Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

5 - 20
مقامِ ابراہیم تاریخی وشرعی حیثیت

مولانا محمد تبریز عالم قاسمی
	
جلوہ گاہِ رحمتِ لامتناہی اورمرکزِ نزولِ وحی کا تذکرہ ہو اور”حرمین شریفین“ کا مشاہداتی یا تصوراتی وجمالیاتی خاکہ ذہنوں میں ابھر نہ جائے، اسلامی جذبات واحساسات کے حوالے سے ناممکنات میں سے ہے، حرمین شریفین کا ہر پھول ایک ایسا شگفتہ پھول ہے جسے سر کا تاج بنا کر فخر کیا جا ئے، تب بھی شاید اس کی عظمت اوراس کے تقدس کا حق ادا نہ ہو سکے اورکیسے ہو سکتا ہے ، ایک تجلی گاہِ ربوبیت ہے؛ جب کہ دوسرا تجلی گاہِ عبدیت ہے، کون ہے اورکس کی مجال ہے کہ وہ حقِ مقام الوہیت اورحقِ مقام عبدیت ورسالت کی ادائیگی کا دعویٰ کر نے کی جرأت کر سکے؟! ایک دنیا کے بت کدوں میں پہلا خانہٴ خدا ہے ؛ جب کہ دو سرا ہجرتِ گاہ سرکارِ دوعالم کا حسنِ انتخاب ۔

ہر وہ چیز جس کا تعلق حرمین شریفین سے ہو مسلمانوں کے نزدیک اس میں عزت واحترام کا مفہوم کچھ زیادہ ہی پا یا جا تا ہے؛ مکہ مکرمہ (زاد ہا اللہ شرفا ً) کی عزت وحرمت ،تقدس وتطہیر منجانب اللہ مقرر کردہ ہے؛ اسی لیے وہاں کے ذرات بھی سرمہ چشم بنا ئے جا نے کے لائق ہیں۔

خانہٴ خدا کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ”مقامِ ابراہیم“ ہے،ہمارے ایمان ویقین کا یہ اٹوٹ حصہ ہے کہ جیسے بیت اللہ ، مقدس ومحترم ہے ویسے ہی ہر وہ چیز مقدس ومحترم ہے جس کا تعلق بیت اللہ شریف سے ہو، ذیل میں موضوع کی مناسبت سے ”مقامِ ابراہیم کی شرعی اورتاریخی حیثیت“ پیش کر نے کی ناتمام کوشش کی جا رہی ہے ؛ تاکہ یہ معلومات ہمارے ایمان ویقین میں مزید پختگی کا سبب بن سکیں۔

مقام ابراہیم سے واضح ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کا تعلق ابو الانبیاء وسید نا حضرت ابراہیم علیہ الصلاةوالسلام سے ہے، دینِ اسلام میں بہت ساری چیز یں ایسی ہیں، جو حضرت کی یادگار ہیں، یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کو ”دینِ حنیف “ بھی کہا جا تا ہے، حنیف حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کا خاص لقب ہے ، حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کی یادگار چیزوں میں سے ایک مقامِ ابراہیم بھی ہے۔

مقامِ ابراہیم کیا چیز ہے ؟
کھڑے آدمی کے پاوٴں جس جگہ پر ہوں اس کو عربی میں ”مقام“ کہتے ہیں اوریہاں مقامِ ابراہیم سے مراد وہ مبارک پتھر ہے، جس کو حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰة والسلام کعبہ کی تعمیر کے وقت اٹھا کر لائے تھے ؛ تاکہ خلیل اللہ اس پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی دیواریں اوپر اٹھائیں ۔

بعض روایات میں ہے کہ تعمیر کی بلندی کے ساتھ ساتھ یہ پتھر خود بخود بلند ہو جا تا تھا اورنیچے اتر نے کے وقت نیچا ہو جا تا تھا اوریہی وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام نے کھڑے ہو کر حج کا اعلان کیا تھا ۔ (شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام ج: 1/ ص: 270، الباب السادس عشر ، دارالکتب العلمیہ، بیروت1421ھ)

