Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

5 - 17
اسلام کا قانونِ قصاص

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
 ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّہُ مِنَ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً أُولَئِکَ مَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ یُکَلِّمُہُمُ اللّہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَ یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ،أُولَئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَہُمْ عَلَی النَّار،ذَلِکَ بِأَنَّ اللّہَ نَزَّلَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُواْ فِیْ الْکِتَابِ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:179-173)
بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ نازل کی الله نے کتاب اور لیتے ہیں اس پر تھوڑا سامول، وہ نہیں بھرتے اپنے پیٹ میں مگر آگ اور نہ بات کرے گا الله ان سے قیامت کے دن اور نہ پاک کرے گا ان کو اور ان کے لیے ہے عذاب دردناکیہی ہیں جنہوں نے خریدا گم راہی کو ،بدلے ہدایت کے اور عذاب ،بدلے بخشش کے، سو کس قدر صبر کرنے والے ہیں وہ دوزخ پریہ اس واسطے کہ الله نے نازل فرمائی کتاب سچی او رجنہوں نے اختلاف ڈالا کتاب میں، وہ بے شک ضد میں دور جاپڑے

ربطِ آیات:گزشتہ آیات میں مشرکین کی فکری اور عملی کوتاہیاں بیان کرکے ان کی مذمت کی گئی تھی ،ان آیات میں علمائے یہود کی کوتاہیاں، یعنی دنیا کی محبت اور حصول دنیا کی خاطر دینی احکام چھپانے کی مذمت بیان کی گئی ہے او راس میں اشارةً اہل اسلام کو بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ ان دینی احکام کو دنیا کے بدلے میں چھپا کر الله تعالیٰ کے غیض وغضب کو دعوت مت دیں۔

تفسیر: دین فروشی کی سزا
یعنی جو لوگ دنیا کا مال ومتاع ( جو کہ الله کے احکام کے مقابلے میں تھوڑا سا ہے) لے کر الله کے احکام کوچھپاتے ہیں وہ لوگ مال ومتاع دنیوی کے بجائے درحقیقت اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں، پس روز قیامت الله ان سے نہ لطف ونرمی سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی ہلکی پھلکی سزا دے کر ان کو گناہوں سے پاک فرمائے گا، جیسا کہ مؤمنین کا معاملہ ہے کہ انہیں ان کے گناہوں کی سزا دے کر پاک کیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں جنت میں بھیج دیا جائے گا، لیکن ان لوگوں کو دردناک عذاب ہو گا۔

کیوں کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے انتہائی خسارے کا سودا کیا گم راہی کو ہدایت اور عذاب کو مغفرت کے بدلے میں خرید، ایسا لگتا ہے کہ انتہائی جرأت اور صبر کے ساتھ آگ میں جانے کے لیے تیار ہیں ۔

﴿لَّیْْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُواْ وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولَئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:177)
نیکی کچھ یہی نہیں کہ منہ کرو اپنا مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف، لیکن بڑی نیکی تویہ ہے جو کوئی ایمان لائے الله پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور سب کتابوں پر اور پیغمبروں پر اور دے مال اس کی محبت پر رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں اور قائم رکھے نماز اور دیا کرے زکوٰة اور پورا کرنے والے اپنے اقرار کو جب عہد کریں اور صبر کرنے والے سختی میں او رتکلیف میں اور لڑائی کے وقت ، یہی لوگ ہیں سچے اور یہی ہیں پرہیز گار

ربطِ آیات:شروع سورت سے یہاں تک تقریباً سورہٴ بقرة کے نصف تک زیادہ تر خطاب کفار کو کیا گیا تھا ،مشرکین، یہود ونصاری مخاطب رہے، اگرچہ بعض مقامات پر ضمناً مومنین کو بھی خطاب کیا گیا ہے اور بقرة کے نصف آخر میں زیادہ تر خطاب مومنین کو کیا گیا ہے او راسی میں فروعی احکام مثلاً قصاص ، وصیت ، صیام، جہاد ، حج ، انفاق، حیض، ایلاء اور یمین کے احکام بیان کیے گئے ہیں او ران سب کو نیکی کے مجمل عنوان سے شروع فرمایا گیا ہے۔

