Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

9 - 17
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
شریعت میں اشعار پڑھنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اشعار پڑھنا گناہ ہے یا نہیں؟ جس طرح کے اشعار بھی ہوں، اچھے یا برے واضح فرما دیں۔

جواب… اشعار کا دار ومدار اشعار کے مضمون پر ہے، اگر مضمون مندرجہ ذیل چیزوں سے پاک ہو تو اشعار کہنا جائز ہے، ورنہ نہیں:
اشعار کفریہ یا فسقیہ اور مُخرِّب اخلاق مضمون پر مشتمل نہ ہوں۔
فحش اور نازیبا کلمات سے پاک ہوں۔
عشقیہ اور نفسانی خواہشات کو برانگیختہ کرنے والے اشعار نہ ہوں
بلاوجہ کسی مسلمان یا قبیلہ کی ہجو اور مذمّت نہ کی گئی ہو۔
بلاوجہ مبالغہ نہ ہو۔
اشعار پڑھنے میں اتنا مصروف نہ ہو کہ قرآن وعلم اور دیگر واجبات شرعیہ سے غفلت ہونے لگے۔
البتہ وہ اشعار جو اچھے مضامین ومعانی پر مشتمل ہوں، جیسے حمد باری تعالیٰ ، نعت رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم، مدح اصحاب رسول علیہ الصلاة والسلام، ایسے اشعار کا پڑھنا جائز ہی نہیں، بلکہ ان پر اجروثواب کی بھی امید ہے۔
البتہ یہ واضح رہے کہ ایسے اشعارمیں بھی مبالغہ آرائی نہ ہو، نیز مباح مضامین پر مشتمل اشعار کا پڑھنا مباح ہے۔

والدہ سے بدتمیزی کرنے اور اسے گھر سے نکالنے والے کی سزا
سوال… والدہ کے اوپر ہاتھ اٹھانے والے اور والدہ کو گھر سے نکالنے والے اور ان سے بدتمیزی کرنے والے کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اور اس کی سزا کیا ہے؟

جواب… قرآن کریم نے جگہ جگہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے حتی کہ اولاد کو والدین کے سامنے ”اُف“ تک کہنے سے منع فرمایا ہے چہ جائے کہ اولاد ان پر ہاتھ اٹھائے یا انہیں گھر سے بے دخل کر دیں۔

والدہ، والد کو ستانے اور تنگ کرنے والی اولاد کے بارے میں قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایسی اولاد آخرت میں تو خسارے میں ہی رہے گی، مگر دنیا میں بھی الله جل شانہ ایسی اولاد کو ذلیل ورسوا فرماتے ہیں تاوقتیکہ وہ صدقِ دل سے توبہ نہ کریں ۔

والدہ کا درجہ چوں کہ باپ سے بڑھ کر ہے اس لیے والدہ کو ستانے والے کی سزا بھی سخت ہو گی ، شریعتِ مطہرہ نے ایسی اولاد کی کوئی متعین سزا اور حد مقرر نہیں فرمائی ہے، البتہ ان پر لازم ہے کہ وہ فورا صدق دل سے توبہ واستغفار کرنے کے ساتھ والدہ ماجدہ سے بھی معافی مانگیں اور آئندہ کے لیے ایسی حرکات کے بجائے والدہ کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھیں، ورنہ دنیا وآخرت میں سخت عذاب کا خطرہ ہے۔

