Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

38 - 63
عربی زبان، ہماری قومی ضرورت
عربی زبان قرآن و سنت کی زبان ہے اور ایک مسلمان کے لیے اس کی تعلیم اساسی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد سے ہی اسے وہ درجہ نہیں دیا جا رہا ہے جو اس کا حق ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم سوسائٹی کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔ حتیٰ کہ دینی مدارس میں جن کا تعارف ہی مدارس عربیہ کے عنوان سے ہے، عربی زبان صرف کتاب فہمی تک محدود ہے اور کتاب فہمی کا دائرہ بھی سمٹ سمٹا کر صرف درس و تدریس کے دائرے میں بند ہو کر رہ گیا ہے۔ معاصر عربی ادب، بول چال، میڈیا اور خطابت و صحافت کے میدان ہماری دسترس سے ابھی تک باہر ہیں۔ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی اور مفتی ابولبابہ شاہ منصور جیسے باذوق اور باہمت حضرات کی تمام تر مخلصانہ جدوجہد کے باوجود دینی مدارس کا اجتماعی دھارا اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا جو بجائے خود ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں میں عربی زبان کے ساتھ سوتیلی ماں کا جو سلوک جاری ہے وہ بھی تعلیم و تدریس کی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔
دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے جو فضلاء عربی کی تدریس کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں انہیں دونوں طرف سے حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری طرف سے انہیں اکابر کے راستے سے ہٹ جانے جانے کا طعنہ زندگی بھر برداشت کرنا ہوتا ہے اور حکومتی تعلیمی پالیسی میں عربی زبان کے ساتھ ساتھ عربی ٹیچرز کے لیے بھی عزت افزائی اور سہولتوں کے اکثر دروازے بند رہتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک ’’آل پاکستان عربیک ٹیچرز ایسوسی ایشن‘‘ کے صدر حافظ گلزار احمد آزاد اور دیگر راہ نماؤں حافظ ریاض احمد عثمانی اور محمد یونس عتیق کی طرف سے جاری کی جانے والی اس اپیل میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں انہوں نے پنجاب میں عربی کی تدریس کے حوالہ سے حال ہی میں سامنے آنے والی مزید رکاوٹوں کا تذکرہ کیا ہے، اور حکومت سے اس سلسلہ میں فوری توجہ دینی کی درخواست کی ہے۔
’’آل پاکستان عربیک ٹیچرز ایسوسی ایشن‘‘ کا یہ موقف قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت کو تو اس پر توجہ دینی ہی چاہیے، دینی مدارس کے وفاقوں اور دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس صورت حال کا نوٹس لیں اور عربی زبان کی تعلیم و تدریس کو صحیح ٹریک پر لانے کے لیے اپنے اپنے دائرے میں کردار ادا کریں۔
’’مملکت خداداد پاکستان ایک عطیہ الٰہی ہے جس کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ پر رکھی گئی ہے۔ یہ ایک نظریاتی مملکت ہے جس کا ایک مشن، مقصد اور ہدف ہے۔ جس نظریہ کی وجہ سے یہ ملک معرض وجود میں آیا وہ اس کی اساس اور بنیاد ہے۔ یہ نظریہ جتنا مضبوط و توانا ہوگا اتنا ہی ملک مضبوط و مستحکم ہوگا۔ وہ نظریہ اسلام ہے۔ اس نظریۂ پاکستان کی مرکزی کتاب قرآن اور نبی علیہ السلام کی حدیث اس کی تشریح و تفسیر ہے، دونوں عربی زبان میں ہیں۔ ہم مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی عربی ہیں۔ مسلم گھرانے میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کو اذان عربی زبان میں سنائی جاتی ہے۔ ہمارے تمام عقائد و عبادات کے ماخذ عربی زبان میں ہیں، اور ہماری قومی زبان اردو بھی عربی کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔ جو عربی زبان سے نا آشنا ہوا، اسے اردو بھی نہیں آسکتی ہے۔ اور تقریباً 60 ممالک میں عربی زبان بولی جاتی ہے، جبکہ 35 کروڑ انسان عربی میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرارداد مقاصد، اسلامی نظریاتی کونسل، سینیٹ آف پاکستان، فیڈرل شریعت کورٹ اور قومی اسمبلی جیسے وقیع اور مقتدر اداروں نے عربی زبان کی اہمیت اور ضرورت کا احساس کرتے ہوئے عربی کی ترویج کے لیے قراردادیں اور حکم نامے جاری کیے اور سفارشات کی ہیں، مثلاً:
1- اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں عربی زبان کی تعلیم کا نہ صرف وعدہ کیا گیا ہے بلکہ ہر مسلمان کے لیے عربی زبان کی تعلیم کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ بحوالہ آرٹیکل 230 (1) (الف)۔ آرٹیکل 31(2))الف)
2- سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے عربی کو چھٹی سے بارہویں جماعت تک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھانے کا فرمان جاری کیا۔
3- پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں جیسے سینٹ آف پاکستان کی تعلیمی کمیٹی نے بھی عربی زبان کو تعلیمی مراحل میں لازمی قرار دینے کی سفارش کی ہوئی ہے۔ (22نومبر 1990ء)
4- اسلامی نظریاتی کونسل نے مورخہ 25 فروری 2011ء کو عربی زبان کی لازمی ترویج کے بارے میں سفارشات منظور کیں۔
5- فیڈرل شریعت کورٹ اسلام آباد نے تو 22 اکتوبر 2012ء سے پرائمری سطح سے لے کر بارہویں جماعت تک عربی کو بطور لازمی مضمون بنانے کا نہ صرف آرڈر جاری کیا، بلکہ چھ ماہ کی مدت کے اندر اندر تمام صوبوں میں اس کی تنفیذ کا حکم بھی صادر فرمایا ہوا ہے۔
10 دسمبر 2010ء کو پنجاب حکومت نے حکم جاری کیا کہ پہلی کلاس سے ہی عربی کی تعلیم شروع کی جائے۔ (بحوالہ نوٹیفیکیشن: چیف منسٹر سیکرٹریٹ لاہور پنجاب)
7- حکومت پنجاب محکمہ تعلیم سکولز نے 23 اگست 2011ء کو وضاحتی حکم جاری کیا کہ عربی بطور لازمی کی حیثیت برقرار ہے اور رہے گی۔
8- (PEC) کے زیر اہتمام 2006ء سے 2013ء تک گریڈ ہشتم کے 8 مضامین کا امتحان ہوتا رہا، نکالے گئے دیگر مضامین کی طرح عربی کو بھی لازمی مضمون کی حیثیت حاصل تھی، اس طرح 800 نمبروں کی ایک بہترین سند جاری ہوتی تھی۔
لمحہ فکریہ:
اب حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کردہ ڈیٹ شیٹ برائے امتحان 2014ء میں دوسرے چند مضامین کی طرح عربی کو بھی گریڈ ہشتم کے سالانہ امتحان سے خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ کیسی مہلک اور خطرناک پالیسی ہے جو ملک کی اساسی اور بنیادی حیثیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر میاں محمد نواز شریف کی حکومت تو قومی اور ملی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ ایسے اقدامات سے حکومت کی بدنامی اور عوام بالخصوص دینی طبقات میں تشویش پھیل رہی ہے۔
ان حالات میں ہمارا مطالبہ ہے کہ جاری کردہ ڈیٹ شیٹ منسوخ کر کے نئی ڈیٹ شیٹ جاری کی جائے جس میں عربی کو بطور لازمی مضمون شامل کیا جائے۔ اور ملک کی نظریاتی اساس کے خلاف سیکولر ذہنیت رکھنے والے دانستہ یا نا دانستہ دشمنوں کو تلاش کر کے ان کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے۔ الغرض یا تو مکمل امتحان پہلے کی طرح PEC کے ماتحت لیا جائے یا اسے 2006ء سے پہلے کی طرح ہائی سکولوں کو سونپ دیا جائے۔ اور اگر یہ حکومت پر بوجھ ہے تو اس کے لیے مناسب سی فیس بھی والدین دینے کے لیے تیار ہیں۔ اداروں کو تباہ ہونے سے بچانا بھی محب وطن حکمرانوں کا فرض ہے۔ امید ہے کہ ارباب اختیار فوری طور پر اس کا نوٹس لے کر محب وطن عوام، طلباء میں پائی جانے والی بے چینی کو ختم کر کے ان کے مستقبل کو محفوظ اور روشن بنانے کے آرڈر جاری فرمائیں گے۔‘‘
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
نا معلوم
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter