روضئہ رسولِ صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت
حیرت انگیز واقعہ
مولانا محمد اقبال شاکر
سلطان نورالدین زنگی رحمہ اللہ ایک عبادت گزار،شب بیداربادشاہ تھا، ایک عظیم الشان سلطنت کافرماں رواہونے کے باوجودایسامردِدرویش تھاجس کی راتیں مصلیٰ پرگزرتی تھیں اوردن میدان جہادمیں۔مصرکے اس مجاہد،دین داربادشاہ کی حکومت حرمین شریفین تک تھی اوریہ ساراعلاقہ اس کے زیرنگیں تھا۔وہ عظمت وکردارکاایک عظیم پیکرتھا،جس نے اپنی نوک شمشیرسے تاریخ اسلام کاایک روشن باب لکھا۔سلطان نورالدین زنگی رات کابیشترحصہ عبادت ومناجات میں گزارتاتھا۔اس کامعمول تھاکہ نمازعشاکے بعدبکثرت نوافل پڑھتااورپھررسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پرسینکڑوں مرتبہ درودشریف بھیج کرتھوڑی دیرکے لیے بسترپرلیٹ جاتاتھا۔چندساعتوں کے بعد پھر نماز تہجد کے لیے اٹھ کھڑاہوتاتھااورصبح تک نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ عبادت میں مشغول رہتا۔
خواب میں زیارت رسول صلی الله علیہ وسلم
557ھ،1162ء کی ایک شب وہ اورادوفضائل سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹا تو خواب میں کتنی بارحضورانورصلی الله علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا۔بعض روایتوں میں ہے کہ سلطان نے متواترتین رات حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کوخواب میں دیکھا۔ہرمرتبہ دوآدمیوں(انسانی شیطانوں)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرورکونین صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:نورالدین!یہ دوآدمی مجھے ستارہے ہیں۔ان کے شرکااستحصال کرو۔نورالدین یہ خواب دیکھ کرسخت مضطرب ہوا، باربار استغفار پڑھتا اورروروکرکہتا۔”میرے آقاومولاکومیرے جیتے جی کوئی ستائے! یہ نہیں ہوسکتا۔میری جان،مال،آل واولادسب آقائے مدنی صلی الله علیہ وسلم پر نثار ہے۔ خدااس دن کے لیے نورالدین کوزندہ نہ رکھے کہ حضورصلی الله علیہ وسلم غلام کو یاد فرمائیں اوروہ دمشق میںآ رام سے بیٹھارہے۔“
سلطان کی بے چینی
نورالدین زیارت رسول اللہصلی الله علیہ وسلم اور ارشادرسول کے بعدبے چین ہوگیا اور اسے یقین ہوگیاکہ مدینہ طیبہ میں ضرور کوئی ایساناشدنی واقعہ ہواہے،جس سے رحمت دارین صلی الله علیہ وسلم کی روح اقدس کوتکلیف پہنچی ہے۔خواب سے بیدارہوتے ہی اس نے بیس اعیانِ حکومت کو ساتھ لیااوربہت ساخزانہ گھوڑوں پرلدواکرمدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ دمشق کے لوگ سلطان کے یکایک عازمِ سفرہونے سے بہت حیران ہوئے، لیکن کسی کومعلوم نہ تھاکہ اصل بات کیا ہے؟
اہل مدینہ کی دعوت
دمشق سے مدینہ منورہ پہنچنے میں عام طورپربیس دن لگتے تھے، لیکن سلطان نے یہ فاصلہ نہایت تیزرفتاری کے ساتھ طے کیااورسولہویں دن ہی مدینہ طیبہ جاپہنچا۔اہل مدینہ اس کی اچانک آمدپرحیران رہ گئے۔سلطان نے آتے ہی شہرمیںآ نے جانے کے دروازے بند کرا دیے۔ پھرمنادی کرادی کہ آج تمام اہل مدینہ اس کے ساتھ کھاناکھائیں،تمام اہل مدینہ نے نہایت خوش دلی سے سلطان کی دعوت قبول کی۔اس طرح مدینہ منورہ کے تمام لوگ سلطان کی نظرسے گزرگئے،لیکن ان میں وہ دوآدمی نہ تھے ،جن کی شکلیں اسے سچے خواب کے ذریعے دکھائی گئی تھیں۔
بزرگ صورت شیطان
سلطان نے اکابرشہرسے پوچھاکہ کوئی ایساشخص توباقی نہیں رہا جو کسی وجہ سے دعوت میں شریک نہ ہوسکاہو؟انہوں نے کہاکوئی ایساتونہ رہا،البتہ دوخداررسیدہ مغربی زائر،جومدت سے یہاں مقیم ہیں،نہیںآ ئے۔یہ دونوں بزرگ عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ اگرکچھ وقت بچتاہے توجنت البقیع میں لوگوں کوپانی پلاتے ہیں،سوائے اس کے کسی سے ملتے ملاتے نہیں۔
سلطان کاخون کھول گیا
سلطان نے حکم دیاان دونوں کوبھی یہاں لاؤ۔جب وہ دونوں سلطان کے سامنے حاضرکیے گئے تواس نے ایک نظرہی میں پہچان لیاکہ یہی وہ دو(شیطان صفت)آدمی ہیں جواسے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ انہیں دیکھ کرسلطان کاخون کھول اُٹھا،لیکن تحقیق حال ضروری تھی، کیوں کہ ان (مکاروں)کالباس زاہدانہ اورشکل وصورت مومنوں کی سی تھی۔ سلطان نے پوچھاتم دونوں کہاں رہتے ہو؟انہوں نے بتایاکہ روضہ اقدس کے پاس ایک مکان کرایہ پرلے رکھاہے اوراسی میں ہروقت ذکرالہٰی اورعبادت خداوندی میں مشغول رہتے ہیں۔
خوف ناک انکشاف
سلطان نے وہیں ان دونوں کواپنے آدمیوں کی نگرانی میں چھوڑا اور خود اکابر شہرکے ہم راہ اس مکان میں جاپہنچا،یہ ایک چھوٹاسامکان تھا،جس میں نہایت مختصرسامان مکینوں کی زاہدانہ زندگی کی خبردے رہاتھا،اہل شہر (دھوکے سے) ان دونوں کی تعریف میں رطب اللسان تھے اوربظاہرکوئی چیز قابل اعتراض نظرنہیںآ تی تھی،لیکن سلطان کادل مطمئن نہ تھا،اس نے مکان کا فرش ٹھونک بجاکردیکھناشروع کیا۔یکایک سلطان کوایک چٹائی کے نیچے فرش ہلتاہوامحسوس ہوا،چٹائی ہٹاکردیکھاتووہ ایک چوڑی سل تھی،اسے سرکایاگیاتوایک خوف ناک انکشاف ہوا۔یہ ایک سرنگ تھی جوروضہ اقدس کی طرف جاتی تھی۔سلطان سارامعاملہ آناًفاناًسمجھ گیااوربے اختیارمنہ سے نکلا:صدق اللہ وصدق رسولہ النبی الکریم․
بھیڑنمابھیڑیئے
سادہ مزاج اہل مدینہ بھی ان بھیڑنما بھیڑیوں کی یہ حرکت دیکھ کرششدررہ گئے،سلطان اب قہروجلال کی مجسم تصویربن گیااوراس نے دونوں ملعونوں کوپابہ زنجیرکرکے اپنے سامنے لانے کاحکم دیا۔جب وہ سلطان کے سامنے پیش ہوئے تواس نے ان سے نہایت غضب ناک لہجے میں مخاطب ہو کر پوچھا۔سچ سچ بتاؤتم کون ہو؟اوراس ناپاک حرکت سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ دونوں ملعونوں نے نہایت بے شرمی اورڈھٹائی سے جواب دیا۔”اے بادشاہ !ہم نصرانی ہیں(بعض روایتوں میں یہ ہے کہ یہ دونوں یہودی تھے )اوراپنی قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبرکی لاش چرانے پر مامور ہوئے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس سے بڑھ کراورکوئی کارثواب نہیں ہے۔لیکن افسوس کہ عین اس وقت جب ہماراکام بہت تھوڑاباقی رہ گیاتھا،تم نے ہمیں گرفتار کر لیا۔“ایک روایت میں ہے کہ یہ سرنگ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے جسدمبارک تک پہنچ چکی تھی،یہاں تک کہ ان کاایک پاؤں ننگا ہو گیا تھا۔
گستاخانِ رسول کاانجام
سلطان کاپیمانہ صبرلبریزہوگیا،اس نے تلوارکھینچ کران دونوں بدبختوں کی گردنیں اڑادیں اوران کی لاشیں بھڑکتی ہوئی آگ کے الاؤمیں ڈلوادیں۔ یہ کام انجام دے کر سلطان پررقت طاری ہوگئی اورشدت گریہ سے اس کی گھگی بندھ گئی۔وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں روتا ہوا گھومتا تھا اور کہتا تھا: ہائے نصیب کہ اس خدمت کے لیے حضورصلی الله علیہ وسلم نے اس غلام کاانتخاب فرمایا۔ جب ذراقرارآیاتوسلطان نے حکم دیاکہ روضہ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے گردگہری خندق کھودکراسے سیسہ سے بھردیاجائے،چناں چہ اتنی گہری خندق کھودی گئی کہ زمین سے پانی نکل آیا،اس کے بعد اس میں سیسہ بھردیاگیا،تاکہ زمانے کی دست بردسے ہرطرح محفوظ رہے،آج بھی اہل مدینہ سلطان نورالدین کانام نہایت محبت واحترام سے لیتے ہیں اوراس کاشماران نفوس قدسی میں کرتے ہیں جن پرسیدالبشرصلی الله علیہ وسلم نے خود اعتماد کا اظہارفرمایااوران کے محب رسول ہونے کی تصدیق فرمائی۔اللہ تعالیٰ ہمیں پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے الفت، عقیدت، محبت اور ان کی مکمل اطاعت نصیب فرمائے۔ آمین !