Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1438ھ

ہ رسالہ

13 - 20
دعائے خلیل عليه السلام اور نوید مسیحا عليه السلام…ولادت تا عطائے رسالت

مولانا محمد جہان یعقوب
	
رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم مکہ مکرمہ کے مقام شعبِ بنی ہاشم (بعد میں یہ مقام شعب ِ ابی طالب کہلایا)میں عام الفیل،جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں پر مشتمل ایک بہت بڑا لشکر لے کر مکہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی،ربیع الاول بمطابق 22اپریل 571 عیسوی، موسم بہار میں پیر کے دن صبح کے وقت پیدا ہوئے۔تاریخ ولادت میں متعدد اقوال ہیں،جن میں دو، آٹھ، نو، بارہ شامل ہیں۔واللہ اعلم !

آپ صلی الله علیہ و سلم اکثر پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ ایک صحابی نے آپ صلی الله علیہ و سلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے سے متعلق سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:
پیر کے دن میری ولادت ہوئی تھی اور اسی دن مجھ پر نزولِ وحی کی ابتدا ہوئی تھی۔(مسلم شریف)

آپ صلی الله علیہ و سلم کی والدہ محترمہ کا نام آمنہ بنت وہب تھا۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کے والدمحترم جناب عبداللہ بن عبدالمطلب آپ صلی الله علیہ و سلم کی پیدائش سے تقریباً چار ماہ پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کی پیدائش کے وقت دایہ کے فرائض سیدنا عبدالرحمن بن عوفکی والدہ شفاء بنت عمرو نے انجام دیے۔

آپ صلی الله علیہ و سلم کی ولادت سے قبل،شکم مادر میں جلوہ افروز ہونے کے وقت سے ہی غیر معمولی واقعات پیش آنا شروع ہوگئے تھے ،سیرت کی کتابوں میں ”ارہاس “کے عنوان سے ان واقعات کو جمع کیا گیا ہے ،ہم ذیل میں چند ایک واقعات کو ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے:
جب آپ صلی الله علیہ و سلم پیدا ہوئے توحضرت آمنہ  نے خواب میں دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک ایسا نور نکلا ہے جس سے ملک شام کے محلات روشن ہو گئے ہیں ۔ (مسند احمد)

آپ صلی الله علیہ و سلم کی ولادت کے بعدحضرت آمنہ  نے جناب عبدالمطلب کو ان کے پوتے کی خوش خبری بھجوائی تو وہ بہت زیادہ خوش ہوئے اور آپ صلی الله علیہ و سلم کو اٹھا کر خانہ کعبہ میں لے گئے، اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور آپ صلی الله علیہ و سلم کے بارے اللہ تعالی سے خوب دعائیں کیں اور آپ صلی الله علیہ و سلم کا نام محمد(جس کی سب سے زیادہ تعریف کی جائے)رکھا، اس امید پر کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی تعریف کی جائے گی۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کی ولادت سے لے کر آج تک تمام آسمان و زمین والے آپ صلی الله علیہ و سلم کی تعریف کرتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

جناب عبدالمطلب نے آپ صلی الله علیہ و سلم کی پیدائش کے ساتویں دن، عرب کے دستور کے مطابق آپ صلی الله علیہ و سلم کاختنہ اور عقیقہ کیااورعقیقے کی دعوت میں قبیلہ والوں کو مدعو کیا۔ دعوت میں شریک ہونے والے لوگوں نے جب عبدالمطلب سے پوتے کے نام کے بارے پوچھا تو جناب عبدالمطلب نے جواب دیا:
میں نے ان کا نام محمدرکھا ہے اور مجھے ہر طرف سے اس نام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔(بیہقی)

آپ صلی الله علیہ و سلم کا نام حضرت آمنہ  نے ایک خواب کی بنا پر ”احمد“(سب سے زیادہ تعریف کرنے والا)رکھا تھا۔

آپ صلی الله علیہ و سلم کو آپ کی والدہ کے بعد سب سے پہلے آپ صلی الله علیہ و سلم کے چچا ابو لہب کی کنیز ثویبہ نے دودھ پلایا، ان کے بعد سیدہ حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔عرب کے شہری باشندوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی آب و ہوا کی خاطردودھ پلانے والی دیہاتی عورتوں کے سپردکردیا کرتے تھے، تاکہ ان کے جسم طاقت ور اور اعصاب مضبوط ہوں اور وہ خالص عربی زبان سیکھ سکیں ۔ اسی دستور کے مطابق آپ صلی الله علیہ و سلم کو بھی سیدہ حلیمہ بنت ابی ذویب،جن کا تعلق قبیلہ بنو سعد سے تھا،کے سپرد کیا گیا۔ ان کے شوہر کا نام حارث بن عبدا لعزیٰ اور کنیت ابو کبشہ تھی۔ اس طرح حارث کے بچے اور بچیاں آپ صلی الله علیہ و سلم کے رضاعی بہن بھائی ہوئے۔ جن کے نام یہ ہیں عبداللہ، ا نیسہ اور حذافہ،ان کا لقب شیماتھا،یہ آپ صلی الله علیہ و سلم کو گود میں کھلایا کرتی تھیں ۔ رضاعت کے دوران حلیمہنے آپ صلی الله علیہ و سلم کی برکت کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ وہ حیرت زدہ رہ گئیں ۔ آپ فرماتی ہیں کہ :

قحط سالی کے دنوں میں ہمارے پاس ایک کمزور گدھی تھی ،جس سے تیز چلابھی نہیں جاتاتھا اورایک اونٹی تھی، جو بہت ہی کم دودھ دیتی تھی۔ میرے ہاں بھی غربت کی و جہ سے دودھ بہت کم آتا تھا ،جس کی و جہ سے میرا بچہ بے قراری سے بلکتااورروتارہتاتھا۔ جب میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی مکہ پہنچی تو میرے ساتھ روانہ ہونے والی عورتیں مجھ سے پہلے مکہ پہنچ کر دودھ پلانے کے لیے نومولود بچے حاصل کر چکی تھیں ۔ مجھے پتا چلا کہ اب ایک ہی نومولود بچہ باقی ہے اور وہ بھی یتیم ہے۔ میں نے اسے غنیمت سمجھ کر لینے کا ارادہ کر لیا۔جب میں نے جا کر اس بچہ کو دیکھا تو وہ اتنا خوب صورت لگاکہ اس جیسا بچہ میں نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ میں نے اس کو اپنی گودمیں لیا اور جیسے ہی میں نے اسے اپنے سینے سے لگایا تو مجھے اتنا سکون ملا جس کا بیان الفاظ میں کرنا مشکل ہے۔جب میں نومولودکو لے کر واپس لوٹی تو وہ میری کمزور سی گدھی اتنی تیز چلنے لگی کہ پورے قافلے سے آگے نکل گئی اور کوئی بھی سواری اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔

میرے شوہر نے جب اونٹنی کے تھنوں کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ میرے سینے میں بھی اتنا دودھ بھر گیا کہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے بھی خوب پیٹ بھر کر پیا اور میرے دوسرے بیٹے نے بھی جی بھرکرپیا۔

آپ صلی الله علیہ و سلم کو گھر میں لانے کے بعد میری بکریوں نے بھی بہت زیادہ دودھ دینا شروع کر دیا۔

سیدہ حلیمہ سعدیہ کی پرورش میں آپ صلی الله علیہ و سلم نے جب دو سال گزار لیے تو وہ آپ صلی الله علیہ و سلم کوحضرت آمنہ کے سپرد کرنے کے لیے اس حال میں گھر سے روانہ ہوئیں کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی جدائی کے غم سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ و سلم کی والدہ محترمہ آمنہ بنت وہب نے جب ان کی یہ حالت دیکھی توپوچھا:
کیا تم میرے بچے کو کچھ دن اوراپنے پاس رکھنا چاہتی ہو؟

سیدہ حلیمہ سعدیہ نے عرض کیا : جی ہاں! اگر آپ کچھ مزید عرصہ انھیں میرے پاس رہنے دیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔

میری اس درخواست پر انھوں نے خوشی سے مجھے اس کی اجازت دے دی۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کی پہلی مرتبہ آمد ہی سے میرے گھر میں اللہ تعالی کی برکتوں کا نزول شروع ہو چکا تھا،اب نبی کریم صلی الله علیہ و سلم کے دوبارہ تشریف لانے سے میرا گھر خیر وبرکات کے اعتبار سے تمام قبیلے والوں کی توجہ کامرکزبن گیا۔ آپ صلی الله علیہ و سلم مزید دو سال تک حلیمہ سعدیہکے پاس رہے۔

سیدہ حلیمہ سعدیہکے رضاعی ماں ہونے کی و جہ سے آپ صلی الله علیہ و سلم ہمیشہ ان کے قبیلے والوں کا ہرطرح سے خیال رکھتے۔ غزو ہ ٴحنین کے موقع پر جب حلیمہ سعدیہ کے قبیلے کے کچھ لوگ گرفتار کر کے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لائے گئے تو آپ صلی الله علیہ و سلم نے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے انھیں رہا فرما دیا۔

رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم کا پوری زندگی میں دو مرتبہ سینہ مبارک چاک کیا گیا۔پہلی مرتبہ جب آپ حلیمہ سعدیہ کی زیر تربیت تھے،اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک دن اپنے ہم عمربچوں کے ساتھ کھیل میں اور بعض روایات کے مطابق اپنی رضاعی بہن کے ساتھ جانور چرانے میں مصروف تھے کہ جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور انھوں نے آپ صلی الله علیہ و سلم کولٹاکرآپ صلی الله علیہ و سلم کا سینہ مبارک چاک کیا، آپ صلی الله علیہ و سلم کا دل مبارک نکالا اور اس میں سے گوشت کا ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: یہ ٹکڑا شیطان کا حصہ تھا، جو باہر نکال دیا گیا ہے۔ پھر آپ صلی الله علیہ و سلم کے دل مبارک کوسونے کے طشت میں، زم زم کے پانی سے دھو کر ،اس کی جگہ پر رکھ کر ، سی دیا۔اطلاع ملنے پرحلیمہ سعدیہ اور ان کے گھر کے لوگ فورا آپ صلی الله علیہ و سلم کے پاس پہنچے تو دیکھا آپ صلی الله علیہ و سلم کا چہرہ مبارک اترا ہواتھا،پھر سیدہ حلیمہ آپ صلی الله علیہ و سلم کو لے کر گھر تشریف لے آئیں ۔(مسلم شریف) اور دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر،جس کی تفصیلات حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔

واقعہ شقِ صدرکے بعدحلیمہ سعدیہ  کو آپ صلی الله علیہ و سلم کے بارے خطرہ محسوس ہوا۔ انھوں نے اس واقعہ کے بعد آپ صلی الله علیہ و سلم کوحضرت آمنہ  بنت وہب کے پاس مکہ پہنچا دیا اور آپ صلی الله علیہ و سلم نے اپنی والدہ محترمہ کے سایہ ٴ محبت میں تقریباً دو سال گزارے، پھر وہ بھی داغ مفارقت دے گئیں،اس کا واقعہ یہ ہواکہ حضرت آمنہ،ننھے محمد( صلی الله علیہ و سلم ) اپنی خادمہ ام ایمن اور اپنے سرپرست جناب عبدالمطلب کے ساتھ یثرب(مدینہ)تشریف لے گئیں، جہاں آپ صلی الله علیہ و سلم کا ننھیال اور آپ صلی الله علیہ و سلم کے والد محترم کی قبرتھی۔ یثرب میں ایک ماہ رہ کر واپس مکہ آرہی تھیں کہ راستے میں بیمار ہوگئیں اور ا بواء نامی مقام پر پہنچ کر وفات پاگئیں اور انھیں وہیں دفن کر دیا گیا۔ والدہ محترمہ کی وفات کے بعد آپ صلی الله علیہ و سلم کے دادا جناب عبدالمطلب آپ صلی الله علیہ و سلم کو لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کے دادا آپ صلی الله علیہ و سلم کی بڑی قدر کیا کرتے تھے۔وہ آپ صلی الله علیہ و سلم کو اپنی اولاد سے بھی بڑھ کرچاہتے تھے۔ ان کی ایک خاص مسند تھی، جس پران کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں بیٹھ سکتا تھا ،لیکن وہ اپنی مسند پر آپ صلی الله علیہ و سلم کو بٹھاتے ، آپ صلی الله علیہ و سلم کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے اور آپ صلی الله علیہ و سلم کو دیکھ کر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ابھی آپ صلی الله علیہ و سلم کی عمر آٹھ سال اور دو ماہ ہی ہوئی تھی کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کے دادا بھی وفات پا گئے #
        بے سایہ کر دیا رب نے سایہ دار کو

