Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

9 - 18
بسنت اور پتنگ بازی

مولانامرغوب الرحمن سہارن پوری
	
ایک انسان جب خالق حقیقی کو اپنا معبود و مسجود مان لے گا تو پھر اس کی تمام ہدایات اور احکامات کو اپنے لیے حرزجان بنا لے گا، اس کے اوامر کی تعمیل ہی اس کے لیے باعث نجاح و فلاح ہوگی اور اس معبود حقیقی کے منہیات سے اجتناب ہی میں اس کا تشخص و امتیاز ہوگا اور سعادت و کامرانی کی معراج ہوگی، اوامر و نواہی کی تعمیل اگر ایک موحد کی زندگی سے نکل جائے تو بغیر روح کے جسم کی مانند ایک لاشہٴ بے گور و کفن رہ جائے گا۔

آج کے دور میں کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے، موسم بہار کی آمد تو نوید جانفزا لاتی ہے کہ سبزہ زاروں اور مرغزاروں کی شادابی و ہریالی، نت نئے شگوفوں اور کونپلوں کا وجود خالق اکبر جل مجدہ کی وحدانیت اور خالقیت کو اور آشکارا کرتی ہے، ایک موحد کے ایمان میں تازگی لاتی ہے، لیکن خرافات اور اغیار کی تہذیب ومعاشرت سے متاثر ہوکر خاص طور سے برصغیر کے مسلمان لایعنی افعال میں منہمک ہوجاتے ہیں اور اللہ ورسول کی ایذا رسانی کا باعث بنتے ہیں۔

اغیار کا ایک تہوار بسنت ہے ،جو خاص انہیں ایام میں منایا جاتا ہے ، پتنگ بازی اس تہوار کی خصوصی علامت ہے، مسلمانوں کی ایک جماعت اس پتنگ بازی میں زور و شور کے ساتھ شرکت کرتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں:
اس کے پیچھے کیا ذہن کا ر فرما ہے؟
غیرمسلم سکھ موٴرخ ڈاکٹر بی، ایس ، نجار (Dr. B.S. Nijjar) نے اپنی کتاب ”پنجاب آخری مغل دور میں“ (Punjab under the later Mughals) میں اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے ” حقیقت رائے باگھ مل پوری، سیالکوٹ کے کھتری کاپندرہ سالہ لڑکا تھا، جس کی شادی پٹالہ کے کشن سنگھ بھٹہ نامی سکھ کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی، حقیقت رائے کو مسلمانوں کے اسکول میں داخل کیا گیا تھا، جہاں ایک مسلمان ٹیچر نے ہندو دیوتاؤں کے بارے میں کچھ توہین آمیز باتیں کیں، حقیقت رائے نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اس نے بھی انتقاماً پیغمبر اسلام اور سیدہ فاطمة الزہراء کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے، اس جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لیے لاہور بھیجا گیا ، اس واقعہ سے پنجاب کی ساری غیر مسلم آبادی کو شدید دھچکا لگا، کچھ ہندو افسر زکریا خان، جو اس وقت گورنر لاہور تھا، کے پاس پہنچے، تاکہ حقیقت رائے کو معاف کردیا جائے، لیکن زکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پر نظر ثانی سے انکار کردیا۔ جس کے اجرا میں پہلے مجرم کو ایک ستون سے باندھ کر اسے کوڑوں کی سزا دی گئی، اس کے بعد اس کی گردن اڑادی گئی۔ یہ سال1734ء کا واقعہ ہے، جس پر پنجاب کی تمام غیر مسلم آبادی نوجہ کناں رہی، لیکن خالصہ کمیونٹی نے آخر کار اس کا انتقام مسلمانوں سے لیا اور سکھوں نے ان تمام لوگوں کو، جو اس واقعہ سے متعلق تھے، انتہائی بے دردی سے قتل کردیا، ڈاکٹر صاحب آگے چل کر ص:279 پر تحریر کرتے ہیں کہ ”پنجاب میں بسنت کا میلہ اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے“۔

کیا ہمار ے مسلمان بھائی ان حقائق و واقعات کے سامنے آنے کے بعد بھی گستاخ رسول اور گستاخ جگر گوشہ رسول کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کے شانہ بشانہ پتنگیں اڑا کر گناہ عظیم کے مرتکب ہوتے رہیں گے، ہماری بربادی و تباہی پہلے ہی کیا کم تھی؟ ہم نے غیر قوموں کی تہذیب و ثقافت اپنا کردینی و دنیاوی ہلاکت کو اپنا مقدر بنا لیا ہے، اب ہندو قوم تو بسنت پر پتنگ اڑانے کی بنیاد بھی بھول چکی، مگر مسلمان بسنت مناکر اسلام کی رسوائی کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔

بسنت غیر مہذب، بے دین، بد دین، لامذہب قوم کا شیوا ہے، ہمیں کب زیبا دیتا ہے کہ مردود و ملعون، بے ضمیر قوم کے طرز عمل کو اپنا مشغلہ بنائیں؟ ہمیں تو نعمت عظمی ”ہدایت نامہ انسانیت“ عطا ہوا، تاکہ ہدایت کے روشن چراغ سے دوسری قوم و ملل کے گھرانوں کو روشن کریں، نہ کہ اپنے گھروں کی ایمانی شمع کو گل کرکے ظلمت کدہٴ کفر بنالیں۔

ویسے بھی پتنگ بازی بہت سے مفاسد اور گناہوں کا ذریعہ ہے، مثلاً فضول خرچی، دوسروں کو اذیت پہنچانا، جان و مال کا تلف اور ضائع کرنا، ضیاع وقت ، آلہٴ علم (کاغذ) کی بے حرمتی، شیطانی کام، ناگفتنی باتوں کا استعمال، جماعت کا چھوٹنا اور بعض مرتبہ تو نماز بھی جاتی رہتی ہے ۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ نے اصلاح الرسوم میں پتنگ بازی کی جو خرابیاں اور مفسد ے بیان فرمائے ہیں وہ قدرے تغیر کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔

٭... پتنگ کے پیچھے دوڑنا: پتنگ کے پیچھے دوڑنے والے کا وہی حکم ہے جو کبوتر کے پیچھے دوڑنے والے کا ، جس کی مذمت کے لیے یہی کافی ہے کہ نبی کریم انے اس کے پیچھے دوڑنے والے کو شیطان قرار دیا ہے۔ (مسند احمد)

٭... دوسروں کی پتنگ لوٹنا: ہر شخص اس خواہش میں رہتا ہے کہ پتنگ کٹے بعد میں، میرے ہاتھ میں پہلے آجائے، حالاں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے، نہیں لوٹتا کوئی شخص اس طرح کہ لوگ اس کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہوں اور وہ پھر بھی مومن رہے۔ (بخاری، مسلم)

٭... دوسروں کی ڈورلوٹنا: اس میں پتنگ لوٹنے سے بھی زیادہ قباحت ہے، کیوں کہ پتنگ تو صرف ایک آدمی کے ہاتھ آتی ہے، جب کہ ڈور متعدد کے اور وہ سب لوگ گناہ گار ہوتے ہیں اور حدیث شریف کے مطابق اڑانے والے کو ان تمام لوگوں کے برابر گناہ ملے گا۔ (مسلم)

٭... دوسروں کو نقصان پہنچانا: ہر پتنگ اڑانے والا اس تگ و دو اور کوشش میں رہتا ہے کہ دوسرے کی پتنگ کاٹ دوں، جس سے اس کا نقصان اور تکلیف ہوتی ہے، شرعی رو سے یہ دونوں باتیں حرام ہیں۔ اس صورت میں دونوں گناہ گار ہوں گے۔ (احزاب:58)

٭... آپسی رنجش : جب کوئی کسی دوسرے کی پتنگ یا ڈور لوٹتا ہے تو آپس میں دشمنی اور بغض و عداوت پیدا ہوتی ہے اور شیطان یہی چاہتا ہے کہ آپس میں کڑواہٹ پیدا کردے، جس کی طرف قرآن مجید میں اشارہ موجود ہے۔ (مائدہ:91)

٭... نماز اور یاد الٰہی سے غفلت: جب آدمی پتنگ اڑاتا ہے تو نہ اس کو جماعت یاد رہتی ہے اور نہ نماز، ہر چیز سے بے پرواہ ٹکٹکی باندھے آسمان پر پتنگوں کو دیکھنا رہتا ہے اوریہی وہ بات ہے جو حق تعالیٰ شانہ نے قرآن کریم میں شراب اور جوئے کے حرام ہونے کی علت بیان کی ہے۔ (مائدہ:91)

٭... بے پردگی : بالعموم پتنگ چھتوں پر اڑائی جاتی ہے، جس سے اڑوس پڑوس کی بے پردگی اور بے حجابی ہوتی ہے اور ان کو تکلیف ہوتی ہے، یہ بھی حرام کام ہے۔ (نور:31-30)

٭... جانی نقصان: جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اکثر پتنگ بازی چھتوں پر ہوتی ہے، پتنگ باز پتنگ آسمان میں لگانے کی جستجو میں پیچھے کو ہٹتا رہتا ہے اور پیچھے کے حال سے بے خبردھڑام سے نیچے جاگرتا ہے۔ اسی طرح پتنگ اور ڈور لوٹنے کے چکر میں سڑکوں گلیوں میں ایکسڈینٹ ہونا عام مشاہدے کی بات ہے، جس کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں اور ماں سے زیادہ مشفق، مہربان، پالنہار رب العالمین فرماتا ہے ”اپنی جانوں کو خود ہلاک نہ کرو۔ “(نساء:29) مشفق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بے منڈیر چھت پر سونے سے بھی منع فرمایا ہے، ممکن ہے وہ چھت سے نیچے گرجائے یا اچانک اٹھ کر چلنے سے نیچے گر پڑے۔

٭... وقت کا ضائع کرنا: پتنگ اڑانے میں بے حساب وقت برباد ہوتا ہے اور لاحاصل ہوتا ہے، حالاں کہ قرآن حکیم اور احادیث شریفہ میں متعدد جگہ وقت کی قدر و قیمت پر متنبہ فرمایا گیا ہے اور اس کی حفاظت کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ (الشمس: 4-3، شعب الایمان، للبیہقی)

٭... مشابہت غیر: پتنگ بازی میں غیر قوموں کی نقالی اور ان کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے، مخالفین کے رسم و رواج پر عمل پیرا ہونا ہے، جب کہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے تاکیدی اور وعیدی انداز میں اس کی قباحت و شناعت کو یوں بیان فرمایا ہے” جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں ہوگا۔“ (ابوداود)

نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے امتیو! آپ صلى الله عليه وسلم کے نام لیواؤ! نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے متوالو! عشق رسول صلى الله عليه وسلم میں تن، من دہن کی بازی لگانے کا دعویٰ کرنے والو! کل روز قیامت آقائے مدنی حضرت محمد مصطفےٰ صلى الله عليه وسلم کو کیا منھ دکھاؤگے؟ شافع محشر حضرت محمد مصطفےٰ صلى الله عليه وسلم کی شفاعت کیسے نصیب ہوگی؟ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے کل حوض کوثر پر چہرہٴ مبارک پھیرلیا تو کیا ہوگا؟

ان بہت سارے مفاسد اور نقصانات کے ہوتے ہوئے خالص غیروں کی تہذیب اپناتے ہوئے ہمیں ذرا بھی خیال نہیں آتا، ہم خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی امت خیرا لامم ہیں، قرآن کریم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہمارا شیوہ بتایا ہے، ہمیں حالات و زمانے کی گم راہیاں اور خرابیاں ختم کرنی ہیں اور عظیم الشان کارنامے انجام دینے ہیں، جو خوش نودی الٰہی کا سبب ہیں۔

انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ عظیم کارنامے ہمیشہ انہی لوگوں نے انجام دے ہیں جو حالات کی رو پر بہنے کی بجائے ان کے مقابلے کے لیے اٹھے ہیں، زندگی پران مٹ نقوش انہوں نے نہیں چھوڑے جو مرغ بادنما کی طرح ہوا کے رخ پر مڑتے اور دوسروں کی نقالی کرتے رہے، بلکہ ان لوگوں نے چھوڑے جو ہوا کے رخ سے لڑے ہیں اور زندگی کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا، قابل تقلید وہ نہیں جو گرگٹ کی طرح صبح و شام رنگ بدلتا ہے، بلکہ وہ ہیں جو پوری انسانیت کی فلاح و اصلاح کا ذریعہ بنائے گئے، ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی ذلت اورکوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ خدا کا نائب، سنت نبوی کا مدعی اور دینی روایات کا امین ہونے کے باوجود اپنے ہی دین کو مسخ کرنا شروع کردیے، یہ بزدل اور کم نظر لوگوں کا طریقہ ہے، جنہیں ہوائیں خس وخاشاک کی طرح اڑائے پھرتی ہیں اور جن کی اپنی بنیاد نہیں کہ وہ اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکیں۔ مسلمان کا یہ شیوہ ہے کہ #
        زمانہ باتو نہ سازد
        تو با زمانہ ستیز

Flag Counter