اپنے مسلمان بھائی سے قطع تعلق رہنا
سوال… مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں درج ذیل مسئلہ کے بارے میں، کہ دو مسلمان دوست ہیں او ران کی تقریباً ڈیڑھ سال سے آپس میں قطع تعلقی ہے، ان میں سے ایک بات کرنے کے لیے راضی ہے اور اس نے دوسرے کو راضی کرنے کے لیے ہر طریقہ اختیار کیا، لیکن دوسرا راضی نہ ہوا اور دونوں مدرسہ کے طالب علم ہیں، ان کے علم حاصل کرنے اور نماز پڑھنے سے ان کو کوئی نفع حاصل ہو گا یا نہیں؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں بندہ کی را ہ نمائی فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ دو مسلمان بھائیوں کا ناراض ہونا تین دن سے زیادہ درست نہیں، اور دونوں گنہگار ہیں، قرآن وحدیث میں ایسے لوگوں کے متعلق سخت وعیدیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ناراض ہوتا ہے اور اسی حالت میں اگر اس کی موت آجائے تو وہ جہنم میں داخل ہو گا، اور پھر ایک طالب علم کا دوسرے طالب سے ناراض ہونا شان طالب علمی کے خلاف ہے ، لہٰذا جس کی غلطی ہو وہ بلاجھجک اپنے دوسرے ساتھی سے معافی مانگ لے ،اور دوسرے ساتھی کو چاہیے کہ وہ اسے معاف کردے۔

انبیائے علیہم السلام کے ناموں کے ساتھ ”ص“ یا ”صلعم“ وغیرہ لکھنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب انبیائے کرام علیہم السلام کے نام لکھے جاتے ہیں، تو بطور دعا ”صلی الله علیہ وسلم“ کو مختصر کرکے”ص“ لکھنا، علیہ السلام کو مختصر کرکے ’ ’ “ لکھنا یا ”صلعم“ لکھنا، اسی طرح صحابہ رضی الله عنہم کے لیے مختصرا ” رض“ لکھنا اور بزرگان دین کے لیے مختصراً ” رح“ لکھنا کیسا ہے؟ کیا ان سے درود کا مقصد ادا ہو جائے گا یا نہیں؟ اور کوئی کراہیت ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ بعض اشخاص کے ساتھ ” علیہم السلام“ لکھا جاتا ہے، جیسے حضرت مریم کا نام ذکر کیا جاتا ہے تو ساتھ ” علیھا السلام“ لکھتے ہیں ، تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب… انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے نام نامی اسم گرامی کے بعد ” علیہ الصلوٰة والسلام“ یا صلی الله علیہ وسلم“ لکھنے کے بجائے ”ع“ یا ”  “ یا ”ص“ یا ”صلعم“ لکھنا، اور حضرات صحابہٴ کرام کے اسمائے گرامی کے ساتھ ” رضی الله عنہ“ کے بجائے”رض“ اور بزرگانِ دین کے اسماء کے ساتھ ”رحمہ الله“ کی بجائے ”رح“ لکھنا اسی طرح ” تعالیٰ“ اور ”جل جلالہ“ کے بجائے ” تعہ“ اور ”ج“ لکھنا درست نہیں، اور خلافِ ادب ہونے کے ساتھ ساتھ قلتِ محبت پر دال ہے، او رمقصود جو کہ صلوٰة وسلام کہنا ہے ان حروف سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ” علیہ الصلوٰة وسلام“ اور صلی الله علیہ وسلم“ وغیرہ پورا کرکے لکھنا چاہیے۔

اور اگر دیکھا جائے تو تمام کتب حدیث میں محدثین رحمہم الله تعالیٰ نے جہاں بھی نام مبارکہ ذکر کیا ہے وہاں پر پورا پورا درود وسلام لکھا ہے، تو گویا کہ اس کو ایک طرح کی اجماعی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا پورا پورا علیہ الصلوٰة والسلام لکھنا چاہیے، اور یہ بھی ملاحظہ ہو کہ بعض ائمہ کرام رحمہم الله تعالیٰ اس کے قائل ہیں کہ جب اسم گرامی مکرر ذکر ہو تو ہر ہر مرتبہ تکرار کے ساتھ درود پڑھنا واجب ہے، اگرچہ ایک مجلس میں ہو، تو یہ بھی صلوٰة وسلام کی اہمیت کی دلیل ہے، لہٰذا صلوة و سلام پورا لکھنا چاہیے، تاکہ مقصود اچھے طریقے سے حاصل ہو ۔

