Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

11 - 17
سیرت رسول صلى الله عليه وسلم میں سادگی

مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
	
آج ہر طرف سامانِ دنیا کی ریل پیل ہے، ہر کوئی عیش کوشی کا متمنی، ہر ایک دنیوی زندگی سے زیادہ سے زیادہ استفادے کا خواہاں، ہر شخص سامانِ عیش وعشرت کا طلب گار، ہر کوئی دنیاوی آسائش میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کاخواہاں، امیر ہو کہ غریب، ہر کوئی اسی فکر میں مست ومگن ہے کہ کیسے اسباب دنیا وسیع ہوں؟ نیز کیسے اس کی زندگی مادی وسائل کے اعتبار سے معیاری و مثالی بنے؟ بس اسی فکرِ دنیا میں عمر عزیز کٹ رہی ہے اور دن بہ دن دوسری دنیا کے قریب ہورہے ہیں، حالاں کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسباب عیش وعشرت اختیار کرنے میں اپنے آقا سرورِدوعالم صلی الله علیہ وسلم کے طرزِ عمل کو جانیں اور اسوہٴ نبی صلی الله علیہ وسلم کو اپنانے کی کوشش کریں کہ کیسے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسباب ووسائل کی وسعت پر قادر ہوتے ہوئے، دنیوی عیش سے اعراض کیا، بقدر زیست دنیا استعمال کر کے اہل دنیا کے لیے انمٹ نقوش ثبت کر گئے، جن میں اہل دنیاکے لیے راہِ عمل ہے کہ جسے اپنا کر ایک مسلمان اپنی اخروی زندگی سدھار سکتا ہے، بجائے اس کے کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی زاہدانہ زندگی کے ان اہم واقعات کو اپنی زندگی کے لیے عملی نمونہ بناتے اور اعمال کی انجام دہی میں یہ واقعات ہمارے لیے مہمیز کا کام دیتے، ہم نے انہیں قصہ کہانی کے طور پر استعمال کیا ،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان واقعات کو عملی تحریک کا ذریعہ بنائیں، جب زندگی حالات سے دوچار ہو تو ان واقعات کے استحضار سے اپنے قلب ودماغ کو صبر وشکر کا عادی بنائیں۔ ویسے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی کل زندگی ہی روشن ابواب پر مشتمل ہے، انہیں میں ایک اہم اور روشن باب آپ صلی الله علیہ وسلم کی زہدانہ زندگی کا ہے، ایک تو یہ کہ انسان زاہد انہ زندگی کا اضطراراً شکار ہوجائے، جو زہد اضطراری ہو اس میں زبان شکایات سے لبریز ہوتی ہے، ہر دم شکوے، شکایات اور اپنی قسمت کو کوسا جاتا ہے، لیکن زہد اختیاری، جس میں اعتدال پنہاں ہو، جو در حقیقت مُسرفانہ زندگی سے بے زار ی کا اظہار ہو، اس میں قلب وزبان صبر وشکر کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، ان مواقع پر انسانی زبان توکل سے مزین ہوتی ہے، الغرض آپ صلی الله علیہ وسلم کا زہد اختیاری تھا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا بچھونا
جب انسانی جسم راحت کا عادی ہوجائے تو اسے آزمائشی وامتحانی ادوار سے گذارنا بڑا شاق ہوتا ہے، تکلیف ومشقتیں جھیلنا بڑا گراں گذرتا ہے، جس کی بنا پر مصائب میں الجھ کر مسکرانا اس کے لیے دشوار ہوتا ہے، راحت جسمانی کے لیے ایک بچھونا وبستر بھی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بچھونے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت ابن مسعود بیان فرماتے ہیں، ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسی چٹائی پر آرام کیا جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے جسم مبارک پر کچھ نشانات آگئے، ابن مسعود سے رہا نہ گیا اور کہا کہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم اجازت دیں تو میں نرم چٹائی بچھادوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے دنیا کی کیا ضرورت ؟ میری اور دنیا کی مثال اس مسافر کی طرح ہے جو گرماں کے زمانے میں سفر کررہا ہو اور تھوڑی دیر کیلیے درخت کے سائے میں آرام کیا اور چل دیا، اسی طرح کے الفاظ آپ صلی الله علیہ وسلم سے اس وقت بھی مروی ہیں جب حضرت عائشہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے نرم بستر بچھادیا تھا۔ (مشکوٰة: 442) (الوفاء باحوال المصفطی2/475 بیروت)

اسی کو مولانا مناظر حسین گیلانی  نے بڑے عمدہ انداز میں یوں بیان فرمایا کہ خاک کے فرش کے سوا ،جس کے پاس کوئی فرش نہ تھا، وہ اگر خاک پے سویا تو کیا خاک سویا؟ جو تخت پر سوسکتا تھا وہ مٹی پر سویا تو اسی کا سونا ایسا خالص سونا ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں۔(النبی الخاتم:52)

نیز آپ صلی الله علیہ وسلم کے بستر کی کیفیت حضرت عائشہ کچھ یوں بیان فرماتی ہیں: إنما کان فراش رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الذي ینام علیہ من أدم حشوہ لیف․

آپ صلی الله علیہ وسلم کے آرام کا بستر گویا چمڑے کا ہوا کرتا، جس میں کھجور کے پتے کوٹ کوٹ کر بھردیے جاتے۔

لباس میں سادگی
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو قمیص کپڑوں میں زیادہ پسند تھی۔ (الوفاء2/563)

حضرت عائشہ نے ابو بردہ کو ایک موٹا سا جبہ اور ایک موٹا سا ازار نکال کر بتایا اور اس بات کی نشاندہی کردی کہ یہی وہ دونوں کپڑے ہیں جن میں آپ صلی الله علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرماگئے۔ (الوفاء باحوال المصطفی2/565)

تکلفات وتصنعات سے احتراز کی بنیاد پر آپ صلی الله علیہ وسلم عمدہ سے عمدہ لباس سے گریزاں تھے، ایک صحابی نے ایک عمدہ لباس عطا کیا، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور نماز کے بعد فوراً اس لباس کو اتار دیا اوراس لباس کو لوٹا دیا، دوسرا سادہ لباس زیب تن کیا اور فرمایا: اسے لے جاوٴ، اس کی بنا پر میری نماز میں خلل واقع ہوا۔(الوفاء: 564)

طعام میں سادگی
ظاہری طور پر جسمِ انسانی کی بقا کا ذریعہ غذا ہے، لیکن وہی غذا انسان کے لیے کار آمد ومفید ہے، جو احکامِ الٰہی پر قائم رکھنے کا سبب بنے اور نواہی سے اجتناب کا ذریعہ ہو، اس لیے کہ مقصو د اصلی اطاعت وبندگی ہے، جب مقصود اصلی سے صرفِ نظر کر کے غذا کے لیے دوڑدھوپ ہوگی تو ظاہر ہے اس میں حرمت وحلت کے پہلو کو بھی نظر انداز کیا جائیگا، یہ غذا انسان کے لیے مفید کے بجائے مضر ہوگی، جس میں سادگی کے بجائے تنوعات وتصنعات تکلفات شامل ہوں گی، جس میں فضول خرچی واسراف کی بہتات ہوگی، آپ صلی الله علیہ وسلم طعام کے سلسلہ میں انتہائی محتاط رویہ اپناتے، اورطعام بھی تکلفات سے عاری ہوتا، حضرت ابن عباس آپ صلی الله علیہ وسلم کے طعام کی کیفیت کا کچھ یوں تذکرہ فرماتے ہیں: عموماً جو کی روٹی اور سرکہ استعمال کرتے(الوفاء باحوال المصفطی 2/598)اورآپ صلی الله علیہ وسلم یہ دعا بھی فرماتے: اللہم اجعل رزق آل محمد قوتا․(مشکوٰة: 440)

اے اللہ آلِ محمد کے رزق کو بقدر زیست بنا نیز جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے پہاڑوں کو سونا بنانے کی پیش کش کی گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے رب! میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھر کھاوٴں تو ایک دن بھوکا رہوں، تاکہ جب کھاوٴں تو تیرا شکر کروں اور آپ کی مدح وثناء کروں، اور جب بھوکا رہوں تو آپ کی جانب گریہ وزاروی میں لگارہوں۔(مشکوة:442)

آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسی طرزِ عمل وتربیت کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام بھی اسی طرز عمل کو اپنانے کے لیے کوشاں رہتے، چناں چہ ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ کا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا، جس کے سامنے بھنی ہوئی مچھلی رکھی ہوئی تھی، آپ کو مدعو کیا گیا، آپ نے انکار کردیا اور فرمایا: آپ صلی الله علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماگئے، جو کی روٹی بھی پیٹ بھر نہ کھائی۔(مشکوٰة: 447)

حضرت عبد الرحمن بن عوف اغنیاءِ صحابہ میں ہیں، اس کے باوجود ایک دفعہ برتن میں روٹی اور گوشت لایا گیا، اس کو دیکھ کر رونے لگے، رونے کی وجہ دریافت کی گئی، تو فرمایا: آپ صلی الله علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماگئے، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھر والوں نے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی، ہمارے لیے اس موٴخر شدہ میں خیر نہیں(الوفاء2/481)

ایک دفعہ حضرت عمر تقریر کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ لوگوں نے دنیا سے کیا کیا نفع اٹھایا، مگر میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ ایک ایک دن گذر جاتا مگر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ردی کھجور بھی نہ ہوتی(الوفاء 2/480)

یہ وہ افراد تھے جو اپنے لیے اسبابِ ِرزق کی وسعت کو خیر تصور نہ کرتے، خود حضرت عمر  ایک وسیع وعریض اسلامی ریاست کے خلیفہ ہوتے ہوئے انتہائی سادگی پسند تھے اور دنیاوی تکلفات وتعیشات سے گریزاں تھے۔

رہن سہن میں سادگی
آپ صلی الله علیہ وسلم ،چاہے سفر میں ہوں یا حضر میں، ہر گز ایسی ہیئت کو پسند نہ فرماتے جس سے نمایاں ہوکر ظاہر ہوں، جب آپ صلی الله علیہ وسلم گھر میں ہوتے تو گھر کے کام کاج خود ہی کر لیا کرتے، اپنی بکری کا دودھ دوہتے، نیز دیگر امور میں ہاتھ بٹاتے، جب راستہ چلتے تو خود آگے اور دوسروں کے پیچھے چلنے کو نا پسندفر ماتے،بلکہ صحابہ کرام کو ساتھ ساتھ چلنے کی تلقین فرماتے، اسی طرز عمل کی بنا پر بعض دفعہ نوواردین آپ صلی الله علیہ وسلم کی پہچان میں شک وشبہ میں پڑ جاتے، چناں چہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ پہونچے تو اسی طرح کا واقعہ پیش آیا، الغرض آپ صلی الله علیہ وسلم کی کل زندگی سادگی سے عبارت تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہر ہر عمل سے سادگی ظاہر ہوتی تھی، ایک مومن ہونے کے ناطے ہمیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی سادگی پر مر مٹنے کی حسرت ہونی چاہیے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے زہد وسادگی کے بے شمار واقعات کتب حدیث وسیر میں مذکور ہیں۔ یہ تو سیرت نبویہ صلی الله علیہ وسلم کی چند جھلکیاں ہیں،آپ صلی الله علیہ وسلم کی مکمل زندگی ہی سادگی سے عبارت ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت مطہرہ کے ان تابناک درخشاں پہلووٴں کو اپنے لیے راہِ عمل کے طور پر متعین کریں، اپنی نجی وخانگی زندگی میں اسے اپنائیں، اس سے زندگی میں صالحیت آئے گی اور معاشرہ پر بھی صالح اثرات مرتب ہوں گے، نیز ہم اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ سیرت کے چند جلسوں اور چند تقاریر ومضامین سے سیرت کا مقصود حاصل ہوجائے گا، بلکہ اس کے لیے مستقل جدوجہد اور عملی مشق کی ضرورت ہے اور معمولات ِنبی صلی الله علیہ وسلم کو اپنانے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین!

Flag Counter