Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

7 - 17
قبولیت توبہ کی شرائط اور احکام

ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت عمر رضی الله عنہ کا بڑھیا کی نصیحت سے رونا
حضرت عمر رضی الله عنہ ایک مرتبہ چند صحابہ کی جماعت کے ساتھ بڑے ضروری کام سے تشریف لے جارہے تھے ، راستہ میں ایک بڑھیا ملی، جن کی کمر جھک گئی تھی اور لاٹھی کے سہارے سے آہستہ آہستہ چل رہی تھیں۔

حضرت عمر رضی الله عنہ سے فرمایا: قف یا عمر، عمر ٹھہر جا، کہاں لپکا جارہا ہے؟ حضرت عمر رضی الله عنہ ٹھہر گئے اور بڑھیا لاٹھی کے سہارے سیدھی کھڑی ہو گئیں اور فرمایا: اے عمر! میرے سامنے تیرے اوپر تین دور گزر چکے ہیں۔

ایک تو وہ دور تھا کہ تو سخت گرمی کے زمانے میں اونٹ چرایا کرتا تھا، اور اونٹ بھی چرانے نہیں آتے تھے، ( صبح سے شام تک حضرت عمررضی الله عنہ اونٹ چرا کر آتے، تو خطاب ( والد) کی مار پڑتی تھی، کہ اونٹوں کو اچھی طرح چراکر کیوں نہیں لایا او ران کی بہن عمررضی الله عنہ کو یہ کہتی تھی کہ عمر تجھ سے تو پھلی نہیں پھوٹتی ) تو اس بڑھیا نے کہا کہ تو اونٹ چرایا کرتا تھا اور تیرے سر پر ٹاٹ کا یا کمبل کا ٹکرا ہوتا تھا؟ اور ہاتھ میں پتے جھاڑنے کا آنکڑا ہوتا تھا۔

دوسرا وہ دور آیا کہ لوگوں نے تجھے عمیر کہنا شروع کیا، اس لیے کہ ابو جہل کا نام بھی عمر تھا، اس کی طرف سے پابندی تھی کہ میرے نام پر نام نہ رکھا جائے، گھر والوں نے حضرت عمر رضی الله عنہ کے نام میں تبدیلی کرکے عمیر کہنا شروع کر دیا تھا۔

بڑھیا نے کہا کہ اب تیسرا دور یہ ہے کہ تجھے نہ کوئی عمیر کہتا ہے، نہ عمر، بلکہ امیر المؤمنین کہہ کر پکارتے ہیں ، اس تمہید کے بعد بڑھیا نے کہا:
”اتق الله تعالیٰ فی الرعیة․“
رعایا کے بارے میں الله تعالیٰ سے ڈرتے رہنا، امیر المومین بننا آسان ہے، مگر حق والے کا حق ادا کرنا مشکل ہے ، کل حقوق کے بارے میں باز پرس ہو گی ، لہٰذا ہرحق والے کا حق ادا کرو۔ حضرت عمر رضی الله عنہ زار وقطار رو رہے ہیں، یہاں تک کہ ڈاڑھی مبارک سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے ہیں، صحابہ جو ساتھ تھے انہوں نے بڑھیا کی طرف اشارہ کیا کہ بس تشریف لے جائیں، حضرت عمر رضی الله عنہ کے رونے کی وجہ سے زبان بھی نہ اٹھ سکی، اشارہ سے ہی منع فرما دیا کہ ان کو فرمانے دو، جو فرما رہی ہیں ، جب وہ چلی گئیں، تب صحابہ میں سے کسی نے پوچھا کہ یہ بڑھیا کون تھیں؟

حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا: کہ اگر یہ ساری رات کھڑی رہتیں تو عمر یہاں سے سرکنے والا نہیں تھا، بجز فجر کی نماز کے، یہ بی بی صاحبہ خولہ بنت ثعلبہ رضی الله عنہا ہیں، جن کی بات کی شنوائی ساتویں آسمان کے اوپر ہوئی اور حق تعالیٰ نے ارشا فرمایا:﴿قد سمع الله قول التی تجادلک فی زوجھا وتشتکی إلی الله… ﴾

بالیقین الله نے اس عورت کی بات سن لی، جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی او رالله کے آگے رو رہی تھی۔ فرمایا: عمر کی کیا مجال تھی کہ ان کی بات نہ سنے، جن کی بات ساتویں آسمان پر سنی گئی؟“

حضرت یحییٰ اندلسی رحمہ الله کی امانت داری
حضرت یحییٰ اندلسی ( اندلس جو کسی وقت میں علم وفن کا، خصوصیت سے علم حدیث کا مرکز تھا، حافظ ابن عبدالبر اور علامہ حمیدی اور شیخ اکبر جیسی شخصیتیں وہاں پیدا ہوئیں) حدیث پاک کا درس دیتے تھے اور بے شمار لوگ ان سے استفادہ کرتے تھے۔

ایک دن حضرت یحییٰ رحمہ الله نے پڑھانے کی طویل چھٹی کر دی، طلباء نے معلوم کیا کہ حضرت! اتنی لمبی چھٹی، جس کی مدت بھی متعین نہیں، کس بنا پر کی گئی؟ فرمایا: مجھے افریقہ کے آخری کنارے پر قیروان جانا ہے، عرض کیا، حضرت کیوں؟ وہاں جانا بڑا ہی مشکل ہے۔ فرمایا کہ ایک بقال کے میری طرف ساڑھے تین آنے، یعنی ایک درہم ہے، ان کے ادا کرنے کے لیے جارہا ہوں۔

لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت ایک درہم ہی تو ہے ؟ ! فرمایا: مجھے ایک حدیث پہنچی ہے اور پھر اپنی سند کے ساتھ حدیث پڑھی۔

ایک لاکھ، ایک لاکھ ، ایک لاکھ، ایک لاکھ، ایک لاکھ، ایک لاکھ یعنی چھ لاکھ کا نفلی صدقہ کرنے میں اتنا ثواب نہیں، جتنا ایک درہم حق والے کا ادا کرنے کا ثواب ہے۔

دوسو کنوں کا تقوی
بغداد میں ایک بڑا سوداگر رہتا تھا، یہ بڑا ہی دیانت دار اور ہو شیار تھا، خدا نے ا س کا کاروبار خوب ہی چمکایا تھا، دور دور سے خریدار اس کے یہاں پہنچتے اور اپنی ضرورت کا سامان خریدتے، اسی کے ساتھ ساتھ خدا نے اس کو گھریلو سکھ بھی دے رکھا تھا۔

اس کی بیوی نہایت خوب صورت، نیک، ہوشیار اور سلیقہ مند تھی،سوداگر بھی دل وجان سے اس کو چاہتا تھا اور بیوی بھی خاوند پر جان چھڑکتی تھی اور نہایت ہی عیش وسکون اور میل محبت کے ساتھ ان کی زندگی بسر ہو رہی تھی۔ سوداگر کاروباری ضرورت سے کبھی کبھی باہر بھی جاتا، اورکئی دن گھر سے باہر سفر میں گزارتا، بیوی یہ سمجھ کر کہ یہ گھر سے غائب رہنا کاروباری ضرورت سے ہوتا ہے، مطمئن رہتی۔

لیکن جب سوداگر جلدی جلدی سفر پر جانے لگا اور زیادہ زیادہ دنوں تک گھر سے غائب رہنے لگا تو بیوی کو شبہ ہوا اور اس نے سوچا ضرور کوئی راز ہے۔

گھر میں ایک بوڑھی ملازمہ تھی، سوداگر کی بیوی کو اس پر بڑا بھروسہ تھا او راکثرباتوں میں وہ اس ملازمہ کو اپنا راز دار بنالیتی، ایک دن اس نے بڑھیا سے اپنے شبہ کا اظہار کیا او ربتایا کہ مجھے بہت بے چینی ہے ، بڑھیا بولی، اے بی بی! آپ پریشان کیوں ہوتی ہو ؟ پریشان ہوں آپ کے دشمن ، آپ نے اب کہا ہے، دیکھیے میں چٹکی بجانے میں سب راز معلوم کیے دیتی ہوں اور بڑھیا ٹوہ میں لگ گئی، اب جب سوداگر گھر سے چلے تو یہ بھی پیچھے لگ گئی اور آخرکار اس نے پتہ لگالیا کہ سوداگر صاحب نے دوسری شادی کر لی ہے اور یہ گھر سے غائب ہو کر اس نئی بیوی کے پاس رہتے ہیں۔

بڑھیا یہ راز معلوم کرکے آئی اور بی بی کو سارا قصہ سنایا، سنتے ہی بی بی کی حالت غیر ہو گئی، سوکن کی جلن مشہور ہے، لیکن جلد ہی اس بی بی نے اپنے کو سنبھال لیا اور سوچا کہ جو کچھ ہونا تھا ہو ہی چکا ہے۔ اب میں پریشان ہو کر اپنی زندگی کیوں اجیرن بناؤں؟ او راس نے میاں پر قطعا ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ اس راز سے واقف ہے، وہ ہمیشہ کی طرح سوداگر کی خدمت کرتی رہی اور اپنے برتاؤ اور خلوص ومحبت میں ذرا فرق نہ آنے دیا۔

دوسری طرف شریف سوداگر نے بھی اپنی بیوی کے حقوق میں کوئی کمی نہ کی، اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آنے دی او رہمیشہ کی طرح اسی خلوص ومحبت سے بیوی کے ساتھ سلوک کرتا رہا، شوہر کے اس نیک برتاؤ نے بیو ی کو سوچنے پر مجبو رکردیا اور اس نے یہ طے کر لیا کہ وہ شوہر کے اس جائز حق میں ہر گز روڑا نہ بنے گی، اس نے سوچا کہ آخرمیاں مجھ سے ظاہر کرکے بھی تو دوسرا نکاح کرسکتا تھا، میاں نے اس طرح چھپا کر یہ نکاح کیوں کیا؟ اسی لیے کہ میرے دل کو تکلیف ہو گی، میں سوکن کے جلاپے کو برداشت نہ کرسکوں گی۔

کتنا پیاراہے میرا شوہر! اس نے میرے نازک جذبات کا کیسا خیال رکھا پھر اس نے اس نئی دلہن کی محبت میں مست ہو کر میرا کوئی حق بھی تو نہیں مارا، اس کے سلوک اور محبت میں بھی تو کوئی فرق نہیں آیا، آخر مجھے کیا حق ہے کہ میں اس کو اس حق سے روکوں، جو خدا نے اس کو دے رکھا ہے؟ مجھ سے زیادہ ناشکرا اورنالائق کون ہو گا، جو ایسے مہربان شوہر کے جائز جذبات کا لحاظ نہ کرے او راس کے دل کو تکلیف پہنچائے؟ بیوی یہ سوچ کر مطمئن ہو گئی۔

سوداگر بیوی کا خوش گوار سلوک او رمحبت کا برتاؤ دیکھ کر یہی سمجھتے رہے کہ شاید خدا کی اس بندی کو یہ راز معلوم نہیں ہے اور پوری احتیاط کرتے رہے، آخر کچھ سالوں کے بعد سوداگر کی زندگی کے دن پورے ہوئے او ران کا انتقال ہوگیا، سوداگر نے چوں کہ دوسری شادی شہر سے دور بہت خاموشی سے کی تھی، اس لیے اس کے رشتہ داروں میں سے کسی کو بھی یہ راز معلوم نہ تھا، سب یہی سمجھتے رہے کہ سوداگر کی بس یہی ایک بیوی تھی۔

چناں چہ جب ترکے کی تقسیم کا وقت آیا، تو لوگوں نییہی سمجھ کر ترکہ تقسیم کیا اور اس نیک بیوی کو اس کا حصہ دے دیا، سوداگر کی بیوی نے بھی اپنا حصہ لے لیا اور یہ پسند نہ کیا کہ اپنے مرے ہوئے شوہر کے اس راز کو فاش کرے جو زندگی بھر سوداگر نے لوگوں سے چھپایا تھا، لیکن اس نیک بی بی نے یہ بھی گوارہ نہ کیا کہ وہ سوداگر کی دوسری بیوی کا حق مار بیٹھے بے شک کسی کو یہ خبر تھی او رنہ اس کی طرف سے کوئی دعوی کرنے والا تھا، لیکن اس خدا کو تو سب کچھ معلوم تھا، جس کے حضور ہر انسان کو کھڑے ہو کر اپنے اچھے برے عمل کا جواب دینا ہے۔ سوداگر کی بیوہ یہ سوچ کر کانپ گئی اور اس نے یہ طے کر لیا کہ جس طرح بھی ہو گا وہ اپنے حصے میں سے آدھی رقم ضرور اپنی سوکن بہن کو بھجوائے گی اور اس نے ایک نہایت معتبر آدمی کو یہ ساری بات بتا کر اپنے حصہ میں سے آدھی رقم حوالے کی او راپنی سوکن کے پاس روانہ کیا۔

اور اس کے یہاں کہلوا بھیجا کہ افسوس آپ کے شوہر انتقال کر گئے، الله تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ،مجھے ان کی جائیداد ترکہ میں جو کچھ ملا ہے اسلامی قانون کی رو سے آپ اس میں برابر شریک ہیں، میں اپنے حصے کی آدھی رقم آپ کو بھیج رہی ہوں، امید ہے کہ آپ قبول فرمائیں گی۔

یہ پیغام اور رقم بھیج کر نیک بی بی نہایت مطمئن تھیں ، ان کو ایک روحانی سکون تھا، کچھ ہی دنوں میں وہ شخص واپس آگیا اور اس نے وہ ساری رقم واپس لا کر سوداگر کی بیوہ کو دی، سوداگر کی بیوہ فکر مند ہوئیں اور وجہ پوچھی، قاصد نے جیب سے ایک خط نکالا اور کہا اس کو پڑھ لیجیے، اس میں سب کچھ لکھا ہے، آپ فکر مند نہ ہوں۔

چناں چہ جب اس نے خط کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا۔
پیاری بہن!
آپ کے خط سے یہ معلوم ہو کہ بڑا رنج ہوا کہ آپ کے اچھے شوہر کا انتقال ہو گیا اور آپ ان کی سرپرستی سے محروم ہو گئیں ، خدا ان کی مغفرت فرمائے اور ان پر اپنی رحمتوں اور عنایتوں کی بارش فرمائے۔

میں کس دل سے آپ کے خلوص وایثار کا شکریہ ادا کروں کہ آپ نے ان کے ترکے میں سے اپنے حصے کی آدھی رقم مجھ کو بھیجی! میں آپ کی اس نیک روش سے بہت ہی متاثر ہوئی، حقیقت یہ ہے کہ سوداگر کے اس راز سے کوئی واقف نہ تھا، میرا نکاح بہت ہی پوشیدہ طریقے پر ہوا تھا، مجھے تو یقین تھاکہ آپ کو بھی اس کی خبر نہیں ہے اور میں کیا خود سوداگر مرحوم بھی یہی سمجھتے رہے کہ آپ کو اس دوسری شادی کی اطلاع نہیں ہے، اب آپ کے اس خط سے یہ راز کھلا کہ آپ ہمارے راز سے واقف تھیں ، سوکن کی جلن طبعی بات ہے، آپ کو ضرور اس واقعے سے تکلیف پہنچی ہو گی، لیکن الله اکبر! آپ کا صبر وضبط! حقیقت یہ ہے کہ آپ نے جس صبر وضبط سے کام لیا، اس کی نظیر نہیں مل سکتی، کبھی اشارے کنائے سے بھی تو آپ نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ آپ ہماری اس خفیہ شادی سے واقف ہیں، آپ کا یہ ایثار اور صبر وتحمل واقعی حیرت انگیز ہے، میں تو آپ کے اس کمال سے انتہائی متاثر ہوں۔

