امن عالم کا داعی ڈاکٹرخالدمحمود سومرو شہید
علامہ حسین احمد آزاد
اس دنیا میں بہت سے لوگ آئے اور دارفانی میں اپنے مقررہ ایام گذار کے رخصت ہوئے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ زندگی میں بھی ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر لوگ اور معاشرہ ان کی قابلیت، للہیت ، تقوی ، جرأت وبہادری اور اعلیٰ استعداد کے معترف ہوتے ہیں۔جن کی قائدانہ صلاحیتیں چھپائے نہیں چھپتیں، اسی لیے قوم، معاشرہ اور تنظیمیں انہیں صلاحیتوں کے حامل شخصیتوں کو اپنا راہ بر وراہ نما بنالیتی ہیں اور جب ان خوبیوں سے مالامال ہستیاں دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں توان سے تعلق رکھنے والے لوگ یقینی طور پر اپنے آپ کو یتیم اور بے سہارا محسوس کرتے ہیں۔ایسی ہی شخصیات میں ایک نام وادی مہران کی بے باک شخصیت علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کا بھی ہے۔
وہ ایک ایسی بلند پایہ ہستی تھی ، جس کا تعارف کراتے ہوئے الفاظ کے ظروف اور پیمانے چھوٹے اور تنگ محسوس ہورہے ہیں،اس عظیم انسان کی شخصیت پر تبصرہ پھیکا اور بے رنگ ہے۔جو لاکھوں انسانوں کے دلوں کی دھڑکن ہو۔غریبوں کا یار،بے سہاروں کا مدد گار،مظلوموں کا ساتھی ہو،اس کے لیے عقیدت کا ہر پھول وگلدستہ کاغذی ہی لگتاہے،حقیقت چھپ گئی ہے، بس ایک روایت نبھائی جارہی ہے،جانے والے اکابرکی یادمیں انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی اشاعتوں اور نمبروں کی۔
سندھ باب الاسلام ہے، اس سر سبز و شاداب سرزمین کی مٹی میں الله تعالیٰ نے ایسی تاثیر رکھی ہے کہ جس بھی عظیم شخصیت نے اس مٹی سے جنم لیا ہے تو زمانہ اس پہ ناز کرتاہے اور ان باکمال ہستیوں کی انتہا شہادت پر ہی ہوئی ہے۔ وادی مہران کے مایہ نازعالم دین حضرت مولانا علی محمد حقانی سندھ کے نامور محقق علماء میں سے تھے ۔ان کے گھر پہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کی بارش برسائی اور وہاں ایک ایسے بابرکت بچے نے جنم لیا، جس کو آگے چل کر قائد سندھ اور جرنیل جمعیت بنناتھا۔جس پر سندھ دھرتی کو ناز کرنا تھا۔جس پہ زمانے کورشک کرناتھا۔وہ بابرکت عظیم ہستی خالدمحمود سومرو کی صورت میں8مئی 1959 ء کوعاقل گوٹھ ضلع لاڑکانہ کے ایک درویش صفت انسان مولانا علی محمد حقانی کے گھر میں پیداہوئی۔جس نے پرائمری تعلیم اپنے آبائی گاوٴں عاقل کے پرائمری اسکول میں 1969میں مکمل کی۔میٹرک لاڑکانہ کی معروف درس گاہ پائلٹ اسکول سے 1974 میں کیا ،انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے 1976میں کیا ۔اور انہوں نے چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری 1984ئمیں حاصل کی۔اور ہاوٴس جاب بھی لاڑکانہ سے کی۔دینی تعلیم کی تکمیل اپنی ہی علمی درس گاہ جامعہ اشاعت القران والحدیث سے کیا، البتہ دینی تعلیم کی کافی کتب سکھرسنیٹرل جیل میں پڑھی، جب علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو صاحب ایم آرڈی کی تحریک کے دوران سکھرسنیٹرل جیل میں قید تھے۔انہوں نے سندھ یونیورسٹی جا مشورو سے ایم اے اسلامک کلچر کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔انہوں نے دعوہ اکیڈمی اسلام آباد سے ائمہ کاکورس کیا۔اورمصر کی عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی قاہرہ سے متعدد ڈگریاں حاصل کیں۔
تصوف کے میدان میں علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کی بیعت حضرت مولانا عبدالکریم قریشی آف بیر شریف سے تھی۔ان کی رحلت کے بعد علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو نے عالمی تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد کندیاں شریف سے بیعت کی ۔
علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو نے عملی سیاست جمعیت طلبائے اسلام سے شروع کی، وہ ضلع ،صوبہ ، اور مرکز کے عہدوں پر فائز رہے۔انہوں نے تعلیم کی تکمیل کے بعد جمعیت طلبائے اسلام سے جمعیت علمائے اسلام کی طرف اپنی سیاسی زندگی کاآغازکیا۔وہ جمعیت علمائے اسلام ضلع لاڑکانہ کے سیکریٹری جنرل ہوئے، پھر صوبہ سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری بنے ۔
علامہ سید محمدشاہ امروٹی کی وفات کے بعد سندھ میں قیادت کا بہت بڑا بحران آیا۔لیکن اللہ تعالی کے فضل وکرم سے علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو نے رات دن محنت کرکے تنظیم کو منظم کیااور اس خلا کو پرُ کیا۔غالباً 1992ء میں علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو جمعیت علمائے اسلام صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے ۔اور تادم شہادت اسی منصب پر فائز رہے۔وہ 2006ء سے 2012ء تک سینیٹ کے ممبر رہے۔ان کا سینیٹ میں کردار انتہائی اہم رہا۔ انہوں نے جمعیت کی پالیسی کی ہمیشہ پاس داری کی۔ انہوں نے سینیٹ میں بھی بلا امتیاز غریبوں،کسانوں،مزدوروں اور پس ماندہ طبقہ کی بھرپورنمائندگی کی۔وہ ایک عوامی سینیٹر کے طور پر جانے جاتے تھے ۔جو سندھ کے مڈل کلاس خاندان سے وابسطہ تھے، پارلیمنٹ میں جب وہ گرجتے تھے تو ایوان لرزجاتاتھا۔
ڈاکٹر صاحب اپنے زمانے کے مشہور خطیب بھی تھے سندھ میں۔ایم آر ڈی کی تحریک ،تحریک نظام مصطفی اور تحریک ناموس رسالت میں انہوں نے اپنی خطابت اور تقاریر سے روح پھونک دی تھی۔
علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کی قیادت میں 9دسمبر 2010ء کو سکھر میں تحفظ ناموس رسالت ریلی ٹھیڑی بائی پاس سے سکھر گھنٹہ گھر تک نکالی تھی۔ جس میں انسانوں کا سمندر تھا۔ایسی ریلی سندھ کی تاریخ میں کبھی نہیں نکلی۔اس کام یاب ریلی کے بعد علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کو قائد سندھ کے لقب سے پکاراجاتاتھا۔
علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کی زندگی کا ایک شاہکار سکھر میں 14اکتوبر2012ء کو اسلام زندہ باد کانفرنس بھی ہے۔ ملکی تاریخ میں اتنا بڑا اجتماع کہیں بھی نہیں ہوا۔یہ کانفرنس ڈاکٹرصاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔
وہ بڑے بے غرض انسان تھے، انہوں نے قوم و ملت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔وہ ایک سماجی کارکن بھی تھے۔سیکڑوں گھرانوں کو راشن تک مہیاکرتے تھے۔ لاڑکانہ میں مدارس ومساجد کا قیام ڈاکٹرصاحب کا عظیم کارنامہ تھا۔
سندھ میں 2010ء میں سیلاب نے جو تباہی پھیلارکھی تھی۔اس مشکل وقت میں علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کی خدمات قابل تحسین ہیں۔وہ سندھ کے کونے کونے میں امدادلے کر گئے۔خود اپنے ہاتھوں سے اشیاء خوردونوش، آٹا،کھجور،کپڑے کی صورت میں سیلاب زندگان کی مدد و اعانت کی۔اس مد میں دوکروڑ ستائیس لاکھ کی خطیر رقم سیلاب زندگان میں تقسیم کی۔
علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو وقت کے ایک بہت بڑے سیاسی حکیم تھے۔جس نے سندھ کے لوگوں کے مہلک مرض کی تشخیص کر لی تھی۔80کی دھائی میں سندھ قوم پرست اور سیکولر قوتوں کی زدمیں تھا۔کالج اور یونیورسٹیوں میں نظریاتی جنگ چھڑچکی تھی۔نوجوان نسل کارجحان سوشلزم اور کمیونزم کی طرف ہو چکا تھا۔سندھ کانوجوان اسلام کو دقیانوسی مذہب اور استحصالی نظام سے تعبیر کرنے لگا تھا۔قوم پرست سندھ کے نوجوانوں کو سبز باغ دکھاکر یہ باور کرواتے تھے کہ قومی حقوق غصب کرنے والی قوتوں کا دفاع اسلام کررہاہے۔لہٰذا اسلام ایک استحصالی قوت ہے۔یہاں تک کے سندھ کا نوجوان خدا کا ہی انکاری ہوچکاتھا۔ان حالات کا نوٹس بر وقت وادی مہران کے بے تاج بادشاہ علامہ سید محمدشاہ امروٹی نے لے لیا تھا۔ علامہ سید محمدشاہ امروٹی نے سندھ کے کالج اور یونیورسٹیوں کا رخ کیا۔وہاں جاکر سندھ کے مسائل کا اسلام میں تحفظ کے عنوان پر پرُمغز اور مدلل لیکچرز دیے۔ان پروگرامات میں علامہ سید محمدشاہ امروٹی کی رفاقت میں علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومر بھی ہواکرتے تھے۔
علامہ امروٹی کی شفقت بھری رفاقت اور تربیت نے ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کونوید بخشی۔
لہٰذا ان کی وفات کے بعد علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو اس مشن کولے کر بڑی جرأت کے ساتھ میدان عمل میں کودپڑے۔ مجھے یادہے سندھ کے مسائل پر 85یا86میں علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کا پہلا انٹرویو کاوش اخبار میں شایع ہوا۔بہت سارے لوگوں نے ڈاکٹرصاحب سے اختلاف بھی کیے، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ علامہ ڈاکٹر صاحب کی حکمت عملی اور سیاسی موٴقف جمعیت کے لیے درست ثابت ہوئی ۔ڈاکٹر صاحب کے اس انٹرویو کے بعد سندھ کی قوم پرست تنظیموں نے قریب آکر جمعیت علمائے اسلام کے موٴقف کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سندھ میں کوٹہ سسٹم اور کالاباغ ڈیم کا ایشوابھرا ، تو سندھ کے علماء نے شرعی حیثیت سے جائزہ لے کر ایک مدلل فتوی مرتب کیا۔جس کے بعد قوم پرست قوتیں علماء کے اور قریب ہوئیں۔اور اسلام کا مطالعہ کرنے کاانہیں موقعہ ملا۔اس تحقیقی عمل میں فقیہ العصر شیخ الحدیث مولانامحمد مرادہالیجوی کی خدمات قابل تحسین ہیں۔علامہ امروٹی کی وفات کے بعد ڈاکٹرصاحب کی تربیت اور حوصلہ افزائی شیخ الحدیث مولانامحمد مرادہالیجوی نے فرمائی۔مجھے وہ وقت یا د ہے کہ شیخ الحدیث مولانا محمد مرادہالیجوی کی وفات کے دوسرے دن مسجدمنزل گاہ سے عصر کی نماز پڑھ کر ڈاکٹر صاحب اور میں اکٹھے نکلے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں میرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ حسین احمد! جب ہم کسی مسئلے میں پھنستے تھے تو سائیں محمد مراد کے پاس آجاتے تھے۔اب ہم کہاں جائیں گے؟واقعتا شیخ الحدیث مولانامحمد مرادہالیجوی سندھ کے عظیم سپوت تھے۔ جو تادم زیست سندھ کے ایشوز پر شرعی نقطہ نگاہ سے ڈاکٹر صاحب کو مواد فراہم کرتے رہے۔اور ڈاکٹر صاحب جرأت اور جواں مردی سے جمعیت کاموٴقف سیاسی ایوانوں میں پیش کرتے رہے۔
میں کہتاہوں کہ علامہ سید محمدشاہ امروٹی ، شیخ الحدیث مولانامحمد مرادہالیجوی اور علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کا سندھ پر احسان ہے کہ انہوں نے فکر و فلسفہ اور حکمت عملی سے سندھ کی نوجوان نسل کا قبلہ درست کیا۔انہی کی محنت ہے کہ آج کانوجوان اسلام سے نفرت نہیں، محبت کررہاہے۔ اور آج کے قوم پرست علماء کے قریب ہو رہے ہیں۔یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کی شہادت پر بہت سے قوم پرست اور اپنے ساتھیوں کے قلم و زبان سے یہ الفاظ بے ساختہ نکل پڑے ہیں کہ ڈاکٹرصاحب واحد عالم دین تھے جو قوم پرست تھے اور سندھ کے حقوق کی بات کرتے تھے۔
