Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

9 - 20
سیرت طیبہ اجمالی نظر

مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر
	
الحمد للّٰہ وکفٰی، وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی!
        یا صاحب الجمال ویا سید البشر
        من وجہک المنیر لقد نور القمر
        لا یمکن الثناء کما کان حقہ
        بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
        اے صاحب جمال کل اے سرور بشر
        رُوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر
        ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا
        بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اِبتدائی حالات
نسب شریف: سیّدنا محمد صلی الله علیہ و سلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔

کنیت: ابو القاسم۔ وَالدہ کا نام: آمنہ بنت وہب۔ وِلادت: بروز سوم وار 12/ ربیع الاوّل عام الفیل۔ وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالت سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب نے کی اور حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو مدینہ آپ کے ننہال لے گئیں، واپسی میں بمقامِ ابوا اُن کا انتقال ہوا اور آپ کی پرورش اُمّ ایمن کے سپرد ہوئی۔ آٹھ سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ کے چچا ابو طالب نے لیا۔ نو سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور25 سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے دو ماہ بعد حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔35 سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیر کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے، حجر اسود کے بارے میں قریش کے اُلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا، جس پر سبھی خوش ہوگئے۔

تعلیم و تربیت
آپ صلی اللہ علیہ وَسلم یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا۔ مگر آپ بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے، بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی، یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ کو صادق و امین کا خطاب دیا #
        مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
        کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی

خلوت و عبادت
بچپن میں چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں بھی چَرائیں۔ مگر بعد میں آپ کو خلوت پسند آئی۔ چناں چہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وَسلم سچے خواب دیکھنے لگے۔ خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستورِ تعلیم
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وَسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اُمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے۔ اگرچہ آپ کا تشریعی دور نبوت کے بعد شروع ہوتا ہے ،لیکن اس سے پہلے کا دور بھی، چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا، اُمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔

آپ کے دودھ پینے کا زمانہ ہے، لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ دوسروں کا خیال فرماتے ہیں، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں، لیکن آپ اسے قبول نہیں فرماتے، کیوں کہ وہ آپ کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔

بچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ بھی قریش مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔

اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ ننگے کندھے پر پتھر اُٹھاکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپ کا تہہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔

کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چَراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور التاجر الصادق الامین (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔

معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجر اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں، لیکن آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔

صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست، دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے، چناں چہ قبائل قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ”ہم نے بارہا تجربہ کیا ،مگر آپ کو ہمیشہ سچا پایا“۔ یہ سب قدرَت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی ،کیوں کہ آپ کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ کی زندگی کو بطورِ اُسوہٴ حسنہ پیش کرنا تھا۔

﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا﴾․(الاحزاب:21)
”بلاشہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سیکھنی ہے، بالخصوص اُس شخص کو جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔“

نبوت
جب سن مبارک چالیس کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورة اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے، اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔

وحی آسمانی آپ تک پہنچانے کے لیے جبریل امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا، جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔

﴿اِنَّہ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْن﴾․ (التکویر19 تا 21)
”بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے، جو بڑی قوت والا ،صاحب عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔“

اس وحی اِلٰہی کی روشنی میں آپ کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو اُمت کے لیے ایک بہترین اُسوہٴ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے ،جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتا ہے۔

دعوت و تبلیغ
اِبتداء ً آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا، ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے، ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا، چناں چہ آپ نے تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت پوری قوت سے شروع کی، بعض نے مانا اور بعض اپنی گم راہی پر قائم رہے۔

ہجرتِ حبشہ
قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وَسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا، چناں چہ 5 ء نبوت میں آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا، یہ سب سے پہلی ہجرت تھی، اسی سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مشرف باسلام ہوئے۔

7  نبوت میں قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وَسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اُس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں نظر بند کردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کا حکم فرمایا، یہ دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔

10  نبوت میں قریش کے بعض افراد کی کوشش سے یہ معاہدہ ختم ہوا اور آپ کو آزادی ملی، اسی سال نصاریٰ نجران کا ایک وفد مسلمان ہوا، اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے چچا ابو طالب اور آپ کی غم گسار زوجہ مطہرہ حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ اُنہوں نے ایک نہ سنی، بلکہ اُلٹا در پہ ایذا ہوئے۔ یہ سال عام الحزن (غم کا سال) کہلاتا ہے۔