دولت کس کو کاٹتی ہے دولت کے لیے لوگ کیا کچھ نہیں کرتے؟ لیکن آفریں آپ کی ایما ن داری کو! یہ جانتے ہوئے کہ میرا نکاح راز میں ہے اور وہاں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کو اس کی خبر ہو اور جو میری طرف سے وکالت کرے، مگر آپ نے محض خدا کے خوف سے میرے حق کا خیال رکھا اوراپنے حصے میں سے آدھی رقم مجھے بھیج دی، خدا کے حاضر وناظر ہونے کا یقین ہو تو ایسا ہو اور خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کا جذبہ ہو تو ایسا ہو۔

اچھی بہن! میں آپ کی اس دیانت، خلوص، حق شناسی سے بہت متاثر ہوں، خدا آپ کو خوش رکھے اور دنیا وآخرت میں سر خ رو فرمائے ، لیکن بہن! میں اب اس حصے کی مستحق نہیں رہی ہوں، خدا آپ کا یہ حصہ آپ ہی کو مبارک کرے۔

یہ صحیح ہے کہ سوداگر مرحوم نے مجھ سے نکاح کیا تھا اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ میرے پاس آکر کئی کئی دن رہتے تھے، بے شک ہم نے بہت دنوں عیش ومسرت کی زندگی بسر کی، لیکن ادھر کچھ دنوں سے یہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا، سوداگر مرحوم نے مجھے طلاق دے دی تھی، اس راز کی آپ کو بھی خبر نہیں ہے، میں اس خط کے ساتھ آپ کی بے مثال محبت ، عنایت، ایثار، خلوص اور ہم دردی کا پھر شکریہ ادا کرتی ہوں۔
والسلام
آپ کی بہن

سوداگر کی بیوہ نے اس خاتون کا یہ خط پڑھا تو بہت متاثر ہوئی اوراس کی سچائی، دیانت اور نیکی نے اس کے دل میں گھر کرلیا اور پھر دونوں میں مستقل طور پر خلوص ومحبت اور رفاقت کا رشتہ قائم ہو گیا۔

اصحاب حقوق کے حقوق واپس کرنا ضروری ہے
چناں چہ انسان نے جس جس کا مال ناحق لیا ہے اور اب توبہ کی توفیق مل گئی ، تو اب صرف توبہ کافی نہیں ، بلکہ جن کے حقوق غصب کیے ہیں ان کو واپس کرنا ضروری ہے ۔

اور یہ ضروری نہیں کہ صاحب حق کو رقم واپس کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت بھی کرے کہ میں نے اتنی رقم آپ سے چوری کی تھی، بلکہ جس طرح بھی اس کو وہ رقم واپس کر دے ،درست ہے، مثلاً اتنی رقم یہ کہہ کر واپس کر دے یہ رقم میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے۔ (الدر مع الرد، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد،92/5، سعید)

مسئلہ: اگر کسی نے کئی لوگوں کا حق کھایا ہو، جن کو اب جانتا نہیں، تو جس طرح ممکن ہو ان لوگوں کو تلاش کرے، او ران کو ان کا حق واپس کرے، وہ نہ ہوں تو ان کے والدین یا اولاد کو دے دے اگر ان کو تلاش کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی صورت میں جتنا ناحق دوسروں کا مال کھایا ہے، اتنی مقدار صدقہ کردے۔ ( الفتاوی العالم گیریہ، کتاب الکراہیة، الباب السابع والعشرون، 367/5)