تفسیر: نیکی کے اصل کام
چوں کہ عیسائی اور یہودی اپنا اپنا جداگانہ قبلہ مخصوص کیے ہوئے تھے او رمسلمانوں کے خلاف تحویل قبلہ کے وقت ان کا شو رو شغب بھی زیادہ تھا۔لہٰذا فرماتے ہیں کہ سارا کمال مشرق ومغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں ہے کہ جناب! ہمارا قبلہ مشرق ہے، لہٰذا ہم نیکوکار ہیں، کیوں کہ یہ تو بذات خود کوئی نیکی نہیں، بلکہ اصل نیکی نماز ہے، قبلہ اس کی ادائیگی کے لیے معاون ہے، لہٰذا اس میں بھی نیکی آگئی۔

ہاں! اصل نیکی تو یہ ہے کہ انسان الله تعالیٰ پر، یوم آخرت پر، ملائکہ پر، الله تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتابوں پر اور تمام انبیا پر ایمان لائے اورمحض الله کی محبت کی بنا پر اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور غلام آزاد کرانے یا مسلمان قیدی چھڑانے میں خرچ کرے اور نماز کی پابندی کرے اور زکوٰة دے۔ اسی طرح اگر عہد کرے تو پورا کرے، یہ عہد خالق سے ہو یا مخلوق سے ہو۔ تنگ دستی، بیماری اور قتال فی سبیل الله کے مواقع میں مستقل مزاج رہے ،کم ہمتی اور پریشانی کا مظاہرہ نہ کرے۔پس یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں ، نیکی او رکمال تو انہیں لوگوں کا ہے اور یہی متقی ہیں۔

مذکورہ تمام نیکیاں تین اصولوں میں منحصر ہیں عقائد، اعمال اور اخلاق اور یہی تینوں اصول شریعت کے تمام احکام وفروع کا حاصل اور خلاصہ ہیں ، لہٰذا یہ آیت منجملہ جوامع کلم سے ہے ۔

فائدہ: مذکورہ آیت میں الله کی محبت میں مال خرچ کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے یہ زکوٰة کی ادائیگی کے علاوہ ہے۔ترمذی میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مال میں زکوٰة کے علاوہ بھی حق ہے، پھر مذکورہ آیت تلاوت فرمائی ۔ آیت میں مزیدر غبت دلانے کے لیے زکوٰة مفروضہ سے پہلے دیگر حقوق مالیہ ذکر کیے گئے ہیں۔

انفاق فی سبیل الله کے مصرف
اس آیت میں جن لوگوں پر انفاق کی ترغیب گئی ہے ان میں پہلے ”ذَوِی القُرْبیٰ“ کا بیان ہے ، قریبی أعزّہ، والدین، بہن ،بھائی، چچے، پھوپھیاں، ماموں، خالائیں، بھتیجے، بھانجے، چچازاد، ماموں زاد، پھوپی زاد سب ذَوِی القُربیٰ میں داخل ہیں۔ ان میں ضرورت مندوں کا خیال رکھنا، ان کے لیے کام آنا، بڑی نیکی ہے ۔ حقیقت یہ ہے خاندانی رشتوں میں محبت، احترام کا اس سے بڑھ کر کوئی نسخہ نہیں۔ اس کے بعد یتیموں کا ذکر ہے ۔ یتیم اس کو کہتے ہیں جس کا والدانتقال کر گیا ہو او روہ نابالغ ہو ۔ بالغ ہونے کے بعد بچہ یتیم نہیں ہوتا، آپ  نے فرمایا”لاَ یُتْمَ بَعْدَ حُلَم“ بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہوتی۔ (سنن ابوداؤد، رقم الحدیث:2873) اس کے بعد مساکین کا تذکرہ ہے، مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس قلیل مقدار میں مال ہو جو بنیادی ضروریات کے لیے بھی کافی نہ ہو۔ ( تفسیرابن کثیر، البقرة، ذیل آیت:177) اس کے بعد ” ابن السبیل“ کا بیان ہے ۔ ”ابن السبیل“ مسافر کو کہتے ہیں، اپنے وطن اور عزیز واقارب سے دور اجنبی شہر میں ہو، اسے حالت سفر میں رقم کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے بعد ” السائلین“ کا بیان ہے ،یعنی وہ لوگ جو فقر وفاقہ سے مجبور ہو کر خود ہی مانگتے ہیں ،لیکن پیشہ ور بھکاری اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے بعد ”رِقاب“ کا بیان ہے۔ اس سے غلام آزاد کرنے کے لیے رقم خرچ کرنا بھی مراد ہو سکتا ہے اور کافروں کے ہاتھوں مسلمان قیدی چھڑانے کے لیے مال خرچ کرنا بھی ۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْء ٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ، وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاةٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:179-178)
اے ایمان والو! فرض ہوا تم پر ( قصاص) برابری کرنا مقتولوں میں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر جس کو معاف کیا جائے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی تو تابعداری کرنی چاہیے موافق دستور کے اور ادا کرنا چاہیے اس کو خوبی کے ساتھ ، یہ آسانی ہوئی تمہارے رب کی طرف سے او رمہربانی ،پھر جو زیادتی کرے اس فیصلے کے بعد تو اس کے لیے ہے عذاب دردناک اورتمہارے واسطے قصاص میں بڑی زندگی ہے اے عقل مندو! تاکہ تم بچتے رہو

ربط:اجمالی طور پر نیکیوں کے بیان کے بعد اب احکام کی طرف آتے ہیں اور سب سے پہلے قصاص کا حکم بیان کیا جارہا ہے۔

تفسیر: اسلام کا قانونِ قصاص
انسان اجتماعیت کا محتاج ہے، وہ انسانی معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا، اجتماعیت کی بقا کا راز عدل میں مضمر ہے اور عدل نام ہے شریعت کا، جب تک انسانوں میں خالق کا حکم نہیں چلے گا اس وقت تک انسانوں کی جان ومال کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی، انسان کی فکر ناقص، علم محدود، تدبیر ادھوری ہوتی ہے، اس لیے انسانوں کے وضع کردہ قوانین میں ردّ وبدل، ترمیم، اضافے ، عام سی بات ہے۔ اس کے مقابلے خالق کا علم لا محدود، وہ انسانوں کی نفسیات سے آگاہ، اس کے اتارے ہوئے احکام اٹل ہیں، اسی کی پیروی انسانیت کو حقیقی امن سے آشنا کرتی ہے ۔ اس کے احکام معاشرے کی تشکیل ایسے طور طریقوں پرکرتے ہیں جس سے قتل وغارت گری، زنا کاری، تہمت بازی، جوّا وقمار اور سود خوری اور شراب نوشی بلکہ انسانی معاشرے کو برباد کرنے والے کسی مُحرّک کے پنپنے کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ۔ ایسے معاشرے کی تشکیل سخت احکام کے اجرا کے بغیر نہیں ہو سکتی، ایسے احکام بظاہر سخت نظر آتے ہیں، لیکن پوری انسانیت کا فائدہ اسی میں مضمر ہوتا ہے، جس کی گہرائی تک انسان کی ناقص فکر اور محدود نظر نہیں جاسکتی۔ جس طرح الله تعالیٰ نے اس آیت میں قصاص کو زندگی سے تعبیر فرمایا۔ یعنی قصاص میں زندگی ہے، اس کے مقابلے میں انسانوں کے بنائے قوانین معاشرے میں جرائم کی روک تھام کی بجائے اسے فروغ دیتے ہیں اور نت نئے فساد کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔

”ایمان والو !تم پر قانون قصاص فرض کیا گیا ہے“ ۔قصاص قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کرنے کا نام ہے۔ پس آزاد کے بدلے آزاد ، غلام کے بدلے قاتل غلام اور عورت کے بدلے میں قاتلہ عورت کو قتل کیا جائے گا، خواہ قاتل مقتول کے مقابلے میں کتنا ہی عالی حسب ونسب ہو ،اس کی رعایت نہیں کی جائے گی ۔ یہ تو قصاص کا قانون ہوا۔

لیکن اگر مقتول کے ورثاء کی طرف سے قاتل کو قصاص معاف کر دیا جائے، خواہ بطور صلح یا دیت لے کر، اس موقع پر مقتول کے ورثاء کو چاہیے کہ دیت یا بدل صلح کا مطالبہ نرمی سے کریں اور قاتل کو چاہیے کہ یہ مال اچھے طریقے سے جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کرے، کوئی بھی فریق غلط رویّہ نہ اپنائے۔

معافی قصاص کا جواز الله تعالیٰ کی طرف سے تخفیف اور نرمی ہے ، پس اگر کوئی شخص اس قانون قصاص ودیت میں حد سے تجاوز کرے، بایں طور کہ قاتل کے علاوہ کسی اور شخص کو ( جو قاتل کے خاندان سے ہو ) قتل کرے یا ایک کے بدلے دو افراد کو قتل کرے یا دیت وصول کرکے بھی قتل کرنے کے چکر میں لگارہے، اس کے لیے الله کا درد ناک عذاب ہے۔اس قانون کا فائدہ ہی ہے کہ ہر شخص اسی خوف سے قتلِ مُسلم کے ارتکاب سے بچا رہے گا۔ لہٰذا اگر غور کرو تو اسی قصاص میں حیات ہے۔

آیت کامّدعیٰ صرف اتنا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کو قتل کیا جائے گا،کسی اور کو نہیں ، یہ مطلب نہیں کہ غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا یا عورت کے بدلے مرد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ اس کے شان نزول سے معلوم ہوتا ہے۔

شان نزول
زمانہ اسلام سے پہلے دو عرب قبیلوں میں جنگ ہو گئی، طرفین کے بہت سے افراد قتل ہوئے، اس معاملے کے تصفیے سے پہلے ہی اسلام کا زمانہ شروع ہوا اور یہ دونوں قبیلے اسلام لے آئے، پھر ان کے درمیان مقتولین کے قصاص کی بات شروع ہوئی تو ان میں وہ قبیلہ جو دوسرے کے مقابلے میں شان وشوکت والا تھا۔ یہ مطالبہ کرنے لگا کہ ہم تو اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد اور ہماری عورتوں کے بدلے ان کے مرد نہ قتل کیے جائیں ۔ (تفسیر ابن کثیر، سورة البقرة، آیة،178)

چناں چہ ان کے جلاہانہ وظالمانہ مطالبے کی تردید میں مذکورہ آیت نازل ہوئی کہ غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ہی کو قتل کیا جائے گا ،اگر وہی قاتل ہو۔

قصاص او راس کے احکام
اصطلاح شریعت میں قتل یا زخمی کرنے کی اس سزا کو قصاص کہا جاتا ہے، جس میں مساوات ومماثلث کی رعایت رکھی گئی ہو۔(تفسیر البغوی، 189/1البقرة،178)

مراد یہ ہے کہ جس شخص پر جس قدر زیادتی ہوئی ہے اسی قدر زیادتی کا بدلہ دوسرے شخص سے لینا درست ہے۔ اس سے زائد زیادتی کرنا جائز نہیں، اسی کا بیان آیت ﴿فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُم﴾ (سورة البقرة، الایہ:194) (پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پرزیادتی کرو جیسی اس نے زیادتی کی تم پر) اور ﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِہِ﴾ ( سورة النحل، الایہ:126) ( او راگر بدلہ لو تو بدلہ لو اسی قدر جس قدر کہ تم کو تکلیف پہنچائی جائے) میں کیا گیا ہے۔

مسئلہ: قصاص یعنی جان کا بدلہ جان صرف قتل عمد کے ساتھ خاص ہے، قتل عمد کے علاوہ کسی اور صورت میں قصاص نہیں۔(تبیین الحقائق، کتاب الجنایات،17/253)

قتل عمدیہ ہے کہ ارادہ کے ساتھ کسی شخص کو آہنی ہتھیار یا کسی ایسے اوزار، جس سے گوشت پوست کٹ کر خون بہہ سکتا ہو، کے ذریعے قتل کیا جائے ۔ ( بدائع الصنائع، کتاب الجنایات،7/233، دارالکتاب العربی )

مسئلہ: قصاص میں جس طرح آزاد کے بدلے آزاد اور عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جاتا ہے اسی طرح غلام کے بدلے آزاد اور عورت کے بدلے مرد کو بھی قتل کیا جائے گا۔ (مجمع الانہر، باب مایوجب القصاص ومالا یوجبہ،8/414)۔

مسئلہ: قاتل کو قصاص معاف کرنے کی ایک صورت یہ ہے اس پر دیت لازم کر دی جائے، دیت خون بہا کو کہا جاتا ہے۔اور دوسری صورت یہ ہے کہ مال کے بدلے صلح کرکے قصاص معاف کر دیا جائے۔

مسئلہ: دیت کی مقدار شرعاً متعین ہے، جب کہ بدل صلح قاتل اور مقتول کے ورثاء اپنی رضا مندی سے طے کر سکتے ہیں۔دیت کی متعین مقدار سو اونٹ یا ایک ہزار دینار (یعنی375 تولہ سونا)یا دس ہزار درہم(2625 تولہ چاندی) ہیں۔ (الھدایة، کتاب الدیات،13/168-161 دارالکتب العلمیہ بیروت، مسائل بہشتی زیور2/382)

مسئلہ: بدل صلح اگر اونٹ، سونا یا چاندی ہو تو دیت سے زائد رکھنا جائز ہے اوراگر دوسری شے ہو تو جتنی بھی ہو جائز ہے خواہ اس کی قیمت دیت سے بڑھ جائے۔ (بدائع الصنائع،7/343، کتاب الصلح، دارالکتب العلمیہ)

مسئلہ : قصاص ودیت مقتول کے تمام ورثاء کا حق ہے، لہٰذا یہ حق ان پر حصہ کے بقدر تقسیم ہو گا، پس اگر تمام ورثاء قاتل کو مکمل معافی دے دیں تو قاتل بری الذمہ ہو جائے گا ، لیکن اگر ایک بھی وارث دیت کا مطالبہ کرے تو اسے اس کے حصہ کے بقدر مال دیا جائے گا۔ (الھدایة ، کتاب الجنایات، 13/121، دارالکتب العلمیہ) اور اسی طرح اگرکوئی وارث قصاص کا مطالبہ کرے تو چوں کہ قصاص ناقابل تقسیم ہے، لہٰذاا ب بھی اس وارث کو بقدر حصہ مالِ دیت ادا کیا جائے گا۔

مسئلہ: اسی طرح اگر تمام ورثاء قصاص کا مطالبہ کریں ، لیکن اگر ادنی درجہ کا وارث بھی قصاص معاف کر دے تو اس حق قصاص کے ناقابل تقسیم ہونے کی وجہ سے دوسرے وارثوں کا حق قصاص میں بھی معاف ہو جائے گا اور سب دیت میں حصہ دار ہوں گے۔ ( الھدایة مع النہایة، کتاب الجنایات، 13/121، دارالکتب العلمیہ)

مسئلہ: قصاص صرف تلوار کے ذریعے ہوتا ہے، تلوار کے ساتھ نیزہ وخنجر جیسے ہتھیار بھی ملحق ہیں، سزائے قتل میں پھانسی دینے کا جو طریقہ رائج ہے، یہ غیر شرعی ہے،کیوں کہ اس میں کسی ہتھیار کا استعمال نہیں ہوتا۔ (مسائل بہشتی زیور:2/374)

مسئلہ: قصاص اگرچہ اولیائے مقتول کا حق ہے، لیکن باجماع امت ان کواپنا یہ حق خود وصول کرنے کی اجازت نہیں ،بلکہ حاکم المسلمین کے حکم یا اس کے کسی نائب کی ضرورت ہے۔کیوں کہ مسئلہ قصاص کی جزئیات بہت دقیق ہیں کہ کون سی صورت میں قصاص واجب او رکون سی صورت میں ناجائز ہوتا ہے، ان کا سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اولیاء مقتول جذبات کی رو میں بہہ کر حد سے تجاوز کر جائیں، لہٰذا باتفاق علماء قصاص کے لیے حکومت اسلامیہ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ یہاں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے انسانوں کے خود ساختہ قوانین دو قسموں پر ہیں۔

دیوانی فوج داری۔ دیوانی قوانین نجی معاملات سے متعلق ہوتے ہیں ۔ مثلاً لین دین ، جائیداد کی تقسیم، نکاح، طلاق، مہر قبضہ وغیرہ ایسے تمام جھگڑے عدالت دیوانی میں پیش کیے جاتے ہیں ۔فوج داری قوانین، قتل، خون خرابہ، ڈکیتی، آتش زنی وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں ۔ اسلام میں اس تقسیم کا کوئی تصور نہیں ہے، کیوں کہ وضعی قوانین جو مغربی فکر سے برآمد ہوئے ہیں، ان میں فوج داری مقدموں میں فرد کی بجائے ریاست مدعی ہوتی ہے، جب کہ اسلام میں مذکورہ ہر طرح کے مقدمات میں فرد ہی مدعی ہوتا ہے۔ اسلامی حکومت مظلوم فرد کو انصاف پہنچاتی ہے، یہی وجہ ہے فوج داری مقدمات میں فرد کی صلح نا معتبر ہوتی ہے، جب کہ اسلام فرد سے صلح کی ترغیب دیتا ہے ، قتل جیسے سنگین جرم میں جب شدید ہیجان اور انتقام کا جذبہ انتہائی درجے تک پہنچا ہوتا ہے قاتل کے ساتھ صلح کی ترغیب دیتے ہوئے اسے بھائی کہہ کر اخوت اسلامی کے طرف متوجہ کر دیا، چناں چہ فرمایا﴿ فَمَنْ عُفِیَ لَہ مِنْ اَخِیْہِ شیء﴾س سے اس تقسیم کے مفاسد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

