Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

8 - 20
رہبرِ انسانیت صلی الله علیہ و سلم کا پیام انسانیت

مولانا محمد اصطفاء الحسن کاندھلوی
	
نبی کریم، علیہ الصلوٰة والتسلیم کی حیات طیبہ دراصل نزول وحی سے عبارت تھی۔ اِدھر آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی عمر عزیز کا سفر طے کر رہے تھے، اُدھر دین اپنے کمال کو پہنچ رہا تھا، تاآں کہ جب آپ صلی الله علیہ و سلم کی عمر اپنے تمام کو پہنچی تو ساتھ ہی:﴿الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی﴾․ (آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اورتم پر اپنی نعمتوں کا اتمام کر دیا ) کا اعلانیہ جاری کر دیا گیا، آپ کو﴿انک لعلی خلقٍ عظیم﴾(یقینی طور پر آپ عظیم طرز زندگی کے حامل ہیں کی سند عطا کر دی گئیاور”کان خلقہ القرآن“( حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی (طرز زندگی) ہی قرآن ہے) کے ذریعہ امت سے بھی اس کی شہادت دلوا کر ”لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة“ (تمہارے لیے رسول اصلی الله علیہ وسلم کی (طرز زندگی) میں(زندگی گزارنے کا) اچھا نمونہ ہے۔ تا قیامت آنے والی ساری انسانیت کو پابند کر دیا گیا۔ معلوم ہوا کہ دین آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے اور آپ کی حیات طیبہ دین سے عبارت ہے اور دونوں باہم دگراس طرح سے پیوستہ ہیں کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ایسا ہی ہے جیسے پانی سے اس کی نمی کو ، جسم سے اس کی روح کو، پھول سے اس کی مہک کو ، یا باد صبا سے اس کی خوش گواری کوجداکرنے کی کوشش کی جائے۔

دین چوں کہ زندگی کے ہر شعبہ کو شامل اور ہر اعتبار سے کامل ہے، لہٰذا ایسا ممکن نہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم کی حیات طیبہ میں کوئی گوشہ ایسا تشنہ رہ گیا ہو جس سے عام انسانی زندگی کے کسی گوشہ کی سیرابی رہ گئی ہو۔ تجارت ہو، زراعت ہو، سیاست ہو، معاشرت ہو، عبادت ہو، امن ہو، جنگ ہو، انفرادی مسائل ہوں یا اجتماعی معاملات، گھر کے ہوں، محلہ اور پڑوس کے، ملک کے ہوں یا بیرون ملک کے ، قرآن مجید کی رو سے سب کے اصول وضوابط کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا:﴿وکل شیءٍ فصلناہ تفصیلاً﴾ہر چیز( کے اصول وضابطہ) کو ہم نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے ) اور :﴿وتفصیل کل شیءٍ﴾(یہ قرآن) ہر چیز ( کے اصول وضابطہ) کو تفصیل سے بیان کرنے والا ہے اور ”کان خلقہ القرآن“ گویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر چیز کو عملی طور پر پیش کرکے، یازبانی طور پر سمجھا کے یا بنظر استحسان دیکھ کے اور خاموشی اختیار کرکے امت کے سامنے واضح کر دیا۔

اب امتِ مرحومہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی کے ہر ہر شعبہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا عکس او راپنی شخصیت کے ہر پہلو میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت کی دھنک تلاش کرے۔ کیوں کہ یہی وہ رنگ ہے جس کو ”صبغة الله“ (الله کا رنگ) کہا گیا ہے۔ یہ رنگ ایک مسلمان فرد یا مسلم معاشرہ کی زندگی کے جس پہلو سے چھٹے گا، وہاں سے اس کی زندگی بے نور اور بد رنگ نظر آئے گی۔

آج ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ایک گوشہ شدت سے اس بات کا منتظر ہے کہ اس کی بے نوری اور بدرنگی کو اُلو ہی اور نبوی رنگ بھر کر پُر کشش او رخوش منظر بنایا جائے، تاکہ ہر ذوق مند اس کی داددے، ہر ناظر اس کو سراہے اور آخر کار اپنی زندگی کو اس میں رنگنے کی خواہش ظاہر کرے۔

یہ پہلو غیر مسلم برادرانِ وطن اور دیگر ملل و مذاہب کے حامل افراد کے ساتھ معاشرت اور معاملات کا ہے، یہ پہلو ہر انسان کو، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، دوست ہو یا دشمن، اس نظر سے دیکھنے کا ہے جس میں انسانیت ہو، آدمیت ہو، اخوت اور رواداری ہو، جو ہر شخص کو سب سے پہلے اس پہلو سے دیکھے کہ وہ ایک آدمی او رانسان ہے اور اس رشتہ اور اخوت کی بنا پر اس کے ساتھ معاملہ کرے۔ مصیبت میں اس کی دست گیری کرے، بیماری میں اس کی عیادت کرے، ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے میں اس کا ساتھ دے اور غمی وخوشیمیں اس کا شریک رہے۔

آج ہمارے دین دار طبقہ کا رویہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ یہ ہے کہ انہوں نے ہم پر ظلم کیا کیا کہ ہم نے ان کو انسان سمجھنا ہی چھوڑ یا، ان کی طرف دیکھنا ہمیں گوارا نہیں، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے کترانے لگے اور ایک ایسی خلیج اپنے اور ان کے درمیان حائل کر لی کہ ایک محلہ او رایک معاشرہ میں رہنے کے باوجود :﴿بینھما برزخ لایبغیان﴾کی شبیہ بن بیٹھے۔

نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم کی حیات طیبہ پر نظر ڈالیے تو یہ بے نیازانہ، بلکہ معاندانہ رویہ کہیں نظر نہیں آئے گا، حالاں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ  پر غیر مسلموں کی جانب سے کم مظالم نہیں ڈھائے گئے، بلکہ بہت سے واقعات ایسے ہیں کہ تاب سماعت نہیں رکھتے، تاہم آپ صلی الله علیہ وسلم نے (جنگ کے علاوہ) ان سے کبھی معاندانہ رویہ نہیں اختیار کیا، بلکہ اخلاق کے وہ نمونے پیش کیے کہ تاریخ انسانیت ان کے پیش کرنے سے قاصر ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے عملی طور پر امت کو یہ تعلیم دی کہ ظلم کا علاج ظلم اور حق تلفی کا بدلہ حق تلفی نہیں ہے، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنے حق کو معاف کرکے دوسروں کے حق کی ادائیگی پر زور دیا۔ ذرا سیرت کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں تو سہی!! کیسے کیسے واقعات ہیں جن پر انسانیت سردُھنتی ہے اور حیوانیت اپنے بال نوچتی ہے اور شاید یہی وہ معیار اخلاق ہے جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کو خلق عظیم قرار دیا گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات کو اسوہ ٴحسنہ کا مقام عطا کیا گیا اور وہ یہ کہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے جانی دشمن کو بھی محبت کی نظر سے دیکھا، آپ کا قلب مبارک اس کی محبت سے معمور رہا اور آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی آخرت کی فکر کرتے رہے اور کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح وہ جنت کے راستہ پر آجائے او ردوزخ کے راستہ سے ہٹ جائے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : میں تمہاری کمر پکڑ پکڑکر تمہیں آگ میں گرنے سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں او رتم پتنگوں کی طرح اس میں گرے جارہے ہو؟! حق تعالیٰ نے بھی آپ صلی الله علیہ و سلم کی اس کیفیت کو نہایت بلیغ انداز میں بیان کرتے ہوئے فرما دیا: ﴿لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مؤمنین﴾(شاید آپ اپنی جان ہی گھلا ڈالیں گے اس (غم میں کہ ) یہ لوگ ایمان نہیں لارہے) یقینا آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ وسیع الظر فی آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کا معجزانہ پہلو ہے او را س کی اعجازی کیفیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کے اردگرد کے ماحول کو دیکھتے ہیں جو اخلاقی زوال کی علامت بن چکا تھا او رجہاں انسانیت اخلاقی قدروں کی پامالی کی بنا پر لہو لہان ہو چکی تھی۔

وحی اول کے نزول کے وقت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی الله تعالی عنہا کا یہ فرمانا کہ : الله آپ صلی الله علیہ و سلم کو ضائع نہیں کر ے گا، کیوں کہ آپ دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں ، نادار کو عطا کرتے ہیں ،اقرباء سے صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ خواہ آج ہمیں یہ باتیں عام سی معلوم ہوتی ہوں، بایں معنی کہ ہم نے حضور کی سنتوں کو زندہ کرنے والوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کو ایسا کرتے ہوئے خوب دیکھا ہے اورخوب ان کے قصے سنے ہیں، لیکن یہی باتیں اس وقت ام المؤمنین کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کے آثار وشاہد معلوم ہوئیں اور ان کے دل میں ان باتوں کی اتنی عظمت جاگزیں ہوئی کہ وہ یقین کے ساتھ کہہ بیٹھیں کہ : الله آپ کو ضائع نہیں فرمائے گا۔ یہ باتیں گویا اخلاقی قدروں میں بنیاد کا درجہ رکھتی ہیں اور یہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی وہ سنتیں ہیں جنہوں نے سخت سے سخت پتھر کو بھی موم کر ڈالا اور سخت سے سخت جانی دشمن کو جان نچھاور کرنے والا دوست بنا ڈالا اور وہ لوگ جو آپ کے لائے ہوئے دین سے بیزار تھے، اس کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی تعلیم کا ترک کرنا ان کے لیے سوہان روح ہو گیا، آج کے تاتار بھی بلاشبہ اس دین کے گرویدہ ہو جائیں اگر ان کو میل جول اور اختلاط کے ذریعہ دین اسلام کی ایک جھلک دیکھنے کو مل جائے۔

امت مسلمہ کا وہ طبقہ جو اپنی دین داری میں مشہور وممتاز ہے اور جو نماز، روزہ اور حج جیسے عظیم او راہم ارکان اسلام ہی نہیں، وضو اور غسل تک کی سنتوں اور مستحبات کا اہتمام کرتا ہے اور یقینا ان کا یہ اہتمام انتہائی مبارک اورمسعود، لیکن کیا وہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ان سنتوں کا بھی اہتمام کرتا ہے جو آپ صلی الله علیہ و سلم روزہ مرہ کی زندگی میں پڑوسیوں، بوڑھوں، کمزورں، پریشان حالوں، بیماروں، ناداروں، بے روز گاروں اور مظلوموں کی اعانت ونصرت اور خیر خواہی ودست گیری سے متعلق ہیں ؟او رجس میں مسلم وغیر مسلم کی کوئی قید نہیں ، بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ او ران میں سے ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے آپ صلی الله علیہ و سلم پر دست درازی کی اور ناحق آپ صلی الله علیہ وسلم کو ستایا اور طرح طرح کے آپ صلی الله علیہ و سلم پر مظالم ڈھائے، ان کے ساتھ بھی آپ صلی الله علیہ و سلم نے حسن سلوک کی مثالیں قائم کیں اور آپ کا رویہ ان کے ساھ صرف ظاہری حد تک نہ تھا، بلکہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی محبت اور انسانیت ان تمام مثالوں میں اسی طرح محسوس کی جاسکتی ہے جیسے گل سرسبد میں اس کی خوش بو۔

تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جب امت دین کے کسی حکم یا نبی کی کسی سنت کو ترک کرتی ہے، تو الله تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ پھر اس پر عمل کرنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے ، دعوت کا عمل ترک کیا جائے گا تو ایسا وقت آئے گا کہ چاہنے کے باوجود دعوت دینا مشکل ہو جائے گا، نمازیں ترک کی جائیں گی تو نماز کے لیے مسجد بنانا، بلکہ مسجد بچانا مشکل ہو جائے گا، اسی طرح ہر سنت اور ہر عمل کا حال ہے، ماضی اور حال میں ہم نے اس کا خوب مشاہدہ کیا ہے او رکر رہے ہیں، غرناطہ اور اشبیلیہ اور سمر قند وبخارا کی تاریخ اس پر گواہ ہے او رخود ہمارے ملک کے حالات اسی رخ پر جارہے ہیں۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے :﴿یا ایھا الذین آمنوا ادخلو فی السلم کافة﴾ (اے ایمان والو ! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ)۔ جزوی دین پر عمل ناکافی ہے اور جو پہلو عمل کا تشنہ رہے گا وہیں سے خسارہ اور نقصان اٹھانا پڑے گا، خواہ باقی شعبوں کے اندر دین داری اور سنت شعاری میں کوئی کمی نہ ہو ، تاریخ میں ایک معمولی سنت مسواک تک کے ترک کرنے کا اثر دیکھاگیا ہے۔

ایک دوسرے پہلو سے اگر دیکھا جائے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کی یہ تعلیمات اور سنتیں ایسی ہیں جو ہماری معاشرت کی ظاہری شکل کو تشکیل دیتی ہیں، یہیں سے غیر ہمارے دین سے واقفیت حاصل کرتے ہیں او رمذہب اسلام کا یہی پہلو سب سے پہلے ان کے سامنے آتا ہے اورہماری زندگی کا یہی گوشہ سب سے زیادہ بد نما ہے او رحضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپ کی سنتوں سے محروم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دنیا کی سب سے زیادہ ستم رسیدہ قوم ہونے کے باوجود سب سے بڑے ظالم بھی مشہور ہیں، دشمن نے اپنے وسائل سے یہی باو رکرایا ہے اور ہم اپنے عمل سے اس کو غلط ثابت نہیں کر پارہے ہیں ۔حال یہ ہو گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کہیں اخلاق ورحم دلی کا نمونہ پیش کر دے تو دنیا حیرانی سے اسے دیکھتی ہے کہ اچھا کیا یہ لوگ بھی ایسا جذبہ رکھتے ہیں اور ایسے کام کر سکتے ہیں؟ آج حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، کیوں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت کو ہماری زندگی کے آئینہ میں دیکھا جارہا ہے ۔گستاخی کرنے والوں سے پہلے ہمیں خود کو دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اپنے عمل سے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کا تعارف نہیں کرایا، بلکہ ہمارے عمل سے ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی رحمة اللعالمینی پر حرف آیا ہے۔

باطل نہیں چاہتا کہ ہم اپنے برادران وطن سے میل جول رکھیں، اسی لیے اس نے منافرت کا ماحول گرم کیا ہے، تاکہ ہم اور ہمارے دین کی خوبیاں برادران وطن پر ظاہر نہ ہونے پائیں۔ اس کا توڑ یہی ہے کہ حالات کی ناساز گاری کے باوجود ہم ہمت سے کام لیں اور نبی علیہ الصلوٰة والتسلیم کی حیات طیبہ سے سبق لیں کہ انہوں نے اس سے بھی سخت حالات میں غیروں کی تئیں اپنا فریضہ انجام دیا، ان کی خبر گیری ، دست گیری اور خیر خواہی کی، اس وقت بھی جب وہ ظلم ڈھارہے تھے اور اس وقت بھی جب الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی مساعی کو قبول فرماکر ان پر غلبہ عطا کر دیا تھا۔ یہی الله تعالیٰ کی سنت ہے :﴿ولن تجد لسنة الله تبدیلا﴾․

سال کا وہ مبارک ومسعود مہینہ جس میں رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی، ایک بار پھر آچکا ہے۔ اس موقعہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے متبعین کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے اس گوشہ کو بھی نبوی رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں گے اور اقوام عالم کے سامنے” خلق عظیم“ کا عکس جمیل پیش کرکے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کا مکمل تعارف کرائیں گے، تاکہ اگر کوئی خرد ماغ آپ صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو خود اس کی قوم اس کو کیفر کردار تک پہنچائے، والله ولی التوفیق․

Flag Counter