Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

12 - 17
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق اور ثمرات

مفتی سجاد ساریہ
	
امام الانبیاء محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کو جہاں صفات عالیہ سے مزین کیا گیا ،وہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کو اخلاق عظیمہ کا منبع بھی بنایا گیا،اخلاق کی انتہا جس ہستی پر ہوتی ہے وہ محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی ہستی ہے،اس لیے کہ اخلاق کے حصول کے دو ذریعے ہیں: 1.عطیہ خداوندی کے طور پر،2.تعلیم و تربیت کے ذریعے۔

1.. عطیہ خداوندی :الله نے جس طرح عام انسانوں سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو جسمانی طاقت،صفات ،کمالات،عقل و علم میں فوقیت اور امتیاز بخشا ،اس سے کئی گنابڑھ کر اخلاق میں فوقیت اور امتیاز بخشا،کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا ایک مقصدتکمیل اخلاق کو بھی قرار دیا ۔

2.. تعلیم و تربیت:انبیا علیہم السلام کی تعلیم و تربیت بھی اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں،کیوں کہ وہ امت کی راہ نمائی اور تعلیم کے لیے مبعوث من اللہ ہوتے ہیں،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت بھی اللہ تعالیٰ نے فرمائی،قرآن کریم میں مختلف انداز سے حسین الفاظ میں آپ کے بیان کردہ آداب واضح نظر آتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن ام مکتوم  تشریف لائے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے زیادہ توجہ نہیں فرمائی تو سورہٴ عبس میں میں اللہ تعالیٰ نے (ملاقات کے لیے آنے والے کے)آداب سکھاکر فرمایا﴿انہ تذکرة﴾یہ نصیحت ہے۔

صحابہ کرام سے آپس کے معاملات میں مشورہ کا حکم فرمایا۔بعض لوگوں کے تکالیف دینے پر حکم فرمایاکہ(ترجمہ)”ان کی اذیتوں کی پرواہ نہ کیجئے، ان کو معاف کر دیجیے،اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے“۔اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور انتہائی نرمی سے پیش ہونے کا حکم فرمایا۔ (ترجمہ)”موٴمنوں کے لیے اپنے بازؤوں کو پست کردیجیے۔“ جب قرآن کریم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت مکمل کر لی،تو آپ صلی الله علیہ وسلم قرآن کریم کا عملی نمونہ بن گئے،چناں چہ امّی عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کیا تھے؟تو امّی عائشہ  نے جواب دیا”کان خلقہ القرآن“کہ قرآن آپ صلى الله عليه وسلم کا اخلاق ہے،یعنی جو کچھ قرآن کریم میں تھیوری کی شکل میں موجود ہے،وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں عملی شکل میں موجود ہے۔

جب آپ صلی الله علیہ وسلم قرآن کریم کی عملی تصویر بن گئے،تو کائنات کی سب سے بڑی ڈگری ،اخلاق کی تکمیل کرنے والے رب کی طرف سے قرآن مجید میں ﴿انک لعلٰی خلق عظیم﴾کی صورت میں مل گئی،جس کی گواہی تاقیامت قرآن کریم پڑھنے والا دیتا رہے گا۔اس آیت کریمہ میں ”علٰی“اظہار غلبہ کے لیے ہے،یعنی اخلاق کے تمام اجزا پر حاوی ہونا بہت مشکل ہے ،لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کا اس پر مکمل غلبہ ہے۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں !آپ کی زبان قرآن ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم کے اعمال واخلاق قرآن حکیم کی خاموش تفسیر ہیں ،قرآن کریم جس خوبی اور بھلائی کی طرف دعوت دیتا ہے،وہ آپ صلی الله علیہ وسلم میں فطرتا موجود ہیں اور جس بدی سے روکتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم طبعاً اس سے نفوروبیزار تھے،پیدائشی طور پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی ساخت اور تربیت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی کوئی حرکت اور کوئی چیز حد تناسب واعتدال سے ایک انچ اِدھر اُدھر ہٹنے نہیں پاتی،آپ صلی الله علیہ وسلم کا حسن اخلاق اجازت نہیں دیتا کہ جاہلوں اور کمینوں کے طعن و تشنیع پر کان دھریں،آپ صلی الله علیہ وسلم تو دیوانہ کہنے والوں کی بھی نیک خواہی اور دردمندی میں اپنے آپ کو گُھلا ڈالتے ہیں۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود فرمایا: ”مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا۔ “

آپ کے اخلاق کی چند جھلکیاں، جن سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
1..دشمنوں کے ساتھ:آپ صلی الله علیہ وسلم نے دشمنوں سے بھی اخلاق کا معاملہ فرمایا،چناں چہ فتح مکہ کے موقع پر کعبة اللہ کی دہلیز پر کھڑے ہوکر آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں سے دریافت کیا”تم مجھ سے کیسا گمان دیکھتے ہو؟“تو انہوں نے جواب دیا”ہمارے کریم چچازاد ہو، اگر آپ درگزر کردیں تو یہی ہمارا آپ سے گمان ہے۔“آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا!آج میں تم سے کوئی انتقام نہیں لیتا،بلکہ یوسف علیہ السلام کی طرح میں کہتا ہوں جیسا انہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا!آج تمہارے اوپر کوئی ملامتی نہیں، جاوٴ!تم سب آزاد ہواور پھر فرمایاجو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے،اپنے گھر کادروازہ بند کردے،اسلحہ اتار دے،یابیت اللہ میں داخل ہو جائے تو اس کو امن دیا جائے گا۔ہندہ جس نے حضرت امیر حمزہ  کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا اسے بھی معاف کردیااورمعافی کا عام اعلان کیا۔

2..منافقین کے ساتھ:آپ صلی الله علیہ وسلم کو تمام منافقین کا علم تھا،مگر اس کے باوجود ان سے مسلمانوں کی طرح معاملہ فرمایا،ان کے سردار عبداللہ بن ابی ّ جس نے کفار مکہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف بھڑکایا، حضرت عائشہ  پر تہمت لگائی ،اوراس کی خوب تشہیر کی اور تکلیف دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیا،مگر اس سے مکمل درگزر فرمایا،اس نے کسی کی سفارش کی تو اس کو منظور فرمایااور جب وہ مرا تو اپنی قمیص مبارکہ عنایت فرمائی۔

3..مشرکین کے ساتھ:مشرکین مکہ نے طرح طرح کی تکالیف آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیں، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی انتقام نہ لیااور نہ بددعا کی ،چناں چہ ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ  نے فرمایا!یارسول اللہ! مشرکین نے تکالیف میں حد کردی ۔ان پر بددعا فرمائیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا!مجھے رحمت بنا کر، بھیجا گیا ہے،اور کوئی بددعا نہیں فرمائی۔عکرمہ بن ابی جہل جب آئے تو کھڑے ہو کر آگے بڑھ کر استقبال کیا۔مشرکین پر جب قحط سالی آئی تو ان کے کہنے پر ان کے لیے بارش کی دعا فرمائی۔

4..بچوں کے ساتھ:آپ صلی الله علیہ وسلم چھوٹے بچوں سے بھی ملتے، ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے،ایک مرتبہ ایک یتیم بچے کو گلی میں پریشان دیکھا تو اس کو دلاسہ دیا اور فرمایامیں تیرا باپ،عائشہ تیری ماں اور فاطمہ تیری بہن ہے اور اس کو گھر لائے اور نئے کپڑے پہنائے،آپ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑوں پر ایک بچے نے پیشاب کردیا تو آپ نے کچھ بھی برا محسوس نہیں کیا، بلکہ اس پر پانی بہا دیا۔

5..رعایا کے ساتھ:آپ صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے کچھ دن قبل حضرت فضل  کو ساتھ لیا اور مسجد تشریف لے گئے اور حضرت فضل  سے فرمایا لوگوں کو ُبلالاؤ،جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا”لوگو!میں تم جیسا اولاد آدم میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے، جیسے تمہیں آتا ہے،لہٰذا کسی کا کوئی حق مجھ پر ہو تو وہ اپنا حق وصول کرلے،ایک شخص نے کہا میں نے آپ کے کہنے پر تین درہم فقیر کو دیے تھے،تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فضل  سے فرمایا اس کے تین درہم ادا کرو،ا س کے بعد یہی اعلان عورتوں میں بھی کیا۔یہ امراء وسلاطین کے لیے ایک اخلاقی نمونہ ہے۔

اخلاق کے ثمرات:آپ صلی الله علیہ وسلم جس معاشرے میں مبعوث ہوئے وہ معاشرہ جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا،ظلم و جبر کی حدیں عبور کر چکاتھا،چھوٹی سی بات پر قتل و قتال شروع ہوجاتا تھا،ایسے معاشرے میں اسلام کا دِیا جلا نا اور لوگوں کو بدلنا ایک پہاڑ سے ٹکر لینے کے مترادف تھا،مگر اسی معاشرے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے انسانیت کی وہ روح بھری کہ آقا اور غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے،دشمن بھائی بھائی بن گئے اور خون کے پیاسے ایک دوسرے کے محافظ بن گئے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان ایسی مواخات (بھائی چارہ)قائم کی کہ دنیا اس کی مثال لانے سے قاصر ہے،یہ سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کی بدولت ہوا قرآن کریم میں ہے․(ترجمہ)”سو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے تو نرم دل مل گیا ان کو اور اگر تو ہوتا تندخو،سخت دل تو متفرق ہوجاتے تیرے پاس سے۔“(معارف القرآن)

آج بھی مطالعہ کرنے والا آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا،چناں چہ احمد ہالٹ نے سچائی کی تلاش میں دنیا کے چکر کاٹے ،یہودیت ،عیسائیت اور اسلام کا تقابلی جائزہ لیااور آخر1975ء کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیااور محمد صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق پر کتاب لکھی۔(پیغمبر ِاسلام اور اخلاق حسنہ)
        خود نہ تھے جو راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئے
        کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا!

Flag Counter