مقام ابراہیم کی فضیلت
مقام ابراہیم کی فضیلت کا ثبوت قرآن وحدیث دونوں سے ہے:
قرآن میں ہے : ﴿ فِیْہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیْمَ﴾ (آل عمران : 97) اس میں کچھ تشریعی اورکچھ تکوینی کھلی نشانیاں ہیں من جملہ ان نشانیوں کے ایک مقام ابراہیم (نشانی )ہے ، یعنی خانہٴ کعبہ کی خصوصیات اورفضائل میں سے ایک ”مقامِ ابراہیم “ ہے؛اسی لیے قرآن کریم نے اس کو مستقل طور پر علیحدہ بیان کیا ہے۔

سب سے بڑا شرف اس مقام کو یہ حاصل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس پتھر کے قریب نماز کی جگہ بنالیں ؛ چناں چہ روایت میں ہے :
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین چیزوں میں اللہ نے میری تائید فرمائی ہے ۔ 1.مقام ابراہیم میں۔2. حجاب میں3. اوربدر کے قیدیوں کے بارے میں۔ ( مسلم رقم الحدیث: 2399، باب من فضائل عمر)

یعنی حضرت عمر  نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے یہ خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ کاش! یہاں نماز پڑھنے کا حکم ہو تا، تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت : ﴿واتخذوا من مقام ابراہیم مصلیٰ﴾اتاری ؛ اسی لیے اب ہر طواف کر نے کے لیے ضرور ی ہے کہ سات چکر پورے کر نے کے بعد وہاں دورکعت نماز پڑھی جا ئے، چناں چہ حضرت جابر  رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حج کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ہم راہ بیت اللہ کے پاس پہنچے تو آں جناب نے حجر اسود کا بوسہ لیا، پھر تین چکروں میں رمل کیا اورچار چکر وں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس تشریف لائے اورآیت ﴿واتخذوا من مقام ابراہیم مصلیٰ﴾ تلاوت فرمائی اوراس طرح کھڑے ہو ئے کہ مقام ابراہیم اوربیت اللہ آپ کے سامنے تھے۔ ( صحیح مسلم، رقم الحدیث:1218، باب حجة النبی صلی الله علیہ وسلم )

جنت کا یاقوت
اس پتھر کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ یہ جنت کے یاقوتوں میں سے ایک ہے ؛ جیسا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
حجر اسود اورمقامِ ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں؛ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کی چمک اورنورانیت کو ختم نہ کیا ہو تا تو ان کی چمک سے مشرق ومغرب کے درمیان سب کچھ روشن ہوجا تا ۔(ترمذی: رقم الحدیث : 878)

مقام ابراہیم واقعی جنت کا پتھر ہے؟
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(1114ھ-1176ھ) نے حجة اللہ البالغہ کے اندر اس سلسلے میں بحث کی ہے ، اس کی شرح ”رحمة اللہ الواسعہ “ میں ذرا تفصیل سے ہے؛ مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب لکھتے ہیں :
صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں (حجر اسود اورمقام ابراہیم ) دراصل جنت کے پتھر ہیں، جب ان کو زمین پر اتارا گیا تو حکمت الٰہی نے چاہا کہ ان پردنیوی زندگی کے احکامات مرتب ہوں ؛ کیوں کہ جگہ کی تبدیلی سے احکام میں تبدیلی آتی ہے، ایک اقلیم کا آدمی دوسری اقلیم میں جابستا ہے تو رنگ ، مزاج اورقدوغیرہ میں تبدیلی آجا تی ہے ؛ چناں چہ زمین میں اتار نے کے بعد ان کی روشنی مٹادی گئی اوروہ زمین کے پتھروں جیسے نظر آنے لگے ، اس صورت میں ان کی فضیلت کی وجہ ان کا جنّتی پتھر ہو نا ہے اورضعیف قول یہ ہے کہ یہ زمین ہی کے پتھر ہیں اورحدیث فضیلت کا پیرایہ بیان ہے، شروح مشکاة : مرقات وطیبی میں یہ قول ذکر کیا گیا ہے ، مگر کوئی دلیل ذکر نہیں کی ، شاہ صاحب رحمة اللہ نے حضرت علی  کے والاتبار صاحب زاد ے حضرت محمد بن الحنفیہ کا قول ذ کر کیا ہے کہ حجر اسو د زمینی پتھر ہے، مگر مجھے یہ قول تلاش کے باوجود نہیں ملا، اس صورت میں فضیلت کا راز یہ ہے کہ ان پتھروں کے ساتھ قوت مثالیہ، یعنی ایک روحانیت مل گئی ہے ؛کیوں کہ ملا ئکہ کی توجہ ان کی شان بلند کر نے کی طرف مبذول رہتی ہے اورملاء اعلیٰ کی اورنیک انسانوں کی خصوصی توجہات ان کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، اس لیے یہ پتھر جنّتی پتھر، یعنی متبرک ہوگئے ہیں، جیسے ایک چیز عرصہ تک کسی نیک آدمی کے استعمال میں رہتی ہے تو وہ متبرک ہو جاتی ہے۔ ( رحمة اللہ الواسعة: 4/243زم زم پبلشرز، کراچی)

جنّتی پتھر ہونا یہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے، زمینی پتھر ہونا محمد بن حنفیہ کا قول ہے، ابن عمر و صحابی ہیں اورمحمد بن حنفیہ تابعی ہیں، ان کا قول حدیث کے ہم پلہ نہیں ہو سکتا ؛ اس لیے مقامِ ابراہیم کا جنتی پتھر ہو نا راحج ہے؛ چناں چہ علامہ ازرقی(م:نحو250ھ) نے ابن عباس  سے نقل کیا ہے:
أنزِلَ الرکنُ والمَقَامُ مع آدم علیہ السلام لَیلَةَ نَزَلَ بینَ الرکنِ والمقامِ․ ( أخبار مکة : 1/ 325 المکتبة الشاملة)

قبولیتِ دعا کی جگہ
تاریخِ مکہ مکرمہ میں ہے:
مقام ابراہیم علیہ السلام وہ جگہ ہے جہاں دعائیں قبول ہو تی ہیں ، حضرت حسن بصری اوردیگر علماء سے منقول ہے کہ مقامِ ابراہیم کے پیچھے دعا قبول ہوتی ہے۔( رسالة الحسن البصری :2/291 )
        حریم قدس میں دے حاضری بہ قلبِ صمیم
        دعائیں مانگ بروٴے مقامِ ابراہیم
                    (تاریخ مکة المکرمة :76، مطابع الرشید،المدینة المنورة،2002ء)

حضرت ابراہیم کے پاوٴں کے نشانات
مقام ابراہیم کی پانچویں فضیلت یہ ہے کہ اس میں حضرت کے پاوٴں کے نشانات موجود ہیں، حضرت ابراہیم اس پتھر پر دومرتبہ چڑھے ، ایک تعمیر کعبہ کے وقت ، دوسرے اعلان حج کے وقت ، اللہ تعالیٰ نے اس پتھر کو یہ شرف بخشا کہ اس پر حضرت کے پیروں کے نشانات باقی رہ گئے، مٹے نہیں،ایسا اِس لیے کیا گیا ؛ تاکہ یہ ایک نشان اوریادگار بن جائے، اللہ کا ارشاد ہے:
﴿فیہ آیات بینات مقام ابراہیم ﴾ ( آل عمران :97) (أخبار مکة للأزرقي :1/68)

چوں کہ یہ نشانی من جانب اللہ تھی، اس لیے باقی رہی، عرب کے زمانہٴ جاہلیت کے لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا تھا، اس کی تائید اس شعر سے ہوتی ہے جو سیرت ابن ہشام میں ہے، شعر ابوطالب کاہے:
        وموطئ ابراہیم فی الصخر رطبةٌ
        علی قدمیہ حافیاً غیر ناعل
یعنی اس پتھر میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے دونوں پیروں کے نشانات تازہ ہیں، جن میں جوتی نہیں ہے۔ (السیرة النبویة لابن ھشام: 1/273 المکتبة الشاملة)

کیاوہ نشانات اب بھی ہیں؟
ابن کثیر (م:774ھ) نے حضرت انس بن مالک  سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم میں حضرت کے پیروں کی انگلیاں اورآپ کے تلو ے کا نشان دیکھا تھا؛ لیکن لوگوں کے چھونے کی وجہ سے وہ نشان مٹ گیا اورحضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنے کاحکم تھا، اسے چھونے کا حکم نہیں تھا، اس امت نے بھی اگلی امتوں کی طرح بلاحکم ایسے بعض کام اپنے ذمہ لازم کر لیے جو نقصان دہ ہیں، وہ نشانات لوگوں کے ہاتھ لگانے سے مٹ گئے۔ (تفسیر ابن اکثیر: 1/417 المکتبة الشاملة)

ان تصریحات سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ نشانات مٹ گئے ؛ لیکن مقام ابراہیم کا سعودیہ سے جو عکس شائع ہوا ہے، اس میں نشان دکھائی دیتاہے، اوردیکھنے والے بھی بتا تے ہیں کہ نشانات اب تک موجود ہیں اوریہی قرین قیاس بھی لگتا ہے، کیوں کہ مقام ابراہیم کو اللہ نے نشان اوریادگار بنایا ہے، یہ یاد گار اسی وقت ہوگا جب کہ نشانات بدستور سابق باقی رہیں، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھا ہے: ”وہوآیة من آیات اللہ، ظہرت علی سید نا ابراہیم․ “( حجة اللہ :2/97، قصة حجة الوداع ،المکبتة الشاملة)

اوراس کے ثبوت پر مندرجہ ذیل دلائل ملاحظہ فرمائیں:
فیہ آیات بینات (آل عمران: 97) کے بارے میں حضرت مجاہد سے منقول ہے : ”أي قدمہ في المقام آیة بینة “ کہ مقام ابراہیم کے قدم واضح نشانی ہے ۔( أخبار مکة فی قدیم الدھر وحدیثہ للفاکھی: ج:1/ ص: 450، المکتبة الشاملة)

علامہ فاکہی(217-275ھ) نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے، جس میں ہے: ”فکان اثرہ فیہ“ کہ حضرت کے آثار اس میں ہیں۔ ( اخبار مکة : ج:1/ ص:442)

علامہ فاکہی نے ہی نشانات کے ثبوت پر عَجَّاج کے اشعار سے استدلال کیا ہے۔ وہ اشعار یہ ہیں #
        الحمدُ للہِ العَليِّ الأعظَمِ
        باني السماواتِ بِغَیرِ سُلَّمِ
        ورَبِّ ہَذَا الأثَرِ المُقَسَّمِ
        مِنْ عَہْدِ إبراہیمَ لَمْ یُطَسَّمِ
                    (اخبار مکة للفاکہی: ج:۱/ ص: 451)
دوسرے شعر میں حضرت ابراہیم کے ان مٹ نشان قدم کے رب کی قسم کھائی گئی ہے ۔

اورتقریباً مکہ کی تاریخ لکھنے والے سارے مصنفین نے نشانات کا تذکرہ کیا ہے؛ بلکہ اکثر کتابوں میں حضرت کے پاوٴں کے نشانات کا عکس بھی شامل کیا گیا ہے، چناں چہ ” تاریخ مکة المکرمة قدیماً وحدیثاً “ میں ڈاکٹر محمد الیاس عبد الغنی نے وہ عکس شائع کیا ہے ، اس کتاب کا ایک اقتباس پڑھیے جس سے ثبوتِ اثر پر استدلال کرنا آسان ہے ، لکھتے ہیں:
”حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے مبارک قدموں کے نشانات پتھر جیسی سخت چیز پر ظاہر ہو نا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص وموٴمن بندہ کے لیے ہر چیز مسخر فرما دیتے ہیں، واضح رہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاوٴں مبارک آپ کے جد امجد حضرت براہیم علیہ الصلوٰة السلام کے پاوٴں مبارک سے بہت زیادہ مشابہ تھے، جیساکہ ایک صحابی حضرت جہم بن حذیفہ  جو کعبہ کی تعمیر قریش اورتعمیر ابن زبیر میں شریک تھے، فرماتے ہیں کہ آ نحضور صلی الله علیہ وسلم کے قدمین شریفین کے نشانات مقام ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے پاوٴں کے بہت مشابہ تھے۔“ (تاریخ مکة :77)

تطبیق
ہاں! اگر یہ کہہ لیا جائے کہ لوگوں کے چھونے کی وجہ سے صرف انگلیوں کے نشانات مٹ گئے اورقدم کے نشانات باقی ہیں تو ساری روایتوں میں تطبیق ہو جائے گی اوریہی قرین قیاس بھی ہے، کیوں کہ مقام ابراہیم کو بہت بعد میں فریم وغیرہ میں محفوظ کیا گیا، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

