Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

13 - 18
قبولیت توبہ کے شرائط اور احکام

ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

انسان خطا کا پتلا ہے، اس سے خطا سر زد ہو سکتی ہے، اس لیے ایک تو انسان کو الله تعالیٰ سے ہر وقت عافیت طلب کرنی چاہیے، جیسے انسان جسمانی بیماریوں سے حفاظت کی دعائیں اور تمام وہ اسباب اختیار کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ بیماریوں سے محفوظ رہے، اسی طرح اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ انسان ہر وقت روحانی بیماریوں (گناہوں) سے الله تعالیٰ سے عافیت طلب کرے۔

آپ صلی اصلى الله عليه وسلم نے الله تعالیٰ سے عافیت طلب کرنے کوبہترین دعا قرار فرمایا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” ما سئل الله شیئا أحب إلیہ من العافیہ․“(سنن الترمذي، ابواب الدعوات، باب من فتح لہ منکم باب الدعاء، رقم الحدیث:3548)

اور اگر انسان غفلت میں پڑ کر اس رحیم وکریم ذات کی نافرمانی کا مرتکب ہونے لگے، تو اوّل تو فوراً اپنی خطا پر نادم ہو کر اپنے رب سے معافی مانگے اور گناہ کے بار بار سرزد ہونے کی صورت میں توبہ نہ چھوڑے، بلکہ توبہ کرتا رہے اور ساتھ ساتھ الله تعالیٰ سے اس گناہ سے نجات کی دعا بھی کرتارہے۔

او رگناہ چھوڑنے میں انسان کو ذرا ہمت سے بھی کام لینا چاہیے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله کو ایک مرید نے خط لکھا کہ حضرت صبح کی نماز پڑھنے میں سستی ہو جاتی ہے او رقضا بھی ہو جاتی ہے ، دعا فرمائیں کہ الله تعالیٰ اس گناہ سے نجات عطا فرمائے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں الله تعالیٰ سے اپنے لیے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے پَردے دے، تاکہ ہر روز اڑ کر تمہیں نیند سے جگا دیا کروں، مطلب یہ کہ انسان کو گناہ چھوڑنے میں ہمت سے کام لینا چاہیے۔

قبولیت توبہ کی شرائط
انسان سے جب بھی گناہ سرزد ہو اور وہ اپنے دل میں اس گناہ پر نادم وشرمندہ ہو کر الله تعالیٰ سے معافی مانگ لے، تو الله تعالیٰ وہ گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”إن العبد اذا اعترف، ثم تاب تاب الله علیہ․“(مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب الاستغفارو التوبہ، رقم الحدیث:2330)

یعنی جب بندہ اپنے گناہ کا ندامت وشرمندگی کے ساتھ اعتراف کرتا ہے اور پھر توبہ کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ شریعت کی طرف سے توبہ کی قبولیت کے لیے کچھ شرائط بھی مقرر ہیں۔

قرآن کریم میں ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللَّہِ تَوْبَةً نَّصُوحاً﴾․ (التحریم:8)
اے ایمان والو! توبہ کرو الله کی طرف صاف دل کی توبہ۔

توبہ نصوح کیا ہے؟
حضرت حسن بصری  فرماتے ہیں کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ آدمی اپنے گزشتہ عمل پر نادم ہو، پھر اس کی طرف نہ لوٹنے کا پختہ ارادہ اور عزم رکھتاہو، یعنی جب توبہ کر رہا ہو تو ایسا نہ ہو کہ توبہ کرتے وقت دل میں اس گناہ کو چھوڑنے کا ارادہ نہ ہو۔ ( تفسیر روح المعانی، سورة التحریم:8،14/352، دارالکتب)

# حضرت علی رضی الله عنہ سے سوال کیا گیا کہ تو بہ کیا ہے ؟ تو فرمایا: ”یجمعھا ستة اشیاء، علی العاضی من الذنوب: الندم، وللفرائض الاعادة، ورد المظالم، واستحلال الخصوم، وأن تعزم علی أن لا تعود، وأن تزکی نفسک علی طاعة الله کما رأیتھا فی المعصیة․“ (تفسیر مظہری ،سورة التحریم:8،9/345، حافظ کتب خانہ)

توبہ وہ ہے جس میں چھے چیزیں جمع ہوں۔
1..اپنے گزشتہ برے عمل پر ندامت۔
2..جو فرائض، واجبات الله تعالیٰ کے چھوٹے ہیں، ان کی قضا۔
3..کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا، تو اس کی واپسی۔
4..کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا اور تکلیف پہنچائی تھی ، تو اس سے معافی۔
5..آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا پختہ عزم وارادہ ہو۔
6..اور یہ کہ جس طرح اس نے اپنے نفس کو الله تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے ،اب وہ اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے۔

چناں چہ اب ان چھ شرائط میں سے ہر ایک کی تفصیل بیان کی جاتی ہے ۔

پہلی شرط: چاہے حقوق الله میں کوتاہی کی، یا حقوق العباد میں، سب میں ا لله تعالیٰ سے ندامت کے ساتھ معافی مانگنا ضروری ہے۔

دوسری شرط: البتہ اگر حقوق الله میں فرائض، واجبات چھوڑے ہیں، تو اب توبہ کے ساتھ ساتھ ان کی قضا بھی ضروری ہے۔

نمازوں کی قضا پڑھنے کا طریقہ
اگر کسی نے نمازیں نہیں پڑھی ہیں او راب الله تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی ، تو توبہ کے بعد ان قضا نمازوں کو پڑھنا شروع کر دے، اگر نمازیں بہت زیادہ نہیں پڑھیں کہ ان کی تعداد یاد نہیں کہ کتنی نمازیں نہیں پڑھی ہیں تو اب ان کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً فجر کی قضا نماز پڑھنا چاہتا ہے، تو اس طرح نیت کرے کہ سب سے پہلے فجر کی نماز جو میرے ذمہ باقی ہے اس کو پڑھتا ہوں اسی طرح جب فجر کی دوسری، تیسری إلی آخرہ قضا نماز پڑھے گا، تب بھی یہی نیت کرے کہ سب سے پہلے فجرکی نماز جو میرے ذمہ باقی ہے، اس کو پڑھتا ہوں، اسی طرح دوسری نمازوں کی قضا بھی اسی طرح کرے گا۔ (المحیط البرہانی، کتاب الصلوٰة، الفصل العشرون فی قضاء الفائتة من المسائل المتفرقہ،۲/۹۹ المکتبة الغفاریہ)

اور اس وقت تک قضا نمازیں پڑھتا رہے، یہاں تک کہ اس کا دل گواہی دینے لگے کہ اب کوئی قضا نماز اس کے ذمہ باقی نہیں رہی۔ (حاشیة الطحاوی علی مراتی الفلاح، باب قضاء الفوائت، ص:447 ، قدیمی)

مسئلہ: جس کے ذمے قضا نمازیں باقی ہوں ، اس کے لیے افضل یہ ہے کہ کہ نفل پڑھنے کے بجائے قضا نمازیں پڑھے۔ (ردالمحتار، باب قضاء الفوائت:74/2، سعید)

مسئلہ: جس طرح پانچ فرض نمازوں کی قضا کرے گا، اسی طرح وترکی بھی قضا کرے گا۔ (رد المحتار، باب قضا الفوائت،73/2، سعید)

روزوں کی قضا کا طریقہ
اگر کسی نے زندگی بھر روزے نہیں رکھے، تو توبہ کرنے کے بعد ان روزوں کی قضا کرنا شروع کر دے، اگر ایک رمضان کے روزے قضا ہوئے، تو ان کو قضا رکھنے میں تعیین کی ضرورت نہیں۔

لیکن اگر کئی رمضان کے مہینوں کے روزے نہیں رکھے، تو اب ان کوقضا رکھنے کے وقت اس طرح نیت کرے، کہ پہلے رمضان کے روزے جو بھی مجھ پر فرض ہوئے او رمیں نے نہیں رکھے اس کے روزے رکھتا ہوں، اسی نیت سے ایک مہینے کے روزے رکھے، اس کے بعد دوسرے رمضان کے اسی طرح روزے رکھے، الی آخرہ۔ (حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب قضاء الفوائت، ص:446، قدیمی)

زکوٰة کی قضا کا طریقہ
اگر کسی کے ذمے زکوٰة واجب تھی، یعنی وہ صاحب نصاب تھا، اس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا مال تجارت ہو،جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی بنتی ہے، یا کچھ سونا او رکچھ مال تجارت یا چاندی ہے، اور ان سب کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی بنتی ہے، تواب یہ شخص صاحب نصاب ہے، اس کے ذمے زکوٰة واجب ہے۔

لیکن اگر کسی شخص نے کئی سالوں کی زکوٰة ادا نہیں کی تو اس کے ذمے زکوٰة باقی رہے گی لہٰذا جب الله تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی، تو اب گزشتہ جتنے سال زکوٰة ادا نہیں کی، ان کا حساب کرکے زکوٰة ادا کرے۔

او رحساب اس طرح ہے کہ مثلاً کسی نے پانچ سال زکوٰة ادا نہیں کی تو جو مال ہے اس کے پاس ، اس میں سے پہلے سال کی زکوٰة نکالے، پھر اگر زکوٰة نکالنے کے بعد بقیہ مال بقدر نصاب بچتا ہے ، تو اس میں سے دوسرے سال کی زکوٰة نکالے، اگر پہلے سال کی زکوٰة نکالنے کے بعد بقدر نصاب نہیں بچتا تو آئندہ سال کی زکوٰة واجب نہیں، لیکن اگر بقدر نصاب بچتا ہے، تو دوسرے سال کی زکوٰة اس بقیہ مال سے نکالے، اسی طرح سب سالوں کی زکوٰة دے۔ (الدرالمختار، کتاب الزکوٰة:263/2، سعید)

اور اگر گزشتہ سالوں میں مال کم زیادہ رہا ہے ، مثلاً پہلے سال اس کے پاس پانچ لاکھ روپے تھے اور دوسرے سال پانچ لاکھ کا اضافہ ہو گیا، دس لاکھ ہو گئے، تو اب جب یہ گزشتہ سال اور اس سال کی زکوٰة ادا کرے گا، تو گزشتہ سال کی زکوٰة پانچ لاکھ نکالے گا اور وہ زکوٰة نکالنے کے بعد اب جتنی رقم ہو گی اس سے اس سال کی زکوٰة نکالے گا۔

مسئلہ: جب یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب سے نصاب والا بنا ہے ، تو ایسا آدمی گمان غالب کے موافق گزشتہ سالوں کی زکوٰة اداکرے، یعنی گمان غالب سے سوچ لیا جاوے، یا قرائن سے اندازہ لگایا جاوے اور احتیاطاً کچھ زیادہ ہی مدت لگالی جاوے، مثلاً اڑھائی برس کا گمان ہو ، تو تین برس سمجھ کر تین برس کی زکوٰة دی جائے۔

اگر مرنے تک فرائض کی قضا نہیں کر سکا تو…؟
اگر کسی سے نمازیں رہ گئی ہوں تو ان کی قضا پڑھنا فرض ہے، جتنی نمازیں بھی ذمہ میں ہوں سب کی قضا جلد از جلد پڑھے، ہر گز غفلت نہ کرے۔ (ردالمحتار، باب قضاء الفوائت، 66/2، سعید)

پوری کوشش کے باوجود اگر کچھ نمازیں ذمہ میں باقی رہ جائیں تو ان کے متعلق فدیہ کی وصیت کر دے، ہر نماز کے عوض ایک صدقة الفطر کے برابر دینا لازم ہے اور یہ وصیت ایک تہائی ترکہ سے لازم ہو گی۔ (الفتاوی العالم گیریہ، الباب الحادی عشر فی قضاء الفوائت:125/1، رشیدیہ)

اور وتر مستقل نماز کے حکم میں سے ہے، یعنی وتر کا بھی فدیہ دیا جائے گا۔ (التنویر مع الدر، باب قضاء الفوائت:72/2)

مسئلہ: اگر اس نے وصیت نہیں کی، تو ورثہ کے ذمے اس کا کفارہ ادا کرنا واجب نہیں، تاہم اگر بالغ ورثہ اپنے مال سے، خواہ وہ مال ان کو اسی میت سے بصورت ترکہ ملا ہو، فدیہ ادا کرنا چاہیں تو اسی طریقے پر کر سکتے ہیں یعنی ہر نماز کے عوض ایک صدقة الفطر کی مقدار فقیر کو دے دیں اور یہ بھی جائز ہے کہ ایک فقیر کو چند نمازوں کا فدیہ دے دیں، ایک دن میں دیں یا چند ایام میں، ایک شخص کو دیں یا متعدد کو، ہر طرح درست ہے۔ (التنویر مع الدر، باب قضاء الفوائت:72/2 سعید)

مسئلہ: اسی طرح جس شخص میں بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں ، اگر روزہ رکھے تو مرض کے زیادہ ہونے کا خوف ہو ، تو اس کے لیے شرعاً اجازت ہے کہ رمضان شریف میں روزے نہ رکھے، بلکہ صحت یاب ہو کر قضا کرے۔ ( الفتاوی العالم گیریہ،کتاب الصوم، الباب الخامس فی الأ عذار التی تبیح الافطار، 207/1 رشیدیہ)

مسئلہ: اگر ایسا شخص حالت مرض میں ہی مر گیا، صحت یاب نہیں ہوا، تو اس پر قضا یا فدیہ کچھ واجب نہیں۔ (التنویر مع الدر، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحہ لعدم الصوم،423/2 سعید)

لیکن اگر یہ شخص صحت یاب ہو گیا اور روزں کی قضا نہیں کی اور مر گیا، تو مرتے وقت اس پر وصیت واجب ہے او راس کے تہائی ترکہ میں سے ہر روزہ کے عوض ایک صدقة الفطر کی مقدار غلہ یا قیمت فقیر کو دے دیں۔ (رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبحیة لعدم الصوم:424/2)

اگر وصیت نہیں کی اور ورثہ کے ذمے کچھ واجب نہیں، البتہ خود اپنے مال سے اس کی طرف سے ادا کرنا چاہیں ، تو کر سکتے ہیں، ان پر واجب نہیں۔ ( بدائع الصنائع، کتاب الصوم، بیان شرائط وجوبہ،263/2، رشیدیہ)

مسئلہ: اگر کسی کے ذمے حج فرض ہو چکا تھا اور ادا نہیں کیا تو اس کے ذمے فرض باقی رہ گیا اور نہ کرنے سے گناہ گار ہوا۔

اس لیے مرنے سے پہلے جب وہ خود حج کرنے پر قادر نہیں، اس کے ذمہ واجب ہے کہ اپنی طرف سے حج کرانے کی وصیت کرے، پس اگر وصیت کی ہے تو حسب وصیت اس کی طرف سے حج کرانا فرض ہے۔ (بدائع الصنائع، فصل وأما بیان حکم فوات الحج عن العمر:292/3 دارالکتب)

 لیکن اس کے ترکہ میں سے ایک ثلث مال سے اس کی وصیت کا پورا کرنا فرض ہے، اگر ایک ثلث میں حج ہو سکتا ہے تب تو خیر، ورنہ اگر ورثاء بالغ ہوں اور وہ اجازت دیں، تب بھی حج کرادیا جائے۔

اگر ایک ثلث میں حج نہ ہو سکتا ہو اور ورثا نابالغ ہوں، یا ورثاء بالغ ہوں ، اگر ایک ثلث سے زائدخرچ کرنے کی اجازت نہ دیں تو جس جگہ سے ثلث میں سے حج ادا ہو سکے ، حج کرانا کافی ہو گا ۔ (ردالمحتار، مطلب شروط الحج عن الغیر عشرون، 600/2، سعید)

اگر وصیت نہیں کی، تو ورثہ کے ذمے حج کرانا ضروری اور فرض نہیں، تاہم اگر بالغ ورثہ اپنے روپیہ سے ( خواہ وہ روپیہ مرحوم کے ترکہ ہی سے ملا ہو ) حج کرادیں، تو مرحوم کو ثواب پہنچ جائے گا۔ (الفتاوی التارتاخانیہ، کتاب المناسک، الوصیة بالحج، 564/2 ادارة القرآن)

مسئلہ: او رحج بدل ایسے شخص سے کرایا جائے جس نے خود پہلے حج کیا ہو، ایسے شخص سے حج بدل کرانا جس نے خود اپنا حج نہ کیا ہو ، مکروہ ہے۔ (البحرالرائق، باب الحج عن الغیر، 123/3، رشیدیہ)

تیسری شرط اگر کسی کا مال وغیر ظلماً لیا تھا، تو اس کی واپسی
شریعت مطہرہ میں حقوق العباد کی بہت اہمیت ہے یہاں تک کہ حقوق الله تو توبہ سے معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد میں جب تک صاحب حق معاف نہیں کرے گا، توبہ قبول نہیں اور عبادات میں انسان چاہے کتنی ترقی کرلے، اگر حقوق العباد میں کوتاہی ہے، تو اس سے انسان کی پکڑ ہو سکتی ہے ۔

چناں چہ حدیث شریف میں ہے :”الدواوین ثلاثة: فدیوان لا یغفرالله منہ شیئا، ودیوان لا یعباالله بہ شیئا، ودیوان لا یترک الله منہ شیئا، فأما الدیوان الذی لا یغفر الله منہ شیأ فالاشراک بالله عزوجل، قال الله عزوجل:﴿إن الله لا یغفر أن یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء﴾ وأما الدیوان الذی لا یعبأالله بہ شیأقط، فظلم العبد نفسہ فیما بینہ وبین ربہ، وأما الدیوان الذی لا یترک الله منہ شیئاً فمظالم العباد، بینھم القصاص لا محالة․“(المستدرک للحاکم، کتاب الأھوال، رقم الحدیث:8717،4/619)

اعمال نامے تین قسم کے ہیں، ایک اعمال نامہ وہ ہو گا کہ جس سے الله تعالیٰ کچھ معاف نہیں کریں گے اور ایک اعمال نامہ وہ وہ گا جس کی الله تعالیٰ کچھ پروا نہیں کریں گے او رایک اعمال نامہ وہ ہو گا، جس سے کچھ نہیں چھوڑا جائے گا۔

وہ اعمال نامہ جس سے الله تعالیٰ کچھ معاف نہیں کریں گے ، وہ ہے الله تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، چناں چہ شرک کو الله تعالیٰ معاف نہیں کریں گے۔ اور وہ اعمال نامہ جس کی الله تعالیٰ پروا نہیں کریں گے وہ ہے بندے کا حقوق الله میں کوتاہی کرنا، چناں چہ الله تعالیٰ جس کو چاہیں گے معاف کر دیں گے اور جس کو چاہیں گے گرفت کریں گے اور وہ اعمال نامہ جس سے کچھ نہیں چھوڑیں گے وہ ہے بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، زیادتی کرنا، چناں چہ اس کے متعلق ضروری باز پرس ہو گی، یہاں تک کہ اصحاب حقوق، جن کا حق کھایا تھا، یا جن پر زیادتی کی تھی، ان سے معاف نہ کرالیا جائے ۔

غریب آدمی
دنیا میں انسان اپنے او راپنے بال بچوں کے لیے دن رات محنت مزدوری کرکے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرتارہتا ہے، تاکہ مستقبل میں ضرورت کے وقت کام آئیں، لیکن اس میں عقل مند انسان وہ ہوتا ہے جو پیسے جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت کا بھی بندوبست کرے، تاکہ کوئی چورا چکا چوری کرکے نہ لے جائے۔ اور جو پیسے جمع کرتا رہا ، لیکن حفاظت کا انتظام نہیں کیا تو ایک دن کوئی چور اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی اٹھا کر لے جائے گا اور وہ خالی ہاتھ رہ جائے گا۔

اسی طرح آخرت کے معاملے میں جس طرح ایک نیک بخت مسلمان مختلف فرض، نفلی عبادات کرکے نیکیاں جمع کرتا رہتا ہے، اسی طرح ان نیکیوں کی حفاظت بھی بہت ضروری ہے۔

اس لیے کہ کہیں خوانخواستہ ایسا نہ ہو کہ پوری زندگی خوب عبادت کرکے نیکیاں جمع کیں، لیکن ساتھ ساتھ ان افعال سے نہیں بچے جن کے کرنے سے ہماری نیکیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، تو آخرت میں ہماری نیکیاں دوسرے لے جائیں گے اور ہم خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ اور دنیا کے نقصان کی تلافی تو ممکن ہے، لیکن آخرت کا نقصان ایسا نقصان ہے کہ جس کی تلافی کی کوئی صورت نہ ہو گی ۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے پوچھا:” اتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فینا من لا درھم لہ ولا متاع، فقال:إن المفلس من امتی من یاتی یوم القیٰمة بصلاة وصیام وزکوٰة، ویاتی قد شتم ھذا، وقذف ھذا، وأکل مال ھذا وسفک دم ھذا، وضرب ھذا، فیعطی ھذا من حسناتہ، وھذا من حسناتہ، فإن فنیت حسناتہ قبل أن یقضی ما علیہ أخذ من خطایاھم فطرحت علیہ، ثم طرح فی النار․“ (الجامع الصحیح للمسلم، کتاب البر والصلة، باب تحریم الظلم، 320/2، قدیمی)

بتلاؤ مفلس کون ہے ؟ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا، یا رسول الله! ہم لوگ تو اس شخص کو مفلس سمجھتے ہیں جس کے پاس مال پیسہ نہ ہو ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حقیقی مفلس وہ نہیں، بلکہ حقیقی مفلس غریب وہ ہے جو الله تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن جب حاضر ہو گا تو اس طرح حاضر ہو گا، کہ اس کے اعمال نامے میں بہت سارے روزے ہوں گے، بہت سی نمازیں، صدقات خیرات ہوں گے، لیکن ایسے شخص نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی ، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا۔

چناں چہ اب اصحاب حقوق اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے تو الله تعالیٰ اس حق کے بدلے اس شخص کی نیکیاں ان کو دے دیں گے ، پس اگر اس شخص کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور دنیا کے اندر جن کا حق کھایا تھا، یا ان پر زیادتی کی تھی، وہ ابھی تک باقی ہیں، تو اب الله تعالیٰ حکم فرمائیں گے کہ صاحب حق کے اعمال میں جو گناہ ہیں وہ اس شخص کے نامہ اعمال میں ڈال دیے جائے، چناں چہ اصحاب حقوق کے گناہ اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے اور یہ شخص جو نیکیوں کا انبار لے کر آیا تھا، خالی ہاتھ رہ جائے گیا اور دوسروں کے گناہ اپنے اوپر لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

شہید سے بھی بندوں کے حقوق معاف نہیں ہوں گے
حقوق العباد کی اہمیت اس بات سے اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جو آدمی الله کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہو جائے، اس کا الله تعالیٰ کے ہاں کتنا مرتبہ اور مقام ہے ، لیکن شہید کے ذمے بھی اگر بندوں کے حقوق ہیں ، تو وہ معاف نہ ہوں گے۔ ( شرح النووی علی الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الامارة، باب من قتل فی سبیل الله کفرت خطایاہ إلا الدین، 135/2، قدیمی)

الاّیہ کہ الله تبارک وتعالیٰ خوش ہو کر، اپنے خزانہ سے عطا فرما کر، صاحب حق کو خوش کر دیں اور وہ شخص جس کے ذمے حق ہے، عذاب سے بچ جائے۔ (مرقاة الفاتیح، کتاب الأدب، باب الظلم، الفصل الثالث، 858/8 رشیدیہ)

دنیا میں ہی دوسروں کے حقوق کی معافی کرالینی چاہیے
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”رحم الله کانت لأخیہ عندہ مَظْلمہ في عرض أو مال، فجاء ہ فاستحلہ قبل أن یؤخذ، ولیس ثَمَّ دینار ولا درھم، فإن کانت لہ حسنات، أخذ من حسناتہ، وإن لہ تکن لہ حسنات حملوا علیہ من سیّٰاتھم․“(سنن الترمذی، ابواب صفة القیامة، والرقائق والورع، باب ماجاء فی شان الحساب والقصاص، رقم الحدیث:2419)

الله تعالیٰ مہربانی فرمائیں اس بندے پر ، جس کے بھائی کے لیے اس کے پاس کوئی جرم ہے ، آبرو میں یا مال میں ( یعنی کسی نے دوسرے پر زیادتی کی، یا دوسرے کا مال لیا) پس وہ اس کے پاس جائے اور اس سے معاف کر والے، اس سے پہلے کہ وہ پکڑا جائے اور وہاں نہ کوئی دینار ہو گا نہ کوئی درہم، پھر اگر اس کے لیے نیکیاں ہوں، تو اس کی نیکیوں میں سے لیا جائے اوراگر اس کے لیے نیکیاں نہ ہوں، تو اس پر ان لوگوں کے گناہوں میں سے ڈالا جائے۔

ایک قلم لوٹانے کے لیے سینکڑوں میل کا سفر
حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله نے ایک بار شام میں کسی شخص سے قلم مستعار لیا، اتفاق سے قلم اس شخص کو واپس کرنا بھول گئے، جب ”مرو“ پہنچے تو قلم پر نظر پڑی، ”مرو“ سے شام پھر واپس گئے اور قلم صاحب قلم کو واپس کیا۔

”مرو“ شام سے سینکڑوں میل دور ہے اور پھر یہ واقعہ اس زمانہ کا ہے، جب سفر کے ذرائع صرف گھوڑے، اونٹ اور خچر ہوتے تھے۔(جاری)

Flag Counter