میرے محترم علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو قائد سندھ جمعیت تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کا پالیسی ساز ادارہ مجلس عمومی ہے، انہی کے آگے تنظیم کا سربراہ بھی جواب دہ ہوتاہے۔ لہٰذا جو پالیسی مجلس عمومی بناتی ہے قائد اس کی تشریح اور ترجمانی کرتاہے۔معاف کیجیے علامہ ڈاکٹرصاحب خداپرست تھے، قوم پرست نہیں اورعلامہ ڈاکٹرصاحب نے سندھ کے حقوق پر جو بھی بات کی تھی وہ جمعیت علمائے اسلام کی پالیسی ہے۔یہ موٴقف ڈاکٹرصاحب کا نہیں، پوری جماعت جمعیت علمائے اسلام کا تھا۔اس طرح کی باتیں کرنے اور لکھنے والے حضرات اپنی غلط فہمی دور کریں۔
بہر حال یہ ایک حقیقت ہے ایک عالم دین کی موت پورے عالم کی موت ہوتی ہے۔حدیث میں بھی آیا ہے کہ قرب قیامت میں علماء اٹھالیے جائیں گے۔ علماء کو انبیاء کا وارث کہا گیاہے۔انہی ورثاء انبیاء میں ایک نام شہید اسلام علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کابھی ہے۔ جنہوں نے 40برس سے زیادہ دین اسلام کی حقیقی خدمت کی اور اسلام کا ہر محاذ پر دفاع کیا۔
علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو زندگی کا آخری خطاب پیغام امن واستحکام وطن کنونشن میں ہوا۔جو 28نومبر 2014ء کو محمد بن قاسم پارک سکھر میں جمعیت علمائے اسلام سٹی سکھر کی جانب سے کروایا گیاتھا۔جہاں پر انہوں نے حضرت مفتی محمود سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہارکرتے ہوئے مفتی صاحب سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔عمران خان کی مغربی تہذیب کو للکارا، ملک کی مقتدر قوتوں کی بے حسی کو بے نقاب کیا ،عوام کے حقوق کے تحفظ کی بات کی، امن کی پاس داری کا درس دیا، شہادت کی آرزو کی اور قبائلی فسادات ختم کروانے کا عزم کیا۔لیکن یہ ا س ملک کی بدقسمتی کہلائے گی کہ امن کے داعی پیغام امن کا درس دینے کی پاداش میں 29نومبر2014ء صبح کی نماز پڑھتے ہوئے شہیدکردیے گئے ۔
کسی نے کہا #
باغ باقی ہے باغباں نہ رہا
اپنے پھولوں کا پاسباں نہ رہا
کارواں تو ہے اور رہے گا
مگر ہائے وہ میر کارواں نہ رہا
علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کی شہادت ایک فرد کی جدائی ہی نہیں،بلکہ علم وحلم، جہدوعمل، زہدو تقوی ، سخاوت، خوداری واستغناء اور صبروتحمل جیسی صفات عالیہ کی موت ہے ۔آپ ایک زندہ دل اور بے تکلف انسان تھے۔ کار کن ان کے لیے متاع جان کی حیثیت رکھتے تھے اور وہ کارکن پر اپنی جان، مال، غرض سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے آمادہ ہوا کرتے تھے۔ایسے عظیم قائد کی شہادت جمعیت علمائے اسلام کے لیے بہت بڑا المیہ ہے ۔
ہمارے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن بھی غم میں نڈھال ہو گئے اور کہہ بیٹھے ڈاکٹر صاحب کی شہادت نے ہماری کمر توڑدی ہے اور مزید کہا کہ ظالموں نے مجھ سے میرا بھائی چھین لیا۔
اب سندھ جمعیت میں بھی قیادت کا بحران ہے۔ اب ہماری گذارش ہے، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن اور حضرت سائیں عبدالصمد صاحب ہالیجوی کی خدمت عالیہ میں کہ علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومروصاحب اپنے باغ پر بہت محنت کرکے گئے ہیں، انہوں نے پھول اُگائے ہیں، اب آپ دست شفقت رکھ کر ان پھولوں کی پرورش کریں ۔
علامہ ڈاکٹرخالد محمود سومرو صاحب کے6بیٹے، تین بیٹیاں اور ایک بیوہ اور لاکھوں کارکنان جمعیت کو سو گوا ر کرکے اپنے رب سے جاملے ۔علامہ ڈاکٹرخالد محمود سومرو صاحب کی نماز جنازہ لاڑکانہ کے میونسپل اسٹیڈیم میں ادا کی گئی، جس میں انسانوں کا جم غفیر موجود تھا۔ علامہ ڈاکٹرخالدمحمود سومرو شہید کو حقانی کالونی میں سپرد خاک کردیا گیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون․