Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 17
قرآن کا تعارف ،قرآن سے

مولانا سخی داد خوستی
	
اگر کوئی شخص کتاب کا تعارف کراتا ہے تو پہلے اس کتاب کا نام،پھر اس کے مصنف کا اسم گرامی ،پھریہ کہ کتاب کونسی زبان میں ہے پھر اس کا موضوع، پھر تصنیف کرنے کا مقصد بیان کرے گا، ان سب باتوں کے بعد اس کتاب کا رتبہ اور فضائل بتائے گا ۔تو قرآن کریم کا تعارف بھی ان ہی باتوں سے ہوگا ۔

قرآن کے اسماء
اگر ہم قرآن سے پوچھیں (یعنی قرآن میں تلاش کریں)کہ تمہارا اسم گرامی کیا ہے ؟تو وہ جواب میں بتائے گا کہ میرا ایک نام نہیں، بلکہ میرے کئی نام ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
٭... سب سے زیادہ مشہور نام”قرآن“ہے، جس کو اللہ نے اپنے کلام میں ستر مرتبہ ذکر کیا ہے۔پھر اللہ پاک نے اس لفظ قرآن کو کبھی مبین کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے کہ سورة الحجر کی پہلی آیت میں آیاہے﴿وَقُرْآنٍ مُّبِیْن﴾ اور کبھی عظیم کے ساتھ موصوف کیا ہے جیسا کہ سورة الحجر کی آیت 87 میں ہے :﴿وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْم﴾اور کبھی حکیم کے ساتھ موصوف کیا ہے،جیسا کہ سورة یاسین کی دوسری آیت میں ہے:﴿وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْم﴾اور کبھی کریم کے ساتھ موصوف کیا ہے جیسا کہ سورة واقعہ کی آیت 77 میں ہے﴿إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیْم﴾ اور کبھی عربی کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے کہ سورة یوسف کی دوسری آیت میں ہے﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً﴾ اور کبھی عجب کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے کہ سورة جن کی پہلی آیت میں ہے:﴿ إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَبا﴾اور کبھی یھدی کے ساتھ موصوف کیا ہے جیسے کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت 9 میں ہے:﴿إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَم﴾اور کبھی مجید کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے سورة بروج کی آیت 21 میں آیاہے:﴿بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْد﴾ ․
٭... دوسرا نام کتاب ہے، پھر لفظ کتاب کبھی الف لام سے معرفہ ہوگا، جیسے سورة بقرہ کی دوسری آیت میں ہے:﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ﴾ اور کبھی بغیر الف لام کے نکرہ ہوگا، جیسے سورہ بقرہ کی آیت 89 میں ہے:﴿وَلَمَّا جَاء ہُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّہ﴾ اس نام کے ساتھ بھی کبھی مبارک کی صفت لگی ہوگی۔جیسے سورة انعام کی آیت 92 میں ہے:﴿وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ ﴾ اور کبھی مفصل کی صفت لگی ہوگی، جیسے سورة انعام کی آیت 114 میں ہے:﴿َہُوَ الَّذِیْ أَنَزَلَ إِلَیْْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلا﴾اور کبھی حکیم کی صفت لگی ہوگی، جیسے سورة یونس کی پہلی آیت میں ہے:﴿تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْحَکِیْم﴾ ۔اور کبھی مبین کی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة زخرف کی دوسری آیت میں ہے:﴿وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن﴾اور کبھی منیر کی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة حج کی آٹھویں آیت میں ہے﴿یُجَادِلُ فِیْ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مُّنِیْر﴾اور کبھی عزیزکی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة حم سجدہ کی آیت 41 میں ہے ﴿وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ﴾ اور کبھی متشابہ کی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة زمر کی، آیت 23 میں ہے﴿کتابا متشابھا﴾ ․
٭... تیسرا نام العلم ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت 120 میں ہے﴿جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ ﴾ ۔
٭... چوتھا نام الفرقان ہے، جیسا کہ سورة اٰ ل عمران کی آیت 4 میں ہے﴿ وَأَنزَلَ الْفُرْقَان﴾
٭... پانچواں نام قصص الحق ہے، جیسا کہ سورة اٰل عمران کی آیت 62 میں ہے﴿إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَق﴾۔
٭... چھٹا نام حبل اللہ ہے جیسا کہ سورة اٰل عمران کی آیت 103 میں ہے﴿إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَق﴾۔
٭... ساتواں بیان نام ہے، آٹھواں ھدیً ہے، نواں موعظة ہے،جیسا کہ یہ تینوں نام اٰل عمران کی آیت 138 میں﴿ہَذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْن﴾
٭... دسواں نام برہان ہے اور گیارہواں نور مبین ہے،جیسا کہ یہ دونوں سورة نساء کی آیت 174 میں ہیں﴿قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا﴾۔
٭... بارہواں نام صراط مستقیم ہے،جیسا کہ سورة انعام کی آیت 126 میں ﴿وَہَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیْماً﴾
٭... تیرہواں نام بینة ہے، جیسا کہ سورة انعام کی آیت 157 میں ہے﴿ فَقَدْ جَاء کُم بَیِّنَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ﴾
٭... چودہواں نام کلام اللہ ہے،جیسا کہ سورة توبہ کی چھٹی آیت میں ہے﴿ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہ﴾۔
٭... پندرہواں شفاء ہے اور سولہواں رحمة ہے،جیسا کہ یہ دونوں نام سورة یونس کی آیت 57 میں ہیں﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ﴾
٭... سترواں نام فضل اللہ ہے، جیسا کہ سورة یونس کی آیت 58 میں ہے﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّہِ﴾۔
٭... اٹھارواں نام بلاغ ہے جیسا کہ سورة ابراہیم کی آیت 56 میں ہے﴿ہَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاس﴾ ۔
٭... انیسواں نام الروح ہے ،جیسا کہ سورة النحل کی دوسری آیت میں ہے﴿یُنَزِّلُ الْمَلآئِکَةَ بِالْرُّوحِ﴾۔
٭... بیسواں نام ذکر ہے، جیسا کہ سورة انبیاء کی آیت 50 میں ہے﴿وَہَذَا ذِکْرٌ مُّبَارَکٌ أَنزَلْنَاہ﴾۔
٭... اکیسواں نبأعظیم ہے جیسا کہ سورة ص کی آیت 67 میں ہے ﴿قُلْ ہُوَ نَبَأٌ عَظِیْمٌ ﴾۔
٭... بائیسواں نام احسن الحدیث ہے ،جیسا کہ سورة الزمر کی آیت 23 میں ہے ﴿اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ﴾۔
٭... تئیسواں نام صدق ہے، جیساکہ سورة الزمر کی آیت 33 میں ہے ﴿وَالَّذِیْ جَاء بِالصِّدْقِ﴾
٭... چوبیسواں نام بصائر ہے،جیسا کہ سورة الجاثیہ کی، آیت 20 میں ہے﴿ہَذَا بَصَائِرُ لِلنَّاس﴾۔
٭... پچیسواں نام حکمة بالغة ہے ،جیسا کہ سورة القمر کی آیت5 میں ہے ﴿حِکْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُر﴾۔
٭... چھبیسواں نام تذکرہ ہے، جیسا کہ سورة الحاقہ کی آیت 48 میں ہے﴿وانہ لتذکرة للمتقین﴾۔
٭... ستائیسواں نام قول فصل ہے، جیساکہ سورة طارق کی آیت13 میں ہے﴿ انہ لقول فصل﴾ ۔

تنبیہ1. قرآن کے ان اسماء میں سے اصل نام دو ہیں ایک ”قرآن“ یہ جمالی نام ہے، دوسرا” فرقان “یہ جلالی نام ہے۔ باقی سارے اسماء ان کی فرع ہیں
تنبیہ2.  یہ بھی ایک قاعدہ ہے کہ جس چیز کے بہت سے نام ہوں یہ اس کے عظیم الشان ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

قرآن اللہ کا کلام ہے
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کس کا کلام ہیں؟ مشرکین عرب تو کہتے ہیں کہ قرآن محمد بن عبداللہ کا بنایا ہوا ہے یا کسی اور شخص نے لکھوایا ہے اس لیے یہ شعر ہے یا سحر ہے یا کہانت ہے ۔ آپ بتائیں، کہ حقیقت کیا ہے؟تو قرآن کریم ان سب باتوں کی تردید بہت سے دلائل سے کرے گا۔

ایک دلیل یہ کہ قرآن عربی زبان میں ہے اور مشرکین بھی عرب ہیں اور فصاحت و بلاغت کے اعلی مقام پر فائز ہیں تو اگر قرآن محمد بن عبداللہ نے خود بنایا ہے تو وہ بھی قرآن جیسی کتاب بنا لائیں، مگر یہ لوگ قرآن کی طرح کتاب نہیں بنا سکتے تو معلوم ہوا کہ یہ اللہ کا کلام ہے کسی بشر کا نہیں ۔قرآن پاک نے پوری دنیاکے کفار کو قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے کہ تم سب مل کر قرآن جیسی کتاب بناؤ، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرا﴾ (بنی اسرائیل:88)”کہہ دو اگر سب آدمی اور سب جن مل کر بھی ایسا قرآن لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے، اگر چہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار کیوں نہ ہو“۔پھر اللہ نے قرآن کے منکرین کو اس تحدی میں سہولت دی کہ اگر پورا قرآن نہیں بنا سکتے ہو تو دس سورتیں بنا لاؤ، فرمایا : ﴿أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ، فَإِن لَّمْ یَسْتَجِیْبُواْ لَکُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أُنزِلِ بِعِلْمِ اللّہ﴾(سورة ھود :14-13) ”کیا کہتے ہیں کہ تونے قرآن خود بنالیا ہے کہ دو تم بھی ایسی دس سورتیں بناؤ اور اللہ تعالیٰ کے سوا جس کو بلا سکو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو ۔پھر اگر تمہارا کہنا پورا نہ کریں تو جان لو کہ قرآن اللہ کے علم سے نازل کیا گیا ہے “۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منکرین کے لیے قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنا بہت آسان کردیا کہ اگر تم دس سورتیں بھی نہیں بنا سکتے ہو تو ایک سورة بناؤ ،فرمایا:﴿وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ﴾ (بقرة:24-23) ”اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورة اس جیسی لے آؤ اور اللہ کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں بلالو اگر تم سچے ہو۔ بھلا اگر ایسانہ کر سکو اور ہر گز نہیں کرسکتے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے“۔

تو اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں پورے قرآن سے تحدی کی،پھر دس سورتوں سے ،پھر ایک سورة سے، گویا ان کا عجز بتدریج نمایا ں کیا۔

دوسری دلیل یہ پیش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمی (بے پڑھے)ہیں نہ خط لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں۔ فرمایا :﴿فَآمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الأُمِّی﴾(اعراف :158)”سو اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی (بے پڑھے)پر“اور امی کی تفسیر یہ فرمائی ہے :﴿وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُون﴾ (عنکبوت:48) ”اور اس سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اس دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، تب تو یہ باطل پرست شک کرتے “تیسری دلیل یہ پیش کی :﴿وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّہُمْ یَقُولُونَ إِنَّمَا یُعَلِّمُہُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُونَ إِلَیْْہِ أَعْجَمِیٌّ وَہَذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْن﴾․(النحل:103)”اور ہمیں خوب معلوم ہے وہ کہتے ہیں اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے، حالاں کہ جس آدمی کی طرف نسبت کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن)عربی زبان ہے۔“ مذکورہ آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں بلعام نامی ایک رومی غلام رہتا تھا ،وہ اسلام لایا تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلامی احکام کی تعلیم فرمایا کرتے تھے، لیکن مشرکین نے یہ مشہور کردیا کہ وہ رومی غلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھاتا ہے ۔اللہ نے مشرکین کے اس طعن کا، جو محض عناد پر مبنی تھا، نہایت معقول جواب دیاکہ جس غلام کی طرف وہ تعلیم قرآن کی نسبت کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ قرآن صاف اور سلیس عربی میں ہے تو قرآن اس عجمی کا کلام کس طرح ہوسکتا ہے۔

چوتھی دلیل یہ پیش کی :﴿أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا﴾(النساء :82)”کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلافات پاتے“اختلاف سے مراد یا تو یہ ہے کہ قرآن کے بیان کردہ امور نفس الامر سے مختلف ہوتے ۔مگر قرآن کے بیان کردہ امور سب حقائق ہیں ،کوئی بھی خلاف واقع نہیں ہے۔یا اختلاف کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کے مضامین میں کوئی باہمی تناقض ہو تا،حالاں کہ قرآن کے مضامین میں کہیں بھی کوئی تناقص نہیں ہے۔ یا اختلاف سے مراد یہ کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت میں اختلاف ہوتا، یعنی کسی جگہ بلاغت موجود ہوتی اور کسی جگہ موجودنہ ہوتی لیکن بلاغت کے اعتبار سے قرآن میں اختلاف نہیں ہے قرآن از اول تا آخر فصیح و بلیغ ہے، جب قرآن کے بیان کردہ امور بالکل واقعہ کے موافق ہیں اور قرآن کے مضامین میں کوئی تضاد و تناقص نہیں ہے اور قرآن میں فصاحت وبلاغت یکساں ہیں اس میں ہستی ونیستی کا کوئی اختلاف نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ قرآن یقینا بلا شک و شبہ اللہ کا کلام ہے۔اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا ہوتا تو اس میں مذکورہ تینوں باتیں ضرور پائی جاتیں۔

پانچویں دلیل یہ پیش کی ہے :﴿وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنبَغِیْ لَہُ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِیْن﴾(یٰس :69)”اور ہم نے نبی کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ اس کے مناسب ہی تھا یہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے“۔ نیز فرمایا:﴿وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ﴾(الحاقہ:41)”اور وہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے“ان آیتوں میں مشرکین کے اس شبہ کا جواب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شاعر ہیں اور یہ قرآن شعر ہے ۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے پیغمبر کو شاعری کا علم نہیں سکھلایا اور نہ شاعر ی آپ کے شایان شان ہے۔جب آپ شاعر نہیں تو یقینی بات ہے کہ قرآن شعر نہیں ہے تو آپ کے شاعرنہ ہونے کے باوجود ایسا بے مثل اور معجز کلام پیش کرنا، جو بشر کی استطاعت سے باہر ہو، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔مذکورہ شبہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے انداز میں دیا ہے، وہ یہ ہے :﴿أَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہِ رَیْْبَ الْمَنُونِ، قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْن﴾(طور:31-30)”کیا وہ کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے ہم اس پر گردش زمانہ کا انتظار کرتے ہیں ۔کہ دو تم انتظار کرتے رہو، بیشک میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔“یعنی معاندین تو کبھی کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے جب تک زندہ ہے اس کے اشعار کو عروج ہے اور ہم اس کی موت کے منتظر ہیں، جوں ہی اس نے آنکھیں بندکیں یہ سارا کھیل ختم ہوجائے گا۔اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ موت تو سب پر آئے گی، اس لیے میں بھی انتظار کرتا ہوں کہ عزت کی موت کس کی ہوگی ؟

چھٹی دلیل یہ پیش کی کہ اگر بالفرض نبی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی باتیں میری طرف منسوب کریں تو میں اس کو سخت سزا دوں گا ۔فرمایا: ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ فَمَا مِنکُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ﴾ (الحاقہ:44)”اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ہم اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے، پھر تم میں سے کوئی بھی اسے روکنے والا نہ ہوتا“۔

ساتویں دلیل یہ پیش کی :﴿فَذَکِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَلَا مَجْنُون﴾(طور:29)”پس نصیحت کرتے رہیے کہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں ،نہ دیوانے“۔جب آپ کاہن نہیں ہیں تو قرآن کہانت نہیں ہوگا، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :﴿وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ﴾ (الحاقہ 42) ”اور نہ ہی (یہ قرآن )کسی کاہن کا قول ہے“یہ منکرین قرآن کا اس شبہ کا ازالہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاہن ہیں اور قرآن کہانت ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی کہ نہ آپ کاہن ہیں اور نہ قرآن کہانت ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی نعمت سے نوازا ہے، یعنی نبوت عطا فرمائی ہے اور یہ قرآن وحی ہے ،جو نبی ہی پر نازل ہوتا ہے۔

آٹھویں دلیل یہ پیش کی:مشرکین کہتے تھے کہ جب تک آپ آسمانوں پر جاکر وہاں سے لکھی ہوئی کتاب نہ لے آئیں اس وقت تک ہم ایمان نہیں لائیں گے تو اس کا جواب یہ دیا گیا﴿وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِأَیْْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ (الانعام:7)”اور اگر ہم تم پر کوئی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دیتے او لوگ اپنے ہاتھوں سے چھوکر بھی دیکھ لیتے تب بھی کافر یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔“مقصد یہ کہ ان لوگوں نے صرف ضد و عناد کی بنا پر قرآن کو جادو کہہ کر انکار کیا ،ورنہ ان کے پاس قرآن کے جادو ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلَمَّا جَاء ہُمُ الْحَقُّ قَالُوا ہَذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِہِ کَافِرُونَ ، وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ ہَذَا الْقُرْآنُ عَلَی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْْنِ عَظِیْمٍ﴾(الزخرف:31-30)”اور جب ان کے پاس سچا قرآن پہنچا تو کہا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اسے نہیں مانتے ہیں اور کہا کہ کیوں یہ قرآن ان دو بستیوں کے کسی سردار پر نازل نہیں کیا گیا؟“

اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا :﴿أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُون﴾(الزخرف:32)”کیا وہ بانٹتے ہیں تیرے رب کی رحمت (جب کہ )دنیا کی زندگی میں ان کی روزی ہم نے تقسیم کی ہے اور ہم نے بعض کے بعض پر درجے بلندکیے تاکہ ایک دوسرے کو محکوم بنا کر رکھیں اور آپ کے رب کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جووہ جمع کرتے ہیں۔“ مقصد یہ کہ میری رحمت جس کافرد اعلیٰ نبوت ہے ،کیا یہ ان کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چا ہیں دے دیں؟ ہر گز نہیں، بلکہ:﴿اللّہُ أَعْلَمُ حَیْْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ﴾(الانعام 124) ”اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغمبری کا کام کس سے لے“۔

نویں دلیل:اللہ تعالیٰ نے اس بات پر کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اپنی گواہی اور فرشتوں کی گواہیاں پیش کی ہیں، فرمایا:﴿اللّہُ یَشْہَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَیْْکَ أَنزَلَہُ بِعِلْمِہِ وَالْمَلآئِکَةُ یَشْہَدُونَ وَکَفَی بِاللّہِ شَہِیْدا﴾ (النساء166) ”اللہ شاہد ہے اس پر جو تجھ پر نازل کیا کہ نازل کیا ہے اپنے علم کے ساتھ اور فرشتے بھی گواہ ہیں اور اللہ گواہی دینے والا کافی ہے“۔ اور دنیا میں یہ اصول مسلم ہے کہ ثقہ گواہوں سے دعویٰ ثابت ہو تا ہے اور سب سے زیادہ ثقہ گواہی اللہ تعالیٰ کی ہے، اس لیے فرمایا ﴿وکفی بالله شھیدا﴾ اسی اصول کی بنا پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو مجھ پر وحی کے ذریعہ نازل ہو ا ہے، بالکل حق اور سچ ہے۔

مذکور ہ دلائل سے منکرین قرآن کے سارے شکوک و شبہات رفع ہو کر یہ بات یقینی طور ثابت ہوگئی کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، جیساکہ ارشاد ربانی ہے کہ: ﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾(بقرہ 1)”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں ہے“یعنی اس بات میں شک نہیں کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے ۔

قرآن عربی زبان میں ہے
اگر قرآن سے پوچھا جائے کہ آپ کونسی زبان میں نازل ہوئے ہیں؟ تو قرآن جواب میں بہت سی ایسی آیتوں کو پیش کرے گا جن میں تصریح ہوئی ہے کہ قرآن عربی میں اترا ہے ۔مثلاً:﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً ﴾․(یوسف 2) ﴿أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً﴾․(طٰہٰ 113)﴿قُرآناً عَرَبِیّاً غَیْْرَ ذِیْ عِوَج﴾․ (الزمر28) ﴿وَکَذَلِکَ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ قُرْآناً عَرَبِیّا﴾․(الشوریٰ 2)﴿إِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً﴾․(الزخرف 3)وغیرہ․․․․․اس سے معلوم ہوا کہ عربی ساری زبانوں میں بہتر زبان ہے، کیوں کہ اگر عربی سے کوئی اور بہتر زبان ہوتی تو اللہ تعالیٰ قرآن کو اس زبان میں نازل فرماتے ،مگر جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کے لیے ساری زبانوں میں سے عربی کو منتخب کیا اس وجہ سے عربی کو ”ملکة الالسنة“کہتے ہیں اور اصول فقہ میں قرآن کی تعریف کی تکمیل ان الفاظ سے ہوئی ہے ھو اسم للنظم والمعنیٰ جمیعا (حسامی،منار) یعنی قرآن نظم و معنی دونوں کا نام ہے، اسی بنا پر فقہاء نے ایک مسئلہ استنباط کیا ہے:کہ عربی قرآن کے تحت کسی زبان میں ترجمہ کرناتو جائز ہے، مگر بغیر عربی کے کسی زبان میں قرآن کا ترجمہ جائز نہیں ہے، کیوں کہ پھر تو قرآن عربی نہیں رہے گا، بلکہ عجمی بن جائے گا ،حالاں کہ قرآن عربی زبان میں ہے۔

قرآن کا موضوع
دنیا میں جتنے علوم ہیں اور ان علوم کے جتنے موضوعات ہیں وہ سارے قرآن کے موضوعات ہیں، کیوں کہ سارے علوم کا منبع قرآن ہے، جیسا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ﴾ (النحل 89)”اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس مین ہرچیز کا کافی بیان ہے۔ “مگر یہاں قرآن کے موضوع سے مراد وہ مرکزی مضمون ہے جو تمام قرآن کے لیے بمنزلہ محور ہوتا ہے اور قرآن کے باقی مضامین اس کے اردگرد چکر لگاتے ہیں تو قرآن پاک میں ایسے مرکزی مضامین چار ہیں توحیدرسالتقیامتاحکام۔اس کے علاوہ قرآن میں جو قصص و امثال اور تذکیر بایام اللہ وغیرہ بیان ہوئے ہیں وہ سب ان ہی چار مضامین کے اثبات و توضیح کے لیے ہیں۔چوں کہ قرآن کے مرکزی مضامین یہی چار ہیں اسی بنا پر یہی چار مضامین قرآن کا موضوع ہے۔

قرآن کے نزول کی غرض وغایہ
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کے نزول کی غرض وغایہ کیا ہے؟

تو قرآن جواب میں کہے گا کہ میرے نزول کے بڑے مقاصد چھ ہیں:
پہلا مقصد ہدایت ہے، یعنی لوگوں کو سیدھا راستہ بتانا، جیسے کہ ارشاد باری ہے :﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْن﴾(البقرہ 2)․ ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاس﴾(البقرہ 185)․ ﴿إِنَّ ہَذَا الْقُرْآن یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَم﴾(بنی اسرائیل 9)۔

دوسرا مقصد انذار ہے، یعنی مجرموں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغ﴾(الانعام19)۔﴿وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا﴾(الانعام 92)۔

تیسرا مقصد لوگوں کو شرک وبدعت اور فسق و فجور کے اندھیروں سے نکالنا اور توحید و سنت اور اعمال صالحہ و اخلاق حسنہ کی روشنی میں لاکر کھڑا کرنا ہے، جیسے اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے﴿کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ﴾(ابراہیم 1)۔

چوتھا مقصد یہ کہ قرآن کے ذریعہ لوگوں کے دعووں کا انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاس﴾(النساء 105)بے شک ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاردی ہے، تاکہ لوگوں میں (انصاف کے ساتھ )فیصلے کرے۔

پانچواں مقصد وعظ و نصیحت ہے، فرمایا:﴿کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْن﴾(الاعراف 2)۔ ”یہ کتاب تیری طرف بھیجی گئی ہے، تاکہ تو اس کے ذریعے ڈرائے، اس سے تیرے دل میں تنگی نہ ہونی چاہیے، یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے“۔

چھٹا مقصد روحانی بیماریوں کے لیے شفا ہے، فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ﴾ (یونس 57) ”اے لوگو!تمہارے پاس آیا اللہ کی طرف سے وعظ اور شفا ،ان بیماریوں کے لیے، جو تمہارے سینوں میں ہیں۔

قرآن جبرائیل امین لائے ہیں
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کون لایا ہے ؟کیا وہ لانے والا معتمد بھی ہے؟تو قرآن جواب میں کہے گا کہ مجھے جبریل لائے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ﴾(الشعراء 193)”امانت دار فرشہ لے کر آیا ہے۔“اور جبریل فرشتوں کے سردار،بہت قوت والے اور انتہائی امانت دار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت معزز و مقرب ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی ان چار صفات کا ذکر یوں فرمایا ہے :﴿إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّةٍ عِندَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْن مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِیْنٍ﴾․(التکویر 21-19)”بے شک یہ قرآن ایک معزز پیغمبر کا لایا ہوا ہے، جوبڑا طاقت ور ہے ،عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے، وہاں کا سردار امانت دار ہے۔“اسی بنا پر اگر کوئی شخص جبریل سے دشمنی کرتا ہے، تو وہ اللہ کا دشمن سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ مَن کَانَ عَدُوّاً لِّجِبْرِیْلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّہِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَہُدًی وَبُشْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ،مَن کَانَ عَدُوّاً لِّلّہِ وَمَلآئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَإِنَّ اللّہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ﴾(البقرہ 98-97) ”کہہ دو جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہو ،سو اسی نے اتارا ہے وہ قرآن، اللہ کے حکم سے، آپ کے دل پر، ان کی تصدیق کرتا ہے جو اس سے پہلے ہیں اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور خوش خبری ہے۔جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو توبے شک اللہ بھی ان کافروں کا دشمن ہے۔“

قرآن سرور کونین پر اتارا گیا ہے
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کو جس پر اتارا ہے وہ کون ہے؟ اور کیسا ہے؟تو قرآن کہے گا کہ مجھے محمد رسول اللہ پر اتارا گیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سارے انسانوں سے بہتر ہے جن کی بہت سی خصوصی صفات ہیں ،جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
٭...آپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا مصداق ہیں، وہ دعا یہ ہے : ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْہِمْ إِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْم﴾․ (البقرة129) ”اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیج ! جوان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی سکھائے اور انہیں پاک کرے،بے شک تو ہی غالب، حکمت والا ہے“۔
٭... آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہیں جو انہوں نے اس طرح دی:﴿وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتِیْ مِن بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ﴾(الصف 6)۔اور ایک رسول کی خوش خبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا “۔
٭...آپ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کربھیجے گئے، فرمایا:﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ ﴾ (الانبیاء:107)”اور ہم نے تمہیں تمام جہاں کے لوگوں کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔
٭... آپ کو سارے لوگوں کے لیے نبی بنا کر مبعوث کیا ہے، فرمایا : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً﴾(السبا:28)۔”اور ہم نے آپ کو سارے لوگوں کو ڈر اور خوشی سنانے کے لیے بھیجا ہے“۔
٭...آپ کو خاتم النبیین کا اعزاز دیا فرمایا ﴿مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ﴾․ (الأحزاب:40) ” محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ الله کے رسول اور سب نبیوں کے خاتم ہیں۔“
٭... آپ کو معراج پر لے جا کر انتہائی اعزاز سے نوازا، فرمایا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا﴾․(بنی سرائیل:1) ”وہ پا ک ذات ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے گرد ا گردہم نے برکت رکھی ہے۔“ مسجد اقصیٰ کے بعد کا واقعہ سورة نجم میں یوں ذکر ہوا :﴿وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً أُخْرَی،عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہَی،عِندَہَا جَنَّةُ الْمَأْوَی،إِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی،مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی،لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی﴾․ (النجم:18-13) ”اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے سدرة المنتٰھی کے پاس، جس کے پاس جنت مأوٰی ہے، جب کہ اس سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا ( یعنی نور ) نہ نظر بہکی نہ حد سے بڑھی، بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔“
٭... آپ کو برہان کہا ہے، فرمایا ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ﴾․ (النساء:174) ” اے لوگو! تمہارے پاس پرورد گار کی طرف سے ایک دلیل آچکی ہے ( یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم )۔
٭... آپ کی صفات توراة وانجیل میں اس انداز سے بیان ہوئی تھیں جس کی بنا پر یہود ونصاریٰ کے علماء آپ کو اس طرح پہچانتے تھے، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے ،فرمایا : ﴿الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ﴾․ ( البقرہ:146) ”وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی تھی وہ اسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔“
٭... آپ کے عظیم اخلاق پر الله تعالیٰ نے گواہی دی ہے، فرمایا ﴿وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ﴾ ․( القلم:4)” اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خُلق ہیں۔“
٭... الله تعالیٰ نے آپ کا تذکرہ بہت اونچا کر دیا فرمایا ﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾․(الم نشرح:4) ”اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔“
٭... الله تعالیٰ سارے انبیاء کے اس بات پر گواہ بنائیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوم کو الله تعالیٰ کا پیغام پورا پورا پہنچا دیا، فرمایا﴿ فَکَیْْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّةٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیْدا﴾․ (النساء:41) ”پھر کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے گواہ بلائیں گے اور تمہیں ان پر گواہ کرکے لائیں گے۔“
٭... آپ کو روز قیامت میں مقام محمود عطا کیا جائے گا اور یہ مقام محمود سب سے اعلی مرتبہ ہے فرمایا :﴿ أَن یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً﴾․ (بنی اسرائیل:79) ”قریب ہے کہ تیرا رب ( یقینا) تجھ کو مقام محمود میں پہنچا دے گا۔“

قرآن مجید کے فضائل
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کے فضائل کیا ہیں؟ تو وہ جواب میں کہے گا کہ میرے تو بہت سے فضائل ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
٭... مجھے رمضان المبارک کے مہینے میں نازل کیا ہے، فرمایا: ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن﴾․ (البقرة:185) ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔“
٭... مجھے شب قدر میں اتارا ہے فرمایا:﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةِ الْقَدْرِ﴾․ ( القدر:1) ”بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے۔“
٭... مجھے عربی زبان میں نازل کیا ہے، فرمایا: ﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ﴾․( یوسف:2) ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا۔“
٭...مجھے سارے لوگوں کی ہدایت کے لیے اتارا ہے ، فرمایا:﴿ہُدًی لِّلنَّاس﴾․( البقرہ:185) ”ہدایت ہے لوگوں کے واسطے۔“
٭...میں حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا ہوں، فرمایا: ﴿وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ﴾․( البقرہ:185) ”اور یہ ( قرآن کی آیتیں) ہدایت کی روشن دلیلیں او رحق وباطل میں فرق کرنے والا ہے۔“
٭... میں خالص روشنی ہوں، فرمایا:﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا﴾․ النساء:174) اور ہم نے تمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے۔“
٭... میں نے سارے مسائل کی وضاحت کی ہے، فرمایا:﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ﴾․(النحل:89)) اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے، نیز فرمایا :﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِن کُلِّ مَثَلٍ فَأَبَی أَکْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ کُفُوراً﴾․( بنی اسرائیل:89) ”اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر ایک قسم کی مثال کھول کر بیان کر دی ہے ۔“
٭... باطل میرے پاس نہیں آسکتا ،فرمایا: ﴿َإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ لَا یَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ﴾․ (حم سجدہ:42-41) ”تحقیق وہ عزت والی کتاب ہے، جس میں غیر واقعی بات نہ اس کے آگے سے آسکتی ہے او رنہ اس کے پیچھے کی طرف سے، یہحکیم، محمود، الله کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔“
٭... میں روحانی بیماریوں کے لیے علاج ہوں، فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ﴾․ (یونس:57) ”اے لوگو! تمہارے رب سے نصیحت اور دلوں کے روگ کی شفا تمہارے پاس آئی ہے۔“
٭... میں تئیس سال کے عرصہ میں نازل ہوا ہوں، تاکہ لوگوں کے دلوں میں جانشین ہو جاؤں، فرمایا:﴿وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلا﴾․( بنی اسرائیل:106) ”او رہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا ہے ،تاکہ تو مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنائے اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ اتارا ہے۔“
٭... میں ایسی مؤثر کتاب ہوں اگر پہاڑ پر بھی نازل کیا جاؤں تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، فرمایا:﴿لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَةِ اللَّہِ ﴾․( الحشر:21) ”اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے دیکھتے کہ الله کے خوف سے جھک کر پھٹ جاتا۔“
٭... میری حفاظت کی ذمہ داری الله جل جلالہ نے لی ہے، فرمایا:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾․(الحجر:9) ”ہم نے یہ نصیحت اتاری، بے شک ہم اس کے نگہبان ہیں۔“
وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین․

Flag Counter