Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

1 - 17
ادب کا مزاج

مولانا عبید اللہ خالد
	
دین کا مزاج ” ادب“ ہے۔ اپنے سے بہتر لوگوں کا ادب ، اپنے سے زیادہ علم والوں کا ادب ، اپنے سے زیادہ اہل لوگوں کا ادب، اپنے سے زیادہ عاجز کا ادب، اپنے سے زیادہ متقی کا ادب۔ اس دنیا میں انسان اپنی گردن تان کر جینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فکر کی بنیاد پر آج زندگی کا ہر شعبہ چل رہا ہے ۔ چناں چہ دنیا کا مزاج ”تکبر“ بن گیا اور تکبر ”بے ادبی“ پیدا کرتا ہے۔

علما وصلحا نے اس نقطے پر اتفاق کیا ہے کہ کوئی بھی شعبہ اس وقت تک پنپ نہیں سکتا جب تک کہ اس میں ادب شامل نہ ہو اور یہ اصول دین اور دین داری کے علاوہ دنیاوی امور پر بھی صادق آتا ہے ۔ چناں چہ جو شخص جتنا زیادہ ادب کا خیال رکھے گا، اتنا ہی ترقی کرے گا۔

ایسے بہت سے واقعات عام شاہد ہیں کہ الله تعالیٰ نے ادب کرنے والے کو کہیں زیادہ نوازا ہے، بے ادبی برتنے والے سے ، اگرچہ وہ علم اورصلاحیت میں زائد ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے برخلاف بے ادبی برتنے والا ایک جانب اپنے سیکھنے اور آگے بڑھنے کے راستے کو بند کر دیتا ہے تو دوسری جانب اُسے معاشرے میں بھی اہمیت وعزت نہیں دی جاتی۔

ادب سرسرا دین ہے اور اس کا ماخذ وہ قرآنی حکم ہے جس کے تحت الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ادب واحترام کی تاکید فرمائی ہے کہ مسلمان اپنی آواز پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کی آواز سے پست رکھیں( سورة الحجرات)۔ چناں چہ اس مزاج کو دور نبوی میں صحابہ کرام نے جس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے استعمال کیا، اسی طرح اس کے بعد سلف صالحین نے اس سنت کو جاری رکھا۔

ادب کیا ہے ؟ اس کا اعلیٰ ترین درجہ تو یہ ہے کہ اپنے بزرگوں اور استادوں کے ہر حکم کو بلاچون وچرا تسلیم کرے جب کہ کم سے کم درجہ یہ ہے کہ کسی نادانستہ حرکت سے بھی ان کے قلب کو مکدر نہ کرے، کیوں کہ بعض اوقات انسان دانستہ نہ سہی، نادانستگی میں کچھ ایسا کر جاتا ہے ، جس سے دل دُکھ سکتا ہے اور طبیعت پر گرانی آجاتی ہے ۔

ادب کی روح خلوص ہے۔ گویا یہ تبھی کام کرتا ہے، جب یہ صرف اور صرف الله کے لیے ہو۔ ادب جو بہ ظاہر انسان سے تعلق رکھتا ہے، مگر اس کی اصل خدا کا حکم ہے، خدا جو تمام کائنات اور تمام مخلوقات کا خالق ومالک ہے، اس کا ادب یہ ہے کہ انسان اس کی بندگی اختیار کرکے اس کے احکام کو مانے، انہیں بجا لائے اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے ، ان سے ٹھہر جائے۔ اور اس کا اگلا درجہ یہ ہے کہ اپنے بزرگوں اور بڑوں کی باتوں پر توجہ دے، ان سے انحراف نہ کرے اور ان کی خدمت قولاً اور عملاً اور قلباً ہر لحاظ سے کرے۔

آج، اگر اس تناظرمیں دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے خاندانی، معاشی، کاروباری، دفتری اور سماجی مسائل کی جڑ ”ادب“ کا عدم وجود ہے۔ اپنے گھر، اپنے دفتر، اپنے سماج میں ادب کا چلن کر دیجیے، آپ کے بے شما مسائل خود حل ہو جائیں گے۔

Flag Counter