Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

3 - 20
دیکھو مجھے جو دیدہٴ عبرت نگاہ ہو!

مولاناشمس الحق ندوی
	
ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے کہ شمال میں ایک مقبرہ ہے، جس میں ایک ہزار بادشاہ دفن ہیں، اس میں ایک تختی لگی ہوئی ہے، جس میں لکھا ہے : ”یہ بادشاہ ہیں، ان کی قبروں کی مٹی سے پوچھو، ان کے بڑے جاہ وجلال والے تاج پوش سراب ہڈیاں بن کے رہ گئے ہیں۔“

یہ انہیں اونچے لوگوں کے سروں کی ہڈیاں ہیں، جن کے ایک اشارے پر گردنیں اڑا دی جاتی تھیں، وہ جب کسی ملک کا رُخ کرتے تھے تو اس کو برباد کرکے رکھ دیتے تھے، باعزت لوگوں کی عزتوں سے کھلواڑ کرتے تھے، قوت وطاقت اور شاہانہ شان کا نشہ ایسا ہی ہوتا ہے اور اگلی زندگی سے غافل، طاقت کے نشہ میں چور حاکموں کا یہی حال ومزاج ہوتا ہے، جس کو قرآن کریم نے ملکہٴ سبا کی زبان سے اس طرح ادا کرایا ہے:﴿قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوکَ إِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً أَفْسَدُوہَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَہْلِہَا أَذِلَّةً﴾․(سورہ نمل:34)
ترجمہ:” اس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں۔“

ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں ایک مقبرے کے اندر ایک ہزار بادشاہوں کے مدفون ہونے کا ذکر کیا ہے ، لیکن کیا یہ واقعہ نہیں کہ کتنے دار اوسکندر، ہلاکو وچنگیز اور بے شمار نیپولین، ہٹلر مٹی کے ذروں میں مل گئے ہیں اور قرآن کی زبان میں :﴿ھَلْتُحِسُّ مِنْہُم مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَہُمْ رِکْزاً﴾․ (سورہ مریم:98) ” بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یا ( کہیں) ان کی بھنک سنتے ہو؟“

زیادہ نہیں ہماری اسی انیسویں صدی میں کیسے کیسے خون خوار حکام گذرے ہیں جو اپنی گردن پر لاکھوں لاکھ بے گناہ انسانوں کے خون کا بوجھ اپنے نشے میں چور، او نچے سروں پر لے کر گئے ہیں او رکس برے حال میں گئے ہیں، ایسے بھی گذرے ہیں جو خون خرابے کی آگ بھڑکا کر علاج ومعالجہ کے لیے گھر سے نکلے اور جہاں، جان بچانے کی خاطر گئے تھے وہیں ملک الموت نے آدبوچا، اپنے اہل وعیال کو وصیت ونصیحت کر سکے اور نہ ان کی طرف لوٹ سکے۔

ارشاد قرآنی:﴿فَلَا یَسْتَطِیْعُونَ تَوْصِیَةً وَلَا إِلَی أَہْلِہِمْ یَرْجِعُونَ﴾․(سورہ یٰس:50)ترجمہ:” پھر نہ تو وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھر والوں میں واپس جاسکیں گے۔“ کی بالکل جیتی جاگتی تصویر ، مگر کتنا تیز ہوتا ہے طاقت واقتدار کا نشہ کہ ظلم وزیادتی کے انجام کی زندہ جاوید تصویریں دیکھنے کے بعد بھی طاقت واقتدار کا نشہ آنکھیں نہیں کھلنے دیتا، اس دنیا کو بنانے او رچلانے والا مالک تھوڑی ڈھیل دیتا ہے، مگر چھوڑتا نہیں، وہ فرماتا ہے ﴿واملی لھم ان کیدی متین﴾

دوسری آیت میں اس سے بھی زیادہ کھول کر فرماتا ہے:﴿وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْْرٌ لِّأَنفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَہْمُ عَذَابٌ مُّہِیْن﴾․(سورہ آل عمران:178)
ترجمہ:” اور منکر لوگ یہ نہ خیال کریں کہ ہم جوان کو مہلت دیتے جاتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے (نہیں، بلکہ) ہم ان کو اس لیے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کریں، آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔“

بعض وقت ایک بندہٴ مومن کے دل میں خیال آتا ہے کہ اس ظلم کے بعد بھی ظالم برابر ترقی کیوں کرتے جارہے ہیں؟ مظلوموں کی آہیں اور کراہیں ان کی تباہی بربادی کا سبب کیوں نہیں بن جاتیں؟ وجہ یہی ہے کہ ڈھیل دینے والا مالک دیکھتا ہے کہ ہماری دی ہوئی مہلت وڈھیل، طاقت کے نشہ میں ان کو کہاں تک لے جاتی ہے ؟ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مظلوم کی آہ بھری دعا ضرور قبول ہوتی ہے او را س کی سزا دنیاہی میں ملتی ہے، خواہ کچھ تاخیر ہی سے کیوں نہ ہو ؟ کبھی کبھی تاخیر کی یہ مدت خاصی طویل ہوتی ہے، جس سے ظالم کا ظلم بڑھتا ہی جاتا ہے ، ابتلا وآزمائش کا یہ خدائی نظام ہے، جس میں مومنین مخلصین کے صبر وثبات کا امتحان لیا جاتا ہے، یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے اور چلتا ر ہے گا #
        ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
        چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی

حق کو دبانے او رہدایت کے چراغ کو بجھانے کی ناقابل قیاس سازشیں تیار کی جاتی رہتی ہیں، ایسی کہ جن کا سمجھنا آسان نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس مکروفریب میں ایسی باریک چالیں ہوتی ہیں، جن کا جلد سمجھنا دشوار ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں ابلیسی ذہانت اپنے پورے داؤں چلتی ہے، ابلیس نے اپنے مردودہونے کے بعد مہلت مانگی اور مہلت ملنے کے بعد کہا:﴿قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْْتَنِیْ لأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ،ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآئِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ﴾․(سورہ اعراف:17-16)
ترجمہ:(پھر) شیطان نے کہا مجھے تونے معلون کیا ہی ہے، میں بھی تیرے سیدھے راستے پر ان کو ( گم راہ کرنے) کے لیے بیٹھوں گا، پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے (غرض ہر طرف) آؤں گا(اور ان کی راہ ماروں گا) اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔“

ابلیس نے اعلان کر دیا کہ ہماری چالیں سمجھنا آسان نہ ہو گا، وہ اپنے چیلوں سے ایسے ہی کام لیتا ہے، اس وقت ﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ﴾(خشکی او رتری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے) پوری دنیا میں فساد وبگاڑ کا جو حال ہے اور پس پردہ اس بگاڑ کی ڈوری ہلانے والوں کو جو مہلت ملتی جارہی ہے اس مہلت کا وقت ختم ہو گا اور ﴿فَأَخَذْنَاہُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِر﴾ (اور ہم نے ان کو اس طرح پکڑ لیا جس طرح ایک قوی اور غالب ہو شیار شخص پکڑتا ہے) کا فرمان جاری ہو جائے گا اور سارا داو اور ساری چالیں بھول جائیں گے اور زبان کھلے گی تو اس طرح﴿یٰحَسْرَتیٰ عَلیٰ مَافَرَّطْتُ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ﴾(ہائے ہائے) اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی)

یہ جو کچھ عرض کیا گیا کوئی خیالی بات نہیں، نشہ چڑھنے او راترنے کا یہ منظر ہم کبھی چھوٹے اور کبھی بڑے پیمانے پر دیکھتے رہتے ہیں، ان خون خوار ظالموں کی عدالتوں کی ناانصافیوں کی فہرست بہت طویل ہے، اس لیے اس عدالت عالیہ کا قیام ضروری ہے، جس میں حق وانصاف کا تراز ونصب ہو اور یہ عدالت خدا کے حق وانصاف کی وہ عدالت ہو گی، جہاں ظلم وغارت گری تو بڑی بات ہے، جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہو گی، اس کو بھی بھگتان بھگتنا ہو گا اور یہ وہ وقت ہو گا جب عدالتوں کی ان ناانصافیوں کا خاتمہ کرکے جو ظالموں کی تاریخ میں ہوتی آرہی ہیں ﴿لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ، لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ﴾ کا اعلان ہو جائے گا، آج کس کی بادشاہت ہے؟ خدا کی، جو اکیلا اور اغلب ہے ! اور سارے ظالم بادشاہ حقیقی کے دربار میں سرجھکائے کھڑے ہوں گے، سارا ابلیسی نشہ اتر چکا ہو گا، کہیں گے :﴿رَبَّنَا اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحاً اِنَّا مُوْقِنُوْنَ﴾ (اے ہمارے پروردگار! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہم کو دنیا میں واپس بھیج دے کہ نیک عمل کریں، بے شک ہم یقین کرنے والے ہیں۔) یہ اس عدالت عالیہ کا فیصلہ ہو گا جس کا قائم ہونا ضروری ہے، الله تعالیٰ نے سورة العصر میں اس سب کا خلاصہ بیان کر دیا ہے کہ ظالم گزشتہ تاریخ کو دیکھیں اور سن لیں، فرمایا: ﴿وَالْعَصْرِ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ﴾ (تاریخ شاہد ہے کہ انسان نقصان میں ہے ) ﴿إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾(سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے او راچھے کام کیے او رحق کی آواز لگاتے رہے اور اس راہ میں جو تکلیفیں پیش آئیں، ان پر صبر کی تلقین کرتے رہے۔)

آخرت کے منکر او رخدا فراموش ظالموں نے حقائق سے نظر پھیر کر کمزور اور بے ضرر قوموں کے حقوق کی پامالی، تفریح وتعیش اور نفس پرستی کی مجنونانہ کیفیت، ذاتی لذت اور نفع کے سوا ہر طر ف سے آنکھیں پھیرلی ہیں، باطل پرستوں اور ابلیسی کارندوں نے ابلیس کی شاگردی کا حق ادا کر نے میں اس کے مکروفریب کو پوری طرح جذب کر لیا ہے اور اس سے پوری طرح کام لے رہے ہیں، ابلیس یہ مکروفریب اس وقت بھی جب انسانوں کی فلاح وکام یابی کا ضابطہ حیات(قرآن مجید)اتر رہاتھا، اپنے چیلوں کو سکھاتا او رسمجھاتا رہتا تھا، ایسا مکر کہ پہاڑ ہل جائیں، جس کو خود قرآن ہی نے اس طرح بیان کیا ہے ﴿وَاِنْ کَانَ مَکْرُھُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ﴾․

یہ وہ حقائق ہیں جن کو انسانی تاریخ کھلی کتاب کی طرح پیش کر رہی ہے، لہٰذا اہل ایمان کو صبر وثبات کا وہ ثبوت دیتے رہنا چاہیے، جس کا ثبوت ان کے اسلاف دیتے آئے ہیں او رحالات کا مقابلہ کرنے کے لیے وہی حکیمانہ، مدبرانہ اور جوش کے بجائے ہوش کے ساتھ کام کرتے رہنا چاہیے کہ یہی اہل ایمان کا شیوہ رہا ہے۔

Flag Counter