میراث میں دوسروں کے حقوق غصب کرنا
آج معاشرے میں لوگ چوری کو غلط سمجھتے ہیں اور چور کو ہر کوئی برا سمجھتا ہے، اس کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی، اسی طرح ڈاکو، یا وہ شخص جو زبردستی ظلم کرکے دوسرے کی زمین پر ناجائز قبصہ کرلے، ان لوگوں کو سب برا سمجھتے ہیں اور چوری، ڈاکے کو معاشرے میں قبیح فعل سمجھا جاتا ہے اور شریف لوگ ان لوگوں سے میل جول او رتعلق رکھنے کو پسند نہیں کرتے۔

لیکن حقغصب کرنے کی ایک صورت، جس کو اکثر لوگ گناہ نہیں سمجھتے، بلکہ جن کا حق ہے ان کا حق ہونا بھی تسلیم نہیں کرتے اور اچھے بھلے دین دار لوگ بھی اس معاملے میں انتہائی پست سوچ کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ ہے میراث میں لڑکیوں کا حصہ، حالاں کہ میراث میں جس طرح الله تعالیٰ نے مردوں کا حصہ بیان فرمایا ہے، اسی طرح عورتوں کا بھی میراث میں حصہ ہے۔

چناں چہ قرآن کریم کی آیت ہے :﴿ لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً﴾․(سورہ نساء، آیت:7)

مردوں کے لیے اس مال میں سے حصہ ہے جو ان کے ماں باپ نے اور رشتہ داروں نے چھوڑا اور عورتوں کے لیے مال میں سے حصہ ہے، جو ان کے ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا، وہ مال تھوڑا ہو یا زیادہ ، یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔

اس آیت میں میراث جاری کرنے کی اہمیت بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے مردوں اور عورتوں کے جو حصے مقرر ہیں، ان کا دے دینا فرض ہے، مردوں کابھی اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے متروکہ مال میں حصہ مقرر ہے اور عورتوں کے لیے بھی اپنے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کے چھوڑے ہوئے اموال واملاک میں حصہ مقرر ہے۔

زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو مرنے والے کی میراث سے حصہ نہیں دیا کرتے تھے اور اب بھی بہت سی قوموں میں یہی رواج ہے۔ اول تو لوگ میراث تقسیم کرتے ہی نہیں، ایسے ہی مشترک سلسلہ چلا آرہا ہوتا ہے۔ عرصہ گزرنے کے بعد جب ان کے معاملات انتہائی گھمبیر ہو جاتے ہیں، تب لڑ جھگڑ کر آپس میں میراث تقسیم کرتے ہیں او روہ بھی اپنی مرضی سے ، شریعت کا حکم معلوم کرنا گوارہ تک نہیں کرتے اور نہ ہی اس پر عمل کرتیہیں اور نہ بہنوں کو میراث کا حصہ دیتے ہیں۔

او رمیراث کا جو شرعی نظام ہے اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، نماز پڑھنے کی حدتک کے تو مسلمان ہیں، تلاوت ،ذکر واذکار بھی خوب کرتے ہیں ،لیکن میراث جاری کرنا، جو شریعت کا ایک لازمی حکم ہے، اس کے لیے تیار نہیں ہوتے اور یوں پوری زندگی دوسروں کا حق کھانے والے بن جاتے ہیں۔

بہن کااپنے حصہ میراث معاف کر دینے سے بھائی بری الذمہ ہوں گے یا نہیں؟
احسن الفتاویٰ میں ہے:
سوال… اگر بہن اپنا حصہ میراث معاف کر دے یا بھائیوں کو ہبہ کر دے تو بھائی بری الذمہ ہوں گے یانہیں؟

جواب: عفو وابراء دین سے ہوتا ہے ، عین سے عفو وابراء صحیح نہیں، البتہ اگر بھائیوں نے ترکہ میں کوئی ایسا تصرف کر لیا، جس سے بہن کا حق عین سے منتقل ہو کر بھائیوں کے ذمہ دین بن گیا تو عفو وابراء صحیح ہے، بہن کے معاف کر دینے سے معاف ہو جائے گا۔

ورثہ کے تصرف سے قبل اگر بہن حصہ ہبہ کر دے تو یہ ہبة المشاع ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں، البتہ اگر بہن کا حق قبل التصرف علیحدہ کر دیا جائے، اس کے بعد وہ کسی قسم کی مروت یا دباؤ کے بغیر مکمل رضا اور شرح صدر اور طیب خاطر سے بھائیوں میں اس طرح تقسیم کرے کہ ہر بھائی کا حصہ الگ کرکے اسے ہبہ کر دے ، تو صحیح ہے۔

جہاں بھائیوں سے حصہ نہ لینے کا دستور ہو، وہاں طیب خاطرکا یقین نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ۔ بلکہ طیب خاطر کا یقین ہونے کی صورت میں بھی چوں کہ اس سے رسم جاہلیت اور ظلم عظیم کی تائید ہوتی ہے اس لیے جائز نہیں، دین سے ابراء کا بھی یہ حکم ہے کہ وجہ مذکورہ کی وجہ سے جائز نہیں۔ (احسن الفتاوی، کتاب الوصیة والفرائض، :279/9)

مسئلہ: اسی طرح اگر ترکہ میں نقد رقم اور کچھ دوسرا سامان ہو او ر بھائی چاہتے ہیں کہ بہن کچھ عوض لے کر اپنے حصہ میراث سے دست بردار ہو جائے تو یہ جائز ہے۔

لیکن ایسی صورت میں بہن کا جتنا حصہ نقد رقم میں بنتا ہے ، عوض کی رقم اس سے زیادہ ہو، تاکہ نقدی میں حصہ میراث کے بقدر عوض اس کے مقابلے میں آجائے اور زائد دوسرے سامان کے مقابلے میں نیز نقدی میں حصہ میراث کے بقدر عوض پر مجلس عقد میں قبضہ ضروری ہے، اس لیے کہ یہ بیع صرف ہے …

اور اگر عوض ایسے سامان کی صورت میں ہو جو اموال ربویہ میں سے نہ ہو، تو تساوی وتقابض وتعیین فی المجلس کچھ بھی ضروری نہیں۔

تنبیہ: جہاں بھائیوں سے حصہ نہ لینے کا دستور ہو ، وہاں طیب خاطر کا یقین نہ ہونے کی وجہ سے عوض دے کر حصہ میراث روکنا جائز نہیں، بلکہ طیب خاطر کا یقین ہونے کی صورت میں بھی چوں کہ اس سے رسم جاہلیت اور ظلم عظیم کی تائید ہوتی ہے، اس لیے جائز نہیں۔( احسن الفتاوی، کتاب الوصیة والفرائض280/9)

قبل از تقسیم ترکہ میں سے خرچ کرنا
جب کوئی فوت ہو جائے تو اس کے وارثوں میں سے کسی کو تقسیم سے پہلے حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر ( اگر ورثاء بالغ ہوں) میراث میں سے کچھ خرچ کرے۔

او راگر ورثاء میں سے کچھ نابالغ بھی ہوں تب تو ان کی اجازت بھی معتبر نہیں۔ یعنی اگر نابالغ اجازت بھی دے، تب بھی خرچ کرنا جائز نہیں۔

اسی طرح جب کوئی فوت ہو جائے تو تقسیم ترکہ سے پہلے ترکہ میں سے مہمانوں کی خاطر تواضع یا میت کے لیے صدقہ خیرات کرنا جائز نہیں، اگر ورثاء میں سے بعض نابالغ ہوں۔ اور اگر سب بالغ ہوں تو سب کی رضا مندی سے جائز ہے۔ (رد المحتار، کتاب الصلوٰة، مطلب فی کراہیة الضیافة من اھل المیت ،240/2)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله ”معارف القرآن“ میں لکھتے ہیں : ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس میں سے مہمانوں کی خاطر وتواضع اور صدقہ خیرات کچھ جائز نہیں، اس طرح کہ صدقہ خیرات کرنے سے مردے کو کوئی ثواب نہیں پہنچتا ،بلکہ ثواب سمجھ کر دینا اور بھی زیادہ سخت گناہ ہے، اس لیے کہ مورث کے مرنے کے بعد اب یہ سب مال تمام وارثوں کا حق ہے اور وارثوں میں یتیم بھی ہوتے ہیں، اس مشترکہ مال میں سے دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کا مال چرا کر میت کے حق میں صدقہ کر دیا جائے۔

