Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

19 - 20
ڈپریشن کی دوائیں، خودکشی کا باعث

محترم سید عرفان احمد
	
ڈپریشن․․․ پاکستان سمیت پوری دنیا کا ایک بہت بڑا، اہم اور خطرناک مسئلہ ہے۔ اس سے پیدا شدہ مسائل نے دوا سازی کی صنعت کو ڈپریشن دور کرنے والی دوائیں (Antidepressants) تیار کرنے کا خیال دیا۔ ابتدا میں ان دواؤں نے فوری اثر کے نعرے کی وجہ سے عوام میں خوب مقبولیت حاصل کی، لیکن جیسے جیسے اینٹی ڈپریسنٹس کے شدید مسائل اور مضر اثرات سامنے آتے گئے، ماہرین ان دواؤں کے متبادل کی جانب متوجہ ہوئے۔ امریکا اور یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں اس بارے میں خاصا شعور عام کیا گیا ہے، خاص کر امریکی موقر ادارہ ایف ڈی اے گاہے گاہے اس بارے میں ہدایات جاری کرتا رہتا ہے۔

اس تحریر میں اینٹی ڈپریسنٹس کے خطرات کے بارے میں بتایا گیا ہے اور یہ بھی کہ یہ دوائیں (جیسا کہ دعوا کیا جاتا ہے) کوئی جادو کی پڑیا نہیں ہیں، بلکہ ان کے استعمال سے کئی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی خطرات انھیں استعمال کرنے والے میں پیدا ہوجاتے ہیں۔

کیا آپ کو اینٹی ڈپریسنٹ کی ضرورت ہے؟
ابتدائی اور متوسط درجے کے ڈپریشن کے لیے کسی دواکی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ پوری دنیا میں ”ٹاک تھیراپی“ (Talk Therapy) مثلاً کاؤنسلنگ، کوچنگ اورسی بی ٹی (Cognitive Behavior Therapy) کے ذریعے ڈپریشن کو قابو کرلیا جاتا ہے۔ صرف انتہائی درجے میں کہ جب کلینکل ڈپریشن کی کیفیت پیدا ہوجائے، اینٹی ڈپریسنٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے اگر آپ کا معالج آپ کو پہلے ہی وزٹ میں اینٹی ڈپریسنٹ تجویز کرے تو یہ آپ کا حق ہے کہ آپ تحقیق کریں کہ کیا آپ واقعی اتنے شدید ڈپریشن کے مریض ہیں یا محض آپ کو اینٹی ڈپریسنٹ کی لت میں مبتلا کیا جارہا ہے؟

”نامی“ یعنی نیشنل الائنس آن مینٹل ایلنیس (National Alliance on Mental Illness =NAMI) کے مطابق، یہ کیمیائی دوائیں صرف اُن لوگوں کے لیے مناسب ہیں جو ڈپریشن کی آخری حد پر ہوں اور گفتگو، کوچنگ، کاؤنسلنگ یا سی بی ٹی وغیرہ سے صحت مند نہ ہوسکتے ہوں۔ ڈپریشن کے 95% سے زائد کیس دوا کے بغیر ٹھیک ہونے کے قابل ہوتے ہیں، لیکن اگر اینٹی ڈپریسنٹس کی لت پڑجائے تو وہ عموماً تاحیات اس نشے کا شکار رہتے ہیں۔

اینٹی ڈپریسنٹ کا بے تحاشا استعمال
نامی کے مطابق، اینٹی ڈپریسنٹس کا استعمال گزشتہ چار برس میں 6.5% سے بڑھ کر 10.4% ہوچکا ہے، کیوں کہ لوگ فوری فائدہ اور وہ بھی بلا مشقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ایف ڈی اے نے 2005ء میں ان دواؤں کے بارے میں یہ وارننگ شائع کی کہ ان کے استعمال سے بچوں اور بڑوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ 2007ء میں یہ وارننگ مزید سخت کردی گئی اور متنبہ کیا گیا کہ اینٹی ڈپریسنٹ استعمال کرنے والے 25 سال سے کم عمر کے تمام افراد میں خودکشی کے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ لے رہے ہیں تو بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے برتاؤ میں معمولی سی تبدیلی بھی نوٹ کریں اور اپنے گھر والوں اور معالج کو ضرور بتائیں۔

”نامی“ کی تجویز یہ ہے کہ اگر آپ شدید ڈپریشن میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اب کسی Talk Therapy کے ذریعے آپ کا علاج ممکن نہیں اور معالج نے اینٹی ڈپریسنٹ تجویز کردی ہے، تب بھی یہ دوا بارہ ہفتے سے زائد استعمال نہ کی جائے، کیوں کہ بارہ ہفتے بعد اینٹی ڈپریسنٹ کے خطرات نمایاں ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نامی کے مطابق، ڈپریشن کا مریض خواہ کسی بھی سطح پر ہو اور وہ کوئی بھی دوا لے رہا ہو، ضروری ہے کہ ٹاک تھیراپی سے مدد لیتا رہے۔ پاکستان میں ماہرین نفسیات اور لائف کوچ یہ کام آپ کے لیے کرسکتے ہیں۔

(یہ مضمون Everyday Health نامی ویب سائٹ پر ماہرین کے تحقیقاتی حوالوں کے ساتھ موجود ہے۔)

Flag Counter