Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

7 - 20
عشق رسول کے تقاضے

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم ﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِی﴾․(سورہ آل عمران:31) صدق الله مولٰنا العظیم․

خیر اور تعمیر کے لیے انسان کو محنت کرنی پڑتی ہے، خیر پھیلانی پڑتی ہے، خیر کو باقی رکھنے کی محنت کرنی پڑتی ہے۔ آپ دنیا کی چیزوں کا صبح شام مشاہدہ کرتے ہیں۔ آپ مکان بناتے ہیں او راس مکان کے لیے اعلیٰ چیزیں جمع کرتے ہیں، اعلیٰ درجے کا پتھر استعمال کرتے ہیں، اعلیٰ درجے کی لکڑی استعمال کرتے ہیں، اعلیٰ درجے کافر نیچر استعمال کرتے ہیں۔ طرح طرح کی چیزیں آپ اس میں لگاتے ہیں۔ یہ آپ نے محنت کی ہے اور یہ خیر کی محنت ہے کہ آپ رہنے کے لیے مکان بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ اس مکان کی طرف سے اگر منھ موڑ لیں اور چھے مہینے، سال بھر آپ اس اعلیٰ درجے کے مکان کا ایک دفعہ بھی چکر نہ لگائیں تو کیا ہو گا؟ خود بہ خود، اس کا رنگ بھی خراب ہو چکا ہو گا، اس میں مکڑیاں جالے بُن چکی ہوں گی، اس میں بچھو، چھپکلیاں․․․ اور نامعلوم کیا کیا، خود بہ خود آموجود ہوگا۔

چونکہ آپ نے اس دوران کوئی محنت نہیں کی، اس لیے خود بخود آپ کا مکان خراب ہوگیا۔ ایک اور مثال لے لیجیے۔ آپ اعلیٰ درجے کا باغ لگاتے ہیں۔ دور دراز سے درخت لاتے ہیں۔ پھل دار، پھول دار پودے لگاتے ہیں۔ اس پر دن رات خوب محنت کرتے ہیں، اسے حسین سے حسین بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ صبح شام اس کی نگہ بانی اور خیال کرتے ہیں۔ ہر آدمی کا جی چاہتا ہے کہ اس میں جائے، اس میں رہے، اس میں وقت گزارے، اس سے لطف اندوز ہو۔ لیکن اگر آپ اس باغ کی طرف سے منھ موڑلیں اور چند مہینے اِدھر نہ جائیں، توکچھ ہی عرصے میں اس باغ کا حال یہ ہوجائے گا کہ اس میں کوئی بھی داخل ہونا نہیں چاہے گا۔

خیر کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ بنانے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ لیکن، بگاڑ کے لیے کی کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بگاڑ خود بہ خود آجائے گا۔ آپ باورچی سے قورمہ بنواتے ہیں، بریانی بنواتے ہیں، اعلیٰ درجے کا چاول ، اعلیٰ درجے کا گوشت اور نامعلوم کیا کیا چیزیں آپ اس میں ڈالتے ہیں۔ بہت خوش بودار اور بہت ذائقے دار پکوان تیار ہوتا ہے۔ یہ کھانے بنانے میں کتنی محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن آپ اس کو اگر ایک رات بھی چھوڑ دیں، کچھ نہ کریں، کوئی محنت نہ کریں، صرف اس کو استعمال نہ کریں ، یوں ہی چھوڑ دیں تو اگلے دن وہ کھانا کھانے کے قابل نہیں ہو گا۔ او راگر ایک دو دن اور زیادہ چھوڑ دیں تو اس میں اُبال آجائے گا، اس میں کیڑے پڑجائیں گے، تعفن اور بدبو ہو جائے گی اور اس کو گھر میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو الله تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ جب آپ تشریف لائے تو دنیا میں اندھیرا تھا، دنیامیں تاریکی تھی، ظلم تھا، کفر تھا، شرک تھا۔ ہر وہ خرابی جو آدمی سوچ سکتا ہے، اس معاشرے میں موجود تھی۔ سب سے بڑی خرابی شرک کی خرابی تھی۔ سب سے بڑی خرابی ظلم کی خرابی تھی۔ اس دور کے واقعات آپ پڑھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے، آپ پریشان ہو جائیں گے کہ کیا انسان ایسا بھی ہوتا تھا؟ سو سو قتل کرنے والے لوگ اور اپنی بچیوں کواپنے ہاتھوں سے گڑھا کھود کر زندہ دفن کرنے والے لوگ اس معاشرے میں پائے جاتے تھے۔

حدیث شریف میں آتا ہے: قال ابن عباس رضی الله عنہما: کانت المرأة فی الجاھلیة إذا حملت فکان أوان اولادھا حفرت حفیرة فتمخضت علی رأس الحفیرة، فإن ولدت جاریة رمت بہا فی الحفیرة، وإن ولدت غلاما حبستہ․“(زاد المسیر، سورة التکویر:8) کہ سو سو برس ان کی جنگیں اور لڑائیاں چلتی تھیں، صرف اس بات پر کہ تمہارے جانور نے پہلے پانی کیوں پیا؟ سینکڑوں لوگ اس میں قتل ہو جاتے، ختم ہو جاتے۔

مکہ مکرمہ، خانہ کعبہ ، شرک کا مرکز بنا ہوا تھا، بیت الله کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔(البدایہ والنہایہ، باب جہل العرب، 2/208) اس کے علاوہ بے شمار خرابیاں موجود تھیں۔ ایسے ماحول اور ایسے حالات میں، ایسے گھپ اندھیرے میں سرورِکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آمد ہوئی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اب خیر کی محنت کرنا شروع کی۔ دن رات،صبح شام، ہرحال میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے خیر کی محنت کی۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی محنت دکان داری کی محنت نہیں تھی۔ آپ کی محنت، کھیتی باڑی کی محنت نہیں تھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی محنت انسانوں کے قلوب پر تھی، انسانوں کے دلوں پر تھی۔ اور انسانی دل مقام ہے، الله کے اقرار اور تصدیق کا۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وہ سلم نے جو دعوت دی، وہ دعوت کیا تھی؟!”یأیھا الناس قولوا لا إلہ إلا الله تفلحوا․

اے لوگو! الله تعالیٰ کی الوہیت کا اعتراف اور اقرار کر لو، کام یاب ہو جاؤ گے۔ اور اگر لا إلہ إلا الله کا اعتراف نہ ہو، الله کی الوہیت، الله کی ربوبیت اور الله کی وحدانیت کا اعتراف نہ ہو، تو چاہے دنیا کتنی ہی ہو، یہ آدمی کام یاب نہیں۔ اس لیے کہ اس کا دل اور اس کا اندرون کفر کی گندگی سے بھرا ہوا ہے، شرک کے شر سے بھرا ہوا ہے، ظلم کے جبر سے بھرا ہوا ہے۔

ایسا انسان کام یاب نہیں ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم محنت فرماتے تھے۔ صبح شام محنت فرماتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی محنت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑا طبقہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا مخالف اور دشمن بن گیا۔ وہ کیا کہتے تھے؟ وہ کہتے تھے کہ یہ نئی بات ہے، اس سے پہلے تو ہم نے نہیں سنا، ﴿مَاوَجَدْنَا عَلَیْْہِ آبَاء نَا﴾ ہمارے آبا و اجداد تو یہ نہیں کرتے تھے۔ ہمارے آبا و اجداد تو بتوں کی عبادت کرتے تھے، وہ ان کو خدا مانتے تھے، فائدہ اور نقصان، عزت اور ذلت انہیں سے حاصل ہوتی تھی۔

ان کا یہ عقیدہ غلط تھا۔ آ پ صلی الله علیہ و سلم نے اس پر محنت فرمائی، اور اس محنت میں بڑی آزمائشیں آئیں۔ بہت زیادہ مشکلات جھیلیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنائے گئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو تنگ کیا گیا، تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے والے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمین کو تکلیفیں پہنچائی گئیں او ران کو اذیتوں میں مبتلا کیا گیا۔

بالآخر آپ صلی الله علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ چھوڑنا پڑا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور ہجرت فرما کر مدینہ طبیہ تشریف لائے۔

اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم الله تعالیٰ کی الوہیت، ربوبیت اور الله تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں او رمحمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اس دنیا میں نہیں آسکتا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم قیامت تک کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی امت آخری امت ہے۔ اس کے بعد کوئی اور امت نہیں آئے گی۔ یہ قرآن الله کی آخری کتاب ہے۔ اس کے بعد کوئی اور کتاب نہیں آئے گی۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے جو محنت فرمائی وہ ایسی محنت ہے جس کی کوئی مثال اور نظیر نہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو احسانات انسانوں پر فرمائے اس طرح کے احسان دنیا میں کسی نے نہیں کیے۔

چناں چہ زندگی گزارنے کا جو طریقہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کو دیا، اس سے مبارک طریقہ دنیا میں نہیں۔ زندگی کا وہ کون سا رخ ہے جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کو نہ بتایا ہو؟ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر چلنا مسلمان کی سب سے بڑی ذمے داری ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت اور تعلق کے اظہار کا سب سے اعلیٰ ترین طریقہ یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو دین لائے، جو شریعت لائے، اس پر عمل کیا جائے۔

دیواروں کو سجانا، گھروں کو سجانا، راستوں کو سجانا، اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں سے سجایا جائے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو جو خوشی ہو گی وہ اسی بات سے ہو گی کہ میری امت میرے لائے ہوئے دین اور میری لائی ہوئی شریعت پر عمل کرے۔

شریعت پر عمل تبھی ممکن ہوگا جب ایمان ہوگا۔

اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلی محنت ایمان پر کی۔ اس محنت کو اختیا رکیجیے۔ اب کوئی اور نبی نہیں آئے گا، کوئی اور امت نہیں آئے گی۔ چناں چہ اس امت کی ذمے داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ایمان کی دعوت دیں اور ایمان کی دعوت اس طرح دیں کہ ایمان ترقی کرے، ایمان بڑھے، ایمان میں اضافہ ہو او رایمان کے اضافے کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور آپ کی شریعت پر عمل میں اضافہ ہو۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے زندگی گزارنے کا ہر ہر طریقہ تعلیم فرمایا۔ کوئی بھی زندگی کا رخ ایسا نہیں، جس کی تعلیم آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ دی ہو۔ چناں چہ سونے کا طریقہ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی وضو کرکے سوئے، بستر کو صاف کرکے سوئے، دائیں کروٹ پر سوئے۔ سونے سے پہلے سونے کی دعا پڑھ کر سوئے۔ اس طرح سوئے گا تو یہ سونا مبارک اورعبادت بن جائے گا۔

زندگی کا کتنا بڑا حصہ ایسا ہے جسے آدمی سو کر گزارتا ہے۔ اگر آدمی سوتے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق سوئے اور اٹھتے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اٹھے تو یہ چھے سے آٹھ گھنٹے روزانہ عبادت میں گزریں گے۔

اگر آپ سے یہ کہا جائے کہ آپ روزانہ اٹھتے ہی عبادت کریں، آپ نہیں کرسکتے۔ لیکن صرف اتنا کر لیں کہ سونے سے پہلے سونے کی دعا پڑھ لیں، جو آداب ہیں، انہیں اختیار کر لیں اور اٹھتے وقت اٹھنے کی دعا پڑھ لیں، تو یہ سونے کا تمام عمل عبادت بن جائے گا۔

آپ بیت الخلا بھی جاتے ہیں۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بیت الخلا آنے جانے کا طریقہ اور اس کا ادب بیان فرمایاکہ بیت الخلامیں داخل ہوتے وقت بایاں پیر داخل کریں اور بیت الخلا میں داخل ہونے کی دعا پڑھ لیں”اللھم إنی أعوذبک من الخبث والخبائث“ جب فارغ ہو کر باہر نکلیں تو”غفرانک الحمدلله الذی أذھب عنی الأذی وعافانی“ پڑھ لیں۔

یہ دعا پڑھنا کوئی مشکل کام نہیں، آسان کام ہے۔ ہم فضول چیزیں سیکھنے میں محنت کرتے ہیں۔ اگر ہم رات کو سونے کی دعا سیکھ لیں، صبح اٹھنے کی دعا سیکھ لیں، بیت الخلاء جانے کے آداب سیکھ لیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق کھانا کھائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس طرح کھانا کھانے سے پہلے دعا پڑھی ہے، ایسے دعا پڑھیں، کھانے کے بعد کی دعا پڑھیں، بیٹھ کر کھانا کھائیں، دسترخوان بچھا کر کھانا کھائیں۔ ( حاشیہ ابن عابدین، مسائل شتی5/534) ہم کھانا کھاتے وقت جو مسنون طریقہ ہے اس کو اختیار کریں، یا تشہد کی حالت میں بیٹھیں یا ایک ٹانگ کھڑی کرکے اور ایک ٹانگ بچھا کر کھانا کھائیں، پہلا طریقہ تشہد والا اور دوسرا طریقہ یہ کہ ایک گھٹنا اٹھالیں، یہ طریقہ بھی مسنون ہے۔(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأطعمہ، رقم الحدیث:5071) اس طرح کھانے سے پہلے دعا پڑھ لیں، آخر کی دعا پڑھ لیں، اسی طرح پانی پینے سے پہلے دعا پڑھ لی جائے، اختتام کی دعا پڑھ لی جائے، تو یہ بھی عبادت بن جائے گا۔ کھانا بھی عبادت، سونا بھی عبادت، بیت الخلا آنا او رجانا بھی عبادت ۔یہ ہے آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع۔

زندگی کا ہر رخ، خواہ وہ لباس کی تعلیم ہو، خواہ وہ گھریلو زندگی سے متعلق ہو، خواہ وہ شادی بیاہ سے متعلق ہو، خواہ وہ غمی اور موت سے متعلق ہو، جس قسم کا بھی معاملہ ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ارشادات فرمائے ہیں اور اس کی تعلیم آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی سب سے کامل اتباع آپ کے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے فرمائی ہے۔ وہ دور سہولتوں کا دور نہیں تھا۔ وہ دور آسانیوں کا دور نہیں تھا۔ صحابہ کرام کتنی مشکل اور تکلیف کی زندگی گزارتے تھے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی کامل پیروی فرماتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ الله تعالیٰ نے پوری دنیا میں انہیں کام یابی عطا فرمائی ، الله تعالیٰ نے خود ان کی رضا کا اور ان سے خوش ہونے کا اعلان فرمایا۔ رضی الله عنہم ورضواعنہ․

الله تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں انہیں یہ نعمت عطا فرمادی۔

اس کی بنیادی وجہ کیا تھی کہ انہوں نے الله تعالیٰ کی الوہیت، ربوبیت اور وحدانیت کا اقرار و اعتراف کیا۔ انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع فرمائی۔ زندگی کے ہر رخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی۔ اس کے نتیجے میں الله تعالیٰ نے ان کو اس دنیا میں غالب، کام یاب وکامران فرمایااور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی کام یابی عطا فرمائی۔

یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی آمد اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت، دونوں واقعات اسی مہینے میں ہوئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے بارے میں تو اختلاف ہے۔ لہٰذا تاریخ ولادت کی مختلف روایات ہیں۔ لیکن جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم اس دنیا سے رحلت فرماگئے تو سب صحابہ موجود تھے۔ آ پ صلی الله علیہ وسلم کی وفات سب کے سامنے ہوئی۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ ان کی وفات کا دن اور تاریخ ہے۔ اس لیے وفات کی تاریخ میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ 12/ربیع الاول ہے۔ یہ بات طے شدہ اور متفقہ ہے کہ 12 ربیع الاول آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت کا دن ہے۔ اس تاریخ کو آپ صلی الله علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے۔

”وکذا اختلف أیضاً فی أیّ یوم من الشھر… قیل لثمان خلت منہ، قال الشیخ قطب الدین القسطلانی: وھو اختیار اکثر أھل الحدیث، ونقل عن ابن عباس وجبیر بن مطعم وھو اختیار اکثر من لہ معرفة بھذا الشأن… وقیل لعشر وقیل لاثنی عشر․“(المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، قد اختلف فی عام ولادتہ صلی الله علیہ وسلم1/246)

آپ صلی الله علیہ وسلم کا اس دنیا سے رحلت فرمانا اور اس دنیا سے پردہ فرمانا کتنے بڑے غم کی بات ہے؟ کتنے بڑے صدمے کی بات ہے؟ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین اور بالخصوص وہ صحابہ جو ہر وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہنے والے تھے، ان کے غم کی کیا کیفیت تھی! حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ، حضرت عثمان رضی الله عنہ، حضرت علی رضی الله عنہ ،سارے صحابہ کرام غم سے نڈھال تھے۔

بارہ ربیع الاول غم اور صدمے کا موقع ہے۔

اس تاریخ کے بعد ایک طویل دور آیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا، حضرت عثمان رضی الله عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا، حضرت علی رضی الله عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا۔ پھر، آپ صلی الله علیہ وسلم کے دیگر صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کے موجودگی کا زمانہ ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو کہیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے 12 ربیع الاول کو چراغ جلائے ہوں یا جلوس نکالے ہوں۔ صحیح اور مستند تاریخ میں یہ کہیں بھی موجود نہیں۔

اس کے علاوہ، آپ غور فرمائیے کہ چالیس سال کی عمر میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے نبوت کا تاج پہنا اور 23 برس بحیثیت نبی اور رسول صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے درمیان موجو دتھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا یوم ولادت کسی بھی صحابی نے نہیں منایا۔ پوری خلافت راشدہ کے دَور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا جشن نہیں منایا گیا۔

اب یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ یہ ساری کی ساری چیزیں اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ ا کی اتباع کی جائے۔ آپ ا جو دین لائے، جو مقصد لائے، اس دین کو اور اس مقصد کو اختیار کیا جائے۔

چناں چہ جس زمانے میں بھی، جس دور میں بھی الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمایا، کام یابی اور سرفرازی عطا فرمائی، آپ خوب اچھی طرح مطالعہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس زمانے میں مسلمان دین پر خوب عمل کرتے تھے۔ اور جیسے جیسے دین سے دوری اختیار کی گئی، دین پر عمل سے اجتناب برتا گیا، مسلمان زوال پذیر ہوتے چلے گئے۔

دیکھئے آج مسلمانوں کا کیا حال ہے ؟ ساری دنیا میں مسلمان مغلوب ہے۔ ساری دنیا میں مسلمان مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ آج مسلمان اسلام پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسلام پر عمل کرنے میں آج مسلمان شرمندہ ہے۔ اسلام پر عمل کرنے میں اس کو اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا آج مسلمان کے لیے مشکل چیز بن چکا ہے۔

الحمدلله !ہم سب مسلمان ہیں اور نہ صرف مسلمان ،بلکہ آپ ا سے محبت کا دعویٰ بھی ہم کرتے ہیں۔ جب مسلمان بھی ہیں اورمحبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں تو آپ ا کی سنتوں پر عمل نہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟

ربیع الاول کے اس مہینے میں اس بات کی کوشش اور محنت کرنی چاہیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتیں سیکھی جائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کا لایا ہوا دین سیکھا جائے اور اس پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، وَتُبْ عَلَیْْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾․

Flag Counter