Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

13 - 17
الصلوٰة ۔۔۔ نماز کی اہمیت، افادیت اور رموز پر
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی کا پُرمغز بیان

تسہیل: محترم سید عروہ عرفان

ہر عمل صالح ( نیک عمل) الله کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن اعمال کی تعلیم شریعت نے کی ہے، صرف انھی کو کرنے سے قلب کوراحت اور اطمینان مل سکتا ہے۔ بذکر الله کو جو تطمئن سے پہلے لائے ہیں، اس میں اشارہ ہے حصر کی طرف کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنے کے سوا اطمینان اور سکون کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔ یہ ہے شریعت کی آسان تعلیم جسے ہم نے چھوڑ دیا ہے۔

بہ ہر حال، ذکر یہ چل رہا تھا کہ شریعت نے روزے میں بعض مباحات کی اجازت دی ہے، مگر نماز میں وہ اجازت نہیں دی۔ اس لیے نماز میں روزے کی شان روزے سے بڑھ کر ہوئی۔ روزے میں اِدھر اُدھر دیکھنا جائز ہے، نماز میں وہ بھی اجازت نہیں۔ اگرچہ اس سے نماز نہیں ٹوٹتی، مگر نماز کے آداب کے خلاف ہے۔ ہاں ادب نہ ہو، صرف ایک عمل پورا کر دینا ہو تو الگ بات ہے۔ میرٹھ میں ایک مولوی صاحب تھے۔ نماز میں اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ نماز کے بعد ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ تو نماز میں اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے، کیا آپ کی نماز ہو گئی؟ مولوی صاحب ان کا شکریہ کیا ادا کرتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ کہتے ہیں کہ میرے اِدھر اُدھر دیکھنے کی خبر تمہیں اس لیے ہوئی کہ تم نے مجھے دیکھا۔ پس تمہاری نماز نہیں ہوئی۔ وہ مولوی صاحب یہ کہہ کر سرخ رو ہو گئے۔ مگر، کس کے سامنے․․․ مخلوق کے سامنے۔ الله کے سامنے تو سرخ رو نہ ہوئے۔ مخلوق کے سامنے سرخ رو ہونے سے کیا ہوتا ہے۔

الله کے بندو! حکام کے سامنے جتنا ادب ملحوظ رکھتے ہو، کم از کم حق تعالیٰ کے سامنے اتنا تو رکھو۔ جب حکام کی ہیبت اس دنیا میں نظر اٹھانے میں رکاوٹ ہے تو الله تعالیٰ کے معاملے میں تو ہیبت کے علاوہ اور بھی کئی پہلو ہیں کہ جن کی بنا پر نظر اٹھانے سے بچنے کی ضرورت ہے۔

ان پہلوؤں میں سے ایک محبت بھی ہے۔ کیا محبوب پر سے نگاہ ہٹا کر اِدھر اُدھر دیکھو گے۔ عشاق سے پوچھئے کہ محبوب سامنے موجود ہوتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے۔ عشاق کو تو محبوب سے ایک لمحے کی غفلت بھی گوارا نہیں ہوتی #
        یکم چشم زدن غافل ازاں شاہ نباشی
        شاید کہ نگاہے کند آگاہ نباشی
یعنی محبوبِ حقیقی سے کچھ دیر بھی غفلت میں نہ گزار کہ شاید وہ کسی وقت کام کر دے، تجھے خبر بھی نہ ہو۔

نماز میں کیسی غفلت، نماز کے بغیر بھی غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ حاکم سامنے ہو تو ادھر ادھر دیکھتے ہی نہیں، اس خیال سے کہ شاید ہمیں نگاہ ہٹاتے ہوئے دیکھ لے۔ اور الله تعالیٰ تو ہمیں ہر وقت دیکھتے ہیں اور کسی وقت ہم سے توجہ نہیں ہٹاتے۔ پھر اُن کے سامنے اِدھر اُدھر دیکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ قلب بھی دوسری طرف متوجہ نہ ہوتا۔ کیا پتا، اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ قلب کو متوجہ کرنے پر قدرت نہیں تو نگاہ پر قدرت (کنٹرول) ہے۔ نگاہ پر قدرت سے تو انکار نہیں کرسکتے۔ اس کو دوسری طرف کیوں متوجہ کرتے ہو۔ دوسرے، اس میں کوئی فائدہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ جن چیزوں کو دیکھتے ہیں ان کو نماز کے دوران میں لے تو سکتے نہیں، اس لیے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کا عمل بالکل بے کار ہو گیا۔ دیکھنے سے جب کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی تو کیوں دیکھتے ہو؟ اس سے بچنا چاہیے۔

نماز میں چو ں کہ پابندیاں بہت ہیں کہ ہنسنے بولنے، چلنے پھرنے، دیکھنے کی․․․ دوسرے بہت سے کاموں کی ممانعت ہے، اس لیے اس کی شان میں کہا گیا: ﴿اِنھا لکبیرة﴾ کہ نماز بہت بھاری ہے، کیوں کہ نماز میں جن کاموں سے منع کیا گیا، ان کے تقاضے ہمارے اندر موجود ہیں۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ بولیں بھی، کھائیں بھی، پئیں بھی، چلیں پھریں بھی․․․ یعنی ہماری طبیعت چاہتی ہے کہ ہر طرح سے آزاد ہوں۔ اس لیے نماز نفس پر بہت بوجھ محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے تمام خواہشات سے رک جانا پڑتا ہے ۔

خوش خوش بیٹھے ہیں، باتیں کر رہے ہیں، چل پھر رہے ہیں، مزے اُڑا رہے ہیں․․․ نماز کا وقت آیا، خدا کا حکم ہوا کہ ہمارے دربار میں آؤ، اپنی خواہشات ومصروفیات کو چھوڑ دو․․․ بس مصیبت آگئی۔

اصل یہ ہے کہ انسان قید ہونا نہیں چاہتا جب کہ شریعت نے مقید کیا ہے، پابند کیا ہے۔ ایک جانب الله کی مرضی ہے تو دوسری جانب بندے کی مرضی․․․ یہ دنوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، لہٰذا نماز لوگوں پر بھاری ہے۔ اس لیے الله تعالیٰ نے فرمایا، انھا لکبیرہ کہ اس سے آزادی کا خون ہوتاہے۔

آج کل ہر جگہ آزادی کا سبق گایا جارہا ہے۔ عجیب آزادی ہے کہ لوگ شرعی احکام میں آزادی چاہتے ہیں کہ کوئی شرعی قید ہم پر نہ رہے، لیکن ہم تو تب مانیں جب تکوینیات (قوانین الٰہی، کائناتی قوانین) میں بھی آزاد ہو جائیں کہ خدا مارنا چاہے تو نہ مریں، خدا بیمار کرنا چاہے اور بیمار نہ ہوں۔ جیسے تکوینیات میں آزاد نہیں ہو سکتے، اس طرح شرعی احکام کے بارے میں بھی سمجھ لیجیے کہ ان میں ہم آزاد نہیں ہیں۔ الله تعالیٰ نے جو حکم بھی دے دیا ہے، اسے پورا کرنا ہماری مجبوری ہے۔

اب اگر الله تعالیٰ نے ہمارا مرض بیان کیا ہے کہ نماز بوجھ ہے تو اس کا علاج بھی بتا دیا ہے اور ارشاد فرما یا گیا:﴿وَإِنَّہَا لَکَبِیْرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْن،الَّذِیْنَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُوا رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ إِلَیْْہِ رَاجِعُون﴾․ (سورہ البقرہ، آیت:46-45)

یعنی نماز سب پر بوجھ ہے، مگر خشوع کرنے والوں کیلیے بوجھ نہیں ہے، جنہیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور اُسی کی طرف جانے والے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے نماز بوجھ تو ضرور لگتی ہے، مگر جو لوگ اپنے اندر خشوع پیدا کر لیتے ہیں، الله سے ڈرتے ہیں او رانہیں یہ خیال رہتا ہے کہ ہمیں الله کے پاس جانا ہے ، نماز ان کیلیے بوجھ نہیں بنتی۔ یہ ہے علاج․․․ کہ اس طرح نماز خشوع کے ساتھ پڑھو گے تو نماز بوجھ نہیں لگے گی۔

خشوع کو لوگ عموماً صحیح نہیں سمجھتے، اور یہ سمجھتے ہیں کہ خشوع سے مراد یہ ہے کہ کسی قسم کا خیال نہ آئے۔ یہ بات غلط ہے۔

خشوع، حقیقتاً یہ ہے کہ خود کوئی خیال ذہن میں نہ لائے۔ ہاں، خود آجائے تو یہ غیر اختیاری ہے۔ لیکن خود خیالات کو اپنانا یا ارادے سے لانا خشوع کے خلاف ہے۔ آمد اور آورد میں فرق ہے، یعنی خیال کے آنے اور خیال کے لانے میں فرق ہے۔

البتہ جب خیال بلا ارادہ آئے تو اس میں نہ لگ جائے کہ توجہ ہی اُس خیال کی طرف کر لی جائے۔ بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ نماز میں خود تو خیال نہیں لاتے، لیکن خیال خود آجائے تو اسی کے اُدھیڑ بن میں لگ جاتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ نہ ارادةً خیال لائے اور نہ بلا ارادہ خیال آنے کیلیے ارادةً اس پر توجہ دے۔ یہ بھی خشوع کے خلاف ہے۔

خیال کو ذہن سے دفع کرنا تو تمام عارفین کے نزدیک اصل مقصد ہے۔ اب اس میں بحث یعنی مختلف رائیں ہیں کہ یہ خیالات کیسے دفع کیے جائیں۔ اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جو خیال آئے، اس کے خلاف مزاحمت کرے اور کوشش کرکے اس خیال کو بھگادے۔ لیکن عموماً ایسا ہوتانہیں ہے۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ خیال کو جتنا دفعہ کر و، وہ اتنا ہی آتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آنے والے خیال کو کسی واسطے کی مدد سے ختم کرے۔ یہ تدبیر کار گر ہوتی ہے۔

دراصل نفس کی توجہ ایک وقت میں دو چیزوں کی طرف نہیں ہو پاتی۔ النفس لا تتوجہ الی شیئین فی آن واحد اس لیے ایک مضر خیال کو ختم کرنے کیلیے دوسرے مفید خیال کو ارادةً لے آئے تو اُس کی طرف توجہ ہو جائے گی۔

بعض مشائخ دفع خیال کو بلاواسطہ بتاتے ہیں جس میں بڑی مشکل ہوتی ہے، کیوں کہ بلاواسطہ ہٹانے سے توجہ اس خیال یا وسوسے پر سے ہٹتی نہیں بلکہ اس کی طرف مزید توجہ ہو جاتی ہے ۔ اس لیے اسے دفع کرنا اور مشکل ہو جاتا ہے۔

اس وسوسے کی مثال بجلی کے تار کی طرح ہے، دور رہو، تب بھی لپٹے اور اسے ہٹانے کیلیے اسے چھوؤ تب بھی لپٹے۔ اس لیے وسوسے سے بچنے کی تدبیر یہ ہے کہ اسے کسی واسطے کی مدد سے ہٹاؤ!

اب سوال یہ ہے کہ کسی چیز کی طرف متوجہ ہوا جائے کہ بلا ارادہ خیال، وسوسہ ختم ہو جائے۔ اس کا طریقہ بھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرما دیا: حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں، مقبلا علیھما بقلبہ کہ اپنے قلب کو اپنے دل کو دو رکعت نماز کی طرف متوجہ کرو!

نماز کی طرف متوجہ ہونے کی دو صورتیں ہیں:
ایک تو یہ کہ پوری نماز کی طرف متوجہ ہو جائے، کیوں کہ نماز مختلف اجزا (ارکان) کا مجموعہ ہے۔ اس طرح، اس کے تمام اجزا کی طرف توجہ ہو گی، مگر اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ نماز کے تمام اجزا پر توجہ کرنے سے قلب میں تشویش ہو سکتی ہے، اس لیے یہ صورت درست نہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ نماز کے ایک جزو (ایک حصے) میں مشغول ہو اور اسی کی طرف توجہ رکھے۔ اس کا طریقہ ایک بزرگ نے بتایا کہ مثلاً سبحانک اللھمرٹا ہوا مت پڑھو کہ وہ خود ہی زبان سے ادا ہوتا چلا جائے گا۔ اس کی بجائے اس کے ہر ہر جزو کو سوچ سوچ کر پڑھو کہ اب سبحانک اللھم پڑھ رہا ہوں، اب تبارک اسمک پڑھ رہا ہوں، اب لا الہ غیرک پڑھ رہاہوں، اب۔ بسم الله الرحمن الرحیم،اب الحمد․․․ اور اسی طرح پوری نماز میں ہر ہر لفظ کو ارادے سے ادا کرو!

اس طرح، جب قلب الفاظ کی طرف متوجہ ہو گا تو وسوسوں کی طرف توجہ نہیں ہوگی۔ قانون میں نے بیان کر دیا کہ النفس لا تتوجہ الیٰ شیئین فی آن واحد اس قانون کے تحت اس انداز سے پہلے ہی دن عمل کرنے سے خشوع پیدا ہو جائے گا۔

اول تو ذرا تنگی ہو گی، مشکل ہو گی، کیوں کہ خیالات پر یشان ہوں گے کہ ان کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے، اپنی توجہ آتے جاتے خیالات سے ہٹانے اور دوسری جانب کرنے دیں۔ ابتدا میں مشکل ہو گی، البتہ بعض لوگوں کو ابتدا ہی میں یہ چیز میسر آجاتی ہے۔

جب وسوسوں سے نجات کی یہ تدبیر ملے گی تو ایک اور آفت آئے گی وہ یہ کہ اب یہ خیال ہو گا کہ وسوسوں سے نجات کا طریقہ تو مل ہی گیا، جب چاہیں گے، یہ کر لیں گے اور وسوسوں سے بچ نکلیں گے۔ اس لیے اول تو اسے اختیار ہی نہیں کرتے․․․ اور، اگر کرتے ہیں تو مستقل اختیار نہیں کرتے۔ مشائخ تک اس میں مبتلا ہیں:
        واعظاں کیں جلوہ برمحراب ومنبر می کنند
        چوں بہ خلوت می رسند آن کار دیگرمی کنند
        مشکلے دارم ز دانش مند مجلس باز پُرس
        توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر می کنند
کہ واعظین محراب ومنبر پر خوب جلوہ کرتے ہیں او رجب تنہائی میں ہوتے ہیں تو دوسرے کام کرتے ہیں ۔ مجھے یہ مشکل آن پڑی ہے کہ دانش مند مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ دوسروں کو توبہ کی تلقین کرنے والے خود توبہ کیوں نہیں کرتے؟

یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی معالج اس پر خوش ہوتا پھرے کہ اس کے پاس خارش کے علاج کا بہترین نسخہ ہے، مگر خود ساری زندگی خارش ہی میں مبتلا رہ کر مر جائے مگر اس نسخے کا استعمال نہ کرے۔ تو اس بہترین نسخے کا اُسے کیا فائدہ ہوا۔ کوئی اَن جان کسی چیز سے محروم رہے تو ایسی افسوس کی بات نہیں، مگر کوئی جانتے بوجھتے خود کو محروم رکھے تو اسی کے بارے میں کہتے ہیں :
        فان کنت لاتدری فتلک مصیبة
        وان کنت تدری فالمصیبة اعظم
یعنی اگر تجھے اس کا علم نہیں تو مصیبت ہے او راگر تجھے اس کا علم ہے تو یہ بڑی مصیبت ہے۔

چناں چہ میں نے اوپر جو تدبیر بیان کی ہے، اسے جاننے کے بعد شیطان آپ کو دونوں طرح سے دھوکا دے گا۔ ایک تو ہر ہر لفظ پر توجہ کرنے سے ابتدا میں دل تنگ ہو گا۔ شیطان بہکائے گا کہ یہ تو بہت مشکل کام ہے ۔ تمہارے بس کی بات نہیں ۔ دوسرے بہلائے گا کہ خشوع کا طریقہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے، اب آسانی سے خشوع حاصل ہو جائے گا اس لیے جلدی کیا ہے، جب جی چاہے گا، کرلیں گے۔

Flag Counter