آپ صلی الله علیہ و سلم کے دادا محترم وفات سے پہلے یہ وصیت کر کے گئے تھے کہ میرے بعد میرے اس پوتے کی کفالت ابو طالب کریں ۔ چناں چہ جناب عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق جناب ابوطالب نے آپ صلی الله علیہ و سلم کی کفالت کی ذمہ داری قبول کی۔ جناب ابو طالب آپ صلی الله علیہ و سلم کے والد محترم کے سگے بھائی تھے۔وہ آپ صلی الله علیہ و سلم سے بہت زیادہ محبت کرتے اورآپ صلی الله علیہ و سلم کو اپنے بچوں سے بھی زیادہ چاہتے تھے۔ وہ بہت زیادہ مال دار نہیں تھے، لیکن آپ صلی الله علیہ و سلم کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد اللہ رب ا لعزت نے ان کے تھوڑے سے مال میں خوب برکت پیدا فرمادی تھی اور ان کا تھوڑا سا مال ان کے پورے کنبے کی ضروریات کے لیے کافی ہو جاتا تھا۔

آپ صلی الله علیہ و سلم اپنے چچا ابو طالب کی کفالت میں جب بارہ سال کی عمر کو پہنچے ،توجناب ابو طالب نے تجارت کے لیے ملک شام جانے کاارادہ کیا اور اس سفر میں آپ صلی الله علیہ و سلمکو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ بصرہ شہر کے قریب ایک پادری بحیرہ راہب رہتاتھا،جس کا نام جرجیس اور لقب بحیرہ تھا، وہ انھیں دیکھ کر اپنے گرجا سے باہر نکل آیا اور اس قافلے کی میزبانی کی۔ اس نے آپ صلی الله علیہ و سلم کے سر پر بادل کو سایہ کرتے ہوئے دیکھ کر آپ صلی الله علیہ و سلم کے چچا اور قافلے والوں کو بتایاکہ یہ دونوں جہاں کے سردار ہیں اور اللہ تعالی انھیں رحمت عالم بنا کر بھیجیں گے۔ جناب ابو طالب نے اس سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟

اس نے جواب دیا: جب تم لوگ اس طرف آ رہے تھے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو انھیں سجدہ کرنے کے لیے نہ جھکا ہو۔ یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کرتیں اور میں انھیں مہر نبوت سے بھی پہچان گیاہوں اوران کی صفات ہماری آسمانی کتب(تورات اور انجیل)میں بھی موجود ہیں ۔ بحیرہ راہب نے جناب ابوطالب سے کہا کہ آپ انھیں ملک شام لے کر نہ جائیں ،کیوں کہ وہاں انھیں یہود سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔چناں چہ جناب ابو طالب نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو اپنے چند غلاموں کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس بھیج دیا۔(ترمذی شریف)

جب آپ صلی الله علیہ و سلم کی عمر مبارک بیس سال کی ہوئی تو ذی قعدہ کے مہینہ میں عکاظ نامی مقام پر ایک جنگ،جنگ فجار ہوئی، جس میں ایک طرف قریش اور کنانہ کے قبائل اور دوسری طرف قیس اور غیلان کے قبائل تھے۔ اس جنگ میں پہلے قیس کا پلہ بھاری تھا،لیکن بعد میں قریش کا پلہ بھاری ہو گیا۔ اس میں بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے، لیکن بعد میں دونوں نے صلح کر لی اور جس گروہ کے زیادہ مقتول تھے، دوسرے گروہ نے ان مقتولوں کی دیت ادا کی۔ اس جنگ میں آپ صلی الله علیہ و سلمبھی اپنے چچاوٴں کے ساتھ شریک ہوئے اور انھیں تیر اٹھا اٹھا کر پکڑاتے تھے۔