صلوة وسلام انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا دیگر بزرگ اشخاص کے ساتھ منفرداً صلوة وسلام پڑھنا یا لکھنا مکروہ ہے، لیکن اگر تبعاً ان پر درود لکھا یا پڑھا جائے تو جائز ہے، اس طرح کہ ان اشخاص کا نام انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے ساتھ مذکور ہو اور صلوة وسلام میں ان کو بھی شامل کیا جائے۔ جیسے ” اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وصحبہ وسلم․“

مسجد میں جماعت سے علیحدہ ہو کر تنہا نماز پڑھنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شہر کی جامع مسجد میں ہر نماز کے وقت ، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء جس وقت تکبیر تحریمہ کہہ کر باجماعت نماز شروع کی جاتی ہے عین اسی وقت ایک شخص مستقل امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا اور اپنی نماز جماعت سے علیحدہ ہو کر صرف ایک صف کے فاصلے پر آگے یا پیچھے شروع کر تا ہے، یا تلاوت قرآن میں مصروف ہوتا ہے، کبھی کبھی جماعت کے افراد کے زیادہ ہو جانے پر اس شخص کا یہ عمل جماعت کی صفوں کے بیچ میں آجاتا ہے ۔

مزید وضاحت یہ ہے کہ موجودہ امام صاحب کے والد جو اس مسجد کے متولی اور خطیب تھے، اس کے پیچھے بھی یہ شخص نماز نہیں پڑھتا تھا باقی ساری جماعت بغیر کسی اختلاف کے اس امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتی ہے نماز کے اوقات تبدیل کرنے سے اس شخص کا بھی جان بوجھ کر وہی وقت ہوتا ہے جو تبدیل کیا جاتا ہے، مثلاً :عشاء کا ٹائم7:30 ہے تو اس کا بھی ساڑھے سات ہی ہے ،آٹھ بجے ہے تو اس کا بھی وہی ٹائم ،او راگر جماعت نو بجے ہو رہی ہے تو اس کی نمار کا ٹائم بھی وہی ہے، سارے اوقات علی ہذا القیاس۔

مذکورہ شخص کا یہ عمل کافی لمبے عرصے سے چلا آرہا ہے، وضاحت سے مسئلہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں راہنمائی فرمائیں کہ اس شخص کے لیے کیا حکم ہے او رجماعت کے لیے کیا حکم ہے ؟

جواب…بلاکسی عذر شرعی مرَدوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے، ترکِ جماعت پر متعدد احادیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لہٰذا امام صاحب کے ساتھ معمولی سی ناچاقی کی بنا پر جماعت ترک کر دینا کسی مسلمان کے لیے روا نہیں، نیز جماعت کے دوران اپنی نماز پڑھنا بھی درست نہیں، حدیث میں اس سے منع فرمایا گیا ہے۔

اہل محلہ ومسجد پر لازم ہے کہ وہ خیر خواہی کے جذبے سے، مخلصانہ طور پر تنہائی میں ، شفقت ونرمی کے ساتھ اسے جماعت کی فضیلت سنا کر جماعت میں شریک ہونے کے لیے تیار کریں اور فریقین کے درمیان صلح کرانے کی بھرپور کوشش کریں اور اس کے لیے الله پاک سے دعائیں بھی مانگیں ، ہماری دعاؤں اور جہد مسلسل کی برکت سے اگر الله پاک اسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والا بنادے اور فریقین کے باہمی اختلافات کو دور فرما دے، تو یہ یقینا ہماری نجات کے لیے آخرت میں بہت بڑا سامایہ ہو گا۔

ہم دعا گو ہیں کہ الله پاک تمام مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ختم فرماکر سب کو ایک اور نیک بنا دے اور صراطِ مستقیم پر قائم فرما دے۔ آمین!

Flag Counter