Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

15 - 20
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
شرعی پردے کا طریقہ اور اس کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ ایک علاقہ میں شرعی پردہ کا رواج نہیں ہے، اگر کوئی شرعی پردہ اختیا رکرتا ہے تو والدین، رشتہ دار اس سے قطع تعلق کرتے ہیں، درج ذیل امور کا حکم شرعی کیا ہے؟
1..ایک ہی گھر میں کئی بھائی رہتے ہوں، جن کی شادیاں ہو چکی ہوں، اب بھابھیاں چہرہ چھپائے بغیر سامنے آتی ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟
2..مذکورہ حالات کے پیش نظر شرعی پردہ کیسے شروع کیا جائے؟
3..نامحرم رشتہ دار عورت سے پردہ کے ہوتے ہوئے باتیں کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب…واضح رہے کہ پردے کو اسلامی معاشرے میں اہم مقام حاصل ہے، جس پر عمل پیراہونے سے معاشرے میں گناہوں کی شرح تقریباً ختم ہونے لگتی ہے، اس لیے کہ سب سے زیادہ خبیث اور بُری بیماری”بدکاری“ کا پورا کا پورا انحصار بے پردگی اور نظروں کی عدمِ حفاظت پر ہے، چناں چہ قرآن کریم میں پردے کا حکم بطور خاص ازواج مطہرات کو فرماکر ساری اُمت کو اس طرف متوجہ کیا کہ جب پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کی ازواج جیسی پاکیزہ اور شریف ہستیاں پردے کے حکم پر مامور ہیں تو بدرجہ اولیٰ دیگر خواتین پر پردہ کرنا ضروری ہو گا، پھر معاشرے سے اس کی بیخ کنی کے لیے الله رب العزت نے مردوں اور عورتوں کو ”غض بصر“ یعنی نظریں جھکا کر رہنے کا حکم فرمایا اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے نظر کو شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر قرار دیا، جس پر نظر پڑتی ہے اُس کا عکس دل میں لے لیتی ہے، حتی کہ شریعت نے اجنبیہ عورت کو بلا ضرورت اجنبی مرد سے بات چیت کرنے، سلام کرنے ، اس کا جواب دینے اور چھینک آنے پر دعا دینے سے بھی منع فرمایا، چہ جائے کہ وہ اجنبی مرد کے ساتھ خلوت یا سفر کرے اور ضرورت کے وقت اس سے بات چیت کرنے میں سخت لہجہ اختیا رکرنے کی تاکید فرمائی۔

چوں کہ آج کل مسلم معاشرے میں شرعی پردے کا اہتمام نہ ہونے کے برابرہے، حتی کہ جو حضرات اپنے آپ کو دین دار، نمازی، پرہیز گار اورمقتدا بھی سمجھتے ہیں، شرعی پردے کے معاملے میں تساہل اور لچک سے کام لیتے ہوئے اُسے ضروری نہیں سمجھتے، بلکہ اپنے رسمی طور طریقوں، جن میں غیر محرمات سے میل جول، آزادانہ آمدورفت، شرعی پردہ نہ کرنا وغیرہ انتہائی خطرناک اور مُضر اُمور کو کوئی برا کام نہیں سمجھتے، البتہ جواِن امور سے بچنے اور شرعی پردہ کرنے کا اہتمام کرے اُسے کم ظرف ، شکی مزاج، حتی کہ نئی شریعت لے کر آنے والے جیسے خطابات سے نوازتے ہیں، یقیناً ان کا یہ فعل شریعت کی روشنی میں کسی طرح بھی جائز نہیں۔

لہٰذا موجودہ مجموعی صورت حال میں شرعی پردے پر عمل یقینا مشکل کام ہے، لیکن ناممکن نہیں، مرد مؤمن کو چاہیے کہ الله تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اور شریعت مطہرہ کی عظمت کو دل میں رکھتے ہوئے عمل کے میدان میں کود جائے اور اپنی ذات سے بتدریج شرعی پردے کا اہتمام شروع کر دے اور حکمت وبصیرت سے دوسرے قریبی رشتہ داروں کو بھی گاہے گاہے سمجھاتا رہے، اس حکم شرعی کی اہمیت وعظمت اور اس کے دنیوی واُخروی فوائد اُن کے سامنے بیان کرتا رہے اور بے پردگی کے دنیوی واخروی نقصانات سے بھی انہیں آگاہ کرتا رہے، اس دوران ان کی نازیبا باتوں پر صبر کرے اور ان کے سخت رویے کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرے اور اگر نوبت ناراضگی یا قطع تعلق تک پہنچ جائے تو پھر بھی ”لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“ کے تحت اپنے مؤقف وعمل سے پیچھے نہ ہٹے اورنہ ہی پریشان ہو، بلکہ برابر اُن کی ہدایت اور اپنی ثابت قدمی کے لیے الله پاک کے حضور دعا مانگتا رہے، انشاء الله امید ہے کہ الله تعالیٰ ضرور وہ دن لائیں گے جب ہمارا معاشرہ شرعی پردے کا خوگر ہو گا۔ اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

1..ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے غیر محرم بھابھیوں وغیرہ سے پردے کیصورت یہ ہو سکتی ہے کہ اپنے آپ کو جتنا ہو سکے اُن سے اختلاط سے بچایا جائے، غیر ضروری گفت گو اور ہنسی مذاق سے اجتناب کرے اور اپنی نظروں کو حتی الامکان نیچے رکھنے کا اہتمام کرے اور غیر محرمات کو بھی چاہیے کہ غیر محارم کے سامنے بلا ضرورت آنے سے پرہیز کریں اور ضرورت کے وقت اپنے دوپٹے کا گھونگھٹ ذرا نیچے چہرے کی طرف لٹکا دیا کریں۔

2..اس کا جواب اوپر ذکر کردہ تمہید میں گزر چکا ہے۔

3..نامحرم رشتہ دار عورت سے پردے میں ضروری بات چیت کی گنجائش ہے۔

طویل عرصے بعد موروثی حصے کے مطالبہ کا کیا حکم ہے؟
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سابقہ اور موجودہ رشتہ روا جاً وٹہ سٹہ (ایک کی بچی کا رشتہ دوسرے کے بچے ساتھ اور دوسرے کی بچی کا پہلے کے بچے کے ساتھ) ہوا ہے۔

اکبر کے بھائی کے گھر، عبدالعزیز کی بہن صفیہ کا رشتہ تقریباً دس سال پہلے ہوا او رعبدالعزیر سے اکبر کی بہن جمیلہ کا رشتہ 1978-79 ء میں بوجہ کم سنی بعد میں ہوا۔

ایک ہی خاندان او رایک ہی قوم ہے،زمیندارے کے لحاظ سے بھی تقریباً برابر کے ہیں ، نکاح کے ڈیڑھ سال بعد جمیلہ کے خاوند عبدالعزیز کا انتقال ہو گیا، بعد ازاں جمیلہ کا نکاح عبدالعزیر کے بھائی عبدالسلام سے قریباً1980ء میں ہوا، پرانے رسوم ورواجات کے مطابق والدین نے زمین کا انتقال اپنے بیٹوں کے نام بیع قطعی یا ہبہ وغیرہ کی صورت میں کر دیا، اس وقت بچیاں والدین سے زمین یا جائیداد کا مطالبہ بُرا سمجھتی تھیں۔

جمیلہ کے والد کا انتقال جمیلہ کے نکاح کے تقریباً دس سال بعد (1990ء) میں، جب کہ والدہ کا انتقال 2014ء کو ہوا۔ اب 2016 ء میں جمیلہ اپنے بھائی اکبر سے زمین میں اپنے حصے کا مطالبہ کر رہی ہے، پوچھنا یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد جمیلہ کا زمین میں کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ جب کہ والدین کی موجودگی میں اس نے بھائیوں سے کوئی مطالبہ نہیں کیا، تفصیلاً آگاہ فرمائیں۔

جواب…واضح رہے کہ ورثاء میں سے کسی وارث کا زندگی میں دیگر ورثاء سے اپنے حصے کا مطالبہ نہ کرنے سے اس وارث کا حق میراث ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدستور برقرار رہتا ہے، جس کا زندگی میں وہ خود اور مرنے کے بعد اس کے ورثاء مطالبہ کر سکتے ہیں۔

لہٰذا صورت مذکورہ میں اگر والدین نے زمین بیٹوں کو فروخت کر دی تھی، یا والدین نے ہبہ کر دی تھی اور قبضہ بھی ہر ایک کو اس کا حصہ متعین کرکے دے دیا تھا تو ان دونوں صورتوں میں زمین بیٹوں کی ملکیت ہو گی اورمحترمہ جمیلہ کو اپنے بھائیوں سے مطالبہ کا حق نہ ہو گا او راگر ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو تو پھر محترمہ جمیلہ کو اپنے موروثی حصے کو اپنے بھائیوں سے وصول کرنے کا مکمل حق ہے او ربھائیوں پر لازم ہو گا کہ وہ زمین میں سے اپنی بہن کو اس کا حصہ دیں، اگرچہ بہن نے والدین کی موجودگی میں کوئی مطالبہ نہ کیا ہو۔

قسطوں پر اشیاء کی خرید وفروخت کا حکم کیا ہے؟
سوال… میرا نام……ہے، میر ی عمر27 سال ہے، 2014ء میں میں نے ایک کام شروع کیا تعبیر ایسوسی ایٹس کے نام سے، جس میں، میں لوگوں کو رقم دیا کرتا تھا اور اس پر سود لیا کرتا تھااور یہ سود ہے میں اس بات سے ناواقف تھا، مثلاً:

میں کسی کو دس ہزار روپے دے کر سال میں ان سے بارہ ہزار، یعنی ماہانہ ہزار روپے وصول کیا کرتا تھا، اتفاق سے ایک دن خطبے کے دوران پتا چلا کہ پیسے کے عوض زائد پیسہ لینا سود ہے۔

اب میں جنوری2016ء سے ایک آفس کی شکل میں کام کر رہا ہوں، میں اور میرے ورکرز گھر گھر جا کر لوگوں سے ان کی ضروریات معلوم کرتے ہیں او رانہیں ان کی اشیاء ضرورت ان کی مرضی کی دکان سے خرید کر دیتے ہیں، مثلاً: فریج، واشنگ مشین، ٹی وی، اے سی، موبائل، سلائی مشین، کیمرہ، گھریلو راشن کا سامان، موٹر سائیکل، کارچوبی کا سامان وغیرہ شامل ہے، اور دکان سے خریدی ہوئی اشیائے ضرورت ہم اپنے ممبران کو 30 فی صد منافع کے ساتھ فروخت کرتے ہیں، جس کی ادائیگی 10 مہینے میں وصول کرتے ہیں، مثلاً: دس ہزار کی مشین خرید کر ہم اپنے ممبر کو تیرہ ہزار روپے کی فروخت کرتے ہیں، یا ایسے کہنا بھی صحیح ہو گا کہ جس چیز کی قیمت بازار میں نقد دس ہزار ہے ہم اسے قسطوں پر تیرہ ہزار روپے کی فروخت کرتے ہیں، کیا یہ بھی حرام ہے ؟ کیا یہ بھی سود ہے؟ یہ کام غلط تو نہیں؟

جواب… واضح رہے کہ اُدھار قسطوار خریدوفروخت کی صورت میں نقد کے مقابلہ میں قیمت زیادہ رکھنا شرعاً جائز ہے، یہ سود نہیں، جیسا کہ عامة الناس میں مشہور ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعةً ممبران کے ساتھ قسطوار عقد کرتے وقت، قسط کی مدت اور قسط کی مقدار متعین ہو ( مثلاً: ماہانہ ایک ہزار روپے دینے ہیں)، نیز کسی ممبر کا بروقت قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں طے شدہ قیمت پر اضافی جرمانہ عائد نہ ہو ، تو آپ کا یہ کاروبار کرنا شرعاً درست ہے۔

تنبیہ… قسطوار قیمت کی تعیین کرتے وقت بہت زیادہ منافع نہ رکھیں، قسطوں کی ادائیگی میں ممبران کے ساتھ حتی الوسع نرمی کا معاملہ کریں، تو آپ کا یہ کاروبار عبادت میں شمار ہو گا، نیز آلات معصیت (ٹی وی ، وی سی آر، ڈش وغیرہ) کی خرید وفروخت سے اجتناب کریں، کیوں کہ ان چیزوں کی خرید وفروخت جائز نہیں او رکمائی بھی حلال نہیں، اگر کوئی ممبران چیزوں میں سے کسی چیز کا مطالبہ کرے تو آپ اسے مسئلہ سمجھا کر صاف انکار کریں، الله تعالیٰ ہر جائز کام میں آپ کا معاون ہو۔ آمین

بالوں کو کالا رنگ لگانا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کہ بارے میں کہ داڑھی کے بالوں میں سیاہ خضاب لگانے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر کسی کے ایک ہی جگہ کے کئی بال سفید ہو گئے ہوں، بیماری کی وجہ سے، حالاں کہ باقی تمام داڑھی کالی ہے، جس کی وجہ سے وہ اس کو معیوب سمجھتاہے تو کیا اس جگہ کے بالوں کوکالا کر سکتا ہے ؟ تاکہ برُا نہ لگے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ شادی وغیرہ ضروریات کے لیے داڑھی کالی کر سکتا ہے ؟ برائے کرم وضاحت فرماکر ممنون ومشکور فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ داڑھی اور سر کے بالوں میں سیاہ رنگ لگانا اور سفید بالوں کو داڑھی سے نوچنا عام حالات میں جائز نہیں، البتہ کالا رنگ لگانے کا حکم اغراض کے بدلنے کی وجہ سے بدل جاتا ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہے:

1..مجاہد کا دشمنوں پر رعب ڈالنے کے لیے کالا خضاب لگانا اور سر کے سفید بال نوچنا جائز ہے، بلکہ مستحسن وپسندیدہ ہے ،اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

2..چالیس سال سے پہلے بیماری کی وجہ سے سفید بال نکل آئیں تو اس کونوچنا (بشرطیکہ زیادہ نہ ہوں) اور کالا خضاب لگانا، ازالہ عیب کے لیے جائز ہے، تاکہ بُرا نہ لگے ، کیوں کہ سفید بال قبل از وقت عیب شمار ہوتے ہیں اور ازالہ عیب شرعاً درست ہے۔

3..بڑی عمر کے آدمی کا اپنے آپ کو جوان دکھانے کے لیے کالا خضاب لگانا ناجائز ہے، کیوں کہ یہ دھوکہ ہے اور دھوکہ کی حرمت پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

مندرجہ بالاتفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1..کالا خضاب سر اور داڑھی کے بالوں میں لگا ناجائز نہیں، البتہ خالص سیاہ خضاب کے بجائے سرخی مائل خضاب لگانادرست ہے۔
2..چالیس سال سے پہلے اگر شادی کرنی ہو تو کالا رنگ لگانے کی اجازت ہے ، لیکن چالیس سال کے بعد لگانا ناجائز ہے، کیوں کہ یہ دھوکہ ہے۔

دل سے حسد ختم کرنے کی دعا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ حسد نہ کرنے کی دعا بتائیے، تاکہ مجھے حسد اور جھلسی نہ ہو۔

جواب… حسد ختم کرنے کے لیے ایک تو الله تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہیں، آپ اس کے لے دعا کریں کہ یا الله! جو نعمت آپ نے اسے دی ہے، اس میں ترقی عطا فرما اور اسے اس کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور مجھے بھی اس نعمت سے مالا مال فرما اور اس کے ذریعہ اپنا قرب عطا فرما اور ہم دونوں کو اپنی نافرمانی سے دور رکھ۔

