Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

17 - 20
خواتین کا ذوقِ عبادت

مولانا محمد غیاث الدین حسامی
	
قرآن کریم میں الله تبارک وتعالیٰ نے انسان کے مقصد زندگی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ” ہم نے انسانوں اور جنات کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے “۔ (الذاریات:65) یہی بات ایک حدیث قدسی میں کچھ تفصیل کے ساتھ ہے کہ :” اے میرے بندو! میں نے تمہیں اس لیے پیدا نہیں کیا کہ تم تنہائی میں میرے انیس بنو اور نہ اس لیے کہ قلت میں تمہارے ذریعے میں کثرت حاصل کروں اور نہ اس لیے کہ تنہا ہونے کے باعث کسی کام کے کرنے سے عاجز ہو کر میں تمہاری مدد کا طلب گار بنوں اور نہ اس لیے کہ تمہارے ذریعہ کوئی نفع حاصل کروں یا کسی مضرت کو دفع کروں، میں نے تو تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم زندگی بھر میری بندگی اختیار کرو، کثرت سے میرا ذکر کرو اور صبح وشام میری تسبیح پڑھتے رہو۔“ (عبادت کا حقیقی مفہوم، مصنف ڈاکٹر یوسف القرضاوی: 43)

عبادت کے تعلق سے الله تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کے ہر فرد بشر سے ایک مضبوط عہد لیا ہے، جسے قرآن مجید نے واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، اس لیے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یٰس:61-60) لیکن انسان گردشِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس وعدہٴ خداوندی کو بھول گیا اور ایک خدا کی عبادت کی بجائے کئی خداؤں کی عبادت کرنے لگا اور ہر ذی اثر چیز کو خدا کا درجہ دے دیا، اس کی اسی غفلت کی وجہ سے الله تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں اور نزولِ کتب کا سلسلہ شروع کیا، جس کے ذریعہ پوری انسانیت کو ایک الله سے کیے ہوئے اس وعدے کو یاد دلایا اور انہیں بندوں کی عبادت سے نکال کر الله کی عبادت کی طرف پھیر دیا، ان نیک فطرت نبیوں اور رسولوں کا اپنی قوم کے لیے ایک ہی نعرہ تھا کہ” اے میر ی قوم! غیرالله کی عبادت سے نکل کر الله کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کوئی معبود نہیں ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں او ررسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بہت سی احادیث میں عبادت کی بہت تاکید کی گئی ہے اور یہ بھی بتلادیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے مقصدِ زندگی ( عبادت) میں کام یاب ہو گا وہی ربّ کی رضا اور خوش نودی حاصل کرے گا او رجو ناکام ونامراد ہو گا وہ ربّ کی ناراضگی کی وجہ سے عذاب وعقاب کا مستحق ہو گا، اس لیے بندے کی اصل کام یابی حکم الہٰی اور طریقہٴ نبوی کے مطابق عبادت کرنے میں مضمر ہے اور جو بندہ عبادت وبندگی کے علاوہ دوسرے طریقہ میں کام یابی کا طلب گار ہو گا اس کے لیے ناکامی لکھ دی گئی ہے۔

الله تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مردوں کے اوصافِ بندگی کے ساتھ ساتھ عورتوں کے اوصافِ عبادت کو بھی ذکر کیا او را س پر ملنے والے اجرو ثواب کاا نہیں بھی مستحق قرار دیا، جس کی طرف قرآن کریم کی یہ آیت اشارہ کر رہی ہے:” یقینا مسلمان مرد او رمسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، الله سے ڈرنے والے مرد اور الله سے ڈرنے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنے ستر کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنے ستر کی حفاظت کرنے والی عورتیں، الله کا ذکر کرنے والے مرد اور الله کا ذکر کرنے والی عورتیں، ان کے لیے الله نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہے۔(الاحزاب:35)

تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ ابتدائے اسلام سے آج تک عبادت وبندگی کے اس حکم پر جہاں مردوں نے عمل کیا ہے وہیں عورتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں، خالق کائنات کی رضا جوئی کے لیے جہاں مرد اپنی راتوں کو عبادت سے مزّین کرتے وہیں عورتیں بھی اطاعت وبندگی کے ذریعہ اپنی راتوں کو سجاتیں او راپنے مولی سے ہم کلامی کے لیے شب بیداری اور آہِ سحر گاہی کا معمول بناتیں، جہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم پورے جذبہ کے ساتھ عبادت میں مصروف ہو اکرتے وہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے والی ازواج مطہرات بھی پورے شوق وجذبہ کے ساتھ فریضہ بندگی بجالاتیں، جہاں صحابہ طریقہٴ نبی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق عبادت کیا کرتے وہیں صحابیات بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی مطابق عمل کرتیں اور جس طرح عبادت کے میدان میں حسن بصری جیسے باکمال ولی پیدا ہوئے اسی طرح رابعہ بصریہ جیسی ولیہ پیداہوئیں، عبادت گزاروں کی فہرست اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ان برگزیدہ خواتین کا تذکرہ نہ کیا جائے، جن کے جذبہٴ عبادت وبندگی اور رضائے الہٰی کے حصول کی کوششوں کو دیکھ کر موجودہ دور کی خواتین بھی اپنے مقصد زندگی کو یاد کرسکتی ہیں او راپنے مولیٰ حقیقی کی عبادت میں ہمیں تن مصروف ہوسکتی ہیں۔

خیر القرون اور دورِ سلفِ صالحین کی خواتین کو عبادت کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ اپنے دن ورات کااکثر حصہ عبادتِ الہی میں گزارتیں اور اپنے آپ کو ان اعمال میں لگاتیں جو خدا اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو راضی کرنے والے ہوتے ، عبادت کے ذریعہ اس مقام ومرتبہ پر پہنچ گئی تھیں، جس تک آج کے بڑے بڑے ولی صفت انسانوں کا بھی پہنچنا مشکل ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی سب سے چہتی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ عبادت گزار تھیں، الله سے نہایت ڈرنے والی تھیں، چاشت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اگر میرا باپ بھی قبر سے اٹھ کر آئے اورمجھے منع کرے تب بھی میں اسے نہ چھوڑوں گی او راس نماز سے اس قدر لگاؤ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد اگر کسی وقت وہ نماز چھوٹ جاتی تو نماز فجر سے پہلے اٹھ کر ادا کرتیں، رمضان المبارک میں تراویح کا خاص اہتمام کرتیں، اکثر روزے رکھا کرتیں، پورے جذبہ کے ساتھ ہر سال برابر حج ادا کرتیں، غلاموں پر شفقت کرتیں اور ان کو خرید کر آزاد کرتیں۔ (شرح بلوغ المرام)

امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ  کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی، انہیں عبادت الہٰی سے بہت زیادہ لگاؤ تھا، رمضان کے علاوہ ہر مہینہ میں تین روزے پابندی کے ساتھ رکھا کرتیں ، اطاعتِ خداوندی ہر عمل میں صاف نظر آتی تھی، جہاں اوامر کی بے حد پابند تھیں وہیں نواہی سے بھی بچنے کا التزام کرتی تھیں۔ (ابن سعد)

امّ المؤمنین حضرت زینب بنت حجش  بڑی دین دار، پرہیز گار، حق گو اور اوّاہ تھیں، ان کی عبادت وزہد کا اعتراف خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا ہے، حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب الاصابة میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی الله علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت میں مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے، حضرت زینب  بھی اس موقع پر موجود تھیں، انہوں نے کوئی ایسی بات کہی جو حضرت عمر  کو پسند نہیں آئی، انہوں نے ذرا تلخ انداز میں حضرت زینب  کو دخل دینے سے منع کیا، رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، اے عمر! انہیں کچھ نہ کہو۔ یہ اوّاہ(بڑی عبادت گزار اور خدا سے ڈرنے والی) ہیں۔

امّ المؤمنین حضرت جویریہ بھی بڑی عبادت گزار اور زاہدانہ زندگی گزارنے والی خاتون تھیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم انہیں اکثر عبادت وبندگی میں مشغول پاتے، آپ صلی الله علیہ وسلم جب کبھی گھر سے باہر جاتے یا گھر تشریف لاتے تو انہیں اپنے ربّ سے راز ونیاز کرتے ہوئے پاتے، ایک دن حضور انور صلی الله علیہ وسلم نے انہیں صبح کے وقت اپنے گھر کی مسجد (نماز کی جگہ ) میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا، پھر ضروریات سے فارغ ہو کر آئے تو بھی اسی حالت میں ان کو پایا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم ہمیشہ اسی طرح عبادت کرتی رہتی ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں یا رسول الله ! تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمات پڑھا کرو، ان کو تمہاری نفل عبادت پر ترجیح حاصل ہے،”سبحان الله وبحمدہ، سبحان الله عدد خلقہ، سبحان الله عدد خلقہ سبحان الله رضی نفسہ، سبحان الله رضی نفسہ، سبحان الله زنة عرشہ، سبحان الله زنة عرشہ، سبحان الله مداد کلماتہ، سبحان الله مداد کلماتہ․“(مسند احمد، حدیث جویریہ بنت الحارث، حدیث نمبر3308، ناشر مؤسسة الرسالة)

مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد حضرت امّ حبیبہ  بھی سن رہی تھیں، اس کے بعد پوری زندگی یہ بارہ رکعت ان کے معمول میں رہیں، کبھی اس کو ترک نہیں کیا۔ (مسند احمد حدیث ابی موسی الاشعری حدیث نمبر19709ناشر مؤسسة الرسالة)

حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا کو عبادت الہی سے بے انتہا شغف تھا، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تہجد گزار اور کثرت سے روزے رکھنے والی تھیں، ، خوفِ الہٰی سے ہر وقت لزراں او رترساں رہتی تھیں، زبان پر ہمیشہ الله تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا تھا، حضرت علی  فرماتے ہیں کہ میں فاطمہ  کو دیکھتا تھا کہ کھانا پکاتی تھیں اور ساتھ ساتھ خدا کا ذکر کرتی جاتی تھیں، حضرت سلمان فارسی کا بیان ہے کہ حضرت فاطمہ گھر کے کام کاج میں لگی رہتی تھیں اور قرآن مجید کی تلاوت کرتی رہتی تھیں، وہ چکی پیستے وقت بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں، علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں ان کی اسی عادت کی طرف اشارہ کیا ہے #
        آں ادب پروردہ صبر ورضا
        آسیا گردان ولب قرآں سرا

حضرت علی فرماتے ہیں کہ فاطمہ  الله کی بے انتہا عبادت کرتی تھیں، لیکن گھر کے کام میں کوئی فرق نہیں آنے دیتی تھیں، سیدنا حسن فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ ماجدہ کو صبح سے شام تک محرابِ عبادت میں الله تعالیٰ کے آگے گریہ وزاری کرتے، نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ اس کی حمد وثنا کرتے اور دعائیں مانگتے دیکھا کرتا تھا اور یہ دعائیں وہ اپنے لیے نہیں، بلکہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے مانگتی تھیں، عبادت کرتے وقت آپ کا نورانی چہرہ زرد ہو جاتا تھا، جسم پر لزرہ طاری ہو جاتا تھا، آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی تھی، یہاں تک کہ اکثر مصلّی آنسوؤں سے بھیگ جاتا تھا، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کی عبادت کا یہ حال تھا کہ اکثر ساری رات نماز میں گزار دیتی تھیں، بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی عبادت الہی کو ترک نہیں کرتی تھیں، الله تعالیٰ کی عبادت، اس کے احکام کی تعمیل اور اس کی رضا جوئی اور سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم کی پیروی ان کے رگ وریشے میں سما گئی تھیں۔ (سیرت فاطمة الزہرا)

حضرت اسماء بنت ابوبکر عبادت وبندگی میں شہرہ رکھتی تھیں، نہایت درجہ کی عابدہ اور زاہدہ تھیں، کثرت عبادت ان کا خصوصی وصف تھا، ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کسوف کی نماز پڑھا رہے تھے، بہت سی صحابیات بھی شریکِ نماز تھیں، ان میں حضرت اسماء بھی شامل تھیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کو کئی گھنٹے طویل کیا، حضرت اسماء کی طبیعت کچھ کمزور تھی، تھک کر چور چور ہو گئیں، لیکن بڑے استقلال سے کھڑی رہیں، جب نماز ختم ہوئی تو غش کھا کر گر پڑیں، چہرے اور سر پر پانی چھڑ کا گیا تو ہوش میں آئیں ( بخاری شریف، باب صلاة النساء مع الرجال فی الکسوف ، حدیث:1053)

آپ صلی الله علیہ وسلم کی چچی حضرت امّ الفضل نہایت پرہیزگار اورعبادت گزار تھیں، بعض روایتوں میں ہے کہ وہ ہر پیر اور جمعرات کو ہمیشہ روزہ رکھا کرتی تھیں۔

حضرت خولہ بھی عبادت الہٰی سے کافی شغف رکھتی تھیں اور ساری عبادت اور نماز پڑھنے میں گزارتی تھیں۔ ان کا تذکرہ مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں حضرت خولہ کا ادھر سے گزر ہوا تو حضرت عائشہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول الله!یہ خولہ ہیں، جو پوری رات عبادت میں گزارتی ہیں اور رات بھر سوتی نہیں، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تعجبسے فرمایا کہ رات بھر نہیں سوتیں؟ پھر فرمایا کہ انسان کواتنا ہی کام کرنا چاہیے جسے وہ ہمیشہ نباہ سکے۔ (مسند احمد، مسند عائشہ، حدیث نمبر25632، ناشر موسسة الرسالة)

حضرت صفوان بن معطل کی اہلیہ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت کرنے لگی کہ ان کے شوہر انہیں نماز پڑھنے کی بنا پر سختی کرتے ہیں، جب میں روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ بھی تڑوادیتے ہیں، حضور انور صلی الله علیہ وسلم نے صفوان بن معطل سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول الله ! یہ نماز میں دو لمبی لمبی سورتیں پڑھتی ہیں اور میں انہیں اس سے منع کرتا ہوں اور وزہ تڑوانے کی حقیقت یہ ہے کہ جب یہ نفلی روزے رکھنے پر آتی ہیں تو رکھتی ہی چلی جاتی ہیں جو میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ (مسند احمد، مسند ابی سعید خدری  ،حدیث نمبر110801)

حضرت عائشہ بنت طلحہ مشہور تابعیہہیں، بڑی ذاکرہ تھیں، ان کی زبان صبح وشام ذکر الہٰی سے تر رہا کرتی تھی، ان کانفس پاکیزہ ہو چکا تھا، جس نے انہیں تمام عورتوں میں ممتاز کر دیا تھا، انہیں بہت ساری باتیں خواب کے ذریعہ معلوم ہوجاتی تھیں۔

خوابوں کی تعبیر بتانے والے مشہور امام محمد ابن سیرین کی بیٹی حفصہ بنت سیرین اپنے زمانے کی معروف تابعیہ ہیں، جن کے بلند مرتبہ کی گواہی اہل معرفت حضرات نے دی ہے، حفصہ بنت سیرین پاکیزگی، عزت وعفت اور دین وعبادت کے اعتبار سے عورتوں کی سردار تھیں، ان کی الگ کوٹھڑی تھی، جس میں وہ اکثر عبادت کرتی تھیں، اسی لیے عبادت کے معاملے میں بہت ممتاز مقام رکھتی تھیں اور وہ اس صفت میں حیرت انگیز مقام پر پہنچ گئی تھیں، جہاں پر صرف بڑے زاہدین کی ہی رسائی ہوتی ہے، مہدی بن میمون فرماتے ہیں کہ حفصہ بنت سیرین تیس سال تک اپنے مصّلی سے” سوائے کسی کی بات کا جواب دینے یا قضائے حاجت کے نہیں نکلیں۔“ (سیر اعلام النبلاء، باب عمرة بنت عبدالرحمن507/4)

حضرت معاذة بنت عبدالله تابعیہ ہیں اور حضرت عائشہ وحضرت علی کی شاگردہ ہیں، اپنے وقت کی بڑی عابدہ خاتون تھیں، اپنے نفس کو مخاطب کرتیں او رکہتیں کہ اے نفس! نیند تیرے سامنے ہے، اگر تو چاہے تو تیری قبر میں نیند حسرت یا خوشی میں لمبی ہوسکتی ہے، جب انہیں نیند نہیں آرہی ہوتی تو فوراً الله تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مناجات میں مستغرق ہوتیں۔ (سیر اعلام النبلاء باب معاذة بنت عبدالله 509/4)

حضرت معاذة  کو صبح کی تلاوت بہت محبوب تھی ، ان کا دل الله تعالیٰ کی حمد وثنا میں مصروف رہتا تھا، عبادت وبندگی اپنی عادت بنالی تھی، یہاں تک کہ شبِ زفاف بھی عبادت میں گزر گئی، پوری رات تلاوت بھی کرتیں، جب سردی کا موسم ہوتا تو حضرت معاذة پتلے کپڑے پہنتیں، تاکہ سردی کی وجہ سے نیند نہ آئے اور عبادت میں سستی پیدا نہ ہو۔ (نساء من عصر التابعین مصنف احمد خلیل جمعہ)

حضرت عبدالله بن مسلم عجلی بیان کرتے ہیں کہ مکہ میں ایک نہایت حسین وجمیل خاتون رہتی تھی اور اسے اپنے حسن وجمال پر بڑا ناز تھا، ایک مرتبہ وہ عبید بن عمیر کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے آئی اور دورانِ گفت گو اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا کر انہیں اپنی طرف مائل کرنے لگی تو عبید بن عمیر نے اس عورت کو (موت، قبر، الله کے سامنے حاضری کے ذریعہ ) نصیحت کی اور اسے اعمال خیر پر اُبھارا، اتنی سے گفت گو پر وہ اس قدر متأثر ہوئی کہ گھر جا کر شوہر سے کہنے لگی کہ ہم دونوں نے آج تک آوارگی اور غفلت میں زندگی گزاری ہے، اس کے بعد سے وہ نماز، روزہ او رعبادت میں مصروف ہو گئی، اس عورت کا شور کہا کرتا تھا کہ عبید بن عمیر نے میری بیوی کو کیا کر دیا ہے؟ جو ہر وقت عبادت الہٰی میں مشغول رہتی ہے اور رہبانیت کی زندگی گزارتی ہے۔ (تنبیہ الغافلین)

یہ واقعات بتاتے ہیں کہ عورت ذات عبادت کے معاملہ میں کبھی مردوں سے پیچھے نہیں رہی، بلکہ ان کا ذوق عبادت اور الله تعالیٰ سے خصوصی تعلق ومحبت مثالی رہا ہے، آج کل کی خواتین بھی ان کے نقش قدم پر چل کر دنیا وآخرت میں سرخ رو ہوسکتی ہیں، الله تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین!

Flag Counter