Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

14 - 17
قاسم العلوم والخیرات

گل رحمان خاکسار، طالب جامعہ فاروقیہ کراچی
	
ولادت با سعادت
قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی ولادت باسعادت شوال 1248ھ بمطابق مارچ 1833ء میں ہوئی۔ آپ نے صوبہ ”اترپردیش“ کے شہر ”سہارن پور“ کے نواح میں موجود ایک قدیم ومردم خیز قصبہ ”نانوتہ“ میں آنکھ کھولی۔ نانوتہ کے معدن سے پیدا ہونے والے اس جوہر فرد کے انوار علم نے تیرہویں صدی ہجری کے نصف آخر کی علمی ومذہبی مجالس کو منور وتاباں بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تطہیر کے لیے ایک نایاب موتی منتخب کرکے امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان فرمایا۔ دینی ،علمی اور مذہبی حلقوں کی رونق پھر سے دوبالاہوگئی۔ اور یہ مرجھایا ہوا چمن پھر سے اپنی بہار دکھانے لگا۔

نام ونسب
حضرت نانوتوی کا مشہور نام ”قاسم“ اور تاریخی نام ”خورشید حسین“ تھا ،آپ کا شجرہ نسب محمد بن ابی بکر صدیق کے صاحب زادے قاسم بن محمد سے جاکر ملتا ہے ،اسی وجہ سے آپ کے نام سے ساتھ صدیقی لکھا جاتا ہے۔ خود مولانا نانوتوی فرماتے ہیں کہ ”ہمارے مورث اعلیٰ قاسم بن محمدامام جعفرصادق کے نانا تھے“۔ (فیوض قاسمیہ)

حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں: ”دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں مولانا نانوتوی کی قلمی یادداشت ملی ہے، جس میں اپنے دست مبارک سے منجملہ دوسری چیزوں کے حضرت نانوتوی نے اپنا نسب بھی درج فرمایا: ”محمد قاسم بن اسد علی بن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاء الدین بن محمد فتح بن محمد مفتی بن عبدالسمیع بن مولوی ہاشم“۔ (سوانح قاسمی، ج:1)

غرض محمد اسد نانوتوی کے گھر میں پیدا ہونے والے اس چشم وچراغ سے ایسا نور روشن ہوا اور ایسے علوم وخیرات تقسیم ہوئی، جس سے اب تک مسلمان استفادہ کررہے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔

ابتدائی تعلیم
آپ نے تعلیم کی ابتدا نانوتہ ہی کے قصباتی مکتب سے کی، نانوتہ کے اس مکتب میں جس استاذ کے آگے آپ کی تعلیم کی بسم اللہ ہوئی ان کا نام کیا تھا؟ اس بارے میں کتابیں خاموش ہیں، نانوتہ کے مکتب خانہ کی تعلیم کے متعلق بس اتنا معلوم ہوسکا کہ منجملہ دوسرے ساتھیوں کے حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی  بھی اس مکتب میں آپ کے ساتھی تھے، مولانا محمد یعقوب نانوتوی لکھتے ہیں: ”حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے بچپن میں قرآن مجید بہت جلد ختم کرلیا تھا“۔

آپ مکتب میں اپنے ہم عصر ساتھیوں سے ہمیشہ اول رہے، آپ کی اپنے ہم عصروں میں یہ سبقت واولویت صرف لکھنے اور پڑھنے کے دائرے تک محدود نہ تھی، بلکہ مولانا محمد یعقوب نانوتوی فرماتے ہیں کہ:

”مولوی محمد قاسم صاحب جیسے پڑھنے میں سب سے بڑھ کر تھے اسی طرح ہر کھیل میں، خواہ ہوشیاری کا ہو یا محنت کا، سب سے اول اور غالب رہتے تھے“۔

اسی طرح مولانا گیلانی  لکھتے ہیں : ”علم وکھیل دونوں کے ذوق میں ہم آہنگی پیداکرنے کی شاید یہ ایک واحد تاریخی مثال ہے“۔

آپ نے آٹھ نو سال کی عمر میں نہ صرف یہ کہ قرآن شریف ختم فرمالیا تھا اور حسن خط کے ساتھ اپنے ساتھیوں میں ممتاز ہوچکے تھے، بلکہ عمر کی اسی قلیل مدت میں آپ چھوٹے موٹے شاعر اور ننھے منھے مصنف بھی بن چکے تھے اور قصہ ان ہی ذہنی ودماغی کاموں کی حد تک ختم نہیں ہوگیا تھا ،بلکہ علاوہ خطاطی کے جسے گونہ دست کاری ہی جیسے کاموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

بہرحال آٹھ، نو سال کے ایک بچے میں ان گوناگوں مختلف الجہات چیزوں کا جمع ہوجانا شان اجتبائیت ہی کا تقاضا قرار دیا جاسکتا ہے، آپ چن لیے گئے تھے، چننے والے ہی نے مزاج وقوی کے اعتدال کی دولت سے بھی سرفراز کردیا تھا اور اسی نفس کامل کی جبلت میں ذہانت طباعی، بلند ہمتی، وسعت حوصلہ، جرات، چستی وچالاکی جیسے فضائل وکمالات کو محفوظ کرکے آپ کو پیدا کیا تھا، لڑکپن ہی سے جن کے آثار کا ظہور ہونے لگا تھا۔

تکمیل علوم اور اساتذہ
آپ نے ابتدائی عربی کتب حضرت مولانا مہتاب علی سے پڑھیں، اسی طرح آپ نے فارسی وعربی کی تعلیم مولوی محمد نواز سہارن پوری سے حاصل کی، جو سہارن پور میں طلبہ کرام کو فارسی اور عربی کی تعلیم دیا کرتے تھے، آپ کو آپ کے نانا نے مولوی محمد نواز کے سپرد کیا۔ دیوبند میں فارسی وعربی کی تعلیم جن کتابوں تک پہنچ چکی تھی، اس کے بعد کی کتابیں ان ہی مولوی محمد نواز سے پڑھنے لگے۔ کافیہ سے پہلے صرف ونحو کی جو کتابیں قدیم نظامی نصاب میں پڑھائی جاتی تھیں، آپ نے ان سے کچھ شیخ مہتاب علی صاحب سے پڑھیں۔

مولوی محمد نواز کے بعد آپ نے زانوئے تلمذ مولانا مملوک علی نانوتوی کے سامنے تہہ کیا، اسی طرح آپ کو مفتی صدر الدین سے بھی تلمذ کی نسبت خاص حاصل تھی۔

آپ نے صحاح ستہ کی اہم کتابیں حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب (1296ھ/1878ء) سے پڑھیں، لیکن صحاح ستہ کی اہم کتاب سنن ابی داؤد حضرت شاہ صاحب سے نہ پڑھ سکے، اساتذہ کی کڑیوں میں ایک کڑی محشی بخاری حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری (1297ھ/ 1879ء) کے نام سے مشہور ہے کہ جن سے آپ نے ابوداؤد پڑھی، مولانا منصور علی فرماتے ہیں کہ ”ابوداؤد جو باقی تھی اس کو اپنی شہرت کے زمانے میں بغل میں دبا کر جناب احمد علی سہارن پوری کی خدمت میں جاکر پڑھ لیا“۔

اسی طرح آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا مظہر نانوتوی بھی ہیں، تذکرہ حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی کے موٴلف نور الحسن راشد کاندھلوی لکھتے ہیں کہ:

”حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی کے زمانہ طالب علمی کے شاگردوں میں سے صرف ایک نام معلوم ہے اور وہی ایک طالب علم ہزاروں طالب علموں پر بھاری، اپنے عہد کی ممتاز ترین شخصیت اور اپنے معاصرین میں بہت فائق تھے، یہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی تھے“۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی نے لکھا ہے :”ومن مفاخرہ أن الشیخ العلامة بحر العلوم محمد قاسم النانوتوي أخذ عنہ بعض الکتب الإبتدائیة“․

اسی طرح قطب الاقطاب حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی بھی اسی موتی کی لڑیوں میں سے ایک لڑی ہیں، جن سے آپ نے شرف تلمذ حاصل کیا۔

اصلاحی تعلق وخلافت
حضرت مولانا قاسم نانوتوی ابتدائے شعور اور روز اول ہی سے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے معتقد، عاشق زار اور والہانہ گرویدہ تھے، کب مرید ہوئے؟ کہاں مرید ہوئے؟ کس طرح مرید ہوئے؟ کن حالات وواقعات کے بعد مرید ہوئے؟ ان میں سے کسی ایک سوال کو آپ کے حالات بیان کرنے والوں نے نہیں چھیڑا، سوانح مخطوطہ میں تو صرف اتنا لکھنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ:”علم باطنی کی تحصیل حضرت فخر المشائخ، مرکز خواص وعوام، منبع برکات قدسیہ، مظہر فیوضات مرضیہ جناب حاجی امداد اللہ فاروقی تھانوی سے فرمائی۔ “

مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی فرماتے ہیں:”مولانا محمد قاسم نانوتوی میں فطری صلاحیت اعلیٰ درجے کی تھی، جس کو باکمال بزرگوں کی صحبت ومعیت نے صیقل کرکے گوہر آب دار بنایا تھا، سادگی، تواضع، بے نفسی، اخلاق عالیہ، تعلق مع اللہ، رغبت سنت، استقامت، تورع، زہد، دنیا سے بے رغبتی، آخرت کی فکر اور کمالات ؟ کا کون سا جوہر ایسا تھا جو مولانا موصوف کی طبیعت میں نہیں تھا، اور مولانا نے اس کو عمدہ کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، مگر ابھی اس جوہر کو پرکھ کر اس پر اجازت ومعرفت کی مہر لگانے کا موقع نہیں آیا تھا، جب حضرت حاجی صاحب سے بیعت ہوئے تو حاجی صاحب نے غالباً قلیل وقفہ کے بعد مولانا محمد قاسم نانوتوی کو اجازت وخلافت سے نواز دیا تھا۔ آپ پیدائشی طور پر حضرت حاجی صاحب کے مرید پیدا ہوئے تھے، خود حاجی صاحب کا یہ بیان حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے کہ:”محمد قاسم مجھ کو بطور میری زباں کے عطا ہوئے۔“
        من توشدم تومن شدی
        من جاں شدم تو تن شدی
        تاکس نگوید بعد ازیں
        من دیگرم تو دیگری

تلامذہ
آپ نے مستقل طور پر کسی مدرسے میں تدریس نہیں فرمائی، بلکہ آپ دہلی ومیرٹھ کے کتب خانہ ”مطبع مجتبائی“ میں کتابوں کی تصحیح فرماتے، اس عمل سے فراغت کے بعد آپ طلباء کو درس دیا کرتے تھے، اسی فراغت کے اوقات میں حضرت شیخ الہند نے آپ سے صحاح ستہ اور دیگر علوم کی اعلیٰ کتابیں پڑھیں اور نسبت روحانی میں فیوض وکمالات حاصل کیے۔ آپ کے شاگرد ویسے تو بہت ہیں، لیکن مشہور تلامذہ میں شیخ الہند محمود حسن دیوبندی، شیخ احمد حسن امروہی اور شیخ فخر الحسن گنگوہی رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں۔

تصنیفات
حضرت مولانا قاسم نانوتوی ہر علم وفن میں بحر بے کراں تھے، آپ کا علم وقتاً فوقتاً نور کی طرح پھوٹتا رہتا تھا، جو کتب اور رسائل کی صورت اختیار کرتا جاتا، آپ نے مختلف موضوعات پر کتب ورسائل تصنیف وتالیف کیں۔

آپ کی مولفات اور رسائل مندرجہ ذیل ہیں:
(1) آب حیات،(2) تقریر دلپزیر، (3) تنویر النبراس علی من انکر تحزیر الناس، (4) الاجوبة الکاملة في الأسئلة الخاملة، (5) توثیق الکلام، (6) انتباہ المومن، (7) تصفیة العقائد، (8) تحفہ لحمیہ، (9) جواب ترکی بہ ترکی، (10) الحق الصریح، (11) مصابیح التراویح، (12) تحریر الناس، (13) الدلیل المحکم علی قراء ة الفاتحة علی الموٴتم، (14) الأجوبة الأربعین، (15) رسالة شرح حدیث ”فضل العالم علی ادناکم“ (16) رسالة جزء لا یتجزأ بعنوان ”کلمة الله ہي العلیا“ (17) قصائد قاسمی، (18) مناظرہ عجیبہ، (19) ہدیة الشیعة، (20) جمال قاسمی، (21) فیوض قاسمیہ، (22) احکام الجمعہ، (23) قاسم العلوم، (24) این کان الله قبل خلق العالم؟ (25) مکتوبات قاسمیہ، (26) أسرار الطہارة، (27) فرائد قاسمیہ (مجموعہ رسائل)، (28) محاضرہ في ابطال جزء لا یتجزا․

مناظرے
حضرت مولانا قاسم نانوتوی اپنے وقت کے ابومنصور ماتریدی تھے، آپ علم الکلام میں بے مثل وبے نظیر تھے، آپ کو فرقِ باطلہ کے رد پر عبور حاصل تھا، اسی بنا پر وقفہ وقفہ سے مختلف فرق باطلہ سے مناظرے ومباحثے ہوتے رہتے تھے۔ جب ہندوستان میں عیسائیوں اور دہریوں نے سادہ لوح لوگوں کو گم راہ کرنا شروع کیا تو آپ نے موقع پر پہنچ کر ان کی زبانوں کو لگام دے کر دین اسلام کی حفاظت کا کارنامہ سرانجام دیا۔

جب 1293ھ بمطابق 1876ء میں منشی پیارے لال نے اترپردیش کے شہر شاہ جہاں پور میں لوگوں کو عیسائیوں کی طرف مائل کرنا شروع کیا، تو حضرت نانوتوی، علماء وتلامذہ کے ساتھ حاضر ہوئے اور عقیدہ تثلیث کے شرک ہونے اور توحید باری تعالیٰ کے ثبوت پر ایک جامع ومانع تقریر کی، جس سے سامعین پر رقت طاری ہوگئی اور مخالفین ایسے لاجواب ہوئے کہ دم دبا کر بھاگ نکلے۔

اسی طرح ان کے بہت سے مختلف مناظرے مشہور ہیں، مگر یہ چند صفحات ان سب کی مکمل تفصیل کے محتمل نہیں ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کی بنیاد
1857ء کے خونین انقلاب میں جب دہلی اجڑ گیا اور اس کی سیاسی بساط الٹ گئی تو دہلی کی علمی مرکزیت بھی ختم ہوگئی اور علم ودانش کا کارواں وہاں سے رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوگیا، تو اس وقت کے اہل اللہ، اور خصوصیت سے ان بزرگوں میں جو خونی انقلاب سے خود بھی گزر چکے تھے اور مسلمانوں کی نعشوں کو خا ک وخون میں تڑپتا ہوا دیکھ چکے تھے، یہ فکر واضطراب لاحق ہوا کہ علم ومعرفت کے اس کارواں کو کہاں ٹھکانہ دیا جائے؟ اور ہندوستان میں بے سہارا مسلمانوں کے دین وایمان کو سنبھالنے کے لیے کیا صورت اختیار کی جائے؟ اسے بخت واتفاق کہیے یا تقدیر الٰہی کہ اس وقت اس راہ عمل کے لیے مذاکروں کا مرکزی مقام دیوبند کی مسجد چھتہ بن گئی۔

اس وقت بنیادی نقطہ نظر یہ قرارپایا کہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار رکھنے اور ان کی ملی شیرازہ بندی کے لیے ایک دینی وعلمی درس گاہ ناگزیر ہے، اسی مرکزی فکر کی روشنی میں حضرت نانوتوی اور ان کے رفقاء حضرت مولانا ذوالفقار علی، حضرت مولانا فضل الرحمن اور حضرت حاجی محمد عابد رحمہم اللہ نے یہ طے کیا کہ اب دہلی کی بجائے دیوبند میں یہ دینی درس گاہ قائم ہونی چاہیے۔

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے سیاسی رجحانات اور خدمات کیا تھیں؟ عزائم، منصوبہ بندیاں اور لائحہ عمل کیا تھا؟ اس سلسلے میں مولانا مناظر احسن گیلانی فرماتے ہیں:

”دیوبند کے مدرسہ کے قائم کرنے کی غرض کیا تھی؟ کسی دوسرے سے نہیں، بلکہ براہِ راست خاکسار نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن سے ایک خاص موقع پر یہ سنا کہ 1857ء کی جدوجہد میں ناکام ہونے کے بعد حضرت الاستاذ نے اس مدرسے کو جو قائم کیا تو تعلیم سے زیادہ ان کی غرض کچھ اور تھی“۔

اور حضرت شیخ الہند  نے فرمایا کہ ”مدرسہ دیوبند کو استاد نے کیا محض تعلیم کے لیے قائم کیا تھا؟ بلکہ 1857ء کے ہنگامہ کی ناکامی کی تلافی کے لیے قائم کیا گیا تھا، خود حضرت نانوتوی کا قول ہے:

”میرے دارالعلوم دیوبند کا مقصد ایسے افراد پیدا کرنا ہے جو انگریز کے محلات سے ٹکرا جائیں پھر اس کے بعد مجھے کوئی پروا نہیں، چاہے میرے مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔“

رحلت آخرت
4 جمادی الاولی یا جمادی الثانیہ 1297ھ بمطابق 15 /اپریل یا مارچ 1885ء بروز جمعرات کو 49 سال کی عمر میں دیوبند کے اندر آپ نے جان جان آفرین کے سپرد کردی اور اہل علم کو یتیم چھوڑ کر اس دنیا سے رحلت فرما کر ابدی زندگی کی طرف پرواز کرگئے، جاتے جاتے ایسا خلا چھوڑ گئے جو کبھی پُر نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(مراجع: تاریخ دارالعلوم دیوبند، سوانح قاسمی از مناظر احسن گیلانی، الامام الکبیر از عبدالقیوم حقانی صاحب، مباحثہ شاہ جہاں پور)

Flag Counter