Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

15 - 17
نوجوان نسل کا بگاڑ ذمے دار کون؟

محترم ڈاکٹر نوشاد علی
	
اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر وہ شخص ناکام ونامراد ہے ، جو آخرت کے امتحان میں ناکام ہو جائے ، خواہ دنیا کی زندگی میں اس نے کتنا ہی عروج حاصل کیا ہو ، لیکن صرف دنیا کی زندگی کے اعتبار سے بھی اگر غور کیا جائے تو کسی انسان کا ضمیر اگر اس قدر مردہ ہو چکا ہو کہ اپنے ذاتی فائدے کے علاوہ اسے کچھ نظر ہی نہ آتا ہو تو ایسے شخص کو چالاک ، مکار اور خود غرض تو کہا جاسکتا ہے ، عقل مند افراد میں اس کا شمار کرنا تو انسانیت کے ساتھ دشمنی ہو گی ، ایسے ترقی یافتہ افراد سے تو دیہات کے وہ سیدھے سادے لوگ بہتر ہیں، جن میں غربت اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے دوسری کئی برائیاں تو ہو سکتی ہیں ، لیکن وہ انسان او رجانور میں فرق کرنا جانتے ہیں،نوجوان نسل کے کارناموں کو دیکھ کر تو کئی باردل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اے رب رحیم وکریم !میری اولاد کو ایسی ترقی سے محفوظ رکھ، جہاں پہنچ کر وہ اپنوں کو پہچاننے سے بھی انکار کر دے۔

ایک صاحب نے شہر کی ایک بہترین کالونی میں ایک کوٹھی خریدی، کوٹھی کا معائنہ کرتے ہوئے، جب وہ اس کی خوبیاں بیان کر رہے تھے تو ایک اہم خوبی انہوں نے یہ بھی بتائی کہ بڑا ہی پرسکون ماحول ہے، یہاں شفٹ ہوئے ہم لوگوں کو چھے ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ابھی تک نہ تو ہم نے ہی کسی سے ملنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہم سے ہی کوئی ملنے آیا ہے ، پرانے پڑوس کی طرح نہیں ہے کہ جب دیکھو منھ اٹھائے چلے آرہے ہیں، دراصل تعلیم او رجہالت کا یہی فرق ہوتا ہے ، یہاں پر سب ہی لوگ پڑھے لکھے اور مہذب ہیں، انہیں نہ اپنی زندگی میں کسی کا دخل پسند ہے اور نہ خود کسی کی زندگی میں دخل انداز ہوتے ہیں ، غور کیجیے! لوگوں کی سوچ میں کس قدر تبدیلی آچکی ہے، پہلے کہا جاتا تھا کہ بہت ہی ملنسار ہونا خوش اخلاقی کی علامت تھی، لیکن جدید دور میں جب لوگ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند کر دیں تو یہ ان کے مہذب ہونے کی علامت تصور کیا جانے لگا۔

میرے ایک غیر مسلم دوست، جو ایک اعلیٰ سرکار ی عہدے پر فائز ہیں، کسی دیہات کے رہنے والے ہیں، ایک بار انہوں نے نے خود بتایا کہ چھتیس سال کی نوکری ہے، لیکن آج تک گاؤں جانا نہیں ہو سکا، والدہ، والد،بہن بھائی سب لوگ ہیں، لیکن نوکری او رگھر کے اتنے کام لگے رہتے ہیں کہ گاؤں جانے کے لیے کبھی وقت ہی نہیں نکال سکا، کبھی کبھی وہی لوگ آجاتے ہیں تو ملاقات ہو جاتی ہے، غور کیجیے! چھتیس سال کا عرصہ تھوڑا نہیں ہوا کرتا، میرے مذکورہ دوست کو اس طویل عرصے میں کبھی اتنا وقت نہیں مل سکا کہ خود جا کر اپنے گاؤں والوں، رشتے داروں او راپنے والدین کی خیر خیریت معلوم کرسکے، وہ جس وقت یہ سب کچھ بتا رہے تھے، میں ان کے چہرے کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا، میں نے محسوس کیا کہ اپنے کیے پر نہ انہیں کوئی افسوس ہے اور نہ احساس ندامت، ترقی کے غرور سے اکڑا ہوا بالکل بے حس او رسپاٹ چہرہ میرے سامنے تھا۔

انسان کس قدر گھٹیا، نیچ اور پتھر دل ہو سکتا ہے، اس سے متعلق اپنے ساتھ گزرا ہوا ایک واقعہ میرے ایک محترم دوست نے اس طرح بیان کیا، شہر کے ایک مشہور ڈاکٹر کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، ڈاکٹر صاحب سے ملاقات نہیں ہو سکی، برآمدے میں بیٹھا ہوا ایک شخص رامائن پڑھ رہا تھا، عمر تقریباً70 سال تھی، بکھرے او ربے ترتیب بال، بڑھی ہوئی داڑھی، میلا کچیلا لباس ، پھٹی ہوئی دھوتی، معلوم ہوا کہ وہ محترم ڈاکٹر صاحب کے والد ہیں، کوٹھی کے باہر ایک پیڑ تھا، ہم لوگ وہیں کھڑے ہو کر بات کرنے لگے، ضعیف آدمی نے اپنی داستان غم کچھ اس طرح بیان کی ،ہم لوگ مظفر نگر کے ایک دیہات کے رہنے والے ہیں ، ڈاکٹر میرا اکلوتا بیٹا ہے ، گاؤں میں تھوڑی بہت زمین تھی، زندگی مشکل ضرور تھی، لیکن پھر بھی عزت وسکون کے ساتھ گزر رہی تھی، زمین بیچ کر اسے ڈاکٹر بنایا، زمین بیچ کر ہی اس کا کلینک او رنرسنگ ہوم بنوایا گیا، گھر ، گھیر، جانور اور جو بھی تھوڑی بہت زمین باقی بچی تھی اسے بیچ کر یہ کوٹھی بنوائی گئی، سب کچھ بک چکا تھا، لیکن اس کے باوجود میں خو ش تھا، میں بھی اپنے کو بڑا آدمی شمار کر رہا تھا، سچ بات یہ ہے کہ بڑا آدمی ہونے کا احساس ہی کچھ عجیب ہوتا ہے، بہت دن کھیتی میں ہڈیوں کو پانی کیا، سوچتا تھا اب کچھ عیش کی گزاری جائے، لیکن شہر آکر جلد ہی معلوم ہو گیا کہ عیش کے دن تو وہی تھے، جو میں دیہات میں گزار کر آیا ہوں، جب تک بیوی حیات تھی، پھر بھی غنیمت تھا، لیکن اس کے بعد سے تو حال یہ ہے کہ نوکرانی بھی کھانا اس طرح پٹک کر جاتی ہے ، جیسے وہی میری اَن داتا ہے، بیٹا اور بہو، مجھ سے کبھی بات نہیں کرتے، پوتے کے ساتھ کھیل کر دل بہلانا چاہتا ہوں، لیکن کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے اسے بھی بلا لیا جاتا ہے ، بوڑھا رورہا تھا، لیکن آخر میں اس نے جو کچھ کہا وہ بھی ترقی یافتہ معاشرے پر ایک بہترین تبصرہ ہے، بیٹا! یہ جو شان دار بنگلے اور کوٹھیاں تم دیکھ رہے ہو، ان میں انسان نہیں، زندہ لاشیں بسا کرتی ہیں ، یہ وہ تعلیم یافتہ، مہذب اور بڑے لوگ ہیں جہاں والدین سے زیادہ کتوں کی قدر کی جاتی ہے۔

اس طرح کے بے شمارواقعات ہم لوگ دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں، جو برصغیر کے معاشرے کے ٹوٹنے او ربکھرنے کی دلیل ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرے میں جوبگاڑ آرہا ہے اس کا اصل ذمے دار کون ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ایک اہم سبب ہمارا نظام تعلیم ہے، غور کیجیے ہمارے تعلیمی اداروں میں جو تعلیم دی جارہی ہے، اس کا مقصد کیا ہے ؟ ڈاکٹر ، پروفیسر ، انجینئر بناتے وقت ہم انہیں یہی تو تعلیم دیتے ہیں کہ دولت کمانے کا آسان طریقہ کیا ہے؟ گھر سے لے کر کالج تک ہر کوئی بڑا آدمی بننے کی تعلیم دے رہا ہوتا ہے، انسان بنانے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی، بڑا آدمی بننے کا یہی جنون انسان کو جائز وناجائز دولت کمانے پر مجبو رکرتا ہے ، انسان جب زندگی کے پچیس تیس سال یہی سیکھنے اور سمجھنے میں گزار دیتا ہے تو بڑا آدمی بننے کا یہ جنون اس پر اس قدر سوا ہو چکا ہوتا ہے کہ یہی اس کا مقصد حیات بن جاتا ہے ، ہر وہ رشتہ اور تعلق جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ، اس سے وہ دامن بچانا چاہتا ہے، دوست احباب اور عزیز واقارب کے ساتھ وقت گزارنا اسے وقت کی بربادی دکھائی دیتا ہے، اپنے مقصد حیات کے سامنے یہ تمام رشتے اسے بونے نظر آنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنوں سے اس قدر کٹ چکا ہوتا ہے کہ والدین بھی اسے ایک بوجھ نظر آنے لگتے ہیں اور ان کے لیے بھی وقت نکالنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے، معاشرہ بھی عموماً اُنھی لوگوں کو عزت دیتا ہے جن کے پاس دولت ہوتی ہے، اخلاق وکردار اور حرام وحلال ہمارے لیے بے معنی ہوچکے ہیں ، اگر ہمارا معیار یہی ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہماری نئی نسل ترقی کی تمام بلندیوں کو چھونے میں لگی ہوئی ہے اور اگرانسانی معاشرے کے لیے اخلاق وکردار کی بھی کوئی اہمیت ہے تو ہمیں اپنے طریقہٴ تعلیم اور اس کا مقصد، دونوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

نئی نسل کے بگاڑ کا دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ ہم لوگ، اپنے چھوٹوں کے سامنے اپنے کردار کا کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کررہے ہیں، جب ہم ناجائز اور حرام طریقوں سے دولت حاصل کرکے گھر میں لاتے ہیں تو غیر شعوری طور پر ہم لوگ اپنی اولاد کی یہ تربیت کر رہے ہوتے ہیں کہ ہر وہ کام کرو جس میں تمہیں اپنافائدہ نظر آتا ہے ، ہر اس کام سے دور رہو جس میں کسی بھی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو، اب اگر ہر کام کرتے وقت صرف ذاتی نفع ونقصان کو ہی اہمیت دی جانے لگے تو اس اعتبار سے تو بوڑھے والدین کی ذمے داری قبول کرنا فائدے کا سودا تو نہیں ہو سکتا، ہمارا خود کا رکردار اگر یہی ہے کہ معاشرے کے حقوق کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے تو آنے والی نسل سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی پروا کرے گی، خواہ وہ اس کے والدین ہی کیوں نہ ہوں؟

کسی بھی نسل کا کوئی بگاڑ اس میں اچانک پیدانہیں ہوا کرتا، برائی ہو یا بھلائی، دونوں ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت میں ملا کرتی ہیں، یہ تو ہو سکتا ہے کہ آنے والی نسل ہم سے دو چار قدم آگے نکل جائے، لیکن یہ بات طے ہے کہ جس خرابی کے برے نتائج آج ہم بھگت رہے ہوتے ہیں، اس کی ابتدا پہلے ہی کبھی ہو چکی ہوتی ہے، لیکن اس وقت جب برائی کی ابتدا تھی تو اس کے برے نتائج کا یا تو ہمیں پوری طرح احساس وشعور ہی نہیں تھا یا پھر ہم نے اس کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی تھی اور اگر اصلاح کی کوئی کوشش ہوئی بھی تھی تو وہ اس قدر کمزور تھی کہ اس برائی پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی، اس بگاڑ سے جڑا ایک اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ والدین کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے ، یہ حق اسی مالک کائنات نے دیا ہے جو ہم سب کا رب ہے ۔ فرمان نبوی اس بات پر گواہ ہے کہ ہر بچہ نیک فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے، یہ ہم انسان ہی ہوتے ہیں جو اسے خدا کا کافر اور نافرمان بھی بناتے ہیں اور مومن مسلم اور مطیع فرمان بھی۔ کسی بچے کی پرورش اگر جانوروں کی طرح کی جائے گی تو جانوروں کی صفات ہی اس میں پیدا ہوں گی، جو شہوت اور پیٹ سے آگے سوچ ہی نہیں پاتے، اولاد کی تربیت اگر اس طرح کی جائے کہ وہ خدا کا شکر کرنے والی بن جائے تو ایسی اولاد سے ضرور توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ تمام انسانوں کے حقوق کی قدر کرنے والی ہو گی ، اگر ہم خود ہی اپنے مالک وآقا کے شکر گزار نہیں ہیں تو پھر اس بات کی ضمانت بھی کوئی نہیں دے سکتا کہ ہمار ی اپنی اولاد بھی ہمارے حقوق کا احترام کرنے والی ہو گی۔

Flag Counter