Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

32 - 63
منکرات وفواحش کا فروغ
بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دور میں تمام لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی اور دنیا کی مذہبی قیادت وسیادت سے نوازا تھا، لیکن پھر انھی کو ملعون ومغضوب قرار دے دیا اور سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۷۸، ۷۹ کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی کانوا لا یتناہون عن منکر فعلوہ کہ وہ ایک دوسرے کو اس برائی سے روکتے نہیں تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ سوسائٹی میں منکرات کے ارتکاب پر باہمی روک ٹوک کا باقی رہنا ضروری ہے، ورنہ پوری سوسائٹی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت اور عذاب کی مستحق قرار پاتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جس فریضہ کا قرآن مجید نے بار بار تذکرہ کیا ہے، وہ سوسائٹی میں نیکی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کی یہی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج کی آیت ۴۱ میں مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری کے طور پر بیان فرمایا ہے اور سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۰ میں اسے امت کی عمومی ذمہ داریوں میں شمار کیا ہے، اس لیے معاشرہ میں نیکیوں کا فروغ اور برائیوں کی روک تھام جہاں حکومت کے فرائض کا حصہ ہے، وہاں عوام کے فرائض میں بھی شامل ہے اور سوسائٹی کے تمام طبقات درجہ بدرجہ اس بات کے لیے مسئول ہیں۔
جس طرح ایک انسانی جسم کے اندر فطری طور پر جو قوت مدافعت موجود ہوتی ہے، وہ اگر قائم رہے تو جسم بڑی سے بڑی بیماری کا مقابلہ کر لیتا ہے، لیکن اگر وہ قوت مدافعت مضمحل یا ختم ہو جائے تو چھوٹی سی بیماری سے نمٹنا بھی جسم کے لیے مشکل ہو جاتا ہے، یہی مثال سوسائٹی میں برائیوں پر باہمی روک ٹوک کے نظام کی ہے۔ اگر معروفات کی باہمی تلقین اور منکرات پر باہمی روک ٹوک کا سسٹم موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی منکرات کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے اور خود کو ان سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اگر یہ سسٹم کمزور پڑ جائے تو سوسائٹی کی قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اور سوسائٹی خود کو کسی برائی سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے، اور اگر کسی سوسائٹی میں نیکیوں کی باہمی تلقین اور برائیوں پر باہمی روک ٹوک کا سسٹم سرے سے ختم ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی نے برائیوں کو اجتماعی طور پر قبول کر لیا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی قوم قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق خدائی لعنت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بقول عمومی عذاب کی مستحق بن جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ کے رضاکاروں نے مبینہ طور پر ایک قحبہ خانے پر چھاپہ مار کر وہاں کی انچارج خاتون کو حراست میں لے لیا اور ابھی چند روز قبل ایک مساج پارلر کے کارندوں کو حراست میں لینے کے بعد اسلام آباد انتظامیہ کی اس یقین دہانی پر انھیں آزاد کیا کہ اسلام آباد میں مساج پارلروں کو بند کر دیا جائے گا۔ اس پر ملک بھر میں یہ سوال کھڑا ہو گیا کہ کیا اس طرح پرائیویٹ طور پر احتساب کا نظام قائم کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لے کر برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا درست عمل ہے؟ ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں نے اس طرز عمل سے اختلاف کیا اور ہم نے بھی واضح طور پر عرض کیا کہ حکومت وقت کے ساتھ تصادم کا ماحول پیدا کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا شرعاً، اخلاقاً اور قانوناً کسی بھی لحاظ سے درست طرز عمل نہیں ہے اور لال مسجد کی انتظامیہ کو زود یا بدیر اس طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی، لیکن ہمارے خیال میں ابھی تک یہ بحث یک طرفہ طور پر چل رہی ہے اور معاملہ کے صرف ایک رخ پر مسلسل بات کی جا رہی ہے کہ برائیوں کی روک تھام کے لیے پرائیویٹ سطح پر کوئی کارروائی کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں ہے، جبکہ اس معاملے کے دوسرے رخ پر توجہ دینے سے ہمارے دانش ور ابھی تک کترا رہے ہیں کہ معاشرہ میں منکرات کی روک تھام آخر کس کی ذمہ داری ہے؟ خصوصاً جب صورت حال یہ ہو گئی ہو کہ حکومتی ادارے فحاشی اور منکرات کی روک تھام کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے خود ان کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہوں، سیاسی اور دینی جماعتوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہو اور سماجی اداروں کے ایجنڈے میں بھی یہ بات شامل نہ ہو تو کیا عملاً یہی صورت نہیں بن جاتی کہ سوسائٹی نے برائی کو اجتماعی طور پر قبول کر لیا ہے اور اس کا کوئی طبقہ برائی کی روک تھام کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے؟ ہمارا یہ سوال ان طبقات اور ارباب دانش سے ہے جو قرآن وسنت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے موجود تعلیمات سے آگاہ ہیں کہ کیا منکرات وفواحش کے مسلسل فروغ پر سوسائٹی کی اجتماعی خاموشی کی صورت حال کو قبول کر لیا جائے اور ایسی صورت میں قرآن وسنت میں جو وعیدیں وارد ہوئی ہیں، انھیں یکسر نظر انداز کر دیا جائے؟ اور کیا ارشاد ربانی کالذین نسوا اللہ فانساہم انفسہم کا عملی منظر اسی طرح کا نہیں ہوتا؟
مساج پارلروں کا معاملہ ہی سامنے رکھ لیا جائے جن میں نوجوان اور نوعمر لڑکیاں مردوں کو مساج کرتی ہیں اور مساج کے نام پر بدکاری کا ایک وسیع نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں اس قسم کے بدکاری کے اڈوں کی موجودگی، ان کا فروغ اور ان پر حکومتی اداروں، دینی وسیاسی جماعتوں کی خاموشی اور سماجی اداروں کی لا تعلقی اور بے حسی کا ایک انتہائی افسوس ناک منظر سامنے ہے۔ اس صورت حال میں اگر ہمارے دانش ور صرف لال مسجد کی انتظامیہ کو ہی کوستے چلے جائیں کہ وہ غلط کر رہے ہیں، انھیں قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے اور از خود کسی کارروائی سے گریز کرنا چاہیے تو ہمارے نزدیک یہ بات صحیح ہونے کے باوجود ادھوری اور یک طرفہ ہے۔
لال مسجد کی انتظامیہ کے طریق کار کو ہم بھی غلط سمجھتے ہیں جس کا ہم نے برملا اظہار کیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ رد عمل ہے منکرات وفواحش کے مسلسل فروغ پر حکومتی اداروں، دینی وسیاسی جماعتوں اور سماجی اداروں کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی کا جو منکرات وفواحش ہی کی طرح پیہم بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہم ارباب فکر ودانش سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ لال مسجد کی انتظامیہ کو اس کے غلط طریق کار پر ضرور ٹوکیں اور انھیں سمجھائیں کہ برائی کو روکنے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ ہمارے دانش وروں کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ مسلم معاشرے کو منکرات وفواحش سے پاک رکھنا کس طرح ممکن ہے اور برائیوں کی روک تھام کے لیے حکومتی اداروں، دینی وسیاسی جماعتوں اور سماجی اداروں کی ذمہ داری کیا ہے؟ ورنہ اگر برائیوں پر باہمی روک ٹوک کا نظام ختم ہونے پر بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کی طرف سے لعنت کے مستحق ہو گئے تھے تو اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے ہمارے لیے کوئی استثنا موجود نہیں ہے کہ جس جرم پر اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل پر لعنت نازل فرما دی تھی، اسی جرم کے ارتکاب پر ہمیں وہ سزا نہیں دی جائے گی۔ اور پھر بات ’’سزا دی جائے گی‘‘ کی بھی نہیں ہے، ہم افراد سے لے کر قوم اور پوری ملت تک جس صورت حال سے دوچار ہو چکے ہیں، کیا اس کے بعد کسی اور لعنت کا انتظار باقی رہ گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں صورت حال کے صحیح ادراک کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
جولائی ۲۰۰۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter