Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

18 - 20
سیدنا علی المرتضیٰ رضي الله عنه کی زندگی کی ایک جھلک

متعلم عبدالله فضل
	
نام علی، کنیت ابوالحسن اور ابوتراب، لقب اسد الله، حیدر اور المرتضیٰ تھا، خاندان بنی ہاشم سے آپ کا تعلق تھا، یہ خاندان قبیلہ قریش میں گونا گوں اعزازات کی وجہ سے ممتاز تھا، مثلاً خدمت کعبہ، سقاءِ زمزم، حجاج کے ساتھ تعاون وغیرہ اور سب سے بڑھ کر خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم کی بعثت اسی خاندان میں ہوئی تھی۔

والد کا نام عبد مناف اور کنیت ”ابو طالب“، عبدالله بن عبدالمطلب (حضورعليه السلام کے والد) زبیر بن عبدالمطلب اور ابو طالب بن عبدالمطلب یہ تینوں آپس میں سگے بھائی تھے، ان تینوں کی والدہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ مخزومیة تھیں، اس نسبت سے سیدنا علی المرتضیٰ حضور عليه السلام کے سگے چچا زاد بھائی ہوئے۔

والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف تھا، ان کا تعلق بھی بنی ہاشم سے تھا، اسی بنا پر حضرت علی رضی الله عنہ کو ”نجیب الطرفین“ کہا جاتا ہے، یعنی والد کی طرف سے بھی ہاشمی اوروالدہ کی طرف سے بھی ہاشمی ہیں۔

مکہ کے اندر شعب بنی ہاشم ( جو کہ بنی ہاشم کی مشہور وادی ہے) میں آپ رضی الله عنہ کی ولادت مبارک ہوئی، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آں جناب رضی الله عنہ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر ہوئی اور اس بات کو آں جناب رضی الله عنہ کی بڑی فضیلت گردانتے ہیں او رمنبروں پر چڑھ کر بڑے شدّ ومد کے ساتھ بیان بھی کرتے ہیں، جب کہ ایسی تمام روایات سراسر بے بنیاد ہیں، اور علماء نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے ” وماروي أن علیّاً ولد فی الکبعة فضعیف عند العلماء․“(السیرة الحلبیہ، ج1ص:165)”ویقال: کانت ولادتہ فی داخل الکعبة ولم یثبت․“(تاریخ الخمیس،ج:2، ص:275) اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ اہل سنت والجماعت سیدنا علی المرتضیٰ کی فضیلت کے قائل نہیں، حضرت علی رضی الله عنہ تو ہمارے سروں کے تاج ہیں، ہمارے مقتدا اور پیشوا ہیں، ان کے بغیر ہم اپنے ایمان کو کامل نہیں سمجھتے، بس ہم تو صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ ان ضعیف اور بے بنیاد روایات سے آں جناب رضی الله عنہ کی فضیلت کو ثابت نہ کیا جائے، آں جناب رضی الله عنہ تو اصحاب نبی صلی الله علیہ وسلم کی سربرآوردہ شخصیات میں سے ہیں، جن کی عظمت وشرافت بے شمار صحیح روایات سے ثابت ہے۔

اور اگر بالفرض ان روایات کو درست مان بھی لیا جائے، تب بھی عربوں کے مخصوص رواج کے مطابق یہ کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے۔

بہرکیف آں جناب رضی الله عنہ حضور علیہ السلام کی ولادت سے تیس برس بعد شعب بنی ہاشم میں پیدا ہوئے، ولادت کے وقت والد ابو طالب کسی سفر سے باہر گئے ہوئے تھے، اس لیے ماں نے ”اسد“ نام رکھا، جب والد ابو واپس لوٹے تو نام تبدیل کرکے ”علی“ تجویز کیا، کچھ عرصہ والدین کے سایہ شفقت میں پرورش پائی، بعد ازیں ابو طالب کو مالی تنگیوں نے گھیر لیا، چناں چہ ابو طالب کے خاندان نے ایک اچھی تدبیر کی اور ابو طالب کے بچوں کو ایک ایک نے اپنی کفالت میں لے لیا، حضرت علی رضی الله عنہ کو جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے رکھ لیا اور اس طرح بچپن کا زمانہ آں جناب رضی الله عنہ نے سایہ نبوت میں گزارا۔

جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبوت ملی، تو سب سے پہلے بچوں میں حضرت علی رضی الله عنہ ایمان لائے اور جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نیک پرورش کا حق ادا کیا۔

نبوت کے تیرھویں سال جب کفار کا ظلم وستم حد سے بڑھ گیا، تو بحکم خدا آپ صلی الله علیہ و سلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور حضرت علی  کو حکم دیا کہ میرے شبینہ فراش پر رات گزاریں اور صبح کفار کی امانتیں لوٹا کر مدینہ آجائیں، صبح ہوتے ہی حضرت علی رضی الله عنہ امانتوں سے سبک دوش ہوئے اور حضور علیہ السلام سے جاملے، مدینہ منورہ میں رسالت مآب صلی الله علیہ و سلم نے انصار ومہاجرین کے درمیان مواخات قائم فرمائی، تو اس مواخات و بھائی چارگی میں سہل بن حنیف رضی الله عنہ حضرت علی رضی الله عنہ کے اسلامی بھائی بنے۔

حضرت علی رضی الله عنہ کی شادی علی اختلاف الاقوال سن2ھ ماہ رجب یا ماہ محرم الحرام میں سرورکائنات صلی الله علیہ وسلم کی شاہ زادی سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا کے ساتھ چار ہزار مثقال پر ہوئی، یہ شادی رسوم ورواج سے پاک بڑی سادگی سے کی گئی، حضرت عائشہ رضی الله عنہا، اس شادی کے بارے میں فرماتی ہیں ”مارأیت عرساً أحسن من عرس فاطمہ․“ (تاریخ الخمیس،ج1،ص:411) مطلب یہ ہے کہ میں نے فاطمہ کی شادی سے بہترشادی کسی کی نہیں دیکھی۔

حضرت علی نے حضور عليه السلام کے ساتھ تمام غزوات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کارہائے نمایاں سرانجام دیے، بڑے بڑے کفار کو تہہ تیغ کیا، غزوہ تبوک میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنا نائب بنایا اور ارشاد فرمایا:”أنت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ إلا أنہ لانبی بعدی․“ (بخاری ومسلم)

غزوہ خیبر میں قلعہٴ قموص، جو انتہائی مضبوط تھا، کئی حملوں سے فتح نہ ہو سکا، بالآخر چند حملوں کے بعد حضورعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا: کل میں ایسے شخص کو جھنڈا عطا کروں گا، جو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو خوش رکھتا ہے ،وہ اس قلعہ کو فتح کرے گا، اگلے دن ہر ایک کی نظر شدت سے منتظر تھی، کس کو جھنڈا ملتا ہے، حضور علیہ السلام نے حضرت علی رضی الله عنہ کو بلایا، اورجھنڈا آپ رضی الله عنہ کے ہاتھ میں تھما دیا، چناں چہ آں جناب رضی الله عنہ کے ہاتھوں یہ قلعہ فتح ہوا، حضور علیہ السلام کے مرض وفات میں بھی آں جناب نے قابل قدر خدمات سر انجام دیں اور وفات کے بعد کچھ دیگر افراد کے ہم راہ غسل دینے کا شرف بھی حاصل کیا اور اپنے ہاتھوں سے قبر مبارک میں اتارا۔

حضور علیہ السلام کے رحلت فرما جانے کے بعد مسلمانوں نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی الله عنہ کہ ہاتھ پر بیعت کر لی، حضرت علی رضی الله عنہ نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضرت علی رضی الله عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے کئی عہدے مثلاً: مدینہ کے محافظ دستوں کی امیری، دینی اور انتظامی امور میں مشاورت اور اموال خمس تقسیم کرنے کی تولیت عطا کی۔ (کتاب الخراج امام ابویوسف، ص:20) بعد ازیں خلافتِ فاروقی کی ابتدا ہوئی، تو سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ نے پہلے روز ہی حضرت علی رضی الله عنہ کو مدینہ منورہ کا چیف قاضی اور مفتی اعظم بنایا، سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ کی موجودگی میں مدینہ کی نیابت کا شرف بھی آں جناب رضی الله عنہ کو حاصل تھا، مشاورتی کمیٹی کی سربرآوردہ شخصیات میں آپ رضی الله عنہ کا شمار تھا، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے ”ینبغ“ نامی زمین کا ایک ٹکڑا (جو نہایت سر سبز وشاداب تھا) آں جناب کو عطا کیا او ران تمام تر سماجی تعلقات کے ساتھ ساتھ، ان حضرات کے آپس کا اتحاد ویگانگت، رشتہ داری اور مصاھرت کی صورت میں بھی قائم تھی، یہ تمام امور فاروقی دور میں حضرت علی کی روشن خدمات کا منھ بولتا ثبوت ہیں، یہ خدمات دور عثمانی میں کم نہیں ہوئیں، دور عثمانی میں بھی حضرت علی رضی الله عنہ کو ملکی انتظامات میں مکمل دخل رہا ، جنگوں میں آں جناب کی اولاد برابر شریک ہوتی رہی، یہاں تک کہ جب بلوائیوں نے حضرت عثمان کا محاصرہ کر لیا، تو آپ رضی الله عنہ نے اپنی اولاد کو حضرت عثمان رضی الله عنہ کی پہرہ داری پر لگا دیا، سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ کے ساتھ آں جناب کا نسبتی تعلق تو باقی خلفاء پر بھی فائق تھا، ان تمام ترامور کو مصلحت بینی پر اور تقیہ پر محمول کرنا انتہائی درجہ کی حماقت ہے۔

سن35ھ میں سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ کو بلوائیوں نے ظالمانہ طور پر شہید کر دیا، تو حضرت علی رضی الله عنہ ان کے جانشین بنے، تخت خلافت پر متمکن ہوئے اور خلافت کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں دی گئی، چار سال تک امور خلافت کو سنبھالا، جنگ نہروان کے نام سے خوارج کے ساتھ ایک جنگ ہوئی، جس میں حضرت علی رضی الله عنہ نے لا تعداد خارجیوں کو جہنم واصل کیا، خوارج اس کا بدلہ لینے کی غرض سے آپ رضی الله عنہ کے قتل کے درپے ہوئے، اور اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، لعین زمانہ، عبدالرحمن بن ملجم کو تیار کیا گیا، حضرت علی رضی الله عنہ کی عادت شریفہ تھی کہ صبح کے وقت مسجد میں سویرے تشریف لایا کرتے تھے، یہ بدبخت اندھیرے میں تاک لگا کر بیٹھ گیا، جوں ہی آں جناب رضی الله عنہ مسجد میں داخل ہوئے، اس نے سیدھا آپ رضی الله عنہ کے ماتھے پروار کیا اور خون سے رنگین کر دیا۔

17/رمضان المبارک40ھ یک شنبہ کی رات یہ عظیم انسان، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا داماد اور مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ، اس فانی دنیا کو الوداع کہہ گیا، حضرت حسن وحسین رضی الله عنہم اور عبدالله بن جعفر رضی الله عنہ نے غسل وکفن دیا، حضرت حسن نے نماز جنازہ پڑھائی اور عظمت وشرافت، جرأت وبہادری کے اس عظیم پیکر کو سپرد خاک کر دیا، شہادت کے وقت عمر شریف 63 سال تھی۔4 سال اور 9 ماہ (چار سال نو ماہ) خلافت کے فرائض سر انجام دیے۔

Flag Counter