دوسرا کام یہ کریں کہ مندرجہ ذیل دعاؤں کا آپ روزانہ اہتمام کریں، ان شا ء الله تعالیٰ !الله کی ذات سے امید ہے کہ اس سے آپ کے دل کا حسد ختم ہو جائے گا: ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ﴾․(سورة الحشر:10)
ترجمہ:” اے ہمارے رب! بخش دے ہمیں اور ہمارے اُن بھائیوں کو جو ہم سے آگے پہنچے ایمان میں اور نہ کر ہمارے دلوں میں کدورت ایمان و الوں کے ساتھ، اے ہمارے رب! تو بہت مہربان، رحم والا ہے۔“

”اَللّٰھُمَّ إِنَّیْ أَعُؤذُبِکَ مِنْ شَرِّ سَمْعِیْ وَ مِنْ شَرِّ بَصَرِيْ وَمِنْ شَرِّقَلْبِیْ وَمِنْ شَرِّ مَنِیِّیْ․“(جامع الترمذی، أبواب الدعوات، باب اللّٰھم إنی أعوذبک…، رقم الحدیث 3492، ص:796، دارالسلام)
ترجمہ:” اے الله! میں تیری پناہ لیتا ہوں اپنے کان کی برائی سے ، آنکھ کی برائی سے ، دل کی برائی سے ( یعنی غیبت سننے، بد نظری، ناجائز گفتگو اور کینہ وغیرہ سے ) او راپنی منی کی برائی سے (کہ اس کے ہیجان سے گناہ کی رغبت ہو)۔“

”رَبَّ أَعِنِّيْ وَلاَ تُعِنْ عَلَيَّ، وَانْصُرنِيْ وَلاَ تَنْصُرْ عَلَيَّ، وَامْکُرْلِيْ وَلاَ تَمْکُرْ عَلِيَّ، وَاھْدِنَا وَیَسِّرْلِيْ الْھُدیٰ، وَانْصُرْنِيْ عَلیٰ مَنْ بَغیٰ عَلَيَّ، رَبِّ اجْعَلْنِيْ لَکَ شَکاَّراً، لَکَ ذَکاَّراً، لَکَ رَھَّاباً، لَکَ مِطْوَاعاً، لَکَ مُخْبِتاً، إِلَیْکَ أَوَّاھاً مُنیِبْاً، رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِيْ، وَاغْسِلْ حَوبَتِیْ، وَأَجِبْ دَعْوَتِي، وَثَبِّتْ حُجَّتِیْ، وَسَدِّدْ لِسَانِيْ، وَاھْدِ قَلبِي، وَاسلُلْ سَخِیمَة صَدْريٴ․“(السابق، باب رب أ عنی ولا تعن علی، رقم الحدیث3551، ص:809)
ترجمہ:” اے رب! مدد کر میری اور میرے مقابلہ میں کسی کی مدد مت کر اور فتح دے مجھے او رمیرے اوپر کسی کو فتح نہ دے اور تدبیر کرمیرے لیے اور میرے اوپر کسی کی تدبیر نہ چلا اور ہدایت کر مجھے اور آسان کر ہدایت میرے لیے اور مجھ کو مدد دے اس پر جو مجھ پر زیادتی کرے۔ اے رب! کر دے مجھے ایسا کہ میں تیر ا بہت شکر کیا کروں ، تجھے بہت یاد کیا کروں، تجھ سے بہت ڈرا کروں، تیری بہت فرماں برداری کیا کروں، تجھ ہی سے سکون پانے والا، تیری ہی طرف متوجہ ہونے والا، رجوع رہنے والا۔ اے رب! قبول کر میری توبہ اور دھو دے میرے گناہ اور قبول کر میری دعا اور قائم رکھ میری حجت اور راست رکھ میری زبان اور ہدایت دے میرے دل کو اور نکال دے میرے سینہ کی کدورت۔

Flag Counter