اس جنگ کے فورا بعداسی مہینے میں قریش کے پانچ قبائل (بنو ہاشم، بنو مطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تمیم)کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا، جسے حلف الفضول کے نام سے یادکیاجاتاہے۔۔ اس معاہدے کی وجہ یہ تھی کہ یمن کا ایک زبید نامی آدمی سامانِ تجارت لے کر مکہ آیا۔ عاص بن وائل نے اس سے سامان خرید لیا، لیکن قیمت ادا نہ کی۔ اس آدمی نے مختلف قبائل سے مدد کی درخواست کی، لیکن انھوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ چناں چہ اس نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر اپنی مظلومیت ظاہر کی اور مددکے لیے آواز بلند کی۔ اس کی آواز سن کر زبیر بن عبدالمطلب نے لوگوں میں اصلاح کی تحریک شروع کی۔ آپ صلی الله علیہ و سلم بھی اس کے ساتھ اس مہم میں شریک ہوگئے۔ ان تمام قبائل کے سردار ،قبیلہ بنو تمیم کے سردار عبداللہ بن جدعان کے گھر میں اکٹھے ہوئے اور سب نے مل کر یہ معاہدہ کیا کہ آج کے بعد مکہ میں کسی کاظلم برداشت نہیں کیاجائے گا،ہر مظلوم کی مدد کی جائے گی اور ظالم کو سزا دی جائے گی۔ چناں چہ اس معاہدے کے بعد عاص بن وائل سے زبیدی کاحق لے کر اس کے حوالے کیاگیا۔ رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:۔

میں عبداللہ بن جدعان کے مکان میں ایک ایسے معاہدے(حلف الفضول)میں شریک ہوا کہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر دورِ اسلام میں بھی مجھے ایسے معاہدے کے لیے بلاجائے تو میں یقینا اسے قبول کروں گا۔ (بیہقی)

نبی کریم صلی الله علیہ و سلم جب جوان ہوئے تو تجارت کی طرف رجحان بڑھا ،لیکن آپ صلی الله علیہ و سلم کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ تجارت کرسکیں۔ مکہ کے نہایت شریف خاندان کی مال دار بیوہ خاتون سیدہ خدیجہ بنت خویلدکوجب آپ صلی الله علیہ و سلم کی صداقت،دیانت،امانت اور خوش اخلاقی کا علم ہوا توانھوں نے آپ صلی الله علیہ و سلم کی خوبیوں سے متاثر ہو کر درخواست کی کہ آپ صلی الله علیہ و سلم ان کی رقم سے تجارت کریں اور انھوں نے یہ پیش کش بھی کی کہ وہ آپ صلی الله علیہ و سلم کو دوسروں سے بڑھ کر اجرت دیں گی۔ حضرت خدیجہ نے اس سفر کے دوران اپنا غلام میسرہ بھی بھیجا۔ آپ صلی الله علیہ و سلم جب ان کا مال لے کر تجارت کرنے شام گئے تواس تجارت میں بہت نفع ہوا۔ آپ صلی الله علیہ و سلم جب واپس مکہ تشریف لائے تو سیدہ خدیجہ نے اپنے مال میں ایسی برکت دیکھی جوپہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ یہ دیکھ کروہ حیران رہ گئیں اور ان کے غلام میسرہ نے بھی آپ صلی الله علیہ و سلم کی عمدہ صفات کے بارے میں حضرت خدیجہ کو آگاہ کیا،جس سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنی ایک سہیلی،نفیسہ بنت منبہ کوبھیج کرآپ صلی الله علیہ و سلم کونکاح کی پیش کش کی۔آپ صلی الله علیہ و سلم نے ان کی اس خواہش کااپنے چچاوٴں کے سامنے اظہار کیا۔ آپ صلی الله علیہ و سلمکے چچا سیدناحمزہ اس رشتہ کا پیغام لے کرسیدہ خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد کے پاس گئے، جسے انھوں نے بخوشی قبول کیا اور اس کے بعدسیدہ خدیجہ کانکاح آپ صلی الله علیہ و سلم سے کرا دیا۔نکاح کے وقت آپ صلی الله علیہ و سلم کی عمر 25 سال، جب کہ سیدہ خدیجہ کی عمر40سال تھی۔رضی اللہ تعالیٰ عنھا! آپ صلی الله علیہ و سلم نے اپنی بھرپور جوانی کے 25 سال صرف ایک بیوہ عورت کے ساتھ گزار دیے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپصلی الله علیہ و سلمنے آخری عمر میں جو شادیاں کیں وہ دینی مصلحت کے تحت کیں، نہ کہ اپنی ذاتی خواہش کی تکمیل کی غرض سے،جیساکہ دشمنان اسلام پروپیگنڈا کرتے ہیں۔

