Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

4 - 18
کڑی سے کڑی

محمد قاسمی پرتاپ گڑھی
	
عقل انسانی خالق کائنات کا عظیم ترین عطیہ ہے ۔ اسی عقل کی بدولت انسان دیگر حیوانوں سے ممتاز اورجداہوتا ہے۔عقل ہی کی یہ کرشمہ سازیاں ہیں کہ مٹی سے پیداہونے والاکمزوروناتواں انسان ہواؤں، سمندروں اوربحروبر پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہے ۔ دیگر حیوانوں کو بھی اگر یہ دولت نصیب ہوتی تو وہ بھی اپنے معیار زندگی کو بدل لیتے ،اپنے رہنے سہنے کے لیے گھربناتے ،پہننے کے لیے عمدہ کپڑے بناتے اورچلنے کے لیے سواریوں کا انتظام کرتے ؛مگر آج تک انسانوں کے علاوہ کسی اور حیوان میں یہ سکت نہ ہوئی کہ اس طرح کا پلان بنا ئے۔ چناں چہ ان کے آباواجداد کی زندگی جہاں سے شروع ہوئی تھی آج بھی وہ وہیں کھڑی ہیں،ان کے رہن سہن میں ادنی درجہ کا بھی تغیر نہیں ہوا۔ اوراگر کسی قسم کاتغیر نظرآئے تووہ عقل انسانی کی ہی کارسازی ہوگی۔انسان کو خالق فطرت نے نہ صرف عقل کی دولت سے سرفراز فرمایا؛ بلکہ عقل کے پلان او ر اس کے منصوبہ کو رو بہ عمل لانے کے لیے کسب واختیارکی دولت سے بھی مالامال فرمایا۔ اسی دولت کسب واختیار اورعقل کی وجہ سے اس نے دنیا کو جنت نشاں بنادیاہے۔رہنے کے لیے اس نے عمدہ مکانات تیارکیے،پہننے کے لیے نرم ونازک پوشاک اورچلنے کے لیے تیز ترین سواریاں ایجاد کیں۔غرض کہ اس نے تمدن ومعاشرت اوررہن سہن میں اتنی ترقی کرلی کہ پہلے کے لو گ آج اگر اس دنیامیں آجائیں توانہیں اپنی اولادکودیکھ کرپہچاننا مشکل ہوجائے گا۔آج انسان نے راحت وآرام کے لیے ایسی عمدہ اورتیررفتارترین سواریاں ایجادکرلی ہیں کہ ماضی میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ان تمام کارستانیوں کی تہہ میں جو طاقت کارفرماہے، بلاشبہ وہ عقل اورکسب واختیار کی ہی طاقت ہے۔معلو م ہوا کہ انسانی عقل خالق کائنات کی عظیم ترین نعمت ہے ؛اس پرجتنا بھی شکریہ اداکیا جائے کم ہے ۔

عقل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دومعلوم چیزوں کو سامنے رکھ تیسری نامعلوم چیز کا ادراک کرلیتی ہے ۔مثلا:اس نے دیکھا کہ آگ میں دھواں ہوتا ہے ۔پھراس نے کہیں دیکھا کہ دھواں موجود ہے۔تو اس کو ان دومعلوم چیزوں ( یعنی آگ کے لیے دھویں کے وجود اورکسی جگہ دھویں کے موجود ہونے) سے تیسری اس نا معلوم چیز کا فیصلہ کر نے میں دیرہی نہیں لگتی کہ” جس جگہ دھواں نظرآرہا ہے ؛وہاں آگ بھی ہے“ ۔دھویں کی جگہ آگ کی تلاش اسی عقل کی کاریگری ہے۔ اسی بات کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ کسی مقدمہ کے اندرکسی مدعی کے اسی دعوی کو درست تسلیم کیا جاتا ہے ؛جس میں کڑیوں سے کڑیاں ملتی چلی جائیں ،اگرہرکڑی اپنی جگہ فٹ ہوتی ہے تو عقل چلااٹھتی ہے کہ یہی دعوی بر حق ہے ۔ مثلا:کسی انسان کوایک سامان، مثلاًایک گھڑی کہیں گری ہوئی مل جائے،پھروہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کر دے اور بہت سے لوگ اس کے دعوے دارنکل آئیں،تو علامت معلوم کرکے اصلی مالک کا پتہ لگا نا آدمی کے لیے مشکل نہیں ہوتا ، مثلا:وہ سب سے پوچھتا ہے کہ گھڑی کس کمپنی کی ہے اس کا رنگ کیسا ہے اسے کہاں سے خریداتھااورکس طرح غائب ہوئی؟ ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب اگر کسی دعوے دارکی طرف سے مل جائے اورجوابات میں تفتیش سے متعلق تمام کڑیاں ایک دوسرے ملتی چلی جائیں تو اس آدمی کے لیے اصل مالک کا پتہ چلانا مشکل نہیں ۔

مگریادرہے کہ اس عقل کاکام دنیاوی امور تک ہی محدود نہیں ہے،صرف کھانے ،پینے اورراحت وآرام تک ہی اس کا دائرہ عمل نہیں؛بلکہ اس کی اصل ذمہ داری عقل کی روشنی میں اپنے پیداکرنے والی ذات کو پہچانناہے،چوں کہ کھانے اورپینے کی حدتک توچوپائے اوربہائم بھی کوششیں کرتے ہیں؛جن کے پاس نہ عقل ہے اورنہ سمجھ۔اگر انسانوں نے بھی عقل کا استعمال اسی حدتک رکھااوربقیہ چیزوں سے انحراف کیا تو یہ چوپایوں اوربہائم، بلکہ اس سے بھی پرلے درجے کا کام ہے ؛چوں کہ چوپایوں اوربہائم کے پاس عقل نہیں اورانسان صاحب عقل ہوکرایسا کررہاہے!یہ خداکی نعمت کی ناقدری،ناسپاسی اورایسی غفلت ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مقام فکرہے کہ جب تمام مخلوقات میں صرف انسان کو دولتِ عقل نصیب ہے ،اس کے علاوہ سب حیوان اس دولت سے تہی دست ہیں تو یقینا اس کی ذمہ داریاں بھی زائدہوں گی،جب زائدطاقت دی گئی ہے تو زائد ذمہ داری بھی ہوگی، یوں تو بلاوجہ کوئی کام ہوتا نہیں ۔اسی ذمہ داری کانام ”خالق کی صحیح پہچان اوراس کی بندگی“ہے۔ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خالق کی صحیح معرفت اورپہچان حاصل کرے اوراسی کے حکم کے مطابق اس کی بندگی کرے۔ یوں تمام لوگ جانتے ہیں ”کہ سب کا پروردگار”اکیلا“ہے،اسی نے ساری کائنات کو پیداکیا،وہی سارے کائنات کو چلارہا ہے۔ وہ جوچاہے دے اورجو چاہے چھین لے !اس سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ،ہرچیزپر حکومت اسی کی ہے۔وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا“ ۔اتنی بات دنیا کے سب لوگ مانتے ہیں۔چونکہ سب کو اچھی طرح معلو م ہے کہ کوئی سسٹم ایک ہی طاقت کے تحت چل سکتا ہے ،کسی سسٹم میں اگر ڈبل طاقتیں بیک وقت جمع ہوجائیں تو وہ سسٹم چل نہیں سکتا ہے۔مثلا: کارخانوں میں بڑی بڑی مشینیں چلتی ہیں،ان مشینوں میں اصل طاقت ایک ہوتی ہے ،اسی کے تحت تمام ”کل پرزے“ حرکت کرتے ہیں۔اب اگرایک مشین میں دوطاقتوں کو فٹ کرناہو تو وہاں بھی ایک کنٹرول سسٹم فٹ کرنا پڑتا ہے ؛جو پوری توانائی کو یکجاومتحدکرکے منظم طریقے پر مشین تک پہنچاتا۔ایسا نہ کیا جائے تو مشین فوراً خراب ہوجائے گی۔ یہ ایسے ہی ہے ؛جیسے ہمارے جسم میں روح ہے،جسم کا پورانظام ایک روح کے تحت کام کرتا ہے،کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک جسم میں دو”روحیں“ سماسکتی ہیں اوربالفرض کسی جسم میں دوروحیں جمع ہوجائیں تو کیا وہ انسان نارمل طریقہ پر زندہ رہ سکتا ہے؟ہرگز نہیں رہ سکتا ہے!اسی طرح مشین کواگر ایک کنٹرول کے تحت نہ کیاگیا تواس کا خراب ہونا طے ہے۔ کائنات کا پوراسسٹم اورنظام ایک محکم ومنظم طریقے پر چل رہا ہے،سورج اپنے متعین وقت پر نکلتا ہے، رات ودن اپنے وقت پر آرہے ہیں،جارہے ہیں ،چاندخاص وقت میں طلوع ہوتا ہے ، بارش ہوتی ہے اور سردی وگرمی آتی ہے ،سب میں ایک جوڑ اورربط ہے، یہی ربط اورجوڑ چیخ چیخ کرپکار رہا ہے کہ اس کائنات کو چلانے والا”اکیلا“ہے۔ پوری کائنات کا سسٹم اسی اکیلی ذات کے تابع ہے۔ اوراسی کانام اللہ ہے۔ (اسی کو لوگ ایشوراورگاڈکے ناموں سے بھی یادکرتے ہیں)اگردوطاقتیں ہوتیں اوردوخداہوتے تو یہ ربط اورتنظیم ہرگزباقی نہیں رہ سکتا تھا۔ ایک خداکہتا کہ رات ہوگی؛ دوسراکہتا کہ نہیں !دن ہوگا۔ایک کہتا کہ گرمی ہوگی تو دوسراکہتا کہ نہیں!سردی ہوگی۔ اس لڑائی اورجھگڑے میں پوری کائنات تباہ و برباد ہوجاتی۔ اس لیے سب کواس بات کا اعتراف ہے کہ اللہ ایک ہے ، اکیلا ہے ،اس کاکوئی شریک نہیں ،وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا۔اوراگرکچھ لوگ خداکے وجود کاانکارکریں تو ان کی باتوں کی حیثیت بس اتنی ہے جتنی بخار میں مبتلا اس شخص کی ہو تی ہے جومیٹھی چیز کو تیکھی بتاتا ہے؛ چوکہ بخار اترنے کے بعد وہ خود اپنے قول کی تردید کردیتا ہے،یہی حال منکرین خدا کا ہے ، انہیں کسی مصیبت وپریشانی کے وقت دیکھیے کہ وہ کس طرح اللہ کو پکارتے ہیں!ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ نظرسے گزری کہ ایک امریکی فوجی خاتون جو خداکے وجود کی منکرتھی ، اس کی ڈیوٹی افغان جنگ میں لگی، ایک دن طالبان کی طرف سے زور کا حملہ ہوا، اس کا کہنا تھاکہ میں بے تحاشہ بھاگ رہی تھی اوراپنے پروردگار کو پکاررہی تھی؛ حالاں کہ اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کس کو پکار رہی ہوں۔بعد میں وہ خاتون مسلمان ہو گئیں۔غرضے کہ جو لوگ خداکی ذات کے منکر ہیں،وہ بھی مصیبت کے وقت اسی اکیلے اللہ کو پکارتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ تمام انسانوں کا متفقہ دعوی ہے کہ اللہ ایک ہی ہے۔مسلمانوں کی تو خیر بنیاد ہی توحید خالص ہے ؛یہودی اورعیسائی بھی اس بات کا دعوی کرتے ہیں،حتی کہ ہندواوربت پرست لوگ بھی کہتے ہیں کہ ایشورایک ہے اوروہی اصلی مالک ہے ۔ اللہ کی صحیح معرفت تک پہنچنے کے لیے ہمیں ان تمام مذاہب والوں کی باتوں کو غورسے سننا ہے ،ان کے دعووں کواللہ کی وحدانیت اورخالق کائنات سے ملاکر دیکھنا ہے ،کیا ان کی باتیں ان سے جوڑ کھاتی ہیں؟کیا ان دعووں اوراللہ کی وحدانیت اورخالق کائنات میں کوئی مناسبت پائی جاتی ہے؟بہرصورت ہمیں غورفکرکرنا ہے اورنعمت عقل کو استعمال کرنا ہے ؛اگرہم نے ایسا نہیں کیا ؛بلکہ آباواجداداوررسم ورواج کے تابع رہ کر زندگی گزارتے رہے تو یہ نعمت عقل کی ناقدری ہوگی اور اس غفلت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔لامحالہ ہمیں اس وادی میں عقل کی راہ نمائی میں قدم رکھنا ہے، عقل کا کام ہے کہ دومعلوم چیزوں سے تیسری نامعلوم چیز کا پتہ چلائے، اورکڑی کو کڑی سے ملاکر دیکھے ،اگردعوی درست ہوگا تو خود بخود کڑیوں سے کڑیاں ملتی چلی جائیں گی ،مثلا :کوئی گم شدہ سامان ہو اوراس کے حقیقی مالک کی پہچان کے لیے ایسی باتیں معلوم کی جاتی ہیں؛جس میں کڑیوں سے کڑیاں ملتی چلی جاتی ہیں ۔یہی کام ہمیں یہاں بھی کرنا ہے۔ یہاں ہمیں دوچیزیں معلوم ہیں:(الف)اللہ اکیلاہے اورپوری کائنات اسی کے حکم سے چل رہی ہے ۔(ب)تما م مذاہب والوں کے عقائد واعمال ۔ان دو معلوم چیزوں سے ہمیں صحیح مذہب کا پتہ چلاناہے۔ اللہ کے موجود ہونے کااقرار سب کو ہے اور دعوی بھی سب کو ہے کہ و ہی برحق ہے،یہ دعوی ایسا ہی ہے،جیسے گم شدہ سامان کے ہزاروں دعوے دارہوں،وہاں ہم علامتیں پوچھ کراس کے مالک کاپتہ چلاتے ہیں۔ یہاں بھی ہمیں علامتیں پوچھنی ہیں کہ اللہ نے ہمیں کیوں پیداکیا؟دنیا میں ہم کیوں آئے ؟ خداکے سامنے ہماری پیشی کب اورکیسے ہوگی؟عبادت کس کی ہوگی اورکس طرح ہوگی؟وغیرہ وغیرہ۔ان سوالوں کا ایسا صحیح جواب اگرکسی مذہب میں مل جاتاہے؛جس میں اللہ کی وحدانیت اورخلق کائنات کے مقصد سے مذہب کے عقائد واعمال کی کڑیاں ملتی چلی جاتی ہیں تو سمجھ لیجیے وہی مذہب بر حق ہے ۔اوراگرکڑی کہیں ٹوٹتی ہے اورمذہب کے عقائد ونظریات اللہ کی وحدانیت اورخلق کائنا ت سے میل نہیں کھاتے تو سمجھ لیجیے ”دا ل میں کچھ کالاہے“ اوروہ مذہب غلط ہے ۔آیئے! ہم دنیا کے چندمشہورمذاہب والوں سے علامتیں پوچھتے ہیں! تاکہ صحیح اوردرست راہ ہمارے سامنے کھل جائے!

یہودی
یہودیوں کا کہنا ہے کہ اللہ ایک ہے ،اورموسی علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں ،قیامت کے دن اللہ کے سامنے سب کی پیشی ہوگی،پھرلوگ جنت اورجہنم میں جائیں گے۔تمام یہودی جنت میں جائیں گے،بقیہ اورکوئی جنت میں نہیں جائے گا ۔اب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آخرجنت اورجہنم میں آدمی داخل کس بنیاد پرہو گا؟تو جواب ملتا ہے” یہ فیصلہ یہودی اورغیریہودی ہونے پر ہوگاہے ،غیر یہودی جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا“۔ پھرسوال ہوتا ہے کہ آدمی یہودی بنے گا کیسے ؟تو کہتے ہیں کہ” نسلاً ”اس کا اولاداسرائیل میں ہونا ضروری ہے ،کسی دوسری نسل کاآدمی یہودی نہیں بن سکتا ہے۔تواب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو آخراللہ نے کیوں پیدافرمایا ؟جواب ملتا ہے کہ یہودیوں کی خدمت کے لیے ۔پھرسوال ہوتا ہے کہ صرف یہود یوں کی خدمت ہی مقصد تھاتوپھرہمیں انسانی نسل اوردولت عقل سے کیوں نوازا!یہ کام تو غیر عاقل حیوان کرہی رہے ہیں ،ان کا آخرت میں نہ حساب ہوگا نہ کتا ب ہوگا اور نہ انہیں جنت وجہنم میں ہی جانا پڑے گا ۔جب کہ انسانوں کاتو حساب وکتاب ہوگااورانہیں جزاوسزابھی ہوگی، تو پھرکیا ہمیں محض اس وجہ سے سزاہوگی اورجہنم میں جانا پڑے گا کہ ہم یہودی نہیں ہیں ۔یہ سمجھ میںآ نے والی بات نہیں ہے ؛چوں کہ یہودی بننااختیاری معاملہ نہیں ہے اورکسی غیراختیاری معاملہ پرسزادینا یہ صاحب انصاف کا کام نہیں ،یہ تو ظالموں اورخوں خواروں کی روش ہے۔ہمارا پروردگار تو ارحم الراحمین ہے ،وہ ان چیزوں سے مبرہ ومنزہ ہے،اس کی توقع اس کی ذات سے ہرگز نہیں کی جاسکتی ۔معلوم ہوا کہ موجودہ یہودی مذہب تراشیدہ ہے ،وہ اگرحقیقی مذہب ہوتا تو اس میں ایسے اعتقادات کا کیا مطلب؟تخلیق کائنات سے ان کا جواب جوڑنہیں کھاتا۔

عیسائی
عیسائیوں کا بھی دعوی ہے کہ اللہ ایک ہے ،اسی نے ساری کائنات بنائی اورسب انسانوں کویہاں بسایا۔سب کو مرنے کے بعد اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اوروہاں کی سرخ روئی اورنجات عیسائیت میں منحصر ہے ۔ان سے پوچھاجاتاہے کہ پھر آپ لوگ کلیسا میں حضرت عیسی علیہ السلام کی تصویرکیوں چسپاکرتے ہیں؟اللہ کو چھوڑکر ان کی تصویر کے سامنے عقیدت کی نیاز کیوں پیش کرتے ہیں؟اور محبت کا دم بھرتے ہوئے انہیں کے سامنے جییں سائی کیوں کرتے ہیں؟توجواب ملتاہے کہ دراصل حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔انھوں نے ہم سب کی طرف سے قربانی پیش کرکے ہمارے گناہ معاف کرالیے ۔تو سوال ہوتا ہے کہ پہلے آپ نے تسلیم کرلیا کہ اللہ ایک ہے ،پھریہ کیسے دعوی کرسکتے ہیں کہ اللہ کے بیٹابھی ہے؟چوکہ اگراللہ کے بیٹا ہوگا تو وہ بھی تو اللہ ہی ہوگا۔بیٹا تو باپ ہی کی نسل کا ہوتا ہے۔ اگرحضرت عیسی علیہ السلام اللہ کی جنس سے ہیں تو لازم آتا ہے کہ دو خداہیں،ایک اللہ اوردوسرے حضرت عیسی۔حالاں کہ یہ بات پہلے ثابت ہوچکی ہے کہ کائنات کو سنبھالنے والی ذات ایک ہی ہے اور وہ اللہ واحد اوریکتا کی ذات ہے،دو خداکا امکان نہیں !اوراگرکہتے ہوکہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کی جنس سے نہیں ؛بلکہ انسانوں کی جنس سے ہیں توسوال پیداہوتا ہے کہ بیٹے کا باپ کی جنس سے نہ ہونا یہ انتہائی نقص کی بات ہے ۔اوراللہ ہر نقص سے پاک ومبرہ ہے ۔ باپ تو وہ ہے جو واجب الوجود ،تمام کمالات کامالک ،ہمیشہ سے ہو اورہمیشہ رہنے والاہو،ہرچیز اسی کی قدرت میں ہو ،سب اس کے محتاج ہوں اوروہ کسی کا محتاج نہ ہو،ایسی ذات بابرکات کابیٹا ایسا ہو؛ جو اپنے کو ظالم انسانوں سے نہ بچاسکے! کیا یہ اللہ کے لیے نقص کی بات نہیں ؟! انسان کے یہاں اگر ”چوہیا“ پیداہوجائے تو کیا یہ نقص اورعیب کی بات نہیں ۔دوسری بات: بیٹا تواس کو چاہیے جو محتاج ہو،جس کو موت یا کمزوری اوربڑھاپے کا اندیشہ ہواور اللہ تو ان چیزوں سے پاک ہے۔تیسری بات: جب حضرت عیسی علیہ السلام کی قربانی کی وجہ سے لوگ بخش دیے گئے تواب دنیاکو باقی کیوں رکھا گیا ہے؟ اب اس کو باقی رکھنے کا مقصد کیاہے ؟یہ وہ سوالات اورکڑیاں ہیں؛جو اللہ جل شانہ اورخلق کائنا ت سے میل نہیں کھاتیں،ان میں ہرجگہ توڑ ہے ۔پھرکس طرح ان کے دعووں کی تصدیق کی جاسکتی ہے اورکیسے کہاجاسکتا ہے کہ عیسائی مذہب حق ہے؟!

بت پرست
بت پرستوں کی متعدد قسمیں ہیں،ان میں ہندو،بودھ اورجینی وغیرہ بھی آتے ہیں،ان سب کے اعتقاد میں قدرمشترک ایک چیز پائی جاتی ہے اوروہ ہے کسی نہ کسی صنم کے سامنے جبیں سائی اور پوجا پاٹ۔ایسا نہیں کہ یہ لوگ کائنات کے اکیلے مالک کے منکرہوں،یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سب کا مالک ایک ہے،اسی نے سب کوپیداکیا،اس کو موت کبھی نہیں آنے والی ،وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا۔

اب ان لوگوں سے سوال ہوتا ہے”اس اکیلے مالک نے کائنات کیوں بنائی؟ انسانوں کو کیوں پیداکیا اورمرنے کے بعد آدمی کہاں جاتاہے “؟ ان سوالوں کے جوبھی جوابات وہ لوگ دیتے ہیں،انہیں ہم کارخانہٴ عالم کی تخلیق اوراللہ احد الصمدکی ذات سے ملاکردیکھتے ہیں۔مثلا:مرنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ آدمی” سورگ“ یا” نرگ“ میں جائے گا۔ توان سے اس کی تفصیل معلوم کی جاتی ہے کہ آخر سورگ اورنرگ ہے کیا چیز؟ تو وہ” آواگون“ کا نظریہ پیش کرتے ہیں،یعنی مرنے والاآدمی اگرنیک ہوتا ہے تو” امر“ہوجاتاہے اورگنہ گار ہوتاہے تو سزا کے طور پر اسے پھر اسی دنیاوی زندگی میں کسی دوسرے جانورکی شکل میں پیداکیا جاتاہے،مثلا:بندر،گھوڑا یا چرند وپرند وغیرہ کی شکل میں۔اس صورت میں بھی اگر اس نے گناہ کیا تو پھرکسی اور گندے جانورکی صورت میں پیداکیا جاتاہے؛ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہوکر ”امر“ہوجائے۔اب ان سے سوال ہوتاہے کہ یہ تو آواگون ہے ، آخر سورگ اورنرگ کا مطلب کیا ہے ، ؟جواب میں سورگ و نرگ کا نام بھی نہیں آیا۔اسی آواگون کو اگرآپ نرگ سے اورامرہونے کو سورگ سے تعبیر کرتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ؛چوں کہ کائنات کا نظام اس ترتیب پرنہیں ہے ۔ اگرکائنات کا نظام اس ترتیب سے ہوتا ، یعنی انسانوں کی نسل دوسرے جانوروں میں منضم ہوتی رہتی تونسل انسانی کو گھٹناتھا اورجانوروں کی تعداد کو بڑھناتھا ؛مگریہ کیا کہ انسانوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اورجانوروں کی گھٹ رہی ہے،تبھی توحکومت جانوروں کی حفاظت کے لیے غیرمعمولی اقدامات کررہی ہے،جب کہ نسل انسانی کے گھٹانے کی کوشش میں وہی حکومت ”ہم دو ہمارے دو“ جیسے اعلانات کررہی ہے اوراسکیمیں چلار ہی ہے،معلو م ہوا کہ یہ نظریہ نظامِ کائنات سے جوڑنہیں کھاتا۔

ان سے ایک اور سوال ہوتا ہے کہ گنہ گار زندگی اوراچھی زندگی میں فرق کیا ہے؟کس زندگی کو اچھی اورکس زندگی کوبری زندگی کہتے ہیں؟ توجواب ملتاہے انسانوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنا اچھی زندگی ہے اوربرا سلوک کرنا بری زندگی ہے۔ پھر سوال ہوتاہے کہ جیسے بخاروالے شخص کو میٹھی چیزیں تیکھی محسوس ہوتی ہیں اورتیکھی چیزیں میٹھی،تو ایسے ہی اگر معاشرہ میں کچھ لوگوں کو غلط چیزیں ہی اچھی لگنے لگیں ،تو ان کا کیا ہوگا ؟ اچھے اوربرے کی پہچان کے لیے کیا کوئی اصول بھی ہے ؟ مثلا:بہت سے لوگ زنا کاری اورشراب خوری کو اچھا سمجھتے ہیں ،ایسے لوگوں کا کیا ہوگا؟چوں کہ یہ لوگ برے کام کو اچھا سمجھ کر کرتے ہیں،مرنے کے بعد ان کا کیا ہوگا ؟دوسرا سوال : جب اچھی اوربری زندگی میں فرق صرف اخلاق مندی اورانسانوں کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعہ ہو جاتاہے ،مرنے کے بعد امرہونااسی پرمنحصر ہے تو معلوم ہوا کہ پوجاپاٹ کا کوئی مطلب ہی نہیں ،پھر آپ لوگ پوجاکیوں کرتے ہیں؟

ایک سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ پوجا آپ لوگ پیڑ، پتھر اور دریا وغیرہ کی کیوں کرتے ہیں ؟توجواب ملتا ہے کہ ان میں” شکتی“ ہے ؛اس وجہ سے پوجا کرتے ہیں۔توسوال پیداہوتاہے کہ یہ تو آپ بھی مانتے ہیں کہ اصل مالک اللہ اورایشور ہے ،اسی کے ہاتھ میں ساری طاقت ہے ،وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا ،تمام طاقتوں کا مرکز ومنبع وہی ہے تو پھرکیوں اس کوچھوڑ کردوسروں کے سامنے ماتھا ٹیکتے ہیں؟اور وہ بھی ایک نہیں ؛بلکہ ہزاروں بتوں کے سامنے۔پھر جن چیزوں کی آپ لوگ پوجاکرتے ہیں؛ان چیزوں سے کہیں زیادہ شکتی اور طاقت تو زندہ انسانوں میں ہے ۔زندہ انسانوں کو کیوں نہیں پوجتے ؟حالاں کہ ان سے زیادہ شکتی اورطاقت کسی دوسری چیزمیں نہیں ہے !چوں کہ ہرانسان میں عقلی قوت پائی جاتی ہے اوراسی قوت کی وجہ سے وہ دنیا کی ہرچیز کواپنے تصرف میں لاتا ہے ،وہ ہوا میں ہوائی جہاز اڑاتا ہے، سمندرمیں کشتی چلاتا ہے،پہاڑ کھود کر گھر بناتا ہے،زمین سے سونا ،چاندی، پٹرول ، ڈیزل اورکوئلہ وغیرہ نکالتا ہے ،ہل چلاکرکھیتی کرتا ہے،دنیا کے جتنے حیوان ہیں؛سب اس سے ڈرتے ہیں؛چوں کہ یہ ان کو نہ صرف پکڑتا ہے؛بلکہ پنجرے وغیرہ میں قید کرکے تماشہ بھی دکھاتاہے ۔انسان دوسروں کو کچھ نہ کچھ نفع و نقصان تو پہنچا ہی لیتاہے، اتنی طاقت تو دنیا کی کسی اورچیز میں نہیں ہے، آج تک انسان کے علاوہ دنیا میں کسی اورمخلوق نے اپنی فطرت وطبیعت سے ہٹ کرکوئی ایک بھی نیا کارنامہ انجام نہیں دیا،وہ پہلے دن جہاں تھے؛آج بھی وہیں کھڑے ہیں ،پھرکیا وجہ ہے کہ اس انسان کو چھوڑ کر درخت، پتھر، دریا،گائے اورنہ جانے کن کن چیزوں کی پوجا ہوتی ہے ،حالاں کہ ان میں تو اتنی بھی شکتی اورطاقت نہیں کہ وہ اپنی جگہ سے ہل سکیں،یا کسی سے بات کرسکیں، یا کسی کو کچھ دے اورلے سکیں؟معلو م ہوا کہ آپ طاقت کے بھی پجاری نہیں ہیں۔اوراگرکہتے ہیں کہ نہیں یہ ہمارے بزرگوں کی صورتیں ہیں،یہ اللہ کے پیارے لوگ تھے ،تو ہم پوچھتے ہیں کہ کیا وہ لوگ تو انسان تھے،مگرجن کوآپ پوجتے ہیں؛وہ تو پتھرہیں،صرف آپ نے ان بزرگوں کے نام سے پتھرتراش لیا ہے اوران کا وہی نام رکھ لیاہے،توکیا محض نام رکھنے سے مسمی میں اصل کی تاثیر آسکتی ہے !مثلا:آپ کے باپ کے ہم نام جتنے لوگ ہیں،سب آپ کے نزدیک کیا اسی درجے میں ہیں؛جس درجے میں آپ کے حقیقی باپ ہیں؟!

تخلیق کائنات اورانسان کی پیدائش کو دیکھئے اوران مشرکوں کے جوابات کو سنیے ،پھرجیسے مقدمہ میں فیصلہ کرنے والا کڑی سے کڑی ملاتا ہے، آپ بھی ملایئے، ہرجگہ توڑ نظرآئے گا ۔کہیں بھی کڑی کڑی سے ملتی نظرنہ آئے گی ، ایک” کل“ بھی سیدھی نہیں ،ہرجگہ کڑیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔پھر ہم کیسے مان سکتے ہیں کہ بت پرستوں کا عقیدہ درست ہے اوران کا مذہب سچا ہے؟ ہاں! اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بیچ بیچ کی بعض باتوں مثلا:سورگ اورنرگ کے تصورسے پتہ چلتاہے کہ ہوسکتا ہے کہ کبھی یہ مذہب حق رہاہو!بعدکو مرورزمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں بگاڑ آگیا ہے۔لیکن بہرحال حق مذہب کسی طرح بھی نہیں کہاجاسکتاہے۔

مسلمان
اہل اسلام کا کہنا ہے کہ اللہ ایک ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں،وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا ، نہ وہ کسی کی اولاد ہے ،نہ کوئی اس کی اولاد ہے ، وہ غنی وبے نیاز ہے ،فنااس کے لیے ممکن نہیں ،ہرچیز کاوجود اور ہرچیز کی” بقا“اسی کے دم سے ہے۔ اس کو ہرچیز پر اس طرح قدرت ہے کہ جوچاہے اور جیسے چاہے کرے، کوئی اسے روکنے ٹوکنے والانہیں،وہ بادشاہ مطلق ہے، نہ اس کے فعل اورکام میں کوئی شریک ہے اور نہ اس کی ذات وصفات میں ۔ اس نے انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدافرمایا ہے،اس کو صرف عبادت کی ضرورت ہے ،چوں کہ کوئی ہستی اپنی عبادت خود نہیں کرسکتی ہے،اگروہ خود عبادت کرے گا تو عابد ہوجائے گا،معبود نہ رہے گااورجومعبود ہے وہ عابد نہیں ہوسکتاہے؛لہذا اس نے چاہا کہ ایک ایسی مخلوق کووجود بخشے؛ جواپنی عقلی قوت سے اس کو پہچانے، ارادہ سے اسے پکارے، اختیارسے جبین نیاز اس کے سامنے خم کرے اوراسے یاد کرے۔ یہ وہ مقصد ہے ؛ جس کے لیے اس نے انسانوں کو پیدافرمایا ،بقیہ ساری کائنات تو وہ سب انسانوں کے لیے بنائی اورسجائی گئی ۔چناں چہ اللہ نے انسان کو عقل وارادہ اوراختیارکی دولت سے مالامال فرمایا، انسا ن کی عقل ہی کی کرشمہ سازی ہے کہ تمام انسان اس بات پر متفق ہیں کہ ان کو پیداکرنے والا اکیلاویکتا ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا،اسی نے سب کو پیداکیا ہے۔لیکن قربان جایئے کہ اللہ تعالی نے اپنی معرفت کو محض عقل کے ذمہ نہیں چھوڑدیا؛بلکہ خدا کی صحیح پہچان ،اس تک پہنچنے اوراس کی مرضی کے مطابق زندگی گزرانے کے لیے اس نے انبیا ورسل کا سلسلہ قائم فرمایا،ان انبیا کو اس نے معجزات، کتابیں اورغیرمعمولی اخلاق وکردار کی دولت سے نوازا۔دنیا کے تمام علاقوں اورقوموں میں انبیا ورسل آئے اوراپنے پروردگارکی عبادت وبندگی کی دعوت دی،سب سے آخرمیں ہمارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے،ان کے بعد دوسرا کوئی نبی آنے والا نہیں ہے ،قیامت تک ان کا دین باقی رہے گا۔اس دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود اپنے سر لے رکھی ہے،چناں چہ اس نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو ایسی کتاب عطافرمائی ؛جویاد کرنے میں آسان، عبرت حاصل کرنے میں بے نظیر اورمعانی کی گہرائی میں ایک بحرِنا پیداکنار ہے، جب سے وہ کتاب نازل ہوئی ہے ؛اس میں ایک لفظ کا تغیر نہیں ہوا، بہتوں نے ا س میں تبدیلی کی کوشش کی اورآج بھی کررہے ہیں،مگر بڑی سی بڑی طاقت کے لیے ممکن نہ ہوا کہ اس کا ایک حرف بدل سکے۔وہ اپنے نزول کے بعد سے جس طرح کتابوں میں لکھی آرہی ہے ؛ اسی طرح ہرزمانہ میں لاکھوں اورکروڑوں انسانوں کے سینوں میں بھی وہ محفوظ چلی آرہی ہے۔ چناں چہ روزانہ کروڑوں انسان زبانی اس کی تلاوت کرتے ہیں۔برخلاف پہلے انبیاکی کتابوں کے، ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے اپنے ذمہ نہیں لی تھی؛ بلکہ ان مذاہب کے ماننے والوں کے سپر د کی تھی،چناں چہ ان مذاہب والوں نے ان میں تبدیلی اورتحریف کی اوراپنے مقصد کے مطابق ان میں ترمیم کی ۔اسی تبدیلی کی وجہ سے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب والوں کے عقائد ونظریات میں تسلسل اورجوڑ مفقود ہے ،مثلا:سب کے سب اللہ کی ہستی کا اعتراف کرتے ہیں؛مگر اس تک پہنچنے اوراس کی رضا حاصل کرنے کے سلسلے میں کوئی ایسا طریقہ وہ نہیں بیان کرپاتے ؛جس کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی چلی جاتی ہوں،یہ شرف صرف مذہب اسلام کو حاصل ہے کہ تخلیق کائنات کے مقصد کو وہ اس تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ کہیں اس کے بیان میں کڑیاں ٹوٹتی نظرنہیں آتیں،ہرجگہ ایک ربط اورجوڑ ہے۔ جیسے کسی مقدمہ میں، یاکسی گم شدہ سامان کے بارے میں دعوی کرتے وقت ایسے بیان کی ضرورت ہوتی ہے کہ کڑیاں خود ایک دوسرے سے ملتی چلی جائیں۔اسلام کے علاوہ دوسرے تمام مذاہب والوں کے بیان کی کڑیاں بیچ سے ٹوٹی ہوئی ہیں، کیوں ،کیا اورکیسے کے جواب میں ان کے بیانات میں اس طرح کا جھول پایاجاتاہے ؛جس کو سن کرایک انصاف پسندطبیعت پکاراٹھتی ہے کہ ” دال میں کچھ کالاہے“،یعنی بیان سچا نہیں۔ کسی گم شدہ چیز کے مالک کی تلاش کے وقت کبھی اس طرح کے بیان کی تصدیق نہیں کی جاتی اورنہ اسے صحیح مان کرچیز اس کے حوالہ کی جاتی ہے۔پھر مذہب کی حقانیت کی بابت ان کی باتوں کی تصدیق کیوں کرکی جاسکتی ہے؟!

اہل اسلام کہتے ہیں کہ انسانوں کی تخلیق سے مقصد چوں کہ صرف معرفت خداوندی اوراس کی بندگی ہے ؛اس لیے اگر کوئی انسا ن اس سے غفلت برتے گا تو اس کو سزاہوگی اور جو کوئی عباد ت کرے گا اورشریعت کے مطابق زندگی گزارے گا تو اس کوثواب وجزا ملے گی ۔جزا اورسزا کے لیے ایک دن اللہ تعالی اس دنیاکو ختم فرمائیں گے اورتمام انسانوں سے اس کی پوری زندگی کا حساب وکتاب لیں گے ۔اس دن جس نے اپنی تخلیق کے مقصد کے مطابق زندگی گزاری ہوگی؛ اللہ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اورجس نے اپنے مقصد تخلیق سے منحرف، شیطان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بغاوت کی زندگی گزاری ہوگی،اس دن اللہ اس کو جہنم میں داخل فرمائیں گے۔اصل زندگی توآخرت کی ہے ،وہ کبھی ختم نہ ہوگی ،وہاں ہمیشہ رہنا ہے ،وہاں جس کو راحت مل گئی ؛ سمجھ لیجیے وہی اصلی راحت اورمزیدار زندگی کے حصول میں کام یاب ہو نے والا ہے اوروہاں جس کو سزاہوگئی تو یقین جانیے کہ وہی ناکام ونامراد ہو نے والاہے ،چوں کہ وہاں کی ناکامی و نامرادی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔راحت کے لیے اللہ تعالی نے جنت بسائی ہے اورسزا کے لیے جہنم،جنت میں آرام ہی آرام اورجہنم میں تکلیف ہی تکلیف ہے ۔رہی دنیا تو یہ امتحان گا ہ ہے، یہاں کا آرام نہ ہمیشہ رہنے والا ہے اورنہ یہاں کی پریشانی دائمی ہے۔یہاں جوکچھ ہے وہ چندروزہ اور بہت جلد ختم ہونے والاہے ۔ اہل اسلام کے اس بیان کو اللہ کی وحدانیت اورتخلیق کائنات کے مقاصد سے ملایئے، کہیں آپ کو توڑ نظرنہ آئے گا ؟پھرکیوں نہ کہاجائے کہ مذہب اسلام ہی حق اورسچا مذہب ہے۔اس کے علاوہ اب جتنے مذہب ہیں؛سب باطل اور غلط ہیں۔

Flag Counter