Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

8 - 17
دینی مدارس کی افادیت واہمیت

محترم شمس الحق ندوی
	
یہ ہوتا آیا ہے، مخلصین اور دین ملت کے لیے تڑپنے اور بے کل رہنے والوں او راس کی فکر میں جلنے، پگھلنے اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر بارگاہ خداوندی میں آہ وزاری کرنے والوں کی تعداد کم ہی رہی ہے ۔ انہی سے نورِ نبوت کی کرنیں پھوٹتی اور پھیلتی رہی ہیں اور دنیا میں پھیلے ہوئے ابلیسی نظام نے انہی مردان خدا کو اصل خطرہ جانا ہے، جو شکست کو فتح سے بدلنے ، ہاری ہوئی بازی کو جیتنے اور ڈوبتی ہوئی کشتی کو تیرانے کی اہلیت او رہمت رکھتے ہیں، اقبال مرحوم نے اپنی نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں ا بلیس کی زبان سے اس حقیقت کو اس طرح ادا کیاہے:
        ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
        جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
        خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
        کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
ابلیس اپنے خیالات اور خدشات کا اظہا رکرتے ہوتے مزید کہتا ہے : ” میں جانتا ہوں کہ یہ امت قرآنی پروگرام کی حامل او راس پر عامل نہیں، مال کی محبت، ذخیرہ اندوزی او رنفع رسانی کے بجائے نفع طلبی اور سرمایہ داری اس کا بھی مذہب بنتی چلی جارہی ہے، لیکن زمانے کے انقلابات اور مقتضیات سے مجھے خطرہ ہے کہ وہ کہیں اس امت کی بیداری کا سامان نہ بن جائیں۔“ (نقوش اقبال)

غور کیا جائے تو صاف محسوس ہو گا کہ دین اسلام کے خلاف اٹھائے جانے والے ہر فتنہ کے بعد مسلم عوام میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور غیروں میں اسلامی تعلیمات پرغور وفکر او رمعلومات وتجسس کا جذبہ کام کرنے لگتا ہے اور وہ اسلامیات کا مطالعہ کرنے لگتے ہیں اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں ، جس کے نتیجے میں بہت سے خوش نصیب اسلام کی آغوش میں آجاتے ہیں اور یہ بات قریباً دنیا کے تمام ملکوں میں پائی جارہی ہے، جس کو میڈیا نمایاں نہیں کرتا ہے، اس کو صرف کسی مسلمان کی معمولی، بلکہ فرضی غلطی کو نمایاں کرکے پیش کرنے سے دلچسپی رہتی ہے، کیا یہ حقیقت جھٹلائی جاسکتی ہے کہ وہی اندلس جہاں اقبال مرحوم نے بڑے درد سے کہا تھا: ” آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری زمیں بے اذاں“

اب اسی اندلس میں اذان بھی ہونے لگی ہے ۔ وہاں پہنچنے والے مسلمان جمعہ او رجماعت کا بھی نظام قائم کرنے لگے ہیں، امریکا جہاں سے سب سے زیادہ اسلام او رمسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں ، اس کے نتیجے میں اسلام کے بارے میں معلومات کے جذبات ابھرتے ہیں، پھر اس کا مطالعہ او رحقیقت تک پہنچنے کے بعد بہت سے خوش نصیب ایمان لاتے ہیں۔

اس میں ہمارے ان مدارس ومکاتب کا بڑا دخل ہے جن پر تنقید ہوتی رہتی ہے، ان مدارس کو چلانے والے مخلصین اور بہی خواہان دین وملت تنکے تنکے جمع کرکے اس ماحول میں جہاں تعلیم مہنگی سے مہنگی ہوتی جارہی ہے، طلبا کے لیے نہ صرف یہ کہ مفت تعلیم کا انتظام کرتے ہیں ، بلکہ نادار طلبا کے کھانے کا بھی انتظام کرتے ہیں اور خاص حالات میں ان کی دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھتیہیں، کتابیں تک مفت مہیا کی جاتی ہیں ، پھر انہی طلبا میں سے اچھی خاص تعداد ایسی نکلتی ہے، جو دعوت واصلاح کے کام میں لگ جاتے ہیں ،ایک معتدبہ تعداد مدارس میں تعلیم وتربیت کا کام انجام دیتی ہے ، ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو اپنے علاقہ کی بنجر زمین میں عقیدہٴ توحید اور دین وایمان کابیج بوتے ہیں ، ایسے بھی ہوتے ہیں، جو دوسرے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پہنچ کر اسلامی شناحت کو باقی رکھنے میں بڑا کر دار ادا کرتے ہیں، اگر ان کی ظاہری وضع قطع میں اہل دین کی نظروں میں کچھ کمی محسو س ہوتی ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دلوں میں دینی جذبات واحساسات موج زن رہتے ہیں، ان میں وہ جواں مرد بھی ہوتے ہیں جو دوسرے ملکوں میں دین وایمان کی قندیل روشن کرتے ہیں، اسلام کا تعارف کراتے ہیں۔

کم سے کم درجہ ہوتا ہے کہ مدار س میں آنے والے کا ایمان وعقیدہ محفوظ ہو جاتا ہے جو عمر کے کسی دور میں شعلہ جوالہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے ، ایسا بہت کم ہوتا ہے، بلکہ شاذ ونادر یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ کوئی جدید افکار ونظریات کا شکار ہو کر الحادو دہریت کی راہ اپنالے۔ جدید تعلیم یافتہ حضرات میں جو صاحبان اپنے خیالات ومشوروں سے اہل مدارس کو نوازنے کی فکر پیش کرتے ہیں ، یا یہ کہوں کہ نوجوانانِ ملت کے بارے میں اپنی فکر وہم دردی کا اظہار کرتے ہیں، ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں، اس لیے کہ یہ انسانی فطرت ہے، وہ جس ماحول میں رہتا ہے، اسی دائرہ میں اس کا علم وفکر بھی اپنا کام کرتا ہے اور اسی کا اظہار کرتا ہے ۔ مدارس کی افادیت واہمیت کو وہی بند گانِ خدا زیادہ جانتے اورسمجھتے ہیں جو اپنے خونِ جگر سے پوری انسانیت کو زندگی کا صحیح رُخ دینا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں جوانصاف پسند اہل علم حضرات اسلام کی تاریخ اصلاح و دعوت اور تجدید دین کی جانفشانیوں کا مطالعہ کریں گے، ان کو صاف معلوم ہو گا کہ روئے زمین پر اس وقت انسانیت کا جو بچا کھچا سرمایہ نظر آرہا ہے، وہ انہیں حضرات کا کارنامہ ہے، ورنہ تاریخ اسلام میں جو انقلابات آئے ہیں، وہ اس کی رہی سہی طاقت ختم کر دیتے اور اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح تحریف وغلو کا شکار ہو چکا ہوتا ہے، ہم زیادہ تفصیل میں نہ جاکر صرف اتنی ہی عرض کریں گے کہ دورِ اکبری میں اگر حضرت مجدد الف ثانی  کی شخصیت نے اپنا حکیمانہ رول ادا نہ کیا ہوتا تو آج یہاں اسلام کا کیا حال ہوتا؟ پھر اس سرمایہ کی حفاظت خانوادہ وسلسلہ ولی اللہی نے جس طرح کی، اس سے کون انصاف پسند صاحب علم انکار کر سکتا ہے؟ اور یہی سلسلہ اب تک جاری ہے۔

ایک اور پہلو سے غور فرمایا جائے کہ اسلام صرف مسجد اورادذکار تک محدود نہیں ہے، اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں، پیدائش سے لے کر موت کے مسائل میں، راہ نمائی کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ حقوق الله کے ساتھ حقوق العباد، خرید وفروخت، گھریلو مسائل ، اولاد کی تعلیم وتربیت ، ملنے جلنے اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرنے، نمازیوں کی امامت اور ان کو روزہ مرہ کے مسائل سے کون واقف کراتا ہے؟ اگر یہ نہ ہوتو کیا قومی نام کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی اسلامی بات پائی جاسکتی ہے؟ جو اصل مقصد زندگی ہے۔

انہی حقائق کے پیش نظر علامہ اقبال  اپنے اشعار میں اہل مدارس وموجودہ دانش وروں کی طرح مشورہ دینے او ران میں مزید زندگی پیدا کرنے ، زور دینے کے باوجود ایک مرحلہ میں یہ کہنے پر مجبورہو ئے کہ ” ان مدارس کو کچھ نہ کہو، اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو ہندوستان اندلس بن چکا ہوتا۔“

خوش نصیب ہیں وہ حضرات جو ان دینی مدارس ومکاتب کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ،ہم اگر دینی زبان وپیمانہ کی روشنی میں ان حضرات کے اس انفاق فی سبیل الله کے اخرو ی اجر وثواب کے ذخیرہ کا حساب لگانا چاہیں تو بڑے سے بڑا ریاضی داں اس کا حساب نہیں لگا سکتا ہے، جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے :﴿ مثل ما ینفقون فی سبیل الله کمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مئة حبة والله یضاعف لمن یشاء﴾․

”جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ( ان کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے، جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں، خدا جس کے مال کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے ۔“

اہل مدارس جدید علوم وفنون اور زندگی کے جائز ودرست اسباب ووسائل کے اپنانے کی نفی نہیں کرتے کہ خود دین اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

مدارس اور علماء کا منصب یہی ہے کہ وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں رہنے والے مسلمانوں کی صحیح راہ نمائی کریں کہ وہ جاہ ومنصب اور کاروبار کے اندر مال کی فراوانی میں پڑ کر خدا فراموشی کا شکار ہو کر ابدی زندگی سے غافل نہ ہو جائیں، جس کا انجام نہایت بھیانک ہے، یہ بہت فکر کی بات ہے کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کا ایک بڑا طبقہ اپنی ساری صلاحیتوں، علوم وافکار اور حصولِ زر کی فکر میں اتنا ڈوب جاتا ہے کہ روح وقلب کی طرف متوجہ نہیں ہو پاتا، جو حاصل زندگی ہے ۔ جگر مرحوم کی زبان #
        نہیں جاتی کہاں تک فکر انسانی نہیں جاتی
        مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی

Flag Counter