Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

49 - 63
پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق اردو کو دفتری اور قومی زبان کا حقیقی درجہ دلانے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی نے ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اپنی سفارشات مکمل کر لی ہیں۔ کمیٹی کے سربراہ صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود احمد خان نے گزشتہ روز لاہور تعلیمی بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلہ میں تعلیمی اداروں کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا، اور تعلیمی اداروں کو ہر سطح پر اس کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔
اردو صرف ہماری قومی زبان نہیں بلکہ عالمی رابطہ کی چند بڑی زبانوں میں سے ہے۔ بعض بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق بولنے والوں کی تعداد کے حوالہ سے اردو اس وقت دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے، جبکہ وہ اپنے پھیلاؤ اور دنیا کے مختلف بر اعظموں میں بولی اور سمجھی جانے والی سب سے بڑی زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی استعمار کے تسلط کے بعد مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو قائم رکھنے کے لیے جو دو بڑے عنوانات اختیار کیے گئے تھے ان میں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت و امتیاز کے ساتھ اردو زبان کو بھی ملی جدوجہد میں برابر کا درجہ دیا گیا تھا۔ چنانچہ سر سید احمد خان مرحوم نے جہاں دو قومی نظریہ کے عنوان سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو ہندو تہذیب و ثقافت سے الگ ایک مستقل تہذیب کے طور پر پیش کیا وہاں ہندی زبان کے فروغ کے مقابلہ میں اردو کے تحفظ اور فروغ کی جنگ بھی لڑی، اور اسے مسلمانوں کا تشخص برقرار رکھنے کی ایک مستقل کوشش اور عنوان کا درجہ دیا۔ اس کے بعد علامہ محمد اقبالؒ ، مولانا ظفر علی خانؒ ، مولوی عبد الحقؒ اور دیگر زعماء نے اردو کے فروغ و تحفظ کے لیے سرگرم کردار ادا کیا۔ اس لیے نظریہ پاکستان کی اساس جداگانہ مسلم تہذیب کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے قیام پاکستان کے بعد اردو کو قومی زبان قرار دینے کا دوٹوک اعلان کیا۔ مگر اردو کو ایک زندہ، متنوع اور ادب و علم کے ذخائر سے مالا مال زبان ہونے کے باوجود ہماری اسٹیبلشمنٹ نے نظر انداز کرنے کی روش اختیار کر رکھی ہے اور دفتری اور عدالتی دائروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے مجموعی ماحول کو بھی انگریزی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ جس طرح ہر زبان کی پشت پر اس کی تہذیب و ثقافت کار فرما ہوتی ہے اسی طرح ہمارے ہاں انگریزی زبان کے جلو میں انگریزیت اپنی پوری نفسیات کے ساتھ ہر طرح پاؤں پھیلاتی جا رہی ہے۔
بین الاقوامی رابطہ اور عالمی ضروریات کے لیے انگریزی کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن اسے عملاً قومی زبان کی جگہ بھی دے دی گئی جس کا نتیجہ ہم قومی سطح پر فکری اور تہذیبی خلفشار کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ حتیٰ کہ عدالت عظمیٰ کو اس کا نوٹس لینا پڑا اور اس کی طرف سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ دستور کے مطابق اردو کو اس کا صحیح مقام اور کردار دلانے کے لیے اقدامات کریں۔ جہاں تک اردو زبان کی دفتری اور عدالتی شعبوں میں ترویج و تنفیذ کا معاملہ ہے، اور قومی اداروں میں اردو کے عملی فروغ کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کا تعلق ہے، ان پر عملدرآمد کا کوئی سنجیدہ ماحول سرکاری حلقوں میں دکھائی نہیں دے رہا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نظریۂ پاکستان کی پہلی اساس یعنی مسلم تہذیب و ثقافت کے امتیاز و تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کی دوسری اساس یعنی اردو زبان بھی ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سائے میں قومی اسٹیبلشمنٹ کی مصلحتوں کے جال میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ جبکہ اس سے زیادہ المیہ کی بات یہ ہے کہ اسے اب سرسید احمد خانؒ ، مولوی عبد الحقؒ ، اور ڈاکٹر سید عبد اللہؒ جیسا کوئی وکیل بھی میسر نہیں جو اس کا مقدمہ لڑ سکے اور اردو کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے والے عناصر کے درمیان کم از کم پُل کا کردار ہی ادا کر سکے۔
میں گزشتہ روز دہلی سے شائع ہونے والے سہ روزہ ’’دعوت‘‘ کے ایک شمارہ میں ہندوستان میں اردو زبان کے فروغ کے لیے ہونے والے کام کی رپورٹ پڑھ رہا تھا جو حکومت ہند کی قائم کردہ ’’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‘‘ کے ایک اشتہار کی صورت میں ہے، یہ اشتہار مذکورہ قومی کونسل کے ڈائریکٹر پروفیسر سید علی کریم کی طرف سے ہے جس میں نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اردو زبان کے فروغ کے لیے کونسل کی سرگرمیوں کی تفصیل درج ہے۔ ان سرگرمیوں کو مختلف دائروں میں تقسیم کیا جائے تو وہ ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ہو جاتے ہیں، ان میں سے دو چار کا ذکر ہی اس کالم میں کیا جا سکتا ہے۔ نمونہ کے طور پر ہمارے قارئین بھی ملاحظہ فرمالیں:
اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہونے کا جشن ملک کے تین بڑے شہروں کولکتہ، سری نگر اور پٹنہ میں منایا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شہروں میں یہ جشن جاری رہے گا۔
کونسل کا اردو کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کے لیے قومی اردو پورٹل بنانے کا کام جاری ہے۔ اس پورٹل پر اردو سے متعلقہ تمام معلومات دستیاب ہوں گی۔ یہ پورٹل عوام کے لیے بین الاقوام سطح پر اردو سے متعلق کوئی بھی جانکاری حاصل کرنے کے لیے سنگل ونڈو (Single window) کا کام دے گا۔
اردو سیکھنے کے خواہشمند افراد کو آن لائن اردو لرننگ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اب تک 27 ممالک سے 16500 سے زیادہ محبان اردو اس سے مستفیض ہو چکے ہیں۔
قومی اردو کونسل اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے مختلف اسکیموں کے تحت ادیبوں، رضاکار تنظیموں، دیگر اداروں کو مالی اعانت فراہم کرتی ہے۔ مسودات کو شائع کرانے کے لیے امسال یعنی 2015-16 میں 139 مصنفین کو تقریباً پینتالیس لاکھ روپے کی اعانت کی گئی اور 183 رضاکار تنظیموں، اداروں کو ایک کروڑ روپے کی مالی اعانت کی گئی جنہوں نے لسانی، ادبی اور تہذیبی روایات کے موضوعات پر سیمینارز، کانفرنس، ورکشاپ، مشاعرے وغیرہ کا انعقاد کیا۔
قومی اردو کونسل کے فروغ کے لیے کمپیوٹر (CABA-MDTD) ، اردو، عربی، اور فارسی ڈپلومہ کورسز کا اہتمام کرتی ہے۔
یہ ان سرگرمیوں کی چند جھلکیاں ہیں جن کا ذکر مذکورہ اشتہار میں کیا گیا ہے اور صرف اس لیے اس کالم میں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جو اس کے نظریہ کی اساس اور دستور کا تقاضہ ہے مگر ہم اس کے ساتھ کیا معاملہ کر رہے ہیں؟
رانا مشہود احمد خان کی سربراہی میں پنجاب حکومت کی خصوصی کمیٹی کی سرگرمیاں خوش آئند ہیں لیکن اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے اس کے لیے سنجیدہ ہوں اور اس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ سنجیدگی کا یہ ماحول پیدا کرنے کے لیے کہیں سے مولوی عبد الحقؒ اور ڈاکٹر سید عبد اللہؒ کو تلاش کیا جائے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۳ مارچ ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter