Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

16 - 17
اچھی اور عمدہ غذاؤں کا جواز، اسوہٴ حسنہ صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں

محترم مولانا محمد عاصم مخدوم
	
اچھی صحت کے لیے عمدہ غذاؤں کا ہونا ضروری ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کے دین کی خاطر فقر وفاقہ بھی کیا ہے، لیکن جب الله تعالیٰ نے اچھا کھلایاتو اچھا کھایا بھی ہے ۔ حضرت عائشہ  فرماتی ہیں:”کان النبی صلی الله علیہ وسلم یحب الحلواء والعسل“․ (بخاری ومسلم)

امام نووی  علمائے کرام کی رائے نقل فرماتے ہیں کہ حلواء سے مراد (کوئی خاص قسم کا حلوہ نہیں، بلکہ ) میٹھی چیز ہے ۔ شہد کا الگ سے ذکر اس کی اہمت کی وجہ سے ہے، اس حدیث میں ہر طرح کی لذیذ غذائیں اور پاکیزہ چیزیں کھانے کا جواز موجود ہے ۔ یہ چیز زہد ومراقبہ کے منافی نہیں ہے، خاص طور پر اگر وہ اتفاق سے مل جائے۔ ( شرح مسلم ج4، جز10، ص:77)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس ایک پیالہ کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں : ” لقد سقیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم بقدحی ہذا الشراب کلہ، العسل والنبیذ والماء“․ ( مسلم نسائی) میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اپنے اس پیالہ سے شہد ، نبیذ، پانی اور دودھ سب ہی مشروبات پلائے ہیں۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ اور اس طرح کی بعض دوسری عمدہ غذائیں استعمال فرمائی ہیں ۔ ان سے عمدہ غذاؤں کا جواز نکلتا ہے ۔ امام نووی فرماتے ہیں : علمائے کرام کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کھانے پینے میں تنوع اور وسعت اختیار کرنا جائز ہے ۔ سلف میں بعض نے اس کے خلاف رائے دی ہے ،لیکن اسے اس بات پر محمول کرنا چاہیے کہ کسی دینی مصلحت کے بغیر خوب کھانے پینے اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کا عادی ہو جانا مکروہ ہے ۔ ( شرح مسلم ج5، جز13، ص:227)

ابوالحسن علی بن المفصل المقدسی فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے متعلق کہیں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ نے کسی کھانے سے محض اس لیے اجتناب کیا ہو کہ وہ عمدہ اور نفیس ہے، بلکہ آپ حلوہ، شہید، ککڑی اور کھجور (جیسی لذیذچیزیں بھی ) کھاتے رہے ہیں ۔ البتہ آپ اس میں تکلف کو ناپسند فرماتے تھے، کیوں کہ اس سے آدمی آخرت کے اعلیٰ مقاصد سے ہٹ کر دنیا کی خواہشات میں لگ جاتا ہے ۔ علامہ قرطبی  اسے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں الله نے چاہا تو اس مسئلہ میں یہ صحیح نقطہ ٴ نظر ہے ۔ ( تفسیر قرطبی 4،ص :127)

امام ابن قیم کھانے کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اسوہ بیان کرتے ہیں کہ جو موجود ہوتا اسے رد نہیں فرماتے او رجو موجود نہ ہوتا تو بہ تکلف اسے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرتے تھے۔ پاک اور حلال چیزوں میں سے جو چیز بھی پیش کی جاتی تناول فرماتے، مگر یہ کہ طبیعت اسے قبول نہ کرے اور کراہت محسوس ہو، لیکن اسے حرام اور ممنوع نہ قرار دیتے۔ کبھی کسی کھانے میں عیب نہ نکالتے۔ جی چاہا، کھالیا اور جی نہ چاہا، چھوڑ دیا۔

جو غذائیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے استعمال فرمائیں، ان کے متعلق فرماتے ہیں : حلوہ اور شہد استعمال فرمایا۔ انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم پسند فرماتے تھے ۔ اونٹ، بھیڑ، بکری، مرغی اور حباری، جومرغابی جیسا ایک پرندہ ہے، کا گوشت او رخرگوش کا گوشت تناول فرمایا۔ مچھلی کھائی۔ علامہ ابن قیم  مزید فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حسب ذیل غذائی اشیا استعمال فرمائیں۔ کجھور اور چھوہارے، خالص او رپانی ملا ہوا دودھ ، شہد، پانی کے ساتھ شہد، نبید ، خزیرہ جو ودھ اور آٹے سے بنتا ہے ۔ ککڑی کھجور کے ساتھ، پینر، روٹی سے کھجور سرکے سے روٹی، ثرید، چربی گرم کرکے اس سے روٹی، کلیجی بھنی ہوئی، گوشت کے پارچے ، پکی ہوئی لوکی( کدو) اسے پسند فرماتے تھے، ہڈی والا گوشت ، ثرید گھی کے سات، دہی مکھن کے ساتھ کھجور اسے پسند فرماتے تھے۔ آپ کا اسوہ یہ تھا کہ جومیسر آتا، تناول فرماتے۔ میسر نہ ہوتا تو صبر فرماتے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھوک سے پیٹ پر پتھر بھی باندھے ہیں۔ کبھی مہینہ پر مہینہ گزر جاتا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھر کا چولہا نہ جلتا۔ (زادالمعاد، ج2 ص:118)

اسلام جسم کے تقاضوں کو نظر انداز نہیں کرتا کہ اس سے رہبانیت اور دنیا سے بے تعلقی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ وہ تعیش اور تنعم کا بھی مخالف ہے، اس لیے کہ تعیش پسند آدمی کسی مقصد کے لیے معمولی سی تکلیف برداشت کرنے کا بھی حوصلہ کھو بیٹھتا ہے۔ اسلام جو اعلیٰ مقاصد سامنے رکھتا ہے اس کے ساتھ تعیش کی زندگی میل نہیں کھاتی۔ وہ اس بات کو صحیح نہیں سمجھتا کہ آدمی تکلفات کا اس قدر عادی ہو جائے کہ مشکلات کو برداشت نہ کرسکے اور دشواریوں میں اس کے قدم لڑ کھِڑانے لگیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ اس حقیقت کی شہادت دیتی ہے کہ آپ کو حلوہ اور شہد مرغوب تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عمدہ غذائیں ا لله تعالیٰ کی نعمت ہیں۔ ان کا استعمال نہ تو تقوی کے منافی ہے اور نہ مادیت پرستی ہے، لیکن اس کے ساتھ جیسا کہ علامہ خطابی  اورابن قیم  نے کہا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اندر اس کی غیر معمولی خواہش اور طلب پائی جاتی تھی یا اس کی تیاری میں اہل تعیش وتنعم کی طرح اہتمام ہوتا تھا، بلکہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے میٹھی چیز پیش کی جاتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم اسے رغبت کے ساتھ مناسب مقدار میں تناول فرماتے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اسے پسند فرما رہے ہیں ۔ (فتح الباری ج9 ،ص :557)

اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں بچوں کی صحت، تربیت، شفقت، محبت اور علاج ومعالجہ کا ایک روشن باب موجود ہے ۔ اسلام ہمیں بچوں کی اچھی صحت اور غذا کی تلقین کرتا ہے۔

بد قسمتی سے پاکستان میں ہر سال پانچ سال تک کے ساڑھے ساتھ لاکھ بچے مختلف بیماریوں میں مبتلاہو کر موت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بہت سے دوسرے بچے ان بیماریوں سے معذور ہو جاتے ہیں، ان میں سے کافی تعداد میں بچوں کو آسان علاج، مناسب دیکھ بھال او روقت پر حفاظتی ٹیکے لگوا کر بچایا جاسکتا ہے۔ بچے کی عمر کے دوسرے سال کے دوران خسرہ کا دوسرا ٹیکہ بھی ضرور لگوائیں۔

عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً سات لاکھ بچے نمونیہ کا شکا رہو جاتے ہیں، جن میں سے 27 ہزار بچے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں، 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں 5.7 فی صد کی وجہ نمونیہ ہے۔

بچوں کو 9 خطرناک بیماریوں ( بچوں کی ٹی بی، پولیو، خناق، کالی کھانسی، تشنج، ہیپاٹائٹس بی، گردن توڑ بخار، نمونیہ اور خسرہ) سے بچانے کے لیے ٹیکوں کا کورس مکمل کروانا نہایت ضروری ہے۔

معمولی بیماریوں یعنی نزلہ، کھانسی، دست اور ہلکے بخار میں بچے کو مقررہ وقت پر حفاظتی ٹیکے لگوائے جاسکتے ہیں۔ حفاظتی ٹیکوں کا کورس بچوں کے لیے بالکل محفوظ ہے۔ کچھ بچوں کو ٹیکے کے بعد بخار ہو جاتا ہے، جو اس بات کی نشانی ہے کہ ویکسین کام کر رہی ہے، ایک دو روز میں بچہ ٹھیک ہو جائے گا۔

ملک بھر میں مراکز صحت، ہسپتالوں او رموبائل ٹیموں کے ذریعے حفاظتی ٹیکے مفت لگانے کا انتظام موجود ہے۔

Flag Counter