Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

16 - 20
گوہر شاہی فتنے کی از سر نو سرگرمیاں

مولانا محمد اعجاز مصطفی
	
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں پر بہت سے سال ایسے آئیں گے جن میں دھوکا ہی دھوکا ہوگا۔ اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، بددیانت کو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت اور رویبضہ (گرے پڑے نااہل لوگ) قوم کی طرف سے نمائندگی کریں گے۔ عرض کیا گیا: رویبضہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ نااہل اور بے قیمت آدمی جو جمہور کے اہم معاملات میں رائے زنی کریں گے۔“ (سنن ِابن ِماجہ ، باب شدّة الزّمان ، ص :292)

موجودہ حالات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آج بعینہ وہی حالات ہیں جس کی نشان دہی نبی آخر الزماں، خاتم الانبیاء، حضرت محمد مصطفی ،احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے فرمادی تھی کہ ہر طرف دھوکا ہی دھوکا ہوگا۔ آج یہ دھوکا ہر طرف نظر آتا ہے، حکام عوام کو دھوکا دینے میں مصروف ہیں اور عوام حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں مشغول نظر آتے ہیں، چھوٹا بڑے کو اور بڑا چھوٹوں کو اندھیرے میں رکھ رہا ہے۔ حتی کہ ہر افسر اپنے ماتحت کو اور ماتحت اپنے افسر کو بھول بھلیاں دینے میں مصروف ہے اور یہ بات معاملات، معاشرت، اخلاق و عبادات سے نکل کر عقائد تک جا پہنچی ہے۔یہ دھوکا ہی تو ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے سچے اور آخری نبی سرور دو عالم، فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت اور تعلق کو تو مشکوک قرار دیا جائے اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے عقیدت اور محبت کا دم بھرا جائے اور اس کی تبلیغ و تشہیر کی جائے۔ پہلے قادیانیت کا فتنہ تھا، جس کا ہمارے اکابر ایک صدی سے قرآن و سنت اور اجماع امت کی روشنی میں دلائل و برہان سے مناظروں، مباحثوں اور مباہلوں کے ذریعے ہر میدان میں مقابلہ کرکے ان کو شکست دے ہی رہے تھے کہ اب یہ گوہر شاہی کا فتنہ سر اٹھارہا ہے، جس کے سرغنے حکومتی غفلت کی بنا پر اپنے لوگوں کی نئی صف بندی کرر ہے ہیں۔

اس لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنماؤں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ انجمن سروفروشانِ اسلام کو دوبارہ منظم ہونے سے روکا جائے اور اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ علمائے کرام نے کہا کہ گمراہ ریاض احمد گوہر شاہی کے چیلوں نے ایک مرتبہ پھر حکومتی سستی و چشم پوشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سادہ لوح مسلمانوں کو دوبارہ شکار کرنا شروع کردیا ہے۔ علمائے کرام نے کہا کہ ہم حکومت سندھ کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ ایک ایسا گم راہ فرقہ جس کی گم راہی کسی سے مخفی نہیں، جس کے خلاف تمام مکاتب فکر کے مفتیان کرام کے فتاویٰ موجود ہیں اور انجمن سرفروشانِ اسلام کی سرگرمیوں پر عدلیہ نے خود پابندی عائد کی تھی، جس پر ٹنڈو آدم، حیدر آباد اور نواب شاہ کے عدالتی فیصلے شاہد ہیں، اس کے باوجود اس گم راہ فرقہ کا ازسر نو منظم ہونا اور سالانہ اجتماع کا اعلان کرنا حکومت اور اداروں کے لیے لمحہٴ فکریہ ہے۔ علمائے کرام نے مطالبہ کیا کہ انجمن سرفروشانِ اسلام کی کفریہ سرگرمیوں پر فوری پابندی عائد کی جائے، کیوں کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں اشتعال پھیل رہا ہے، اگر بروقت کارروائی عمل میں نہ لائی گئی تو حالات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔

اسی طرح آج ہر طرف میڈیا کا شور شرابا ہے، صحیح بات کو غلط انداز میں پیش کرنا اور غلط بات کو سچ بناکر کے پیش کرنا ان کا وطیرہ اور ترجیح بن چکا ہے۔ میڈیا کے ذمہ داران اور اینکرز حضرات میں سے کوئی بھی یہ بات سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ جو کچھ ہماری زبان، ہماری تحریر اور ہمارے میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں انڈیلا،باور کرایا اور دکھایا جارہا ہے، ان میں سے ہر ہر چیز کا ہمیں ایک بڑی عدالت میں حساب اور جواب دینا ہے۔ آج ان آلات اور ذرائع کے ذریعہ اسلامی شعائر ، اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب و اقدار کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔ غیر اسلامی تہذیب اور رسومات کو مرغوب بناکر اس کی پیروی کی تلقین کی جارہی ہے ، جس کی بنا پر ہمارے مسلمان بچوں کو یہودیوں، عیسائیوں، حتی کہ ہندوؤں کی مذہبی رسومات اور خرافات کا تو خوب علم ہے اور ان کو اپنایا بھی جارہا ہے، لیکن بنیادی اسلامی احکام اور اسلامی تعلیمات سے وہ اب تک نابلد ہیں۔ آخر یہ تبدیلی کہاں سے اور کیسے آئی اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ قرآن کریم کا واضح اعلان ہے کہ :

