Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

10 - 17
غائبانہ نماز جنازہ شرعی حکم

مولانا محمد نجیب قاسمی، ریاض
	
دنیا میں ہر انسان کی زندگی طے شدہ ہے۔ وقت معیّن آنے کے بعد ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی جا تی۔ مقررہ وقت آنے پر اس دنیا سے قبر والے گھر کی طرف منتقل ہوناہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: ﴿فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَایَسْتَقْدِمُوْنَ﴾․ (سورة النحل، آیت: 61) جب ان کا وقت آپہنچا، پھر ایک سیکنڈ اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا: ﴿وَلَن یُّوٴخِّرَ اللّٰہُ نَفْساً اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا﴾․ (سورة المنافقون، آیت: 11) جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا ہے: ﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾ (سورة آل عمران، آیت: 185) ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں انتقال کے بعد جتنی جلدی ممکن ہوسکے میت کو غسل وکفن کے بعد اس کی نمازجنازہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ نماز جنازہ میں جس قدر بھی زیادہ آدمی شریک ہوں اسی قدر میت کے حق میں اچھا ہے کیوں کہ نہ معلوم کس کی دعا لگ جائے اور میت کی مغفرت ہوجائے۔

٭... رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: اگر کسی جنازہ میں 100 مسلمان شریک ہوکر اس میت کے لیے شفاعت کریں (یعنی نماز جنازہ پڑھیں) تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (مسلم)
٭... رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کسی مسلمان کے انتقال پر ایسے چالیس آدمی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، اس کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت (دعا) کو میت کے حق میں قبول فرماتا ہے۔ (مسلم)
٭... رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے جنازے میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے ساتھ چلا، یہاں تک کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کو دفن کرنے میں بھی شریک رہا تو وہ دو قیراط اجر (ثواب) لے کر لوٹتا ہے اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص نماز جنازہ میں شریک ہوا ،مگر تدفین سے پہلے ہی واپس آگیا تو وہ ایک قیراط اجر (ثواب) کے ساتھ لوٹتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
٭... نماز جنازہ میں اگر لوگ کم ہوں تب بھی تین صفوں میں لوگوں کا کھڑا ہونا زیادہ بہتر ہے، کیوں کہ بعض احادیث میں جنازہ کی تین صفوں کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ( ابو داوٴد)

نماز جنازہ کی اتنی فضیلت ہونے کے باوجود انتہائی افسوس اور فکر کی بات ہے کہ باپ کا جنازہ نماز کے لیے رکھا ہوا ہے اور بیٹا نماز جنازہ میں اس لیے شریک نہیں ہورہا ہے کہ اس کو جنازہ کی نماز پڑھنی نہیںآ تی، حالاں کہ جنازہ کی دعا اگر یاد نہیں ہے تب بھی نماز جنازہ میں شریک ہونا چاہیے تاکہ جو رشتہ دار یا دوست یا کوئی بھی مسلمان اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کررہا ہے ، اس کے لیے ایک ایسے کام میں ہماری شرکت ہوجائے جو اُس کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔

آغاز نماز جنازہ
موٴرخین نے تحریر کیا ہے کہ نماز جنازہ کا حکم مکہ مکرمہ میں نہیں تھا، اسی لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی تھی۔۔۔ نماز جنازہ کا حکم مدینہ منورہ میں ہجرت کے فوراً بعد پہلی ہجری کو ہوا اورحضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی سب سے پہلی نماز جنازہ ہجرت کے ایک ماہ بعد ادا کی گئی۔ (طبقات ابن سعد)

حضرت نجاشی  کا تعارف
آپ کا نام اصحمہ بن ابحر ہے۔ نجاشی آپ کا لقب ہے، جیسا کہ حبشہ (Ehiopia) کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا ہے۔ بہت کم عمری میں آپ حبشہ (Ehiopia) کے بادشاہ متعین کردیے گئے تھے۔ حضرت نجاشی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائے، مگر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہوسکی۔ امام ذہبی  نے تحریر کیا ہے کہ آپ ایک لحاظ سے صحابی ہیں اور ایک لحاظ سے تابعی ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء) دو مرتبہ صحابہٴ کرام نے حبشہ (Ehiopia)ہجرت کی، ایک نبوت کے پانچویں سال اور ایک مرتبہ بعد میں۔جب کفار مکہ نے صحابہٴ کرام کو واپس کرنے کے لیے حضرت نجاشی سے رابطہ کیا تو نجاشی بادشاہ نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے سورہٴ مریم کی ابتدائی آیات پڑھیں تو حضرت نجاشی، جو اس وقت تک عیسائی تھے، رونے لگے، یہاں تک کہ داڑھی تر ہوگئی اور کہا کہ بے شک یہ کلام اور وہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے، ایک ہی محراب سے نکلنے والا (نور) ہے۔ اللہ کی قسم! اے قریش مکہ! میں ان کو تمہارے سپرد نہیں کروں گا۔ بعد میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو دعوت اسلام دی، حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خط پکڑکر اسے اپنی آنکھوں پہ رکھا، تواضع کے ساتھ اپنے تخت سے اترکر زمین پر بیٹھ گئے اور اسلام قبول فرمالیا۔ ۹ ہجری میں ان کا حبشہ (Ehiopia) میں انتقال ہوا اور ان کو نماز جنازہ کے بغیر دفن کردیا گیا، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

حضرت نجاشی  کی نماز جنازہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہٴ کرام کو حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر دی، پھر آگے بڑھے، صحابہٴ کرام نے پیچھے صفیں لگائیں، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چار تکبیر کہیں۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) امام بخاری  نے یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح بخاری میں متعدد جگہوں پر ذکر فرمائی ہے، مگر ایک مرتبہ بھی حدیث کے متن میں یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ ہاں! ان احادیث سے یہ بات ضرور معلوم ہوئی کہ حضرت نجاشی کا حبشہ (Ehiopia)میں انتقال ہوااور ان کو نماز جنازہ کے بغیر دفن کردیا گیا تھا، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے پہلے سے باقاعدہ اعلان کے بغیر مسجد نبوی میں نماز نہ پڑھ کر کھلے میدان میں جاکر اس وقت جو صحابہٴ کرام موجود تھے ان کی موجودگی میں نماز جنازہ پڑھی، یہ غائبانہ نماز جنازہ نہیں تھی، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مرئی (جو نظر آرہاہو) اور حاضر پر نماز جنازہ پڑھی ہے، غائب تو وہ ہوتا ہے جو دکھائی نہ دے، کیوں کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نجاشی کے جنازہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا تھا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی، تمہارے بھائی حضرت نجاشی انتقال کرگئے ہیں، کھڑے ہوجاوٴ، ان کی نماز جنازہ ادا کرو، پس حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور صحابہٴ کرام نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چار تکبیر کہیں، صحابہٴ کرام یہی سمجھ رہے تھے کہ حضرت نجاشی  کا جسم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے آگے ہے۔ (صحیح ابن حبان، مسند احمد، فتح الباری)

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں اس نوعیت کے واقعے اس کے علاوہ بھی پیش آئے ہیں جس میں دنیاوی دوری کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے سے تمام دنیاوی پردوں کو ہٹادیا گیا ہو، چناں چہ مکہ مکرمہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے زمین کو لپیٹ دیا گیا تھا، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں بیٹھے بیٹھے مسجد اقصیٰ کو دیکھ کر اس کے احوال لوگوں کے سامنے بیان کیے۔ اسی طرح حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں اس وقت اپنے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں… ۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

نماز جنازہ (غائبانہ )کے لیے حضرت معاویہ بن معاویہ مزنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس (تبوک میں) تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ! حضرت معاویہ مزنی رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے ہیں، کیا آپ ان کی نماز جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں؟ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے زمین پر اپنا پرمارا تو ہر درخت اور ٹیلہ پست ہوگیا اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے حضرت معاویہ  کی چارپائی بلند کردی گئی، یہاں تک کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں دیکھتے ہوئے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا کہ حضرت معاویہ مزنی  کو اللہ تعالیٰ سے یہ مقام کیسے ملا؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا: ان کے سورہ ٴاخلاص، یعنی قل ہو اللہ احد کے ساتھ ان کے تعلق کی وجہ سے کہ آتے جاتے، اٹھتے بیٹھتے اس کی تلاوت کیا کرتے تھے۔

لیکن اس حدیث سے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے، کیوں کہ اس حدیث کی سند میں ضعف ہے اور اگر مذکورہ حدیث کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ غائبانہ نماز جنازہ نہیں تھی، بلکہ تمام پردوں کو ہٹاکر حضرت معاویہ مزنی  کے جنازہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے حاضر کردیا گیا تھا ،جیسا کہ حدیث کی عبارت سے خود واضح ہورہا ہے۔نیز اگر غائبانہ نماز جنازہ پڑھنی جائز ہوتی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام زمین پر اپنا پرمارنے کا اہتمام نہ کرتے۔

خلاصہٴ کلام
لاکھوں صفحات پر مشتمل ذخیرہٴ حدیث میں نماز جنازہ (غائبانہ) پڑھنے کے لیے یہ صرف دو واقعے دلیل کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں، حالاں کہ ان کی توجیہ بھی ہوسکتی ہے اور دونوں کو خصوصیت پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔ اگر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کی عام اجازت ہوتی تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم ان بیسیوں صحابہٴ کرام پر نماز جنازہ نہ چھوڑتے جن کی وفات آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات میں مدینہ منورہ سے باہر ہوئی، حالاں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہٴ کرام کی نماز جنازہ پڑھنے کا خاص اہتمام فرماتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام کو تعلیمات بھی دے رکھی تھیں کہ اگر کوئی جنازہ حاضر ہو تو مجھے ضرور اطلاع کریں۔ اسی طرح آپ کے بعد صحابہٴ کرام کا بھی کوئی معمول غائبانہ نماز جنازہ کا نہیں ملتا۔ خلفائے راشدین میں سے کسی ایک کی نماز جنازہ غائبانہ ادا نہیں کی گئی اور نہ ہی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحابی سے کسی ایک شخص کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ علم اور مقام کے اعتبار سے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہٴ کرام سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے؟

علمائے امت کے اقوال
80 ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ  اور93 ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام مالک  ۔ ان حضرات کے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ جائز ہی نہیں ہے یعنی مشروع ہی نہیں ہے، کیوں کہ حضرت نجاشی  کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں تھی، جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور حضرت نجاشی  کے درمیان جتنے حجابات تھے وہ سب اللہ کے حکم سے دور کردیے گئے تھے یہاں تک کہ حضرت نجاشی کا جنازہ اللہ کے حکم سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا تھا۔ زمانہٴ قدیم سے عصر حاضر تک کے علمائے احناف اور مالکی علماء کی کتابیں اس کی گواہ ہیں۔

حضرت امام شافعی سے دو اقوال منقول ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ دوسرے ملک میں تو نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کی گنجائش ہے، مگر اسی ملک میں نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کی اجازت نہیں جہاں تدفین ہوئی ہو۔

حضرت امام احمد بن حنبل سے بھی دو اقوال منقول ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ایسے ملک میں فوت ہوگیا ہو جہاں کفار ہی کفار رہتے ہیں تو پھر اس کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی جاسکتی ہے۔

مفسر قرآن امام قرطبی  نے تحریر کیا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جب حضرت نجاشی کے جسم کو دیکھا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے غائب پر نماز نہیں پڑھی، بلکہ آپ نے مرئی (جو نظر آرہاہو) اور حاضر پر نماز جنازہ پڑھی ہے، غائب تو وہ ہوتا ہے جو دکھائی نہ دے۔ امام قرطبی مزید تحریر کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے زمین کو جنوباً وشمالاً لپیٹ دیا گیا تھا، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت نجاشی کو دیکھ لیا، جیسے آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے زمین کو شمالاً وجنوباً لپیٹ دیا گیا تھا، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں بیٹھے مسجد اقصیٰ کو دیکھ کر اس کے احوال بیان کیے۔ (تفسیر قرطبی)

مشہور محدث امام ذہبی  حضرت نجاشی کی نماز جنازہ کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ اس جنازہ کو پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت نجاشی کا وصال قوم نصاریٰ میں ہوا تھا اور وہاں کوئی ایسا نہیں تھا جو آپ کی نماز جنازہ ادا کرے، کیوں کہ صحابہٴ کرام جو ہجرت کرکے وہاں گئے تھے، وہ فتح خیبر کے سال ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء)

علامہ ابن القیم  اپنی کتاب ( زاد المعاد) میں لکھتے ہیں کہ جس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جاچکی ہے، اس کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ علامہ ابن تیمیہ  کا بھی یہی موقف ہے۔ علامہ البانی نے اپنی کتاب (تلخیص احکام الجنائز) میں لکھا ہے کہ جس شخص کی نماز جنازہ ادا کی جاچکی ہے، اس کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیوں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین میں سے کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔ علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن القیم اور شیخ البانی  کا تذکرہ اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اِن دنوں جو حضرات غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کی بات کرتے ہیں، ان میں سے اکثر حضرات احکام ومسائل میں ان حضرات کے اقوال کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔

نماز ِجنازہ (غائبانہ)
حضرت نجاشی  کے واقعہ سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ایسے علاقہ میں انتقال کرجائے جہاں اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی ہو تو ایسے شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کی گنجائش ہے، لیکن آج کل بعض حضرات نے غائبانہ نماز جنازہ پر اس طرح عمل شروع کردیا ہے کہ ہر عام وخاص کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کرتے ہیں، حالاں کہ اعلان عام کے بعد میت کی باقاعدہ نماز جنازہ ادا ہوجائے اور اس میں سینکڑوں یا ہزاروں لوگوں نے شرکت بھی کرلی تو غائبانہ نماز جنازہ کی بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی۔ ہاں! دنیا کے کونے کونے سے میت کے لیے ہم دعا واستغفار کرسکتے ہیں اور خوب دعا واستغفار کرنا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ میت کی مغفرت فرمائے اور اس کے درجات کو بلند فرمائے۔ رہی بات شاہ حبشہ حضرت نجاشی کی نماز جنازہ کی، تو دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ وہ انتقال کیے تو وہاں کوئی اور مسلمان نہیں تھا، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کے جنازہ کے سامنے سے تمام رکاوٹوں کو دور کردیا تھا، جیسا کہ احادیث وسیرت کی کتابوں میں وضاحت موجود ہے، لہٰذا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔ اس واقعہ کے علاوہ کسی کی نماز جنازہ (غائبانہ ) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے نہیں پڑھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بہت سے جان نثار صحابہ ، قراء صحابہ ، آپ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیار ، آپ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ  ان سب کا انتقال حالت سفر میں ہوا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں خبر ملی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد آپ کے چاروں خلفاء میں سے کسی ایک کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھی گئی، نیز کسی ایک صحابی سے بھی ایک واقعہ بھی نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، حالاں کہ وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال کو ہم سے زیادہ اچھی طرح سمجھتے تھے اور ہم سے زیادہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔

دینی بھائیو! جس عمل کی مشروعیت میں ہی اختلاف ہو کہ حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک  کے نزدیک نماز جنازہ غائبانہ جائز ہی نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل نے چند شرائط کے ساتھ محدود اجازت تو دی ہے، لیکن کبھی بھی زندگی میں ان دونوں حضرات سے نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے، تو عقل بھی کہتی ہے کہ مشکوک عمل کو کیوں کیا جائے ؟بلکہ میت کے لیے صدقہٴ جاریہ کے طور پر کچھ کام کرادیں، جس سے مسلمانوں کا تعلیمی یا مالی فائدہ بھی ہو یا کم از کم میت کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعائیں ہی کریں ، اس میں کسی طرح کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔

نماز پڑھییقبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ عقل مند شخص وہ ہے جو مرنے سے پہلے اپنے مرنے کی تیاری کرلے۔

Flag Counter