومبر سے پابند کر رکھا تھا تاکہ وزیراعظم کے استقبال کے لیے دیہات سے لوگوں کو لایا جا سکے۔ بسوں اور ویگنوں کے سڑکوں پر فقدان کے باعث شادیوں کے سیزن میں تین روز تک لوگ جہاں تھے وہاں پھنسے رہے اور انتظامیہ کی پھرتیوں کو کوستے رہے۔ جبکہ سکول جانے والے بچوں اور دفاتر جانے والے ملازمین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
راقم الحروف ایک ماہ قبل 24 اکتوبر کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کر چکا ہے جب مجھے مدرسہ اسلامیہ صادقیہ منچن آباد کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ اوکاڑہ تک تو جیسے کیسے پہنچ گیا مگر وہاں سے آگے منچن آباد کے لیے اڈے پر کوئی بس یا ویگن موجود نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ سعودی عرب کے ولی عہد محترم شہزادہ عبد اللہ بن عبد العزیز لاہور تشریف لا رہے ہیں اور ان کے استقبال کے لیے لوگوں کو مختلف علاقوں سے جمع کرنے کی غرض سے انتظامیہ نے بسیں اور ویگنیں قابو کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے اوکاڑہ کا جنرل بس اسٹینڈ ایک ویرانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ عصر سے عشاء تک بس اسٹینڈ کے گرد چکر لگانے کے بعد ایک بس اس حالت میں ملی کہ وہ اندر سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور چھت پر بھی لوگ سوار تھے۔ بڑی مشکل سے کنڈیکٹر کی منت سماجت کے بعد بس کے اندر گھسنے اور کھڑے مسافروں کے درمیان سینڈوچ بنے رہنے کا موقع ملا۔ پھر ایک مسافر نے سفید داڑھی کا لحاظ کرتے ہوئے سیٹ خالی کر دی۔ مگر بس ایسی نیک بخت تھی کہ اس کی رفتار اور وقفہ وقفہ سے لمبے اسٹاپوں کے باعث بمشکل رات گیارہ بجے منچن آباد پہنچ پایا۔ جبکہ مدرسہ صادقیہ کے مہتمم مولانا معین الدین وٹو مسلسل انتظار کے بعد میری آمد سے مایوس ہو چکے تھے۔
یہ واقعات نئے نہیں ہیں، جب بھی حکمرانوں کو کسی حوالہ سے بڑے ہجوم اور اجتماع کی ضرورت پڑتی ہے اس کے لیے اسی طرح کے حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس سے حکمرانوں کی وقتی سیاسی ضرورتیں تو پوری ہو جاتی ہیں، انتظامی افسران اور ممبران اسمبلی کو شاباش مل جاتی ہے، اور کچھ لوگوں کی انا کو نفسیاتی تسکین بھی حاصل ہو جاتی ہے، مگر غریب عوام کی جو درگت بنتی ہے اس کا اندازہ انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جو عوام میں رہتے ہیں اور انہی کے ساتھ میسر سفر کے ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہمارے محترم وزیراعظم غریب عوام کے لیے نظام میں تبدیلی اور انقلاب کی بات ایک عرصہ سے کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے بے بس اور مجبور شہریوں کو اپنی انتظامیہ کے مسلط کردہ اس عذاب سے نجات دلانے کی کوئی صورت نکال سکتے ہیں؟
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
یکم دسمبر ۱۹۹۸ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter