Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

3 - 17
بر صغیر کے علماء کی قرآن وحدیث کی خدمات

محترم جاوید اختر قاسمی
	
برصغیر کا تاریخی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ زمانہٴ قدیم سے ہی مختلف علوم وفنون کا گہوارہ رہا ہے ، یہاں کے اہل علم حضرات نے الگ الگ دور میں ان علوم وفنون کو پروان چڑھایا اور حکمت وفلسفہ ، فنونِ لطیفہ ، تاریخ وسیاست ، نجوم وفلکیات اور طب وریاضیات میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے، جو آج بھی لوگوں کے لیے مشعل راہ بنے ہوئے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب یہ خطہ مذہب ِاسلام کی روشنی سے معمور ہوا اور یہاں کے باشندوں نے اسلام کو اپنانا شروع کیا تو انہیں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے، جنہوں نے علوم اسلامیہ کو حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی ، نتیجے کے طور پر یہاں بھی علوم اسلامیہ کے ایسے ماہرین علماء پیدا ہوئے جنہوں نے ایک طرف دعوت وتبلیغ کے ذریعہ عوام کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرایا تو دوسری طرف قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس اور تصنیف وتالیف کو اپنا مقصد بنایا۔ برصغیر میں قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح کی کتابیں ان حضرات کی علمی خدمات کا بین ثبوت ہیں۔

میرے مقالہ کا موضوع ”بر صغیر کے علماء کی قرآن وحدیث کی خدمات “ ہے ، اس موضوع پر روشنی ڈالنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ قرآن وحدیث کے تئیں علمائے ہند کی خدمات کا موضوع اس قدر وسیع ہے کہ اس کو احاطہ میں لانے کے لیے دس منٹ کا مقالہ ناکافی ہے ، یہ موضوع ایک بحر بے کراں ہے، جس کے لیے سفینہ درکار ہے ، لہٰذا اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے چند اہم علمائے حدیث ومفسرین اور ان کی خدمات کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔

برصغیر میں قرآن مجید کی خدمت کی سعادت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے خاندان کے حصہ میں آئی ۔ ان کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے، خود حضرت شاہ ولی اللہ ، ان کے بڑے صاحب زادے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور ان کے سب سے چھوٹے صاحب زادے حضرت شاہ عبدالقادر بھی قرآن کے درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے تھے ۔ اس کے علاوہ عوامی سطح پر شاہ عبد العزیز کا درسِ قرآن ہفتہ میں دو دن ہوا کرتا تھا، جس میں محدود اہل علم کے بجائے مغل حکم رانوں کے اہل خانہ ، شہزادے اور اعلیٰ حکام سمیت عوام کی ایک بڑی تعداد شریک ہوتی تھی۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ”فتح الرحمن فی ترجمة القرآن“ کے نام سے قرآن مجید کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا ، یہ ترجمہ قواعد اور اصول تفسیر کے لحاظ سے فارسی زبان کا معیاری ترجمہ ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد ان کے دوسرے صاحب زادے حضرت شاہ رفیع الدین نے پہلی بار قرآن مجید کااردومیں ترجمہ کیا ، یہ لفظی ترجمہ ہے ، یعنی قرآن مجید کے ہر عربی لفظ کے نیچے اردو میں ترجمہ لکھ دیا گیا ہے اور اردو زبان کے اسلوب کی رعایت نہیں برتی گئی ہے۔ اس کے بعد حضرت شاہ عبد القادر نے قرآن مجید کا بامحاورہ اور سلیس اردوزبان میں ترجمہ کیا ، یہ ترجمہ فنی اعتبار سے اردو کا بہترین اور معیاری ترجمہ ہے اوراس میں شاہ عبدالقادر کی خاندانی قرآن فہمی کی سو سالہ روایت اور خود ان کا پچاس سالہ ذاتی مطالعہ اور درس وتدریس کا نچوڑ شامل ہے۔ شاہ عبدالقادر کا ترجمہ اگرچہ پرانے اسلوب میں ہے ، تاہم اردو زبان کا معیاری ترجمہ ہے اور بعد کے تمام اردو تراجم کے لیے مشعل راہ ہے ۔

حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان مساعی جمیلہ کے بعد بہت سے تراجم معرض وجود میں آئے۔ انہی میں ایک ترجمہ مولانا محمود حسن دیوبندی کا ہے، جو ”ترجمہ شیخ الہند“ کے نام سے مشہور ہے۔ شیخ الہند نے محسوس کیا کہ ان کے زمانے میں اردو کے بہت سے محاورات بدل چکے ہیں جوبعض مقامات پر شاہ عبدالقادر کے تراجم سے میل نہیں کھاتے ، چناں چہ انہوں نے شاہ عبد القادر کے ترجمہ کو سامنے رکھ ایک نیا ترجمہ قرآن تحریر کیا جس میں حسب ِضرورت ترمیم کی۔اب یہ ترجمہ مولانا شبیر احمدعثمانی کے تفسیری فوائد کے ساتھ ”تفسیر عثمانی“ کے نام سے ہند وپاک کے بہت سے مکتبوں میں دستیاب ہے ، نیز ”تفسیر عثمانی“ کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔

شیخ الہند کے بعد ایک نام مولانا اشرف علی تھانوی کا ہے، جو ”حکیم الامت“ کے لقب سے مشہور ہیں ، ترجمہ وتفسیر کے میدان میں حکیم الامت کا سب سے بڑا کارنامہ ”بیان القرآن“ ہے ، بیان القرآن کا انداز یہ ہے کہ متن قرآن کا ترجمہ کرتے وقت ترجمہ کے درمیان وضاحتی جملے بھی تحریر ہیں ، ترجمہ اور وضاحتی جملوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے لیے ترجمہ کے اوپر خط کھینچ دیا گیا ہے اور وضاحتی جملوں کو بریکٹ میں رکھا گیا ہے اور اس کے بعد تفسیر ، فقہ ، کلام ، تصوف ، نحو اور ادب وبلاغت کے اہم علمی اور دقیق مباحث پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

بیان القرآن کا اسلوب خالص علمی ہے ، اس لیے اس سے صرف اہل علم حضرات ہی استفادہ کر سکتے ہیں ، اس بات کا احساس خود مولانا تھانوی کو بھی تھا ، اس لیے انہوں نے اپنے ہونہار شاگرد علامہ ظفر احمد عثمانی کو اس کی تسہیل وتلخیص کا حکم دیا ، تاکہ عام لوگ بھی اس سے استفادہ کرسکیں، چناں چہ یہ تفسیر اب ہندوپاک کے اشاعتی اداروں سے ”تسہیل مکمل تفسیر بیان القرآن“ کے نام سے شائع ہو رہی ہے۔

بیسویں صدی میں ”ترجمان القرآن“ کے نام سے ایک تفسیر معرض وجود میں آئی، جس کے موٴلف مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ مولانا آزاد نے پہلے ”البیان“ کے تحت سورہٴ فاتحہ کی تفسیر لکھی ،جو نہایت مبسوط ، مدلل اور جامع تفسیر ہے ۔ اسی کے ساتھ انہوں نے ترجمان القرآن پر کام شروع کیا۔ ترجمان القرآن کی جلد اول کا اسلوب یہ ہے کہ پہلے ترجمہ میں زیادہ سے زیادہ وضاحت کی کوشش کی گئی ہے، پھر ضرورت کے تحت جا بجا نوٹ بڑھا دیے گئے ہیں اور زیادہ بحث وتفصیل سے گریز کیا گیا ہے ۔ترجمان القرآن کی تالیف کے دوران مولانا آزاد کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئیں اور ان کو البیان کاکام روکنا پڑااور ترجمان القرآن ہی میں بعض مقامات پر البیان کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کی ، نتیجتاً ترجمان القرآن کی دوسری جلد کا اسلوب پہلی جلد سے بالکل مختلف ہوگیا۔ اصول تفسیر میں مولانا آزاد نے اسلاف کی پیروی کی اور بہت کم ایسی رائے قائم کی ہے جو اسلاف کی رائے کے خلاف ہو۔ مولانا آزاد کی یہ تفسیر سورة المومنون تک ہے۔

قرآن مجید کی تفاسیر میں ایک اہم نام ”معارف القرآن“ کا بھی ہے ، اس کی تالیف مفتی محمد شفیع صاحب نے کی ہے ، تقریباً سات ہزار صفحات پر مشتمل اس تفسیر کو مفتی صاحب نے پانچ سال کے عرصہ میں مکمل کیا۔ معارف القرآن کی تالیف میں جن امور کا لحاظ رکھا گیا ہے وہ حسب ِذیل ہیں:

معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنے طور پر کوئی ترجمہ نہیں کیا ہے ، بلکہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کا ترجمہ بعینہ نقل کردیا ہے۔ پھر خلاصہٴ تفسیر کے تحت مفتی محمد شفیع  صاحب نے مولانا اشرف علی تھانوی کے خلاصہٴ تفسیر کو ذکر کیا ہے ، البتہ جن مقامات پر قدرے مشکل اور خالص اصطلاحی الفاظ آئے ہیں ان کو آسان لفظوں میں منتقل کردیا ہے۔ اس کے بعد معارف ومسائل کے عنوان سے قرآنی آیات کے معانی ومطالب کو واضح کیا ہے ، قرآن کی آیات سے مستنبط ہونے والے فقہی مسائل کوبھی تحریر کیا ہے اور بعض مقامات پر الفاظ کی لغوی تحقیق ، نحوی ترکیب اور دیگر علمی بحثوں کو بھی مختصراً ذکر کیا ہے ۔ الحمد للہ معارف القرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔

تفسیر کی کتابوں میں ایک مشہور نام ”تفہیم القرآن“ کا بھی ہے ، اس کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تحریر کیا ہے۔ مولانا مودودی نے بھی اپنی تفسیر میں اسلاف کی پیروی کی ہے ، تاہم بعض مقامات پر جمہور مفسرین کے موقف سے اختلاف بھی کیا ہے۔ تفہیم القرآن کی ایک انفرادی خصوصیت اس کا ترجمہ ہے ، مولانا مودودی نے قرآن کے الفاظ کا ترجمہ کرنے کے بجائے اس کے مفہوم کو اردو زبان میں منتقل کیا ہے۔

اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی نے ”تدبر قرآن“ کے نام سے ایک تفسیر لکھی ہے، جس کی پہلی جلد 1966ء میں شائع ہوئی، اس تفسیر کی تکمیل میں مولانا کو بائیس سال لگ گئے۔ ابتداء ً یہ آٹھ جلدوں میں تھی اور اب نو جلدوں میں چھپ رہی ہے۔ اس پر بھی جمہور اہل علم سے اختلاف کی نمایاں چھاپ ہے۔

قرآن مجید کی خدمت کرنے والوں میں ایک نام مولانا محمد جوناگڑھی کا بھی ہے ، انہوں نے ”احسن البیان“ کے نام سے قرآن کا ترجمہ کیا اور اس پر تفسیری حاشیے کا کام مولانا صلاح الدین یوسف نے انجام دیا۔ جس میں فروعی مسائل کے بیان میں تشدد آمیز لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا جوناگڑھی نے عربی تفسیر کی معروف ومشہور کتاب ”تفسیر ابن کثیر“ کا بھی اردو زبان میں ترجمہ کیا ۔

مولانا احمد رضا خان بریلوی نے ”کنز الایمان“ کے نام سے قرآن کا ترجمہ لکھا ہے، جس پر تفسیری افادات مولانا نعیم احمد مرادآبادی کے ہیں ، ترجمہ کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے ، تاہم کئی مقامات پر ان کے ترجمہ پر علماء کی ایک جماعت نے تنقید کی ہے۔

سرسید احمد خان نے بھی قرآن کریم کی تفسیر کی ہے ، مگر اکثر مقامات پر انہوں نے اسلاف کے خلاف رائے قائم کی ہے۔

عصر حاضر کی ایک عظیم علمی شخصیت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے”آسان ترجمہ قرآن“ کے نام سے قرآن کریم کا ترجمہ کیا ہے، جو کافی مقبول ہے۔

محدث العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان زید مجدہم کے تفسیری افادات جو ایک عرصے سے ماہنامہ الفاروق میں قسط وار شائع ہو رہے ہیں، عنقریب اس کی پہلی جلد کشف البیان کے نام سے منظر عام پر آرہی ہے، اس تفسیر کی اہم خصوصیت، باطل مذاہب وفرق کے مستدلات کا ناقدانہ جائرہ لے کر قرآنی تعلیمات کی روشنی میں دین اسلام اور مسلک اہلسنت کا دفاع کرنا ہے۔

مذکورہ تراجم وتفاسیر کے علاوہ اردو زبان میں ترجمہ وتفسیر کی اور بھی بہت سی کتابیں موجود ہیں، جن کی اہمیت وافادیت سے انکار کی گنجائش نہیں ،تاہم محدود وقت میں ان پر روشنی ڈالنا ممکن نہیں ، اس لیے اتنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے ۔

قرآن مجید کی طرح حدیث شریف کی خدمت کے تعلق سے بھی برصغیر کو امتیازی مقام حاصل ہے ، یہاں کے علماء نے حدیث کے میدان میں اتنے وسیع پیمانے پر اور اس قدر جامعیت کے ساتھ کام کیا ہے کہ اس کے اثرات عرب دنیا میں بھی محسوس کیے گئے۔

حدیث شریف کے تئیں علماء کی خدمات کا مطالعہ کرنے سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ سترہویں صدی عیسوی تک علم حدیث پر علماء نے جو کام کیا ہے وہ زیادہ تر جمع احادیث پر مشتمل ہے اور شرحِ حدیث پر باقاعدہ کوئی تصنیف عمل میں نہیں آئی۔ البتہ سترھویں صدی عیسوی سے علم حدیث پر ایک نئے انداز سے اور ایک نئے جوش وجذبہ کے ساتھ کام کا آغاز ہوا اور وقت کے ساتھ اس میں وسعت پیدا ہوتی گئی۔ اس دور میں علم حدیث پر جو کام ہوئے ہیں ان کو تین زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

درسی حلقے: پہلا زمرہ حدیث کی تعلیم دینے اور علم حدیث سے روشناس کرانے کے لیے درسی حلقوں کا ہے ، اس زمرے میں تین شخصیات کو نمایاں مقام حاصل ہے: شیخ عبد الحق محدث دہلوی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورشاہ عبد العزیز۔ ان تینوں حضرات کی مشترکہ اور نمایاں خدمت یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے اپنے وقت میں درس حدیث کے حلقے قائم کیے ، ماہرین حدیث کی جماعت تیار کی اور ان کو ہندوپاک کے مختلف گوشوں میں روانہ کیا، جہاں انہوں نے اپنے استاذ کے طرز پرعلم حدیث کے درسی حلقے قائم کیے ، اس طرح ایک چراغ سے کئی چراغ جلتے گئے اور علم حدیث کی روشنی ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک پھیلتی گئی۔ آج بر صغیر میں علم حدیث کی جتنی بھی درس گاہیں ہیں سب مذکورہ تینوں حضرات کے قائم کردہ درسی حلقوں کا امتداد ہیں ، علم حدیث کے ان حلقوں اور درس گاہوں کی افادیت اس قدر وسیع اور جامع ہے کہ اس سے استفادہ کرنے والوں میں ایک ادنیٰ طالب علم سے لے کر مسند درس پر بیٹھ کر علم حدیث کے معانی ومطالب بیان کرکے طلبہ کو حدیث کے علمی نکات سے روشناس کرانے والے شیخ الحدیث اور معلمین ، عوام کے سامنے حدیث کے ذریعہ وعظ واصلاح کا کام کرنے والے علماء اور واعظین، حدیث کی کتابوں کو اردو زبان میں ڈھالنے والے مترجمین ، مختلف اند از میں اس کی تشریح قلم بند کرنے والے شارحین ومصنفین اور نئے نئے طریقوں سے اس پر غور وفکر کرنے والے محققین وغیرہ سب ہی شامل ہیں اور علم حدیث کے فیض یافتگان کا کوئی بھی طبقہ اس سے مستغنی نہیں ہے۔مختصر یہ کہ ان حلقوں اور درس گاہوں کو حدیث کی خدمات کے سلسلہ میں کلیدی اہمیت حاصل ہے ، اس کے تذکرہ کے بغیر علم حدیث کی تاریخ نامکمل ہے ۔

ترجمہ وتشریح: دوسرا زمرہ ترجمہ وتشریح اور تصنیف وتالیف کا ہے ، اس زمرے میں سب سے اہم نام شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا ہے، انہوں نے حدیث کی مشہور ومعروف کتاب ”مشکوٰة المصابیح“ کو برصغیر میں متعارف کرایا اور فارسی میں ”اشعة اللمعات فی شرح المشکوٰة“ کے نام سے، جب کہ عربی میں ”لمعات التنقیح“ کے نام سے اس کی شرحیں بھی لکھیں۔ اول الذکر نسبتاً مختصر ہے اور عام تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے اور دوسری شرح علمائے حدیث اور متخصصین کے لیے ہے۔

اس زمرے میں دوسرا نام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ہے ، شاہ صاحب نے ”موطا امام مالک“ کی دو شرحیں لکھیں ، ایک فارسی میں ہے، جس کا نام ”المصفیٰ“ ہے اور دوسری عربی میں ہے، جس کا نام ”المسویٰ“ ہے ۔ المسویٰ حدیث کے طلبہ وماہرین کے لیے ہے اور” المصفیٰ “عام تعلیم یافتہ مسلمانوں کے لیے ہے۔

برصغیر میں حدیث کی خدمت کرنے والوں میں ایک نمایاں نام علامہ شمس الحق عظیم آبادی کا ہے ، ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ”غایة المقصود“ کے نام سے سنن ابوداوٴد کی شرح لکھی، جو تیس جلدوں میں تھی ، جب اس کی پہلی جلد چھپ کر آئی تو لوگوں نے کہا کہ اتنی طویل شرح کون پڑھے گا؟ مولانا نے اپنے چھوٹے بھائی اور دو شاگردوں کو اس کی تلخیص کے کام پر لگا دیا، یہ تلخیص ”عون المعبود“ کے نام سے ہے، جوسنن ابوداوٴد کی بہترین شرحوں میں سے ایک ہے ۔

علامہ محمد عبد الرحمن مبارک پوری نے ”تحفة الاحوذی“ کے نام سے سنن ترمذی کی شرح لکھی ہے، جس کے بارے میں بلا تردد یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب جامع ترمذی کی چند عمدہ شرحوں میں سے ایک ہے۔

مولانا خلیل احمد سہارن پوری کا شمار مولانا رشید احمد گنگوہی کے چنندہ شاگردوں میں ہوتا ہے ، انہوں نے ”بذل المجہود“ کے نام سے سنن ابوداوٴد کی عربی زبان میں شرح لکھی ہے، جس کی تصحیح وتعلیق کا کام شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے انجام دیا۔ یہ کتاب پندرہ جلدوں میں ہندو پاک سمیت مصر اور عرب ممالک سے کئی بار چھپ چکی ہے ۔ ”بذل المجہود“ کا شمار بھی سنن ابوداوٴ کی بہترین شرحوں میں ہوتا ہے۔