پہلے مال تقسیم کیا جائے، اس کے بعد اگر وہ وارث اپنے مال میں سے اپنی مرضی سے میت کے حق میں صدقہ خیرات کریں تو ان کو اختیار ہے۔

تقسیم سے پہلے بھی وارثوں سے اجازت لے کر مشترکہ ترکہ میں سے صدقہ خیرات نہ کریں، اس لیے جو ان میں یتیم (نابالغ) ہیں ان کی اجازت تو معتبر ہی نہیں اور جو بالغین ہیں، وہ بھی ضروری نہیں کہ خوش دلی سے اجازت دیں، ہو سکتا ہے وہ لحاظ کی وجہ سے اجازت دینے پر مجبور ہوں اور لوگوں کے طعنے کے خوف سے کہ اپنے مُردے کے حق میں دو پیسے تک خرچ نہ کیے، اس عار سے بچنے کے لیے بادل نخواستہ حامی بھر لے، حالاں کہ شریعت میں صرف وہ مال حلال ہے جب کہ دینے والا طیب خاطر سے دے رہا ہو۔ (معارف القرآن317/2، سورہ نساء:7)

واقعہ… ایک بزرگ ایک مسلمان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، تھوڑی دیر مریض کے پاس بیٹھے تھے کہ اس کی روح پرواز کرگئی، اس موقع پر جو چراغ جل رہا تھا، انہوں نے فوراً بجھا دیا اور اپنے پاس سے پیسے دے کر تیل منگایا اور روشنی کی ، لوگوں نے اس کا سب دریافت کیا تو فرمایا: جب تک یہ شخص زندہ تھا یہ چراغ اس کی ملکیت تھا اور اس کی روشنی استعمال کرنا درست تھا، اب یہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا تو اس کی ہر چیز میں وارثوں کا حق ہو گیا ۔

لہٰذا اب وارثوں کی اجازت ہی سے ہم یہ چراغ استعمال کر سکتے ہیں اور وہ سب یہاں موجود نہیں، لہٰذا اپنے پیسوں سے تیل منگا کرروشنی کی۔

لہٰذا ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم کسی دوسرے کا حق تو نہیں کھا رہے یا زمانہ ماضی میں کسی دوسرے کا حق تو نہیں کھایا تھا، چناں چہ جن جن کا حق مال وغیرہ کھایا ہے ان سے معاف کرائے، یا ان کا حق واپس کرے، اس لیے کہ آخرت کا مطالبہ بہت سخت ہے، دنیا میں ہی اپنا معاملہ صاف کرالے۔

اسی طرح اگر کسی کا حق تو نہیں کھایا ، لیکن کسی کو تکلیف پہنچائی ہے، خواہ ہاتھ سے، خواہ زبان سے، یعنی کسی کو مارا یا کسی کو گالی وغیرہ دی یا کسی کی پیٹھ پیچھے غیبت کی، تو جن جن کو تکلیف پہنچائی ہے یا غیبت کی ہے ان سب سے معافی مانگنا ضروری ہے۔ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الخطر والاباحة، فصل فی البیع291/2)

الله تعالیٰ ہمیں معاصی کی ظلمتوں میں پڑنے سے محفوظ رکھے اور گزشتہ خطاؤں پر شریعت کے تعلیم کردہ طریقے پر صدق دل سے توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔

Flag Counter