مقام ابراہیم دنیا میں کب آیا؟
اخبار مکة للفاکہی کی روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں اتارے گئے ، اسی وقت حجر اسود اوروہ پتھر جو بعد میں ”مقام ابراہیم“‘ کہلا یا دونوں اتارے گئے، ابن عباس  کی روایت میں ہے : اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے ذریعہ حضرت آدم کو سکون بخشا ، یہ دونوں شروع میں بالکل چمک دار تھے، حضرت آدم علیہ السلام نے حجر اسود کو لیا اوراپنے سے چمٹا لیا؛ تاکہ انسیت پیدا ہو ۔ (اخبار مکة: رقم :970، :1/444)

قیام قیامت کے بعد مقام ابراہیم کہاں جا ئے گا ؟
چوں کہ مقام ابراہیم ایک جنّتی پتھر ہے، ؛ لہٰذا دنیا کے خاتمہ کے بعد یہ اورحجر اسود دونوں جنت میں چلے جائیں گے اورکل قیامت کے روز یہ دونوں پتھر ان لوگوں کے حق میں گواہی بھی دیں گے، جنہوں نے ان کا حق ادا کیاہوگا :
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال: الرکن والمقام یاقوتتان من یا قوت الجنة، وإلیہا یصیران․ “ (أخبار مکة للفاکہي : رقم : 969،1/443)

عن مجاہد انہ قال: یأتي یوم القیامة الرکن والمقام، کل واحد منہما مثل أبي قبیس، یشہدان لمن وافا ہما بالموافاة․“ ( أخبارمکة للأرزقي : ج: 1، ص:326)

مقام ابراہیم تلاش کر نے والا
سرکار دوعالم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سلسلہ نسب میں ”الیاس بن مضر“ کا نام آتا ہے، ان کے بار ے میں آتاہے کہ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مقامِ ابراہیم ( اس وقت اس کا نام مقامِ ابراہیم نہیں تھا) دریافت کیا، جو طوفانِ نوح کے وقت بیت اللہ کے ساتھ غرق ہو گیا تھا، الیاس بن مضر نے اس کو بیت اللہ کے زاویہ میں رکھا۔

فکان إلیاس أول من ظفر بہ فوضعہ في زاویة البیت․ (حیاة الحیوان،البدنة: ج:1/ ص: 168، المکتبة الشاملة)

لیکن صاحب السیرة الحلبیة(م:1044ھ) نے اس قو ل کو حیاة الحیوان کے حوالے سے نقل کیاہے اوراخیر میں فلیتأمل لکھا ہے، یعنی مذکورہ بات قابلِ غور ہے۔ ( السیر ة الحلبیة : ج: 1/ص:27،المکتبة ا لشاملة)

مقام ابراہیم کی جگہ کی تعیین
مقام ابراہیم  کی اصل جگہ کون سی ہے، سہولت کے لیے اسے تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں:
1..حضرت ابراہیم کے دور میں کہا ں تھا؟2.. زمانہ جاہلیت میں کہاں تھا؟3.. عہد رسالت میں کس جگہ تھا؟ تفصیل درج ذیل ہے ۔

حضرت ابراہیم سے پہلے وہ کہاں تھا اس سے بحث نہیں ؛ کیوں کہ اس وقت اسے مقامِ ابراہیم کانام نہیں ملا تھا ۔

حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام جب خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہو ئے تو مقام ابراہیم کو کہاں رکھا تھا؟ اس میں دواحتمال ہے1.. یا تو کعبہ کے اندر رکھ دیا تھا 2..یاکعبہ کے دروازے کے پاس گڑھے میں رکھا تھا۔

زمانہ جاہلیت میں لوگوں نے خانہ کعبہ کے اندر ہی رکھا تھا، اورزیارت ومشاہد ے کے لیے خانہ کعبہ سے نکالتے تھے اوروہاں موجود گڑھے میں رکھتے تھے۔

جب مکہ فتح ہوا تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کو خانہ کعبہ کے اندر سے نکال کر خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس موجود گڑھے میں رکھ دیا، پھر جب ﴿واتخذوا من مقام ابراہیم مصلیٰ﴾ آیت نازل ہوئی تو آں جناب نے اسے زم زم کے قریب رکھا؛تاکہ نماز پڑھنے کی وجہ سے طواف میں انقطاع نہ ہو اورنماز یوں اورطائفین کوپریشانی نہ ہو، یہی اس کی اصل جگہ قرار پائی اورحضرت صدیق اورعمر فاروق کے زمانے میں مقام ابراہیم یہیں رہا ۔ (ماخوذ از: شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام: 1/278 ) (جاری)

Flag Counter