برصغیر میں علم حدیث کی ایک عظیم شخصیت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی کی ہے ، علم حدیث کے تئیں ان کی خدمات اس قدر ہیں کہ ہندوپاک سمیت عرب دنیا بھی ان کے علم وفضل کا اعتراف کرتی ہے۔ علم حدیث میں مولانا زکریا  کی سب سے معروف کتاب ”أوجز المسالک “ ہے ،جو حدیث میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھنے والی کتاب ”موٴطا امام مالک“ کی عربی زبان میں مبسوط اور جامع شرح ہے۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران جب اس کتاب کو لکھنا شروع کیا تو اس وقت ان کی عمر محض انتیس (29) سال تھی۔ علمی حلقوں میں اس کتاب کی قدر ومنزلت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مالکی علماء نے اس کتاب کو درس وتدریس میں شامل کر رکھا ہے۔

شیخ الحدیث مولانا زکریا کی عربی زبان میں اہم تصنیف ”الابواب والتراجم“ ہے ، علم حدیث میں صحیح بخاری کے ابواب ایک مستقل علم کی حیثیت رکھتے ہیں، مولانا زکریا نے اس کتاب میں صحیح بخاری کے ابواب کے متعلق کبار محدثین کی تحقیقات کو ذکر کیا ہے ، اس کے بعد اپنی رائے تحریر کی ہے۔

شیخ الحدیث مولانا زکریا کے والد شیخ محمد یحییٰ نے اپنے استاذ محترم حضرت مولانا شیخ رشید احمد گنگوہی کے درس بخاری کو اردو میں قلم بند کیا تھا ، مولانا زکریا نے اس درسی تقریر کا عربی زبان میں ترجمہ کیا اور اپنی تعلیقات وحواشی اور ایک اہم مقدمہ کے ساتھ ”لامع الدراری علی جامع صحیح البخاری“ کے نام سے دس (۱۰) جلدوں میں شائع کیا۔

علم حدیث کی خدمت کرنے والوں میں ایک اہم شخصیت علامہ سید انور شاہ کشمیری کی ہے ، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ علمائے دیوبند میں ان سے بڑا محدث پیدا نہیں ہوا۔ علامہ کشمیری کے درس حدیث کی اپنی یادداشتیں ”فیض الباری“ کے نام سے قاہرہ سے شائع ہوئی ہیں، جو ان کے شاگرد مولانا بدر عالم میرٹھی نے مرتب کی ہے ۔اسی طرح جامع ترمذی پر علامہ کشمیری کے نوٹس کو ان کے شاگرد مولانا محمد یوسف بنوری نے مرتب کیا ہے، جو ”معارف السنن“ کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ علامہ کشمیری کے داماد اور شاگرد مولانا احمد رضا بجنوری نے اپنے شیخ کے درسی تقریروں کو اٹھارہ جلدوں میں” انوار الباری“ کے نام سے مرتب کیا ہے ۔

صحیح مسلم کی شرح ”فتح الملہم“ عربی زبان میں علامہ شبیر احمد عثمانی  نے کتاب النکاح تک تحریر کی ، لیکن شرح مکمل ہونے سے قبل ہی آپ کا انتقال ہوگیا۔ ”تکملة فتح الملہم“مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے کتاب الرضاعہ سے اخیر تک 6 جلدوں میں اس شرح کو عربی زبان میں مکمل کیا۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ابتدائی 6 جلدوں پر تعلیقات بھی تحریر فرمائیں۔ امت مسلمہ خاص کر عرب علماء میں اس شرح کو خاص مقبولیت حاصل ہے۔ عصر حاضر کے مشہور عرب عالم ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور شیخ عبد الفتاح ابو غدہ نے اس شرح کی تقریظ تحریر کی ہے۔

اس کے علاوہ عصر حاضر میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر، بانی جامعہ فاروقیہ، کراچی شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب زید مجدہم کے تقریری افادات پر مشتمل شرح بخاری پر ”کشف الباری“ اور شرح مشکوٰة پر ” نفحات التنقیح“ کے نام سے شرحِ حدیث کا انسائیکلو پیڈیا اور موسوعائی انداز کا نہایت وقیع علمی کام سامنے آرہا ہے، ”کشف الباری“ کی 18 جلدیں اور ”نفحات التنقیح“ کی 3 جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں، بقیہ ابحاث پر ایک پوری لجنہ کام کررہی ہے، الله کرے کہ بقیہ کام بھی جلد منظر عام پر آکر تشنگانِ علومِ نبوت کے لیے سیرابی کا سامان فراہم کر سکے۔

مخطوطات: تیسرا زمرہ قدیم مخطوطات کی اشاعت کا ہے ، یعنی حدیث کی اہم کتابیں جو صرف مخطوطہ کی شکل میں لائبریریوں میں موجود تھیں ان کو منظر عام پر لانا۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم نام مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا ہے، جنہوں نے حدیث کی درجنوں کتابوں کو،جو مخطوطات کی شکل میں موجود تھیں، ایڈٹ کیا، چناں چہ ”مصنَّف عبد الرزاق“ ، امام بخاری کے استاد امام حمیدی کی کتاب ”مسند الحمیدی“ اور امام ابوبکر بزّار کی ”کشف الاستار عن زوائد البزار“ پر مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے تصحیح وتعلیق کا کام انجام دیا۔

علامہ بدرالدین عینی نے امام طحاوی کی مشہور کتاب ”شرح معانی الآثار“ کی شرح ”نخب الافکار فی تنقیح مبانی الاخبار فی شرح معانی الآثار“ کے نام سے لکھی ہے ، اس کتاب کا قلمی مخطوطہ مصر کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے اس مخطوطہ کو اپنی نگرانی میں ایڈٹ کراکے۱۲ جلدوں میں ہندوستان سے شائع کیا ، اب یہ کتاب عرب ملکوں سے بھی شائع ہورہی ہے۔

عصر حاضر کی علم حدیث کی اہم شخصیت مولانا ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی صاحب نے بھی ”صحیح ابن خزیمہ“ ، ”موطا مالک“، ”سنن ابن ماجہ“ ، ”سنن کبریٰ للنسائی“ اور حدیث کی دیگر کئی کتابوں کی تصحیح وتخریج اور تعلیق کا کام کیا ہے ۔ اس کے علاوہ احادیث نبویہ کو سب سے پہلے انہوں نے ہی کمپیوٹرائز کیا۔ ان کی کئی کتابیں عرب وعجم کی یونی ورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہیں، جن میں ”دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ“ کو ایک اہم مقام حاصل ہے، جو ان کے پی ایچ ڈی مقالہ کا انگریزی سے عربی ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ موصوف نے اپنی متعدد کتابوں اور مقالوں میں قرآن وحدیث کی حفاظت اور تدوین پر مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل انداز میں جواب دیے ہیں۔

برصغیر میں قرآن وحدیث کی خدمت انجام دینے والے چند علماء کا تذکر ہ ہی اس مختصر سے مقالہ میں آیا ہے ، ان کے علاوہ علماء ( بالخصوص مسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والے علماء کرام) کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے قرآن وحدیث پر نئے نئے طریقوں سے کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سبھی لوگوں کی خدمت کو قبول فرمائے ، ان کی خدمات کو تمام اہل علم اور عام مسلمانوں کے لیے نافع بنائے اور امت مسلمہ کی طرف سے ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین !

Flag Counter