Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

6 - 20
درس نظامی میں اصول حدیث کی ضرورت واہمیت

محمد عمرفاروق صادق آبادی
	
برّصغیر پاک وہند میں صدہا سال سے دینی مدارس کاقیام چلا آرہا ہے،یوں تو تعلیم وتعلّم کا سلسلہ اسی وقت سے مساجد میں شروع ہوگیا تھا جب محمد بن قاسم برّصغیر میں فاتح بن کر داخل ہوئے تھی،مگر باقاعدہ آغاز قطب الدین ایبک کے عہد حکم رانی میں ہوااور قائم کیے جانے والے بڑے بڑ ے مراکز میں باضابطہ دینیات کی تدریس کاسلسلہ جاری ہوا۔

ان مدارس میں مختلف نظامہائے تعلیم رائج رہے،مولانا حکیم عبدالحئی لکھنوی  کی تحقیق کی روشنی میں ہندوستانی نظام تعلیم پرچارمراحل و ادوار گزرے ہیں، جن میں جدا جدا نصاب کے ذریعے تشنگان علوم کی سیرابی کا سامان کیا جاتا رہا،لیکن تقریبا ڈھائی سوسال سے ملاّ نظام الدین فرنگی محلی کا مرتب کردہ نصاب تعلیم ہندوستان کی درس گاہوں میں معروف ومقبول ہے، ہند وپاک کے اکثر محققین کی تحقیق کے مطابق ”درس نظامی“کے نام سے مشہورنصاب ملا ّنظام الدین ہی کی علمی یادگار ہے ۔

ملاّنظام الدین کے آباؤ و اجداد افغانستان کے علاقہ ہرات کے رہنے والے تھے ،وہاں سے ہجرت کرکے لکھنؤآئے اورشہر سے تھوڑے فاصلے پر سہالی نامی مقام پر آباد ہوگئے،اسی نسبت سے آپ کے نام کے سا تھ سہالوی بھی لکھا جاتا ہے ،جب آپ کا خاندان یہاں آکر بسا ،توچوں کہ علم وفضل شروع سے ہی خاندان کا طرئہ افتخار تھا ،ا س لیے بہت جلد درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہوا اورخوب زور وشہرت پکڑگیا،چرچا بادشائہ وقت اکبر تک پہنچا تو اس نے ایک بڑی جائیداد اس خاندان کے نام پر وقف کردی ،جس کی آمدنی سے خاندان کی کفالت کے ساتھ طلبہ کے قیام وطعام کے اخراجات بسہولت پورے ہوجاتے۔

آپ کے والد ملا ّقطب الدین بہت بڑے عالم تھے ، استاد ائمہ فن کے لقب سے مشہورتھے ،نام ور اہل علم آپ کی انجمن درس کے خوشہ چیں رہے، میر غلام علی آزاد بلگرامی کے موصوف کے بارے میں یہ الفاظ ہیں :

”امام اساتذہ ومقتدا جہامدہ است، معدن عقلیات و مخزن نقلیات“۔

آپ کے خاندان کی سربلندی اور شہرت میں آئے دن اضافہ ہونے لگا تو وہاں پرعرصہ دراز سے مقیم عثمانی خاندان سے یہ چیزبرداشت نہ ہوسکی ،دن رات اس خاندان کو ستانا شروع کردیا اور عثمانی شیوخ نے ایک قریب موضع کے خان صاحبان سے موافقت کرکے ملا ّقطب الدین پر شب خون مارا ،ملا ّصاحب کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے کتب خانہ کوبھی نذر آتش کردیا،اس میں آپ کی تصانیف بھی جل کر راکھ ہو گئیں،جن میں ان کا وہ گراں قدر حاشیہ بھی شامل تھا جو علاّمہ دوانی کی شرح عقائدپر انہوں نے تحریر فرمایا تھا ،اس خانہ جنگی سے دل برداشتہ ہو کر آپ کا خاندان لکھنؤ منتقل ہوگیا ،ملاّنظام الدین اس وقت گیارہ برس کے تھے ،یہ اورنگ زیب عالمگیر کا زمانہ تھا،اسے خبر ہوئی تو اس خاندان کی خدمات کے پیش نظر اورنگ زیب نے لکھنؤ میں انہیں جگہ دی اور ایک بڑی کوٹھی ان کے نام وقف کردی ،جو فرنگی محل کے نام سے مشہورتھی،اسے فرنگی محل کہنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کوٹھی میں ایک طویل عرصہ تک فرنگی تاجروں کا قیام رہا تھا، پھر یہی فرنگی محل کالقب ہمیشہ کے لیے اس خاندان کے نام کاحصہ ہوکر رہ گیا۔

ملاّ نظام الدّین کی پیدائش 1677ء میں ہوئی اور وفات 1748ء کوہوئی،کل عمر 75سال پائی،آپ ملاّ قطب الدین شہید سہالوی کے تیسرے فرزند تھے ، مروّجہ علوم کی تعلیم اپنے والد بزرگوارسے اور ان کی شہادت کے بعد حافظ امان اللہ بنارسی اور مولوی قطب الدین شمس آبادی سے لی اور آخر میں مولوی غلام نقشبند لکھنوی سے سند فراغت حاصل کی ۔

آپ بلاشبہ منقولات ومعقولات کے بادشاہ تھے ،درس وتدریس میں ید طولی حاصل تھا،آپ کا حلقہ درس ایک انفرادی اور عالمگیر شہر ت کا حامل تھا ،دوردراز اطراف وامصار اور شہر وقصبات سے طالبان علوم کے قافلے آآکر، آپ کے درس میں علوم ومعارف کے خزانوں سے اپنے دامن علم کو بھرتے تھے ،ہندوستان کے مورخین نے لکھا ہے کہ برصغیر ہند وپاک میں شاید ہی کوئی ہوگاجوان کایا ان کے بیٹوں کایاان کے شاگردوں کاشاگرد نہ ہو۔آپ ظاہر ی وباطنی علوم کے جامع تھے ، حضرت شاہ عبدالرزاق بانسوی قدس سرہ کے مرید تھے ،حضرت بانسوی  آپ کے متعلق فرمایا کرتے تھے :

”نظام الدین ان لوگوں میں سے ہے جن کے متعلق ﴿ان الذین آمنواوعملواالصالحات﴾کا ارشادہے ۔“

آپ  کی تصانیف میں فواتح الرحموت شرح مسلّم الثبوت ، شرح تحریر الاصول لابن الھمام ، شرح منار الاصول ، حواشی قدیمہ دوانیہ ، حاشیہ صدرا ٰ، شرح سلّم العلوم ،حاشیہ شمس بازغہ ، شرح رسالہ مبارزیہ اور مناقب رزاقیہ شامل ہیں۔

ملاّنظام الدین نے اپنے مدرسے کے لیے ایک نصاب ترتیب دیاتھا،جو بنیادی طور پر گیارہ علوم پر مشتمل تھا، جس میں زیادہ زور اس بات پر دیا کہ عربی زبان پر اچھی دست رس حاصل ہوجائے ،اس کے لیے صرف ، نحو اور ادب کی متعدد کتب تجویز کیں ،ان کے علاوہ تفسیر ،حدیث،بلاغت ،فلسفہ ،علم کلام اور منطق جیسے فنون کاانتخاب کیا گیاتھا ،کتب کے چناؤ میں مطوّلات کی بجائے مختصرات پر زور دیا گیا یا مطوّلا ت کامخصوص حصّہ منتخب کرکے بطور درس پڑھایاجاتاتھا ،اس نصاب میں فن حدیث کے حوالے سے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی ، احادیث کی مختصر کتابوں کے درس کے بعد آٹھویں صدی کے عالم خطیب تبریزی کی مرتبہ کردہ مشکوة کے درس پردرس حدیث کاسلسلہ ختم ہوجاتا تھا،لیکن جب شاہ ولی اللہ کازمانہ آیا تو انہوں نے اس نصاب کی تعلیم حاصل کی اوراس کے بعد دیار عرب کا سفر کیا ،وہاں کے بڑے بڑے شیوخ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا اور ان سے سند حدیث حاصل کی ،توآپ نے واپس آکر اس نصاب میں کچھ ترامیم کیں ، معقولات کو کم کرکے اس میں موطا اور صحاح ستہ کو شامل نصاب کردیا۔یوں درس نظامی کے مرتب ملا نظام الدین ہی نہیں رہے، بلکہ شاہ صاحب کے مفیداور خاطر خواہ اضافات و ترامیم کے بعد ان کا حصہ بھی اس میں شامل ہوگیا،حضرت شاہ صاحب کے بعد حالات وزمانے کی ضرورت کے پیش نظردرس نظامی میں معمولی اضافہ وترمیم کا سلسلہ اب تک چلا آرہاہے ۔

شاہ صاحب نے جب کتب احادیث کو شا مل نصاب کیاتوایک کام یہ بھی کیا کہ پہلے جس نصاب میں فقط فقہ حنفی کی تعلیم دی جاتی تھی،کوشش کرکے چاروں فقہ کے مسائل کو مباحث کاحصہ بنادیا، تاکہ طالب علم کی معلومات وسیع تر ہوسکیں اور وہ چاروں فقہ کا گہرائی سے مطالعہ اور موازنہ کرنے کے ساتھ ساتھ موافقت کی صورت نکال سکے ۔

اس وقت سے اب تک ہمارے مدارس میں یہ سلسلہ برابر چلا آرہاہے ،حدیث کی بنیادی مباحث کے درس کے ساتھ فقہائے کرام کے اختلافی آراء کو بھی کافی بسط وتفصیل سے موضوع سخن لایا جاتاہے ،یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام ترفقہی مسائل قرآن واحادیث کے بحربے کراں سے غوطہ زنی کرکے مستنبط کیے گئے ہیں، لیکن قرآن وحدیث سے ان مسائل کے استخراج واستنباط کے لیے فقہا اربعہ میں سے ہر ایک فقیہ نے اپنی تحقیق اور مکمل جستجو کے بعد کچھ اصول وضع کیے ،پھر انہی کی روشنی میں مسائل کی تخریج کی ، اب جب تک ان اصولوں سے شناسائی نہ ہو اس وقت تک ایک عالم ،فقیہ کی دقت نظر اور اس کے علم کی گہرائی وگیرائی سے یکسر بے خبر رہتاہے اور دلیل کی تہہ اورحقیقت تک نہیں پہنچ پاتا،اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ ہمارے مدارس میں اصول حدیث کووہ اہمیت نہیں دی جارہی جس اہمیت کا یہ فن متقاضی ہے ،اوّل تو پورے درس نظامی میں اس فن سے متعلق صرف دو کتب کادرس کادیا جاتا ہے ، جو اس فن میں مناسبت وممارست پیدا کرنے کے لیے ناکافی ہیں ، مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اسی ضرورت کے پیش نظر ارباب مدارس کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

”احادیث کی کتب علی وجہ البصیرة پڑھائی جائیں اور اس کے ساتھ اصول حدیث کی کوئی معیاری کتاب مثلاً تدریب الراوی یا فتح المغیث وغیرہ کا اہتمام ہو ، جو طالب علم کے لیے ازبس ضروری ہے ۔“

شیخ عبدالمالک اپنی کتاب المدخل میں علوم حدیث کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”وأما عصرنا ھذا فی الاعتناء بعلوم الحدیث أضعف وأضعف․․․․․․والواقع أن الحاجة الی معرفة علوم الحدیث الشریف أمر لا یمکن أن یتخلف فیہ اثنان، وحاجة الأمة الی ذلک فی جمیع العصور علی حد سواء، بل قد تجددت فی عصرنا ھذا أمور، وحدثت فتن زادت فی لزوم الاعتناء بھذا العلم أکثر مما کان فی العصور القدیمة ․․․․․“

ہمارے زمانے میں علوم حدیث کی طرف توجہ اور دلچسپی انتہائی کمزور پڑچکی ہے،جب کہ علوم حدیث شریف کی معرفت ایک ایساامر ہے جس میں کوئی دو رائے نہیں،ہر دور میں امت اس کی معرفت کی برابر محتاج ہے، بالخصوص عصر حاضر میں کہ جب ہرطرف سے نت نئے حادثات رونماہورہے ہیں ،فتنوں کااژدھام ہے تو اس علم کی ضرورت اور اس سے اعتناء پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔

دوسری جگہ مستشرقین ،منکرین حدیث وغیرہ فتنوں کاذکرکرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :”قد اشتدت (الفتن) فی ھذا العصر، وفی ھذہ البلاد خاصة،حملات غلاة غیر المقلدین، فقد قاموا بتمزیق صفوف المسلمین وتشتیت کلمتہم، وایقاع التفرق بینھم وتشقیق وحدتھم، ولا سبیل الی رد شبہات ھولاء ایضا الابمعرفة علو م الحدیث․“

اس زمانے میں فتنے خوب شدت سے پھیل رہے ہیں اور پھر خصوصا ہمارے شہروں میں،متعصب اور غالی غیر مقلدین کی ہنگامہ آرائیاں زوروں پرہیں ،یہ ایک حقیقت ہے کہ فتنہ بردار مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیداکرنے اور اہل اسلام کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کاعزم کرچکے ہیں ، توایسے نازک وقت میں ان کی یلغار کے سامنے بندباندھنا، علوم حدیث کی معرفت کے بغیر قطعاناممکن ہے ۔

ثانیا:یہ کہ انہیں ملحقات کے طور پر پڑھایاجاتاہے اور سرسری اندازمیں گزار دیاجاتا ہے۔

ثالثا: تقسیم سبق اور انتخاب مدرس میں بھی ذوق کاکچھ خاص لحاظ نہیں رکھاجاتا،جس کی بنا پر اس فن میں بصیرت تو دور کی بات، کچھ خاطر خواہ مناسبت بھی پیدا نہیں ہوپاتی، عظیم محقّق،محدّث کبیرعلاّمہ زاہد الکوثری جامعہ ازہر کے زعماء کی خدمت میں لکھتے ہیں :”یعیّن شیخ لعلم أصول الحدیث المعروف یصطلح الحدیث․․․․․․․․“

پھر مدرس کی صلاحیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”ومدرس ھذا العلم فی امکانہ غرس حب علوم الحدیث فی نفوس الطلبة“․

یعنی اس مدرس میں ایسی صلاحیت ولیاقت ہوکہ وہ طلبہ علم کے نفوس میں اس فن کا بیج بودے ۔

رابعا:یہ کہ جو اصول پڑھائے جاتے ہیں وہ حضرات محدثین کے وضع کردہ ہیں ،تقریبا شوافع کے بھی یہی اصول ہیں اس لیے کہ مصطلحات حدیث کے مصنفین میں اکثرشافعی المسلک ہیں،جب کہ احناف کے اصول حدیث ان سے جدا ہیں ،یہاں پر یہ وضاحت کردینا مناسب معلوم ہوتاہے کہ علوم حدیث کے موجد فقہاء ہیں اورپھر فقہاء میں سے اولیت کااعزاز ائمہ احناف کے حصہ میں آیاہے ،فقہاء کادور محدثین سے پہلے کاہے ،اس لیے فقہائے کرام نے حدیث کے رد و قبول کے معیار محدثین سے قبل ترتیب دیے اور ان معیاروں کے مطابق پھر حدیث کی اقسام ،راویوں کی شرائط ، وغیرہ تمام اصول مرتب ومدون کیے ،اس ضمن میں ایک عام غلطی یہ ہوتی ہے کہ محدثین نے احادیث کو قبول یارد کرنے کے جو اصول وضع کیے ہیں عموما فقہاء کے احادیث کوپرکھنے کے بھی یہی اصول سمجھ لیے جاتے ہیں ،ڈاکٹر محمد باقر خاکوانی لکھتے ہیں :

عوام الناس حدیث کے میدان میں محدثین کی کتب کو دیکھ کر اس مغالطہ میں مبتلاہوگئے کہ اصول حدیث صرف محدثین کاسرمایا ہیں اورفقہاء بھی اصول حدیث کے میدان میں محدثین کے اصولوں کی پیروی کرتے ہیں، حالاں کہ یہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے ۔

اب یہ ایک حقیقت ہے کہ ان اصول سے آگاہی کے بغیر طالب علم کا اپنے مذہب پرحقانیت کے ساتھ شرح صدرکا ہونا ، اس پرمسئلہ کی تہہ اور علت کاواضح ہونا اور فقیہ کے نقطہ نظر تک پہنچناناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ فقہ حنفی پر ایک اشکا ل جو بڑے زور وشور سے اٹھا یا جاتاہے کہ اس فقہ کی تدوین میں حدیث پر عمل نہیں کیاگیا،اس اعتراض کی بنیادبھی دراصل احناف کے اصول سے عدم واقفیت ہے ،اس لیے کہ جس طرح دیگر فقہاء کے حدیث کوقبول یا رد کرنے اصول ہیں اسی طرح احناف کے بھی حدیث کے قبول یا عدم قبول کے بارے میں کچھ قواعد واصول ہیں ،ان ہی کی روشنی میں احادیث کو معمول بہ بنایا گیاہے اور بعض کو چھوڑا گیا ہے ،شیخ کیلانی محمد خلیفہ احناف کے اصول حدیث پر لکھے گئے اپنے وقیع مقالے میں لکھتے ہیں :
ولقد شاع عن المذھب الحنفی منذ نشأتہ وعلی مر العصور، أنہ یخالف الحدیث الصحیح فی کثیر من المسائل الفقہیة، وانہ بذلک یعدّ أبعد المذاہب من اتباع السنة ،ولیس الأمر کذلک؛ فغایة الأمر ان للحنفیة أصولا وقواعد فی قبول الأحادیث وردھا، وأن ہذہ الأحادیث التی ردوھا لم تصح من خلال أصولھم وقواعدھم․

حنفی مذہب کے آغازسے لے کر تقریباتمام زمانوں میں یہ اعتراض کیا جاتا رہاہے کہ اس فقہ میں بہت سے فقہی مسائل میں صحیح احادیث کی مخالفت کی گئی ہے اور اسے اتباع سنت سے ہٹاہو ا مذہب گرداناجاتاہے،جب کہ یہ اعتراض حقیقت کے سراسر خلاف ہے،وہ اس لیے کہ احناف کے حدیث کو قبول کرنے اور چھوڑنے کے کچھ اصول وضوابط ہیں ،انہوں نے انہی احادیث کا چھوڑا ہے جو ان کے اصولوں کی روشنی میں درست نہیں تھیں۔

مقالے کے آخر ی صفحات میں بحث کانچوڑ اور خلاصہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :ان اغلب الأحادیث التی أتھم الحنفیة بمخالفتھا لم تثبت وفقا لمنہجھم النقدی․

وہ احادیث جن کی مخالفت کااتہام احنا ف پر لگایا جاتا ہے ،(ان کو چھوڑنے کی وجہ )وہ دراصل احناف کے منہج نقد (احادیث کو پرکھنے کے معیار) پرانکا پورا نہ اترناہے ۔

محقق کبیر علامہ زاہد الکوثر ی اصول احادیث میں فقہاء کے ذوق اور مشرب کے مختلف ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلاف کی صراحت ان الفاظ میں فرماتے ہیں :” تجد علماء ھذہ الأمة وأدلاء ھا قد سعوا سعیا حثیثا فی جمیع الأدوار فی جمع أدلة الأحکام، والکلام علیہا متنا وسندادلالة علی اختلاف أذوا قہم ومشاربہم فی شروط قبول الأخبار وعلی تفاوت مدارکہم فی النصوص والآثار․“

اگر اس امت کے علماء اور دلائل کے باب میں ان کی کاوشوں کو دیکھاجائے توانہوں نے احکام کے دلائل جمع کرنے میں سر توڑ محنتیں کیں، حدیث کے متن اور سند اور اسی طرح ان کے قبول کرنے میں جو اختلاف ہے وہ دراصل اس باب میں ان کے ذوق کے مختلف ہوجانے کی و جہ سے پیداہواہے ۔

اگر ایک حدیث احناف کے اصول کی روشنی میں صحیح ہے اور محدثین کے ا صول میں ضعیف ہے یا اس کے برعکس محدثین کے ہاں تو صحیح ہے، لیکن احناف کے معیار کے مطابق نہیں ہے ،تو اس سے احناف کی حدیث سے مخالفت لازم نہیں آتی ،بلکہ احناف کے حدیث کو لینے کے اصول دیگر حضرات سے کہیں زیادہ سخت ہیں،امام صاحب سے روایات کے کم ہونے کی بھی بظاہریہی وجہ ہے ۔

تو اس اہمیت کے پیش نظر شدت سے اس چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ دینی مدارس میں اس شعو ر کو بیدار کیا جائے کہ اس فن کی تعلیم میں احناف کے اصول حدیث کو بھی زیر بحث لایا جائے، تاکہ طلبہ کرام کو اس موضوع میں بصیرت حاصل ہوسکے ،باقی محدثین کے اصول اس لیے ہیں کہ خصم کو اس کے اصولو ں کی روشنی میں جواب دیاجاسکے ،لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنے اصولو ں کو یکسر چھوڑدیاجائے ،محقق عصر حضرت ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی صاحب مدظلہ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ”دراسات فی اصول الحدیث علی منہج الحنفیة“ کے مقدمة میں اہل مدارس کی خدمت میں التماس کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :”نظرا الی اہمیة الکتاب أقترح علی أصحاب المدارس والجامعات أن یجعلوہ فی مقررہم الدراسی لیتعرف الطلبة الی اصول الحنفیة فی الحدیث۔“

اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظرمیں مدارس اور جامعات کے ارباب اہتمام کی خدمت میں یہ تجویز رکھتا ہوں کہ وہ اس کتاب کو شامل سبق کریں، تاکہ طلبہ کو احناف کے اصول حدیث سے شناسائی ہوسکے ۔

شیخ عبدالمالک ڈھاکوی صاحب”حال عصرنا فی االعنایة بعلوم الحدیث“کے عنوان کے تحت اسی کمی کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”نعم وبقی الآن من علوم الحدیث الکلام علی فقہ الاحادیث کلاما طویلا․․․ولکن من غیر مراعاة لأصول الدرایة وقوانین الروایة ومن غیر المام باسباب اختلاف الفقہاء․“

اس دور میں علوم حدیث کی بجائے فقہ پر طویل کلام کیاجاتاہے، لیکن اس کلام میں بھی فقہاء کی روایت و درایت کے اصول وقواعد کے بیان کو نظر انداز کر دیاجاتا ہے اور مسئلہ میں جن وجوہ کی بناپر فقہاء کااختلاف ہوتاہے، ان کے ذکر سے بھی بے توجہی برتی جاتی ہے ۔

اگر ارباب مدارس انفرادی طور پر سنجیدگی کیساتھ اس معاملے پر غور فرمائیں تو چند تجاویز سے اس کمی کاازالہ ہو سکتاہے :

الف: اس موضوع پر کسی ایک کتاب کاانتخاب کرکے اس کو شامل سبق کرلیاجائے ،انتخاب میں قدماء کی کتب کو ترجیح دی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

ب: ہفتہ واریا ماہانہ اوقات مخصوص کرکے ان میں ماہرین فن کے محاضرات اور دروس کانظم بنایاجائے ۔

ج: شرح نخبة کے درس کے ساتھ ہی احناف کے اصول حدیث کے بیان کا اہتمام کیاجائے ، اس صورت میں اس فن سے شغف رکھنے والے معلّم کاتقررکیاجائے، تاکہ موازنہ اور محاکمہ کی صورت میں اصابت رائے قائم کرسکے ۔

Flag Counter