قرآن کریم تلاوت کے آداب
مولانا محمد نجیب قاسمی، ریاض
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، یعنی اُس کی مخلوق نہیں، بلکہ صفت ہے۔ کلام الٰہی لوح محفوظ میں ہمیشہ سے ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سارے کلاموں میں سب سے افضل واعلیٰ اپنا پاک کلام، یعنی قرآن مجید قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی ہدایت وراہ نمائی کے لیے ،سارے انسانوں میں سب سے افضل واعلیٰ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اوپر، سب سے زیادہ مقرب فرشتہ کے ذریعہ نازل فرمایا ہے۔ اس پاک کلام کے نزول کی ابتدا سب سے افضل مہینہ، یعنی رمضان المبارک کی سب سے افضل رات، یعنی لیلة القدر میں ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جنت میں جنتیوں کے سامنے خود اپنے پاک کلام کی تلاوت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت بھی بے شمار انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنی ہے، امیر الموٴمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ تاریخ کی کتابوں میں قلم بند ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہم جب بھی قرآن کریم کی تلاوت کریں یا اس کو چھوئیں تو کلام الہٰی کی عظمت کا تقاضا ہے کہ ہم باوضو ہوں۔ یعنی ہمیں اس کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ تلاوت قرآن کے وقت حدث اصغر وحدث اکبر سے پاک وصاف ہوں۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو چھوئے بغیر زبانی پڑھنا چاہتا ہے تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں علمائے امت کا اتفاق ہے کہ وضو ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص قرآن کریم صرف چھونا چاہتا ہے یا چھو کر پڑھنا چاہتا ہے ،جس طرح ہم عموماً قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور علماء کی رائے ہے کہ وضو کا ہونا شرط ہے، یعنی ہم بے وضو قرآن کریم کو چھو نہیں سکتے ہیں۔ متعدد صحابہٴ کرام، تابعین عظام، حتی کہ چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ) نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فرمایا ہے۔ علمائے احناف، برصغیرکے علمائے کرام اور سعودی عرب کے مشائخ نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ بے وضو قرآن کریم چھوا نہیں جا سکتا۔جمہور علماء نے اس کے لیے قرآن وحدیث کے متعدد دلائل پیش فرمائے ہیں، یہاں اختصار کے مدنظر صرف ایک آیت اور ایک حدیث پر اکتفا کررہا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَایَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ﴾ (سورة الواقعہ، آیت نمبر 79) اس کو (یعنی قرآن کریم کو) وہی لوگ چھوسکتے ہیں جو پاک ہوں۔ اس آیت سے مفسرین نے دو مفہوم مراد لیے ہیں۔
قرآن کریم کو لوح محفوظ میں پاک فرشتوں کے سوا کوئی اور چھو نہیں سکتا ہے۔ جو قرآن کریم حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، یعنی وہ مصحف جو ہمارے ہاتھوں میں ہے، اس کو صرف پاکی کی حالت میں ہی چھوا جاسکتا ہے۔ اس آیت کی دوسری تفسیر کے مطابق بغیر طہارت کے قرآن کریم کو چھونا یا چھو کر پڑھنا جائز نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ جو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے پایا تو اوراق قرآن کو دیکھنا چاہا، ان کی بہن نے یہی آیت پڑھ کر اوراق قرآن اُن کے ہاتھ میں دینے سے انکار کردیا تھا کہ اس کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجبور ہوکر غسل کیا، پھر قرآن کریم کے اوراق پڑھے۔ اس واقعہ سے بھی اسی دوسری تفسیر کی ترجیح ہوتی ہے۔ اور جن احادیث میں غیر طاہر کو قرآن کریم کے چھونے سے منع کیا گیا ہے، ان احادیث کو بھی علمائے کرام نے اس دوسری تفسیر کی ترجیح کے لیے پیش فرمایا ہے۔
# اس باب میں متعدد احادیث ہیں ، لیکن طوالت سے بچنے کے لیے ایک حدیث پیش خدمت ہے۔
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یمن والوں کو تحریر کیا کہ قرآن کریم کو طہارت کے بغیر نہ چھوا جائے۔ (موطا مالک ۔ باب الامر بالوضوء لمن مس القرآن) (دارمی ۔ باب لا طلاق قبل النکاح) یہ حدیث مختلف سندوں سے احادیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہوئی ہے اور جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
کتب حدیث میں متعدد صحابہٴ کرام سے بھی یہی منقول ہے کہ قرآن کریم کو چھونے کے لیے وضو شرط ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ وضو کے بغیر قرآن کریم پڑھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، مگر بے وضو قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کو ناجائز سمجھتے تھے۔ یہی رائے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بھی ہے۔ (احکام القرآن للجصاص) حضرت عطاء، حضرت طاوٴس اور حضرت شعبی اور حضرت قاسم بن محمد رحمہم اللہ سے بھی یہی منقول ہے۔ (المغنی لابن قدامہ) البتہ قرآن کو ہاتھ لگائے بغیر یعنی یاد سے پڑھنا ان سب کے نزدیک بے وضو جائز تھا۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں مشہور ومعروف چاروں ائمہ کی آرا
مسلک حنفی کی تشریح امام علاء الدین کاسانی حنفی نے بدائع الصنائع میں یوں تحریر کی ہے: جس طرح بے وضو نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، اسی طرح قرآن مجید کو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں۔ البتہ کسی کپڑے کے ساتھ قرآن کریم کو چھوا جاسکتا ہے۔
مسلک شافعی کو امام نووی نے المنہاج میں اس طرح ذکر کیا ہے : نماز اور طواف کی طرح مصحف کو ہاتھ لگانا اور اس کے کسی ورق کو چھونا بھی وضو کے بغیر حرام ہے۔ اسی طرح قرآن کی جلد کو چھونا بھی ممنوع ہے۔ بچہ اگر بے وضوہو تو وہ قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔ اور بے وضو آدمی اگر قرآن پڑھے تو لکڑی یا کسی اور چیز سے وہ اس کا ورق پلٹ سکتا ہے۔
مالکیہ کا مسلک جو الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جمہور فقہاء کے ساتھ وہ اس امر میں متفق ہیں کہ مصحف کو ہاتھ لگانے کے لیے وضو شرط ہے۔
شیخ ابن قدامہ حنبلی نے تحریر کیا ہے کہ جنابت اور حیض ونفاس کی حالت میں قرآن یا اس کی پوری آیت کو پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ بسم اللہ، الحمد للہ وغیرہ کہنا جائز ہے،کیوں کہ اگرچہ یہ بھی کسی نہ کسی آیت کے اجزا ہیں، مگر ان سے تلاوتِ قرآن مقصود نہیں ہوتی۔ رہا قرآن کو ہاتھ لگانا تو وہ کسی حال میں وضو کے بغیر جائز نہیں۔
علامہ ابن تیمیہ نے بھی یہی تحریر فرمایا کہ بغیر وضو کے قرآن کریم نہیں چھونا چاہیے اور یہی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہٴ کرام کی رائے تھی اور کسی ایک صحابی سے اس کے خلاف منقول نہیں۔ (مجمع الفتاویٰ 21/226 ۔ 21/288)
شیخ حافظ ابن عبد البر نے تحریر فرمایا کہ تمام علماء امت کا اتفاق ہے کہ مصحف چھونے کے لیے وضو ضروری ہے۔ (الاستذکار8/10)
غرضیکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور محدثین، مفسرین، فقہاء وعلمائے کرام اور چاروں ائمہ نے یہی کہا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے۔ اس طرح امت مسلمہ کا تقریباً 95فی صد اس بات پر متفق ہے کہ مصحف کو چھونے کے لیے وضو کا ہونا شرط ہے۔ جن چند حضرات نے بغیر وضو کے قرآن کریم چھونے کی اجازت دی ہے، انہوں نے بھی یہی ترغیب دی ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم نہیں چھونا چاہیے ۔ غرضیکہ ہمیں بغیر وضو کے قرآن کریم نہیں چھونا چاہیے اور نہ ہی مصحف سے قرآن کریم کی تلاوت بغیر وضو کے کرنی چاہیے۔
سعودی علماء کے فتاوے
سعودی عرب کے سابق مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فرمایا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے ۔
شیخ عبد العزیز بن باز کے کلام کا خلاصہ یہ ہے: جمہور علماء کے نزدیک جائز نہیں کہ مسلمان بغیر وضو کے قرآن کریم کو چھوئے۔ اور چاروں ائمہ کی بھی یہی رائے تھی۔ اور صحابہٴ کرام بھی یہی فتویٰ دیا کرتے تھے۔ اس باب میں حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی ایک صحیح حدیث موجود ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یمن والوں کو تحریر فرمایا: اَنْ لَا یَمَس الْقُرْآنَ الَّا طَاہِر․ کوئی شخص بغیر وضو کے قرآن کریم نہ چھوئے۔ یہ صحیح حدیث ہے اور مختلف سندوں سے وارد ہوئی ہے اور ایک سند کو دوسری سند سے تقویت حاصل ہوئی ہے۔ غرضیکہ یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ حدث اصغر وحدث اکبر (یعنی چھوٹی وبڑی ناپاکی) سے طہارت کے بغیر مصحف چھوئے۔ اسی طرح اگر قرآن کریم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہے تب بھی وضو کا ہونا شرط ہے، ہاں! اگر کسی کپڑے وغیرہ سے مصحف (قرآن کریم) کو چھو رہے ہیں تو پھر کوئی حرج نہیں۔ اپنی یاد سے قرآن کریم بغیر وضو کے پڑھ سکتے ہیں،لیکن اگر کسی شخص کو غسل کی ضرورت پڑ گئی تو پھر وہ اپنی یاد سے بھی قرآن کریم نہیں پڑھ سکتا ہے۔
سعودی عرب کے ایک بڑے عالم دین شیخ محمد صالح بن عثیمین نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فرمایا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے۔
قرآن کریم پڑھنے کے لیے وضو شرط نہیں ہے، البتہ قرآن کریم کو چھونے کے لیے وضو ضروری ہے۔ ہاں! رومال وغیرہ کے ذریعہ بغیر وضو کے مصحف کو چھوا جاسکتا ہے۔ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے تو اکثر علماء نے بچوں کے لیے اجازت دی ہے کہ وہ بغیر وضو کے قرآن کریم کو چھوکر پڑھ سکتے ہیں۔ جب کہ بعض علماء کی رائے میں بچوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بغیر وضو کے قرآن کریم نہ چھوئیں،کیوں کہ یہ قرآن کا احترام ہے جو ہر ایک کے لیے ضروری ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر بچے بھی باوضو قرآن کو چھوئیں تو بہتر وافضل ہے لیکن اگر کوئی بچہ بغیر وضو کے چھولے تو کوئی حرج نہیں، انشاء اللہ۔
سعودی عرب کے ایک جید عالم ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العریفی نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فرمایا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العریفی کے کلام کا خلاصہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق اپنے کلام میں ارشاد فرمایا: (لَا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ)۔ بعض علماء نے فرمایا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں مطہرون سے مراد ملائکہ یعنی فرشتے ہیں، صحیح بھی یہی ہے، لیکن مومنین کو بھی چاہیے کہ وہ فرشتوں کی مشابہت کرکے بغیر طہارت کے قرآن کریم کو نہ چھوئیں۔ شیخ ابن عبدالبر نے فرمایا کہ چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن جنبل) نے قرآن کریم کے چھونے کے لیے وضو کو ضروری قرار دینے کا فتوی دیا ہے، یعنی طہارت کے بغیر قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے، جس کو نسائی اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم کو طہارت کے بغیر نہ چھوا جائے۔ یعنی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے قرآن کریم کو چھونے کے لیے وضو کو ضروری قرار دیا۔ جہاں تک مصحف کے چھوئے بغیر قرآن کریم پڑھنے کا معاملہ ہے تو بغیر وضو کے قرآن کریم پڑھا جاسکتا ہے،لیکن اگر غسل کی ضرورت ہوگئی تو پھر قرآن کریم کسی بھی طرح نہیں پڑھا جاسکتا ہے۔
خلاصہٴ کلام پیش ہے: مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، جمہور علماء خاص کر چاروں ائمہ کی رائے ہے کہ بغیر وضو کے مصحف نہیں چھوا جاسکتا جیسا کہ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی حدیث (لَا یَمَس الْقُرْآنَ الَّا طَاہِر ) میں وارد ہے۔ حافظ ابن عبد البر نے کہا کہ اس حدیث کی بہت شہرت کی وجہ سے محدثین نے اسے قبول کیا۔ بعض فقہاء نے قرآن کریم کی آیت (لَایَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ) سے بھی استدلال کیا ہے، لیکن یہ محل نظر ہے لیکن پھر بھی فرشتوں کی طرح مومنین کو بھی باوضو ہی قرآن کریم چھونا چاہیے۔
غرضیکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور محدثین، مفسرین، فقہاء وعلمائے کرام اور چاروں ائمہ نے یہی کہا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے۔