Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

3 - 18
دل کا اطمینان صرف الله کے ذکر سے

مفتی محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی
	
زندگی رواں پیہم دواں رہتی ہے اوراس کی رفتارعصر حاضر کے تناظر میں کافی بڑھ گئی ہے، زندگی جسم وروح سے مرکب ہے اور روح کو اصل کا درجہ حاصل ہے، جب روح نکل جائے تو زندگی کی رفتار پر بریک لگ جاتا ہے، اس بھاگم بھاگ زندگی میں، انسان نے ترقی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے، فاصلوں کو سمیٹ کر دنیا کو ایک آنگن بنادیا، آواز، رفتار اور ہوا کو مشین میں قید کرنے کی صلاحیت پیدا کرلی، گرمی میں مصنوعی سردی اور سردی میں مصنوعی گرمی کا انتظام کرلیا، آرام وآسائش کے وسائل وذرائع کے انبار لگادیے، چلنے پھرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ طرح طرح کی گاڑیاں ایجاد کرلیں،بلکہ اڑنے کے لیے ہوائی جہاز بنا ڈالے اور چاند پر کمندیں ڈال آیا، کھانے پینے کی چیزوں کی فہرست اتنی لمبی ہوگئی کہ گویا زندگی کھانے پینے کے لیے ہی ہے، مکانات اور بلڈنگیں ایسی ایسی بنا ڈالیں کہ زمین اور فضا تنگ پڑنے لگی اور ترقی کا یہ سفر کہاں رکے گا کہنا مشکل ہے؛ یقینا ان ترقیات سے انسانی زندگی آسان سے آسان تر ہوتی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی بساط کے مطابق کم یا زیادہ اس سے مستفید ہورہا ہے۔

اس دنیا میں بنیادی طور سے دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں، اکثریت ایسے روشن دماغ لوگوں کی ہے جن کا نظریہ ترقیات کے حوالے سے یہ ہے کہ یہی مقصد زندگی ہیں اور بس۔ جوانی چار دن کی چاندنی ہے خوب مزے اڑالو، یہ ان کا عقیدہ ہے ان کے یہاں عصمت وعفت اور تہذیب واخلاق کا معیار ہی الگ ہے،اور کچھ اللہ کے روشن ضمیربندے ایسے ہیں جو انھیں، وسائل واسباب سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے، جس کی وجہ سے اول الذکر نظریہ کے حاملین، انھیں دقیانوس، قدامت پرست اور ترقی کے دشمن شمار کرتے ہیں، اس کے باوجود ثانی الذکر نظریہ کے حاملین اپنے اس عقیدے پر نہ صر ف جمے ہوئے ہیں؛ بلکہ اسے حرز جان بنا کرفلاحِ دارین کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس میں دو رائے نہیں کہ یہ لوگ اپنی اس رائے میں شرعاً حق بجانب ہیں اور وہ نہیں۔

لیکن ترقی کی اس دوڑ میں ایک چیز کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی درجے میں مفقود ہوگئی ہے اور وہ ہے” سکون واطمینان“ میری مراد دل کا سکون اور قلب کا ا طمینان ہے، لوگ جسمانی راحت وآرام تو پارہے ہیں، لیکن قلبی اطمینان سے کوسوں دور ہیں، لوگ مال ودولت کو جمع کررہے ہیں؛ لیکن اس سے سکون واطمینان حاصل نہیں کر پارہے ہیں، اسباب سکون تو انھیں قیمتاً مل جاتے ہیں، لیکن حقیقتِ سکون کے متلاشی وہ اب بھی ہیں، غیر تو خیر اس بے اطمینانی کے شکار ہیں ہی کہ وہ ایمان جیسی بنیادی دولت سے ہی محروم ہیں، جس پر ہر طرح کے اطمینان وسکون کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، اپنے مسلمان بھائی بھی بڑی تعداد میں بے اطمینانی کے شکار اور قلبی سکون سے محروم ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پریشانیوں کا شکار ہے، ہر طرف مصائب کا تذکرہ اورہر سو تفکرات کی داستان اورہر گلی نُکَّڑپر معاشی تنگی کے گلے شکوے ہیں۔

ذکر خداوندی ہر درد کا درماں
ایسے وقت میں کیا کیا جائے کہ سکون قلب حاصل ہو، کیا اسباب اختیار کیے جائیں کہ قلبی اطمینان میسر آئے،یہ ایک حساس اور جواب طلب، سوال ہے، ایک ایمان رکھنے والے کامل مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سوال کا جواب وحی کی روشنی میں حاصل کرے، جو اس کے پاس قرآن کی شکل میں محفوظ ہے، قرآن کی ایک چھوٹی سی آیت اس کا جواب دے رہی ہے : ﴿ أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب﴾(سورہ رعد:28)، سنو ! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے، یہ چھوٹی سی آیت ہمیں بتارہی ہے کہ آج دنیا سکون کے اسباب چاہے جتنا پیدا کرلے ،اصل سکون تو اسی وقت حاصل ہوگا کہ انسان ذکر خداوندی سے غافل نہ ہو اور اگر یہ دولت اسے مل گئی تو دنیا کی ساری دولت اس کے سامنے ہیچ ہے، دنیا کے سارے اسباب سکون اس کے پاس نہ ہوں، کوئی غم نہیں، تنہا یہ سکون، اس کے لیے کافی ہے، دنیا کے سارے درد، جان لیوا ہیں، لیکن ذکر خداوندی کا ورد روح بخش ہے؛ بلکہ یہی دردکا اصل درماں ہے، سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے قلب شاکر اور لسانِ ذاکر کی دولت مل گئی اسے دارین کی بھلائی مل گئی ۔ (مشکوٰة ص:282)

ایک دوسری آیت میں ا للہ نے ارشاد فرمایا: ﴿فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُواْ لِیْ وَلاَ تَکْفُرُون﴾․(پس تم میرا ذکر کرو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرتے رہو اور نا شکری نہ کرو)۔(سورہٴ بقرہ:152)

غور کریں اللہ نے ہمیں ایک مکمل انسان بنایا، پکڑنے کے لیے ہاتھ، چلنے کے لیے پاوٴں، کھانے کے لیے منھ، دیکھنے کے لیے آنکھ، سونگھنے کے لیے ناک اورسمجھنے کے لیے دل ودماغ عطا فرمائے، کیا خدا کے سوا کوئی اور ہے جس نے یہ نعمتیں ہمیں عطا فرمائی ہوں، اسی طرح زندگی گزارنے کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان اور روپئے، پیسے، آل واولاد کس نے عطا کی؟ کیا انسان صرف اپنے بل بوتے پر ان چیزوں کو حاصل کرسکتا ہے؟ ہر گز نہیں، جس خدانے ہمیں ساری چیزیں عطا فرمائی ہیں اس کی ربوبیت وخالقیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کے احسانات وانعامات کو ہر آن یاد رکھیں اور یاد رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے محبت کا اظہار کریں، اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کریں، اس کی عبادت کریں، مامورات کو بجالائیں، منہیات سے مکمل اجتناب کریں، گناہ ہوجائے تو توبہ واستغفار کریں، اللہ کا ذکر ہم کریں گے، اللہ کو ہم یاد کریں گے تو اللہ ہمیں یاد کریں گے، لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہماری نہیں سنتے۔(نعوذ باللہ) یعنی ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔ تو ہم اللہ کی کب سنتے ہیں؟ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، ہم اللہ کی سنیں گے تو اللہ ہماری سنے گا، ہر چیز کے لیے کچھ شرطیں ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے ذکر میں جو برکت، لذت، حلاوت اور سرور وطمانینت ہے وہ کسی ایسے شخص سے مخفی نہیں جو کچھ دن اس پاک نام کی رٹ لگا چکا ہو اور ایک زمانہ تک اس کو حرز جان بنا چکا ہو، اللہ کے ذکر کی خاصیت ہی ”سکون واطمیان“ ہے۔

جتنا ممکن ہو ذکر خدا کیجیے
اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اگر کوئی آیت یا حدیث نبوی نہ بھی وارد ہوتی تب بھی اس منعم حقیقی کا ذکر ایسا تھا کہ بندہ کو کسی آن بھی اس سے غافل نہ ہونا چاہیے تھا،انسان جس حال میں ہو اس سے ذکر خدا مطلوب ہے اور یہ انسان کے بس میں ہے، اس کی گرفت سے باہر نہیں، انسان اگر مصروف نہیں ہے تو زبان سے خدا کا ذکر کرتا رہے، مصروف ہے تو دل خدا کی طرف اور اس کی یاد میں مشغول رکھے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی کی کتاب کا ایک اقتباس پڑھیے:

”جس قدر ہو سکے اللہ تعالیٰ کا نام لیتے رہنا، قرآن وحدیث میں اس کا حکم بھی ہے اور فضیلت وثواب بھی اور کچھ مشکل کام بھی نہیں تو ایسے آسان کام میں بے پروائی یا سستی کر کے حکم کے خلاف کرنا اور اتنا بڑا ثواب کھو کر اپنا نقصان کرنا، کیسی بے جا اور بری بات ہے؟! پھر اللہ تعالیٰ کا نام لیتے رہنے میں نہ کسی گنتی کی قید ہے اور نہ وقت کی اور نہ تسبیح رکھنے کی، نہ پکار کر پڑھنے کی، نہ وضو کی، نہ قبلہ کی طرف منھ کر نے کی، نہ کسی خاص جگہ کی، نہ ایک جگہ بیٹھنے کی، ہر طرح سے آزادی اور اختیار ہے پھر کیا مشکل ہے؟ “

آگے لکھتے ہیں:
”وہ (شیطان) ایک دھوکہ یہ بھی دیتا ہے کہ جب دل تو دنیا کے کاموں میں پھنسا رہا اور زبان سے اللہ کا نام لیتے رہے تو اس سے کیا فائدہ؟ تو خوب سمجھ لو کہ یہ بھی غلطی ہے، جب دل سے یہ نیت کر کے ہم ثواب کے واسطے اللہ کا نام لینا شروع کرتے ہیں، اس کے بعد اگر دل دوسری طرف بھی ہو جائے، مگر نیت نہ بدلے، برابر ثواب ملتا رہے گا؛ البتہ جو وقت اورکاموں سے خالی ہو اس میں دل کو ذکر کی طرف متوجہ رکھنے کی بھی کوشش کرے، فضول قصوں کی طرف خیال نہ لے جائے، تاکہ اور زیادہ ثواب ہو۔“( حیوة المسلمین روح سیزدہم ص: 93)

زندگی کا بھروسہ نہیں
یہ دنیا چند روزہ ہے،آئندہ آفتاب وماہ تاب بے نور ہونے والے ہیں، ستاروں کی چمک ماند پڑنے والی ہے، سمندر آگ اگلنے والا ہے اور اس زندگی کا کوئی بھروسہ بھی نہیں ہے، اس مختصر حیات پر انسان خوب اتراتا ہے؛ حالاں کہ تارِ نفس دو ہچکیوں میں ٹوٹ سکتا ہے، عمر برف کی طرح چپکے چپکے پگھل رہی ہے، اگر ذکر خدا سے اسے کار آمد نہیں بنایا گیا تو جہاں دنیا میں سکون کا حصول ممکن نہیں؛ وہیں آخرت کی ابدی زندگی میں بھی سکون وآرام مشکل سے ملیں گے، اگر چوبیس گھنٹوں میں سے صرف چند لمحے نکال کر انسان خدا کو یاد کرنے کا معمول بنالے تو سکون واطمینان کی دولت اس کے ہاتھ آسکتی ہے کہ ذکر ایک ایسی روشنی ہے جس کی ایک ہلکی سی کرن بھی بے پناہ تاریکی اور بے اطمینانی کے دبیز پردوں کوچاک کر کے مسرت وشادمانی کے پھول کھلا سکتی ہے۔

اللہ کو یاد کرنے کا بہترین ذریعہ پنج وقتہ نماز ہے، جسے دین کا ستون، مومن کی معراج، سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا ہے، جسے اسلام وکفر کے درمیان حد فاصل بتایا گیا ہے، جس کی ادائیگی پر بے پناہ اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اور جس کے چھوڑنے پرسخت قسم کی وعید سنائی گئی ہے؛ لیکن افسوس ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں نماز جیسی اہم عبادت سے ایک بڑا طبقہ محروم ہے؛ حالاں کہ نماز ذکرِ خداوندی کا ایک موٴثر اور بنیادی ذریعہ ہے، اب سوچیے جس سکون کے ہم اور آپ متلاشی ہیں وہ کیسے پاسکتے ہیں؟ کوئی چیز مفت ہاتھ نہیں آتی، تو سکون واطمینان اتنی سستی چیز نہیں ہے کہ وہ مفت حاصل ہوجائے۔

سکونِ قلب کا اصل سرمایہ کیا ہے؟
لُٹے ہوئے دل کا سکون، خدا کے ذکرمیں ہی ہے، کھوئے ہوئے قلب کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہی ہے، اس سے صرفِ نظر کرکے، سکون کی تلاش میں جہاں کہیں جائیں گے وہاں صرف اور صرف ظاہری سکون، جیسی لذتیں ملیں گی، اوریہ ایک شرعی حقیقت ہے، کسی فلسفی یا صوفی کا ارشاد نہیں؛بلکہ رب کائنات کا ارشاد ہے، جس کی صداقت وسچائی میں شبہ کفر کا دوسرا نام ہے” خوب سمجھ لو اللہ کے ذکر میں (یہ خاصیت ہے کہ اس سے) دلوں کو اطمینان ہوجاتا ہے۔“ لوگ دل کے سکون کے لیے آج کلب جاتے ہیں، وہاں انھیں شہوانی سکون تو مل سکتا ہے، حقیقی سکون نہیں، لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ سکون کی تلاش میں انٹر نیٹ پر وقت ضائع کرتا ہے، انھیں وہاں بے حیائی، عریانیت اوراخلاق سوز مواد زیادہ اور سکون واطمینان کے ذرائع برائے نام ملتے ہیں، لوگ سکون کے لیے آج شراب وشباب کی مستیاں لوٹتے ہیں، کیا سکون اس کو کہتے ہیں؟ لوگ سکون کے لیے سیروتفریح کے لیے جاتے ہیں؛ لیکن اس کے بعد پھر وہی بے اطمینانی!! لوگ سکون کے لیے فلمیں دیکھتے اور گانے سنتے ہیں، کیا اس سے سکون مل گیا؟ دنیا میں سکون کے جتنے ذرائع ہوسکتے ہیں سبھی کو ایک ایک کر کے لوگ استعمال کررہے ہیں، لیکن سکون ندارد، اور سکون کا جو اصل سرمایہ اور حقیقی وسیلہ ہے اسے اختیار کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے ہم اس حقیقت کو سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں، ورنہ ہماری مثال اس مچھلی جیسی ہوگی جسے پانی کے باہر پھینک دیا گیا ہو اور اسے کہا جائے آرام وسکون سے رہو۔

ذکر ایک آسان عبادت
چوں کہ ذکر کی کثرت مطلوب ہے؛ اس لیے شریعت نے اس کے لیے وضو، وقت،استقبال قبلہ، جگہ اور خاص ہیئت وغیرہ کی قید نہیں لگائی ؛ تاکہ ہرباتوفیق مومن اپنے دامن کو ذکر کے ہیرے موتیوں سے بھر سکے، کوئی محروم نہ رہے اور اللہ کو ذکر اتنا پسند ہے کہ اس نے شب وروز کی گردش کا ایسا نظام بنایا کہ پوری دنیا میں کوئی لمحہ ذکر خداوندی سے خالی نہیں رہتا، دیکھیے! جانور ذبح کرتے وقت، خدا کا ذکر، اذان ونماز میں خدا کا ذکر، حج میں خدا کا سراپا ذکر، بلکہ ہر وہ کام جس سے پہلے اللہ کا ذکرنہ ہو اسے نا مکمل بتایا گیا ہے، اسی لیے اللہ نے ﴿ولذکر اللہ اکبر﴾(یقینا خدا کا ذکر بہت بڑی چیز ہے) فرمایا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ذکر سے متعلق اللہ نے بہت ساری آیتیں نازل فرمائی ہیں، شیخ الحدیث مولانا زکریا نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں قرآن کریم کے ایسے 54مقامات کا انتخاب کیا ہے جن میں ذکر خداوندی کی تاکید وتعریف کی گئی ہے، اور اگر بات احادیث کی کریں تو احاطہ بہت مشکل ہے۔