قانون قصاص عقلی ہے
آیت میں عقل مندوں کو مخاطب کرکے جو فرمایا گیا ہے کہ اس قانون قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے ،اے عقل مندو، شاید کہ تم بچو۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون قصاص عقل کی رو سے نہ صرف جائز، بلکہ فائدہ مند بھی ہے۔بعض مغرب زدہ مسلمان قتل کی سزا قتل کو مضر خیال کرتے ہیں، ویسے تو اس نظریہ کی ابتدا فلسفیوں کی چھوٹی سی جماعت سے ہوئی، لیکن موجودہ دور میں اس نظریے کو کچھ تقویت ملی ہے، اس لیے یورپ کے کئی ممالک میں سزائے موت کا کوئی قانون نہیں اور انہی ممالک کی این جی اوز دیگر ممالک اور خاص طور پر مسلم ممالک میں وقتاً فوقتاً عوام اور حکم رانوں کے سامنے اس نظریے کی تبلیغ کرتی بھی نظر آتی ہیں او راسلام کے احکام قصاص کو ”وحشی سزاؤں“ سے تعبیر کرتی ہیں۔

ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مجرموں سے جو جرم سر زد ہوتے ہیں وہ جذباتی بے اعتدالی، عقلی عدم توازن اور ذہنی الجھاؤ اور انتشار کی وجہ سے ہوتے ہیں اور یہ سب وجوہات بیماری کی حالتیں ہیں او رجس انسان میں یہ بیماریاں پائی جائیں وہ مستحق علاج ومعالجہ ہے ،قتل کا مستحق نہیں ، پس اگر اسے قتل کر دیا جائے تو ایسا ہی ہے جیسے کسی مریض کے مرض کو دور کرنے کے لیے علاج کرنے کے بجائے اسے قتل کر دیا جائے یا مزید ایذا پہنچائی جائے ، پس مجرم سزائے قتل کی بجائے اصلاح کا زیادہ حق دار ہے ،لہٰذا سزائے قتل ایک بے جا قانون ہے ۔

اس نظریہ کے حاملین کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے، یہ لوگ عقل کی اصلی روح سے محروم ہیں ،او ر ان کی عقل جذبات سے مغلوب ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔

یہ بات بدیہی ہے کہ اگر قاتل کو قصاصاً قتل نہ کیا جائے تو یہ جرم مزید عام ہو گا اور معاشرے میں وبا کی طرح پھیلتا چلا جائے گااور رفتہ رفتہ پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔ ا س طرح اس کی روک تھام کی کوئی صورت نہ ہو گی، کیوں کہ پورے معاشرے کی مثال ایک جسم کی سی ہے، اگر جسم کے کسی عضو میں کینسر ہو جائے اورتمام اطبّا اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس کینسر زدہ عضو پر ترحّم کھایا جائے اور اس کی اصلاح کی یہی صورت ہے کہ اسے جسم سے الگ کردیا جائے، بصورت دیگر وہ پورے جسم کو ہلاک کر دے گا۔پس آخری چارہٴ کار کے طور پر ان کی عقل انہیں اس بات پر آمادہ کرے گی کہ ایک عضو کے مقابلے میں پورے جسم کی اصلاح مقدمّ ہے، لہٰذا پورے جسم پر رحم کرو اور اس عضو فاسد کو کاٹ ڈالو۔

یہی حال معاشرے کا ہے، خدا داد عقل سلیم سے سوچا جائے کہ اگر اس قاتل کو قصاصاً قتل نہ کیا جائے تو قتلِ نفس کا یہ جرم پورے معاشرے میں پھیل جائے گا اور ہزاروں جانوں کا ضیاع ہو گا، اس کا مشاہدہ اس معاشرے میں کیا جاسکتا ہے جو الله تعالیٰ کے ان احکام سے روگردانی کیے ہوئے ہے۔ لہٰذا قاتل کو سزائے موت دینے میں بظاہر تو ایک جان کا ضیاع ہے، لیکن درحقیقت یہ پورے معاشرے کی زندگی ہے۔

اسی مضمون کو آیت زیربحث میں اس طرح بیان کیا گیا کہ اے عقل مندو تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔اسی حکمت ومقصد کے حصول کے لیے ایسی سزاؤں کو عوامی مجمعے کے روبر و نافذکرنے کا حکم ہوا ہے ، تاکہ عوام اسے دیکھ کر عبرت حاصل کرے او راس طرح کے جرائم کی روک تھام ہو سکے۔ (جاری)

Flag Counter