Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی مسائل

ن مضامی

14 - 63
اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج
دو تین روز قبل روزنامہ جنگ لندن میں ایک پاکستانی سکالر جناب حفیظ چشتی کا مراسلہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے سکالر شپ پر یہاں آنے والے پاکستانی طلبہ اور محققین کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ انہیں سکالرشپ کے وظیفہ کی رقم بروقت نہ ملنے کی وجہ سے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے دن گزارنا پڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سے سکالرز مسجدوں میں رہنے اور صدقہ خیرات کی خوراک کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس سے ان کے بقول عزت نفس مجروح ہونے کے علاوہ ذہنی صلاحیتوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد ہمیں کچھ حوصلہ اور اعتماد ملا کہ اپنے ملک کی عزت اور وقار کی خاطر ہم مشقت اور تکلیف بھی برداشت کر لیں گے مگر روز مرہ ضروریات اور اخراجات کے لیے تو بہرحال وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور بہت سے سکالرز ایسے ہیں جنہیں گزشتہ پانچ ماہ سے وظائف نہیں ملے جبکہ سکالرشپ پر یہاں آنے والوں کو محنت مزدوری کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے ان کی حالت بہت پریشان کن ہے اور متعلقہ حکام کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔
برطانیہ میں مختلف علوم و فنون میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں سکالرز آتے ہیں جن میں پاکستانیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ ان پاکستانیوں کے لیے سکالرشپ کی مختلف صورتیں ہیں۔ خود حکومت پاکستان اپنے خرچہ پر بعض سکالرز کو بھیجتی ہے، مختلف ممالک اور یونیورسٹیوں کی طرف سے بھی سکالرشپ کی پیشکشیں موجود ہوتی ہے، اور بعض رفاہی ادارے اور تنظیمیں بھی سکالرشپ مہیا کرتی ہیں۔
دو سال قبل آکسفورڈ میں ہماری ملاقات ڈاکٹر فرحان احمد نظامی سے ہوئی جو برصغیر کے نامور محقق پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی مرحوم کے فرزند ہیں۔ ڈاکٹر خلیق احمد نظامی کا تعلق لکھنو سے تھا اور بھارت کے ممتاز محققین اور ماہرین تعلیم میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کی تصانیف میں (۱) شاہ ولی اللہؒ کے سیاسی مکتوبات، (۲) سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، اور (۳) تاریخ مشائخ چشت معروف کتابیں ہیں۔ ڈاکٹر خلیق احمد نظامی مرحوم سے بھی راقم الحروف کی کم از کم دو ملاقاتیں آکسفورڈ میں ڈاکٹر فرحان احمد نظامی کی رہائش گاہ پر ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹر فرحان احمد نظامی آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ ہیں جو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کی نگرانی میں علمی و تحقیقی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اسی سنٹر میں ڈاکٹر فرحان سے ہماری ایک ملاقات کے دوران سکالرشپ کا مسئلہ زیر بحث آگیا۔ ڈاکٹر فرحان نظامی نے بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں اور بعض دیگر اداروں کی طرف سے سکالرشپ کی بے شمار پیشکشیں مختلف ممالک میں بھجوائی جاتی ہیں۔ اور پاکستان میں بھی یہ پیشکشیں پہنچتی ہیں جو اکثر و بیشتر سرکاری دفاتر کی فائلوں میں دبی رہتی ہیں اور مستحق طلبہ اس سہولت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن ممالک کے بارے میں اس سلسلہ میں عدم توجہ کی سب سے زیادہ شکایت پائی جاتی ہے ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔
اسی طرح ابھی گزشتہ ماہ لاہور سے شائع ہونے والے ایک قومی روزنامہ نے اس سلسلہ میں ایک مستقل ایڈیشن شائع کیا ہے جس میں تعلیم و تحقیق کے متعدد شعبوں میں بیرون ملک سے آنے والی سکالرشپ کی پیشکشوں کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے اور ان پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے وفاقی محکمہ تعلیم کے ایک ذمہ دار افسر سے بات کی تو انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ بیرونی ممالک سے سکالرشپ کی بہت سی پیشکشیں آتی ہیں لیکن ہمارے لیے مشکل یہ ہوتی ہے کہ جس ادارے یا ملک کی طرف سے ہم جتنی پیشکشیں قبول کرتے ہیں اسی کے حساب سے ہمیں انہیں اپنے ملک میں سکالرشپ فراہم کرنا پڑتی ہے جس کی ہمارے بجٹ میں گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لیے ہم بہت سی پیشکشوں کو گول کر جاتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک قرین قیاس معلوم ہوتی ہے لیکن مسئلہ کا حل یہ نہیں کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ملک کے ذہین اور مستحق طلبہ کو اعلیٰ تحقیق و تعلیم کی سہولتوں سے محروم کر دیا جائے۔ ایسا کرنا ان طلبہ سے کہیں زیادہ خود ملک کے لیے باعث نقصان ہے۔ بلکہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ اور اگر ہم مختلف شعبوں میں تعیش، پرسٹیج، پروٹوکول اور نو آبادیاتی افسر شاہی کا ماحول قائم رکھنے کے لیے کیے جانے والے غیر ضروری اور فضول اخراجات پر قابو پا لیں تو تعلیم کے شعبہ کو خاصی رقم فراہم کی جا سکتی ہے۔
ایک واقف حال نے اس ضمن میں ایک اور بات بھی بتائی کہ سکالرشپ کی کوئی اچھی پیشکش بالخصوص امریکہ یا یورپ کے کسی ملک سے آئی ہو تو وہ جس افسر کے ہاتھ لگتی ہے اس کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی بیٹا، بھتیجا، بھانجا، یا سالا اس بہانے وہاں پہنچ جائے۔ اور اگر اس میں مطلوبہ صلاحیت اور شرائط مفقود ہوں تو اس خلاء کو پر کرنے کے لیے ہمارے ہاں کا معروف فائل ورک شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس کشمکش میں جہاں سکالرشپ کی پیشکش کسی نامعلوم مرحلہ پر دم توڑ دیتی ہے وہاں کسی مستحق طالب علم اور سکالر کی ذہانت اور صلاحیت بھی انہی فائلوں کے انبار میں دفن ہو کر رہ جاتی ہے۔
سکالرشپ کے حوالہ سے ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ تین چار سال پہلے کی بات ہے کہ ساؤتھ آل لندن کا ابوبکرؓ اسلامک سنٹر براڈوے کی موجودہ بلڈنگ کی بجائے ویسٹرز روڈ کے ایک مکان میں ہوتا تھا اور راقم الحروف حسب معمول وہاں مقیم تھا۔ ایک پاکستانی نوجوان دو تین روز ہمارے ہاں مقیم رہا، اس کا کہنا تھا کہ وہ کمپیوٹر سائنسز میں ڈاکٹریٹ کے لیے یہاں آیا تھا لیکن یہاں اعلیٰ ترین تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں یہودیوں کا کنٹرول ہے جنہوں نے مسلمان طلبہ بالخصوص پاکستانیوں کے لیے ایک ’’ریڈ لائن‘‘ مقرر کر رکھی ہے جس سے آگے بڑھنے کا انہیں کسی قیمت پر موقع نہیں دیا جاتا۔ اس نے کہا کہ وہ خود بھی اسی ’’ریڈ لائن‘‘ کو عبور کرتے کرتے رہ گیا ہے اور تمام تر ضروری کوائف اور شرائط مکمل ہونے کے باوجود اسے آگے بڑھنے کا موقع دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ اس کی سکالرشپ ختم ہوگئی ہے اور وہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہوکر رہ گیا ہے۔ وہ غالباً پاکستانی سفارت خانہ میں بھی گیا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ پھر خدا جانے وہ کدھر چلا گیا۔
سکالرشپ کے قصہ سے ہٹ کر تحقیق اور ریسرچ کے معاملات پر ایک اور پہلو کے حوالہ سے بھی نظر ڈال لیں۔ لندن میں انڈیا آفس لائبریری ہے جو پہلے برٹش لائبریری کا حصہ ہوتی تھی، اب الگ عمارت میں ہے۔ اس میں برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے بارے میں فرنگی دور کے اقتدار کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی ہمارا بیش بہا علمی اور تاریخی ذخیرہ وہاں محفوظ پڑا ہے۔ راقم الحروف کو پہلی بار 1985ء میں اپنے دوست جناب ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم کے ہمراہ وہاں جانے کا موقع ملا تھا اور پھر اس کے بعد کئی بار جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ سلیم صدیقی صاحب وہاں کے انچارج ہیں اور بڑی خوش دلی کے ساتھ تحقیق کے لیے آنے والے حضرات کا خیرمقدم اور تعاون کرتے ہیں۔ مگر انہیں بھی یہی شکایت ہے کہ اپنے ماضی اور تاریخ کے بارے میں ریسرچ اور تحقیق کا سب سے کم رجحان پاکستان میں پایا جاتا ہے اور وہاں سے گنے چنے افراد ہی یہاں آتے ہیں جبکہ ہم ہر وقت انتظار میں ہوتے ہیں۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان سے زیادہ سے زیادہ سکالرز تحقیق کے لیے یہاں آئیں اور ہمیں ان سے تعاون کرکے خوشی محسوس ہوتی ہے۔
یہ اعلیٰ تعلیم، تحقیق، ریسرچ اور ٹریننگ کے حوالہ سے ہمارے قومی مزاج کی چند جھلکیاں ہیں اور ان سے جو عمومی منظر سامنے آتا ہے وہ کوئی مثبت اور اچھا تاثر نہیں ہے۔ جبکہ ہمارا قومی دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے ایک اسلامی فلاحی ریاست اور معاشرہ کے قیام کے لیے دنیا بھر کی راہنمائی کا پرچم بلند کر رکھا ہے اور اب تو ہم بحمد اللہ تعالیٰ ایٹمی قوت بھی ہیں۔ مگر یہ ادراک اور شعور ابھی تک ہمارے قومی مزاج کا حصہ نہیں بن پایا کہ یہ دونوں کام یعنی اسلامی فلاحی معاشرہ کی تشکیل اور جدید ترین ٹیکنالوجی پر دسترس علم اور تحقیق کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ ان کی بنیاد ہی علم و مطالعہ اور تحقیق و تربیت پر ہے۔ اس کے لیے جہاں اسلامی علوم کی گہرائی تک پہنچنا اور ملت اسلامیہ کی چودہ سو سالہ تاریخ کے اتار چڑھاؤ سے واقفیت ضروری ہے، وہاں ٹیکنالوجی اور صلاحیت و استعداد کے جدید ترین معیار کو قابو میں لانا بھی ناگزیر ہے۔
حفیظ چشتی صاحب نے اپنے مراسلہ میں جس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے وہ اپنی سنگینی کے باوجود ایک جزوی مسئلہ ہے۔ جبکہ اس قسم کے بے شمار سنگین مسائل ہمارے قومی تعلیمی نظام کے مختلف شعبوں میں قدم قدم پر بکھرے پڑے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی نظام تعلیم کو ازسرنو تشکیل دیا جائے، نئے قومی اور بین الاقوامی حقائق و واقعات کا ادراک کیا جائے، نو آبادیاتی فریم ورک سے نجات حاصل کی جائے، اور اکیسویں صدی کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بامقصد اور ملی عزائم سے بھرپور نئے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی جائے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۱۹ جون ۱۹۹۹ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط 1 1
3 قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟ 2 1
4 مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت 3 1
5 گلگت و ملحقہ علاقوں کی مجوزہ صوبائی حیثیت ۔ صدر پاکستان کے نام عریضہ 4 1
6 لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام 5 1
7 ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں 6 1
8 دستور پاکستان کا حلف اور قادیانی عہدیدار 7 1
9 قبائلی علاقہ جات ۔ نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ؟ 8 1
10 ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق 9 1
11 حکمران کی ضرورت اور عوام کی درگت 10 1
12 جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج 11 1
13 وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام 12 1
14 سودی نظام کا متبادل 13 1
15 اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے مواقع اور ہمارا قومی مزاج 14 1
16 سودی نظام کا خاتمہ ۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ 15 1
17 عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات 16 1
18 رؤیتِ ہلال کیوں، سائنسی حسابات کیوں نہیں؟ 16 1
19 کیا عالم اسلام میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
20 کیا پاکستان میں ایک روز عید ممکن ہے؟ 16 1