٭…آپ صلی الله علیہ و سلم کی تمام اولاد،سوائے ابراہیم  کے،جوماریہ قبطیہ سے پیداہوئے،سیدہ خدیجہ سے ہی تھی۔ جن میں پہلے قاسم، پھر ز ینب، پھر رقیہ، پھر ام کلثوم، پھر فاطمہ، پھر عبداللہ،جن کا لقب طیب و طاہرپیدا ہوئے۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کے تمام بیٹے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے، البتہ تمام بیٹیوں نے عہد نبوت پایا ،اسلام لائیں اور ہجرت بھی کی اوروہ سب آپ صلی الله علیہ و سلم کی زندگی میں ہی فوت ہوگئیں، سوائے سیدہ فاطمہ  کے،جوآپ صلی الله علیہ و سلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں ۔(سیرت ابن ہشام)

جب آپ صلی الله علیہ و سلم کی عمر مبارک 35 سال کی ہوئی تو ایک زوردار سیلاب آیا،جس سے بیت اللہ کی دیواریں پھٹ گئیں، اس لیے قریش مجبور ہو گئے کہ بیت اللہ کا مقام و مرتبہ برقرار رکھنے کے لیے اسے ازسرنو تعمیرکریں ۔ اس موقعے پر انھوں نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال مال ہی استعمال کریں گے۔ زانیہ کی اجرت، سود کی آمدنی اور کسی سے ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں کریں گے۔ جب حلال مال اکٹھا کیا گیاتو وہ مال اتنا نہیں تھا کہ جس سے بیت اللہ کو اس کی اصل بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جا سکے، لہٰذا انھوں نے مال کی کمی کی و جہ سے شمال کی طرف سے کچھ حصہ تعمیر میں شامل نہیں کیا، بلکہ اس پر ایک چھوٹی سی دیوار اٹھا کر چھوڑ دی۔ یہی ٹکڑا حطیم اور حجر کہلاتا ہے۔ جب خانہ کعبہ کی عمارت حجراسود تک بلند ہوچکی تو حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کے بارے میں قریش کے درمیان جھگڑاہوگیا۔ہرقبیلہ کے سردارکی خواہش تھی کہ حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف اسے حاصل ہو۔یہ جھگڑا پانچ دن تک چلتارہااور اس قدر شدت اختیار کرگیا کہ قریب تھا کہ حرم میں خون خرابہ ہوجاتا۔اتنے میں ایک عمر رسیدہ شخص ابوامیہ مخزومی نے یہ تجویز پیش کی کہ صبح مسجد حرام کے دروازہ سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو، اسے منصف مان لیں ۔ سب لوگوں نے یہ تجویز منظور کرلی۔ اللہ تعالی کی مرضی ،کہ سب سے پہلے آپ صلی الله علیہ و سلم مسجدحرام میں داخل ہوئے۔ لوگ آپ صلی الله علیہ و سلم کو دیکھتے ہی پکار اٹھے:

”ھذا الامِین، رضِیناہ، ھذا محمد“ (یہ امین ہیں ، ہم ان سے راضی ہیں،یہ محمدہیں۔) (جاری)

Flag Counter