11 نبوت اس سال آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کو معراج ہوئی، پنج گانہ نماز فرض ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وَسلم نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی، چناں چہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے چھ آدمی مسلمان ہوئے۔

12 نبوت اس سال اوس و خزرج کے بارہ افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وَسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔

13 نبوت، اس سال مدینہ کے ستر مردوں اور بیس عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وَسلم سے بیعت کی، یہ بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے۔

ہجرتِ مدینہ
مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے صحابہ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا، قریش کو پتہ چلا تو اُنہوں نے دار الندوة میں آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کو ہجرت کا حکم ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کافروں کے گھیرے سے باطمینان نکلے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں تین دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قبا پہنچے۔

اِسلام کا نیا دور
1 ئھ سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، قبا میں چودہ دن قیام رہا، وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ حضرت ابو ایوب اَنصارِی رَضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا، مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے دعوت و جہاد کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعتیں بھیجنا شروع کیں۔

سرایا و غزوات
جس جہاد میں آپ صلی اللہ علیہ وَسلم خود شریک ہوئے اسے غزوہ کہتے ہیں اور جس میں خود نہیں گئے، صحابہ کی جماعت کو بھیجا اسے سریہ کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے سرایا کی تعداد 47/ ہے اور غزوات کی تعداد 27/ ہے۔ اس سال آپ نے تین دستے (سریے) روانہ فرمائے، لیکن مقابلہ نہیں ہوا۔

2 ھ…اس سال غزوہٴ دُوّان، غزوہٴ بواط، غزوہٴ عشیرہ اور غزوہٴ بدر صغریٰ ہوئے۔ تحویل قبلہ کا حکم ہوا، روزہ رمضان، زکوٰة و فطرة واجب ہوئے۔ اسی سال (رمضان میں) مشہور غزوہٴ بدر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے ساتھ 313/ جاں نثار تھے اور قریش ایک ہزار۔ مگر شکست قریش ہی کو ہوئی، ان کے سردار مارے گئے اور ستر قید ہوئے، مسلمانوں کے چودہ آدمی شہید ہوئے۔ اسی سال غزوہٴ قرقرة الکدر، غزوہٴ بنی قینقاع اور غزوة السویق ہوئے، تینوں میں جنگ نہیں ہوئی۔ سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حضور صلی اللہ علیہ وَسلم کے گھر رُخصتی ہوئی۔

3 ھ…اس سال غزوہٴ غطفان اور غزوہٴ بحران ہوئے، مقابلہ نہیں ہوا، پھر مشہور جنگ اُحد ہوئی، قریش قبائل عرب کو اکٹھا کر کر بدر کے مقتولوں کا بدلہ لینے جبل اُحد کے پاس جمع ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے، 300/ منافق راستہ ہی میں پلٹ گئے، دامنِ اُحد میں دونوں فوجیں لڑیں، کفار کو شکست ہوئی، ایک درّہ پر آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے تیر اندازوں کی ایک جماعت اس وصیت کے ساتھ مقرر فرمائی تھی کہ ہم مریں یا جئیں، تمہیں بہرحال تاحکم ثانی اپنی جگہ رہنا ہوگا۔ ان میں سے بعض نے مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست دیکھ کر جگہ چھوڑ دی، دشمن کو لوٹ کر پیچھے سے حملہ کا موقع مل گیا، جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، ستر صحابہ شہید ہوئے، جن کے سردار حمزہ رضی اللہ عنہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کا چہرہٴ اَنور زخمی ہوا، سامنے کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وَسلم قریش کے تعاقب میں حمراء الاسد تک گئے، مگر دشمن بچ نکلا، مقابلہ نہیں ہوا، اسی سال شراب کی حرمت نازل ہوئی۔

4 ھ…اس سال غزوہٴ بنی نضیر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے بنی نضیر کا محاصرہ کیا اور انہیں جلا وطن کیا، پھر غزوہٴ ذات الرقاع ہوا، مقابلہ کی نوبت نہیں آئی، اس سفر میں ”نمازِ خوف“ اور ”تیمم“ کا حکم نازل ہوا، پھر غزوہٴ اُحد صغریٰ ہوا، گزشتہ سال جنگ اُحد سے واپسی پر قریش کہہ گئے تھے کہ آئندہ سال پھر اسی مقام پر جنگ ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم حسب وعدہ اُحد کی طرف نکلے، لیکن قریش مقابلہ کے لیے نہیں آئے۔

5 ھ…اس سال غزوہٴ دومة الجندل ہوا، دشمن اپنے مویشی چھوڑ کر بھاگ گئے، پھر غزوہٴ بنی مصطلق ہوا، مقابلہ میں اس قبیلے کے دس آدمی مارے گئے۔ باقی قید ہوئے، انہی قیدیوں میں ان کے سردار حارث کی لڑکی جویریہ تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے اُن کو آزاد کر کے اُن سے نکاح کرلیا، یہ نکاح تمام قیدیوں کے آزاد کرنے اور ان کے اِسلام لانے کا ذریعہ بنا۔ پھر غزوہٴ احزاب پیش آیا، قریش نے تمام قبائل عرب اور یہود کو ساتھ لے کر دس ہزار کی تعداد میں مدینہ کا محاصرہ کیا، مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لیے ایک لمبی خندق کھودی، قریش کا محاصرہ پندرہ دِن جاری رہا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے تند ہوا اور فرشتوں کا لشکر بھیجا اور دشمن ناکام لوٹا، پھر غزوہٴ بنی قریظہ ہوا اور یہود بنی قریظہ کو عہد شکنی کی سزا میں قتل کیا گیا، اسی سال حج فرض ہوا اور پردہ کی آیات نازل ہوئیں۔

6 ھ…اس سال غزوہٴ بنی لحیان، غزوة الغابہ اور صلح حدیبیہ ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم چودہ سو صحابہ کے ساتھ عمرہ کی نیت سے غیر مسلح مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ قریش نے مقامِ حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کو روک دیا۔ آخر کار چند شرطوں پر صلح ہوئی، ان میں سے ایک یہ تھی کہ دونوں فریق دس سال تک آپس میں جنگ نہیں کریں گے۔ اسی موقع پر ایک درخت کے نیچے بیعت رضوان ہوئی، اسی سال آپ نے مختلف بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط بھیجے، ان میں سے بعض مسلمان ہوگئے۔

7 ھ…اس سال حدیبیہ سے واپسی پر خیبر فتح ہوا، مہاجرین حبشہ کی واپسی ہوئی، فدک مصالحانہ طور پر فتح ہوا، غزوہٴ وادی القریٰ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم صحابہ کی معیت میں عمرة القضاء کے لیے مکہ تشریف لے گئے، وہاں تین دن قیام کے بعد واپسی ہوئی۔

8 ھ…اس سال جنگ موتہ ہوئی، جس میں مسلمانوں کے تین سپہ سالار، زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب، عبد اللہ بن رواحہ یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر مقرر کیا گیا، دشمن کو شکست ہوئی اور کافی مالِ غنیمت ہاتھ آیا، اسی سال مکہ مکرمہ کی فتح کا عظیم واقعہ ہوا۔ قریش نے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ ڈالا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے، قریش نے ہتھیار ڈال دیے، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے امنِ عام کا اعلان فرمایا، کعبة اللہ کے گرد و پیش سے بتوں کی نجاست کو صاف کیا، اِرد گرد کے قبائل میں بت شکنی کے لیے وفود بھیجے۔

مکہ کی فتح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دُشمنوں سے سلوک
کون نہیں جانتا کہ مکی زندگی کے تیرہ (13) سالوں میں مکہ وَالوں نے آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کیا کیا ،نہیں ستم ڈھائے، اُنہیں تپتی ریت اور آگ کی چنگاریوں پر لٹایا گیا، اُنہیں مکہ میں اَپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، حتیٰ کہ اُنہیں شہید تک کردِیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وَسلم کو طرح طرح کی تکلیفیں دِی گئیں، آپ کے رَاستے میں کانٹے بچھائے گئے، نماز میں سجدہ کی حالت میں اُونٹ کی اوجھڑی سر پر ڈَالی گئی۔ یہاں تک کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وَسلم کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وَسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وَہاں بھی اُن کے خلاف سازشیں رچیں اور جنگ بدر، جنگ اُحد اور جنگ احزاب کی نوبت آئی۔(جاری)

Flag Counter