21 پاکستان کی سطح پر مرکزیت کی ضرورت 16 1
22 افغان مہاجرین کا مسئلہ 17 1
23 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 18 1
24 کارگل کا مشن 18 1
25 خودمختار کشمیر کی تجویز 18 1
26 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 18 1
27 جہاد کشمیر اور مجاہدین 18 1
28 چند اہم قومی مسائل اور وزیر داخلہ کی پیش کردہ سفارشات 19 1
30 سرکاری انتظامیہ کا احتساب 19 1
31 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 19 1
32 کسی کو کافر کہنے پر پابندی 19 1
33 مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی 19 1
34 بسنت کا تہوار اور حکومت پنجاب 20 1
35 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر مشرف کا سیرۃ نبویؐ سے استدلال 21 1
36 سود کی حیثیت رسول اللہؐ کی نظر میں 22 1
37 شخصی اور تجارتی سود 23 1
38 پاکستان میں سودی نظام ۔ تین پہلوؤں سے 24 1
39 (۱) آسمانی مذاہب میں سود کی حرمت 24 1
40 (۲) شخصی و تجارتی سود کا معاملہ 24 1
41 (۳) قیامِ پاکستان کا مقصد اور بانیٔ پاکستان کے ارشادات 24 1
42 سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل 25 1
43 جاہلانہ رسم و رواج اور پیچیدہ نو آبادیاتی نظام 26 1
44 اسلام اور آزادی کا سفر 27 1
45 کال گرلز کا کلچر ! 28 1
46 پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات 29 1
47 قومی نصاب سازی کا معیار اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی چارج شیٹ 30 1
48 ’’میثاق جمہوریت‘‘ 31 1
49 منکرات وفواحش کا فروغ 32 1
50 پاکستانی حکمرانوں اور دانش وروں کے لیے لمحہ فکریہ 33 1
51 مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ 34 1
52 نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت 35 1
53 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام 36 1
54 نظریۂ پاکستان کیا ہے؟ 37 1
55 عربی زبان، ہماری قومی ضرورت 38 1
56 لمحہ فکریہ: 38 55
57 اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ 39 1
58 پاکستان کو ’’سنی ریاست‘‘ قرار دینے کا مطالبہ 40 1
59 مطالبہ نمبر 1: متعلقہ نصاب دینیات 40 58
60 مطالبہ نمبر 2 : متعلقہ ماتمی جلوس شیعہ 40 58
61 مطالبہ نمبر 3 40 58
62 مطالبہ نمبر 4: متعلقہ نشریات ریڈیو و ٹیلی ویژن 40 58
63 مطالبہ نمبر 5 : متعلقہ مسئلہ ختم نبوت 40 58
64 وہی شکستہ سے جام اب بھی! 41 1
65 نیب کا کردار ۔ ایک لمحۂ فکریہ 42 1
66 مسئلہ قومی زبان اردو کا 43 1
67 قیام پاکستان کا بنیادی مقصد 44 1
68 کیا اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم نہیں؟ 45 1
69 اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا حکم 46 1
70 اسلام قبول کرنے والوں کے مسائل 47 1
71 اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کار کی ضرورت 48 1
73 پاکستان میں نفاذ اردو، ہندوستان میں فروغ اردو 49 1
74 نظام مصطفٰیؐ، ایک قومی ضرورت 50 1
75 سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت 51 1
76 نمازوں کے یکساں اوقات اور رؤیت ہلال کے مسئلے 52 1
77 قرآن کریم کی تعلیم لازم کرنے کا مستحسن حکومتی فیصلہ 53 1
78 ہمارے عدالتی نظام کا ماحول 54 1
79 دستور پاکستان کی بالادستی اور قادیانی ڈھنڈورا 55 1
80 قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب 56 1
81 وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات 57 1
82 مسئلہ کشمیر اور نوآبادیاتی نظام کی جکڑبندی 58 1
83 سودی نظام اور مذہبی طبقات کی بے بسی 59 1
84 عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے 60 1
85 مولانا زرنبی خان شہیدؒ اور شیخ عبد الستار قادری مرحوم 61 1
86 مروجہ سودی نظام اور ربع صدی قبل کی صورتحال 62 1
88 مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز 63 1
Flag Counter