Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

2 - 20
نفس کا فریب

مولانا سیّدابوالحسن علی ندویؒ
	
”احیاء علوم الدین“ میں امام غزالی  نے طبقہ علماء وطبقہ سلاطین وحکام کے علاوہ عام زندگی کا بھی جائزہ لیا ہے، ان میں جس قدر غیر دینی عناصر، بدعات ومنکرات، مغالطے اور خود فریبیاں داخل ہو گئی ہیں، ان کی تنقید کی ہے۔ ”احیاء العلوم“ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علمی اشغال اور عالمانہ زندگی کے باوجود وہ اس وقت کی سوسائٹی اور عام زندگی سے واقف ہیں اور ان کا زندگی کا مطالعہ بڑا وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی عمومی زندگی اور امت کے مختلف طبقات اور ان کی مختلف بیماریاں اور کمزوریوں کی جو نشان دہی کی ہے اس سے ان کی قوت مشاہدہ اور قوت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک مستقل باب ان منکرات کی تفصیل میں لکھا ہے جو عادات میں د اخل ہو چکے ہیں اور لوگوں کو ان کا منکر ( خلافِ شرع واخلاق) ہونا محسوس نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں انہوں نے پوری شہری زندگی پر نظر ڈالی ہے اور اس کے نمایاں منکرات کا تذکرہ کیا او رمساجد سے لے کر بازاروں، سڑکوں، حمام اور دعوت کی محفلوں تک کے منکرات کو شمار کر دیا ہے۔(جلد ثانی، ص:299-294)

انہوں نے ”احیاء العلوم“ کا ایک مستقل حصہ ”کتاب ذم الغرور“ ان لوگوں کے متعلق لکھا ہے جو مختلف قسم کے مغالطوں اور فریب نفس میں مبتلا ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ہر طبقہ کے فریب خوردہ اشخاص او ران کی غلط فہمیوں اور خود فریبیوں کا حال بیان کیا ہے او ران کے بعض ایسے نفسیاتی امراض اور خصوصیات کا ذکر کیا ہے جن کو صرف ایک دقیق النظر مصلح اور ایک تجربہ کار ماہر نفسیات ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس باب میں انہوں نے علماء ،عباد وزہاد، امراو اغنیاء اوراہل تصوف، سب کا جائزہ لیا ہے اور سب کے خصوصی امراض اور بے اعتدالیوں کا پردہ فاش کیا ہے اور ہر ایک کے متعلق بڑے پتے کی باتیں لکھیں ہیں، جس سے ان کی ذہانت، دقیقہ رسی اور حقیقت شناسی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان کے زمانے کے علماء نے جن جن علوم کے اشتغال میں حد سے تجاوز کر رکھا تھا، مثلاً فقہی جزئیات وخلافیات، علم کلام ومباحثہ ومجادلہ، وعظ وتذکیر، علم حدیث اور اس کے متعلقات، نحو، لغت ،شعر ومفردات کی تحقیق وحفظ میں غلو ومبالغہ اور زاہدوں کے ملفوظات وحالات کے یاد رکھنے پر اکتفا، اس سب پر انہوں نے تنقید کی اور ان کو اپنے ان مضامین کے بارے میں جو غلط فہمی اور خوش گمانی تھی، اس کی تحقیق کی اور حقیقت حال بیان کی اور آخر میں اپنا یہ تجربہ بیان کیا جو بالکل قرینِ قیاس ہے کہ:”دنیاوی علوم مثلاً طب وحساب اور صنعتوں کے علم میں اس قدر خوش گمانی اور خود فریبی نہیں ہے جتنی علومِ شرعیہ میں ہے، اس لیے کہ کسی شخص کا یہ خیال نہیں ہے کہ دنیاوی علوم فی نفسہ ذریعہ مغفرت ہیں، بخلاف علوم شرعیہ کے کہ وہ اپنے نتائج ومقاصد سے قطع نظر کرکے بجائے خود بھی ذریعہ مغفرت وتقرب سمجھے جاتے ہیں۔“ (ج3، ص:243) اپنے زمانے کے عباد وزہاد اور اہل تصوف کو بھی انہوں نے بڑی گہری نظر سے دیکھا ہے اور ان کی بڑی باریک باریک کوتاہیوں، خوش فہمیوں اور خود فریبیوں کو محسوس کیا ہے، ان کے بہت سے ظاہری اعمال ورسوم کی تہہ میں ان کو نفس پرستی، جاہ طلبی، ریا کاری، ظاہری نقالی اور بے روح رسمیت نظر آئی ہے او رانہوں نے بڑی صفائی کے ساتھ اس کو ظاہر کر دیا۔ (ج،3ص:345 تا350)

اہلِ دولت اور اغنیاء پر بھی انہوں نے بڑی صحیح گرفت کی ہے اور اس سلسلے میں ان کے قلم سے حقائق نکل گئے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
”ان دولت مندوں میں بہت سے لوگوں کو حج پرروپیہ صرف کرنے کا بڑا شوق ہے، وہ باربار حج کرتے ہیں او رکبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو بھوکا چھوڑ دیتے ہیں اور حج کرنے چلے جاتے ہیں۔ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے صحیح فرمایا ہے کہ” اخیر زمانے میں بلا ضرورت حج کرنے والوں کی کثرت ہو گی، سفران کو بہت آسان معلوم ہو گا، روپیہ کی ان کے پاس کمی نہ ہو گی ، و ہ حج سے محروم وتہی دست واپس آئیں گے ، وہ خود ریتوں اور چٹیل میدانوں کے درمیان سفر کرتے ہوں گے او ران کا ہمسایہ ان کے پہلو میں گرفتار بلا ہو گا، اس کے ساتھ کوئی سلوک اور غم خواری نہیں کریں گے۔ابو نضر تمار کہتے ہیں کہ ایک شخص بشر بن الحارث  کے پاس آیا اور کہا کہ میرا قصد حج کا ہے،آپ کا کچھ کام ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تم نے خرچ کے لیے کیا رکھا ہے ؟ اس نے کہا: دو ہزار درہم۔ بشر نے کہا کہ تمہارا حج سے مقصد کیا ہے ؟ اظہار زہد یا شوق کعبہ یا طلب رضا؟ اس نے کہا: طلب رضا! انہوں نے فرمایا کہ اچھا اگر میں تمہیں ایسی تدبیر بتلا دوں کہ تم گھر بیٹھے الله کی رضا حاصل کر لو اور تم یہ دو ہزار درہم خرچ کر دو اور تم کو یقین ہو کہ الله کی رضا حاصل ہو گئی تو کیا تم اس کے لیے تیار ہو ؟ اس نے کہا : بخوشی! فرمایا کہ اچھا پھر جاؤ، اس مال کو ایسے دس آدمیوں کو دے آؤ جو مقروض ہیں وہ اس سے اپنا قرض ادا کر دیں، فقیر اپنی حالت درست کرے، صاحبِ عیال اپنے بال بچوں کا سامان کرے، یتیم کا منتظم یتیم کو کچھ دے کر اس کا دل خوش کرے اور اگر تمہاری طبیعت گوارا کرے تو ایک ہی کو پورا مال دے آؤ، اس لیے کہ مسلمان کے دل کو خوش کرنا، بے کس کی امداد کرنا ، کسی کی مصیبت دور کرنا، کم زور کی اعانت سو نفلی حج سے افضل ہے، جاؤ! جیسا میں نے تم سے کہا ہے ویسا ہی کرکے آؤ، ورنہ اپنے دل کی بات ہم سے کہہ دو۔ اس نے کہا کہ شیخ! سچی بات یہ ہے کہ سفر کا رحجان غالب ہے۔ بشر سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ مال جب گندا او رمشتبہ ہوتا ہے تو نفس تقاضا کرتا ہے کہ اس سے اس کی خواہش پوری کی جائے اور وہ اس وقت اعمال صالحہ کو سامنے لاتا ہے، حالاں کہ الله تعالیٰ نے عہد فرمایا ہے کہ صرف متقین کے عمل کو قبول فرمائے گا۔“(ج،3،ص:352)

”دولت مندوں کا ایک گروہ بربنائے بخل دولت کی حفاظت میں مشغول رہتا ہے اور ایسی بدنی عبادات سے اس کو دلچسپی ہوتی ہے، جس میں کچھ خرچ نہیں ، مثلاً دن کا روزہ، رات کی عبادت اور ختم قرآن کریم۔ وہ بھی فریب میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کہ مہلک بخل ان کے باطن پر قابض ہے اور اس کے ازالہ کے لیے مال کے خرچ کرنے کی ضرورت ہے، لیکن وہ ایسے اعمال میں مشغول ہیں جن کی ان کو کوئی خاص ضرورت نہیں، اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کے کپڑے کے اندر سانپ گھس گیا ہے اور اس کا کام تمام ہونے والا ہے اور وہ سکنجبین کے تیار کرنے میں مشغول ہے ،تاکہ صفراکو تسکین ہو۔ حالاں کہ جو سانپ کا مارا ہے اس کو سکنجبین کی ضرورت کب پڑے گی؟ بشر سے کسی نے کہا کہ فلاں دولت مند کثرت سے روزے رکھتا ہے اور نمازیں پڑھتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ بیچارہ اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں مشغول ہے، اس کے مناسب حال تو یہ تھا کہ بھوکوں کو کھانا کھلاتا، مساکین پر خرچ کرتا۔ یہ اس سے افضل تھا کہ اپنے نفس کو بھوکا رکھتا ہے ا وراپنے لیے ( نفلی) نمازیں پڑھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا بھی سمیٹنے میں مشغول ہے اور فقیر کو محروم رکھتا ہے۔ ( ج،3،ص:356)

عوام کے امراض اور خود فریبیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”عوام ، دولت مندوں اور فقرا میں سے کچھ لوگ ہیں جن کو مجلس وعظ کی شرکت سے دھوکا لگا ہے۔ ان کا اعتقاد ہے کہ محض ان مجالس میں شرکت کافی ہے، انہوں نے اس کو ایک معمول بنا لیا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ عمل اور نصیحت پذیری کے بغیر بھی محض مجلس وعظ میں شرکت باعث اجر ہے۔ وہ بڑے دھوکے میں مبتلا ہیں، اس لیے کہ مجلس وعظ کی فضیلت محض اس لیے ہے کہ اس سے خیر کی ترغیب ہوتی ہے، اگر اس سے خیر کی آمادگی اور اس کا جذبہ نہیں پیداہوتا تو اس میں کچھ خیر نہیں۔ رغبت بھی اس لیے محمود ہے کہ وہ عمل کی محرک ہے، اگر اس میں عمل پر آمادہ کرنے کی قوت نہیں تو اس میں بھی کوئی خیر نہیں، جو چیز کسی مقصد کا ذریعہ ہوتی ہے اس کی قیمت محض مقصد کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے ہے، اگر وہ مقصد اس سے پورا نہ ہو تو وہ بے قیمت ہے، کبھی واعظ سے مجلس وعظ اور گریہ وبکا کی فضیلتیں سن سن کر اس کو دھوکا ہوتا ہے، کبھی کبھی اس پر عورت کی طرح ایسی رقت طاری ہوتی ہے اور وہ رونے لگتا ہے ، لیکن عزم کا کہیں پتا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی کوئی ڈرانے والی بات سنتا ہے اور وہ تالیاں پیٹتا ہے او رکہتا ہے الہٰی! توبہ ، خدایا! تیری پناہ اور وہ سمجھتا ہے کہ اس نے حق ادا کر دیا، حالاں کہ وہ دھوکے میں ہے۔ اس کی مثال اس مریض کی سی ہے جو کسی طبیب کے مطب میں بیٹھتا ہے اور نسخے سنتا رہتا ہے، لیکن اس سے اس کی صحت نہیں ہو سکتی، یا ایک بھوکا آدمی کسی سے کھانے کے انواع واقسام کی فہرست سنتا ہے، اس سے اس کی بھوک نہیں مٹ سکتی اور اس کا پیٹ نہیں بھر سکتا، اسی طرح سے ہر وعظ جو تمہاری حالت میں ایسا تغیر نہ پیدا کرے جس سے تمہارے اعمال میں تغیر ہو جائے اور الله تبارک وتعالیٰ کی طرف انابت اور رجوع ( قوی ہو یا ضعیف) پیدا ہو اور دنیا سے بے رغبتی اور اعراض پیدا ہو، وہ وعظ تمہارے لیے وبال او رتمہارے خلاف ایک دلیل کا کام دے گا، اگر تم خالی خولی وعظ کو وسیلہٴ نجات اور ذریعہٴ مغفرت سمجھتے ہو تو دھوکے میں ہو۔“ (احیاء علوم الدین، ج3ص:352)

Flag Counter