شیخ الحدیث صاحب لکھتے ہیں:
”جب کہ اس مضمون میں قرآن پاک کی آیات اس کثرت سے موجودہیں تو احادیث کا کیا پوچھنا ؛کیوں کہ قرآن شریف کے کل تیس پارے ہیں اور حدیث شریف کی لا تعداد کتابیں ہیں اور ہر کتاب میں بے شمار حدیثیں ہیں، ایک بخاری شریف ہی کے بڑے بڑے تیس پارے ہیں اور ابو داوٴد شریف کے بتیس پارے ہیں اور کوئی کتاب بھی ایسی نہیں کہ اس مبارک ذکر سے خالی ہو، اس لیے احادیث کا احاطہ کون کرسکتا ہے؟ نمونہ اور عمل کے واسطے ایک آیت اور ایک حدیث بھی کافی ہے اور جس کو عمل ہی نہیں کرنا اس کے لیے دفتر کے دفتر بے کار ہیں، کمثل الحمار یحمل أسفارا․“ (فضائل ذکر ،ص:14)

اس عالم فانی میں اگر کوئی انسان کسی پر احسان کرتا ہے تو وہ انسان اپنے محسن کو یاد رکھتا ہے اور یاد رکھنا ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے، الإنسان عبد الإحسان مقولہ مشہور ہے، تو وہ خدا جس نے ہمیں ایسی ایسی نعمتیں عطا کی ہیں کہ کوئی دوسرا وہ عطا نہیں کرسکتا تو کیا خدا کے احسانوں کے بدلے ہمارے اوپر ضروری نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے محسنِ حقیقی کو یاد رکھیں؟!

شیخ الحدیث صاحب نے دل کی بات لکھی ہے، جو دل کو لگتی ہے:
”اس ذاتِ پاک کے انعام واحسان ہر آن اتنے کثیر ہیں جن کی نہ کوئی انتہا ہے نہ مثال، ایسے منعم کا ذکر، اس کی یاد، اس کا شکر، اس کی احسان مندی فطری چیز ہے۔
خداوندِ عالم کے قربان میں
کرم جس کے لاکھوں ہیں ہر آن میں

لیکن اس کے ساتھ جب قرآن وحدیث اور بزرگوں کے اقوال واحوال اس پاک ذکر کی ترغیب وتحریض سے بھرے ہوئے ہیں تو پھر کیا پوچھنا ہے، اس پاک ذکر کی برکات کا اور کیا ٹھکانہ ہے اس کے انوار کا۔“ (فضائل ذکر، ص:4)

کچھ خاص اذکار
ویسے تو خدا کو جیسے بھی یاد کیا جائے، ذکر کا ثواب ملے گا، لیکن احادیث میں خاص خاص ذکروں کا بھی ثواب منقول ہے، جو آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں، جنید وقت حضرت تھانوی نے کچھ آسان اذکار کی نشان دہی کی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انھیں یہاں نقل کردیا جائے، ممکن ہے کہ یہ راقم آثم کے لیے توفیق کا ذریعہ بن جائے اور الدالُ علی الخیرِ کفاعلِہ کا مصداق بن جائے، وہ یہ ہیں:

(الف) لا إلٰہ إلا اللّٰہ (یامع) محمد رسول اللّٰہ ا (ب) سبحان اللہ (ج) الحمد للّٰہ (د) اللّٰہ اکبر (ہ) لا حول ولا قوة إلا باللہ (و) استغفر اللہ وأتوب إلیہ،درود شریف جو کئی طرح سے ہے، جن میں ایک ہلکا سا یہ ہے اللہم صل علی آل محمد․ (نسائی عن زید بن خارجہ)

خلاصہ یہ ہے کہ ذکر سے غافل مت ہو، خواہ کوئی خاص ذکر کرو یا عام، خواہ ہر وقت ایک ہی یا کسی وقت کوئی، کسی وقت کوئی ، بے گنتی خواہ، انگلیوں یا تسبیح پر اور بعض دعائیں خاص وقتوں کی بھی ہیں، اگر شوق ہو تو کسی دین دار عالم سے پوچھ لو ،ورنہ نمونے کے طور پر ابھی جو لکھ دی ہیں یہ کافی ہیں، اللہ توفیق بخشے۔ (حیوة المسلمین ص:98)

Flag Counter