”جو لوگ چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں  ان کے لیے عذاب ہے درد ناک دنیا اور آخرت میں۔“(النور:19) اور”جس دن کہ ظاہر کردیں گی ان کی زبانیں اور ہاتھ اور پاؤں جو کچھ وہ کرتے تھے۔“ (النور: 24)

اسی طرح پاکستان سے لے کر بیرونی دنیا تک جس ملک میں بھی حقیقت بین نگاہوں سے دیکھاجائے تو نظر آئے گا کہ دہشت گردی کی جتنا کارروائیاں ہورہی ہیں ان میں ہر طبقہ کے انسان اور افراد ملوث ہیں، لیکن اس سب کے باوجود دہشت گردی کو بیرونی دنیا میں جوڑا جارہا ہے تو اسلام کے ساتھ اور پاکستان میں جوڑا جارہا ہے تو صرف مذہبی طبقہ، یعنی دینی مدارس اور تبلیغی جماعت کے ساتھ۔ آخر ایسا کیوں؟

میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بھائیوں سے ہر باشعور اور دانش مند آدمی ایک سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ سپریم کورٹ نے جس ویڈیو کو جعلی قرار دیا ہے  جس وقت یہ ویڈیو سامنے آئی تھی اس کو سامنے رکھ کر دین، اہل دین ، داڑھی رکھنے والوں، پگڑی باندھنے والوں، اسلامی طرز کا لباس اور وضع قطع بنانے والوں پر کیا کچھ نہیں کہا گیا تھا؟! کیا اب آپ میں سے کسی کے پاس اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ اس پر پروگرام پیش کرے اور عوام کو بتائے کہ ہم نے جو کچھ تبصرے، تجزیے اور پروگرام اس پر کیے تھے وہ سب جھوٹ کا پلندہ تھے اور ہم اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ سے توبہ اور آپ سب لوگوں سے معافی مانگتے ہیں؟ اگر اس کی اخلاقی جرات نہیں تو پھر بتلایا جائے کہ یہ سب کیوں کیا گیا اور کس کے اشارے پر کیا گیا؟ اور اس پر جو کچھ کمایا گیا یا کھایا گیا تو کیا اس کا جواب نہیں دینا پڑے گا؟

ایک وقت تھا کہ ایک آدمی اگر خود نماز نہیں پڑھتا تھا یا دین پر عمل نہیں کرتا تھا تو اپنے آپ کو قصور وار اور غلطی پر سمجھتا تھا، لیکن آج یہ وقت ہے کہ وہ نماز نہ پڑھنے اور دین پر عمل نہ کرنے کے باوجود اپنے کو صحیح اور حق پر سمجھتا ہے اور نماز پڑھنے والوں، دین پر عمل کرنے والوں کو نہ صرف یہ کہ بُرا بھلا کہتا ہے، بلکہ دوسروں کو بھی ان سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ایسے صحافی ، اینکرز یا اداروں میں براجمان اُن حضرات سے ․․․جو اس مذکورہ بالا سوچ کے حامل ہیں․․․ صد آداب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ دین کی خدمت ہے یا دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش؟ کیا آپ نے یہ بھی سوچا کہ اگر آپ کی ان کوششوں سے دین کے بارے میں کسی کے دل میں استخفاف آ گیا یا وہ دین سے پھر گیا اور مرتد ہوگیا تو اس کا وبال کس پر ہوگا؟ اور کیا یہ وبال سہنے کی آپ میں ہمت ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو آپ لوگ اس مغربی ایجنڈے کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی جنگ کا کیوں حصہ بنتے ہیں؟ آپ تو جرات، ہمت اور استقامت کے ساتھ اسلام، اہلِ اسلام اور اسلامی شعائر کا مقدمہ لڑیں۔ اس لیے کہ آپ مسلمان ہیں، مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں اور ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں، جب آپ اسلام کی حمایت اور اہل ِ اسلام کا دفاع کریں گے تو ان شاء اللہ! اس سے دنیا میں بھی آپ کو نیک نامی ملے گی اور آخرت بھی آپ کی سنور جائے گی۔

Flag Counter