Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

2 - 18
سیرت طیبہ میں
تاجروں کے لیے رہنمائی

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
یک غلط ذہن کی اصلاح
موجودہ دور میں ایک دین دار طبقہ کم عقلی اور بے دینی کی وجہ سے یہ ذہن رکھتاہے کہ محنت کرنے اور کمانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ تو رزق دینے میں ہماری محنت کے محتاج نہیں ہیں، وہ ایسے بھی دینے پر قادر ہیں، لہٰذا ہمیں کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم تو اعمال کے ذریعے اللہ سے لیں گے، اسباب کے ذریعے نہیں۔

تو اس بارے میں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ایک ہے اسباب کا اختیار کرنا اور انہیں استعمال کرنا اور ایک ہے ان اسباب کو دل میں اتارنا اور ان پر یقین رکھنا؛ پہلی چیز کو اپنانا محمود اور مطلوب ہے اور دوسری چیز کو اپنانا مذموم ہے، ہماری محنت کا رُخ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان اسباب کی محبت اور یقین دل سے نکالیں اور اس کے برعکس یقین اللہ تعالیٰ پر رکھیں، کہ ہماری ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے والی ذات؛ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، وہ چاہے تو اسباب کے ذریعے ہماری حاجات وضروریات پوری کر دے اور چاہے تو ان اسباب کے بغیر محض اپنی قدرت سے ہماری ضروریات وحاجات پوری کر دے، وہ اس پر پوری طرح قادر اور خود مختار ہے۔ البتہ ! ہم اس دارالاسباب میں اسباب اختیار کرنے کے پابند ہیں، تاکہ بوقتِ حاجت وضرورت ہماری نگاہ وتوجہ غیر اللہ کی طرف نہ اٹھ جائے۔

اس بات میں تو کوئی شک وشبہ ہے ہی نہیں کہ اللہ رب العزت ہماری محنتوں کے،محتاج نہیں ہیں، لیکن کیا شریعت کا مزاج اور منشا بھی یہ ہی ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں؟! بالخصوص جب، اس ترکِ اسباب کا نتیجہ یہ نکلتا ہو کہ بیوی، بچوں اور والدین کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور یہ غیروں کے اموال کی طرف حرص وہوس کے ساتھ دیکھتا رہتا ہے، تو یاد رکھیں کہ اس طرح کے لوگوں کو شریعت اس طرزِ عمل کی تعلیم نہیں دیتی، بلکہ سیرتِ نبوی اور سیرتِ صحابہ تو حلال طریقے سے کسب ِ معاش کی تعلیم دیتی ہے، ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپناکما کے کھاوٴ، دوسرے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاوٴ، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تونگری کی وجہ سے آج کے دور میں ہمارا دین وایمان محفوظ رہے گا، ورنہ اندیشہ ہے کہ اختیاری فقر وفاقہ کہیں کفر وشرک کے قریب ہی نہ لے جائے۔ہاں! اولیاء اللہ اور یقین و توکل کے اعلیٰ درجہ پر فائز لوگوں کا معاملہ اور ہے۔

حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی زریں نصائح
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گذشتہ زمانہ میں مال کو بُراسمجھا جاتا تھا، لیکن جہاں تک آج کے زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال ودولت مسلمانوں کی ڈھال ہے، حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایاکہ اگر یہ درہم ودینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ سلاطین وامراء ہمیں بے دست وپا بنا کر ذلیل وپامال کر ڈالتے، نیز! انہوں نے فرمایا: کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کی اصلاح کرے، کیوں کہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج ومفلس ہو گا تو اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلا شخص وہی ہو گا۔

عن سفیان الثوري رحمہ اللہ قال:کانَ الْمالُ فِیْما مَضیٰ یُکرَہ، فأمَّا الْیَومَ فھُو تُرْسُ المُوٴمِنِ، وقال: لو لا ھٰذہِ الدَّنانِیرُ لتَمَنْدَلَ بنا ھٰوٴلآء المُلوکُ، وقال: مَن کانَ فِيْ یدِہ مِن ھٰذہ شییٴٌ فلیُصلِحْہ، فإنّہ زَمانٌ إنِ احْتَاجَ کانَ أوّلُ مَنْ یَبْذُلُ دِینَہ․(حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء، سفیان الثوري، 381/6)

توضیحات شرح مشکاة میں لکھا ہے: ”فیما مضٰی یکرہ“، یعنی پچھلے زمانہ میں مال ودولت کو ناپسند کیا جاتا تھا، موٴمن اورمتقی حضرات مال کو مکروہ سمجھتے تھے، کیوں کہ عام ماحول زہد وتقویٰ کا تھا، لوگ غریب و فقیر کو ذلیل وفقیر نہیں سمجھتے تھے، مالی کمزوری کی وجہ سے اس کے ایمان کو تباہ نہیں کرتے تھے، نیز بادشاہ اور حکم ران بھی اچھے ہوتے تھے، جو غریب کو سنبھالا دیتے تھے، اس لیے لوگ مال ودولت اکٹھا نہیں کرتے تھے اور اکٹھا کرنے کو معیوب سمجھتے تھے، مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے کہ غریب وفقیر آدمی کو معاشرہ میں ذلیل وحقیر سمجھتے ہیں اور پیسے کی بنیاد پر اس کے ایمان کو خریدا جاتا ہے، نیز! حکمران بھی خیر خواہ نہیں رہے، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ غریب آدمی مال داروں اور حکم رانوں کا دستِ نگر اور دست پناہ بن جائے گا اور ان کے ہاتھ صاف کرنے اور میل کچیل صاف کرنے کے لیے تولیہ اور رومال بن جائے گا۔

پھر مزید لکھا ہے: جس شخص کے پاس اس مال میں سے کچھ بھی ہو وہ اس کی اصلاح کرے، مطلب یہ کہ تھوڑا پیسہ بھی ہو تو اس کو کسی کاروبار میں لگا دے، یہ اس کی ترقی وبڑھوتری ہے، یا پھر اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قناعت کے ساتھ خرچ کرے ، اسراف نہ کرے۔(375/7،مکتبہ عصریہ، کراچی)

کمائی کے ذرائع
کسب معاش کے بہت سے ذرائع ہیں، ان میں سے کون سا افضل ہے ؟! اس کی تعیین میں سلف صالحین کا اختلاف ہے، اس بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ کی ایک بہترین کتاب ”فضائل ِ تجارت“ سے خلاصةً کچھ بحث ذیل میں نقل کی جاتی ہے۔

حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرے نزدیک کمائی کے ذرائع تین ہیں: تجارت، زراعت اور اجارہ۔ اورہر ایک کے فضائل میں بہت کثرت سے احادیث ہیں، بعض حضرات نے صنعت و حرفت کو بھی اس میں شامل کیا ہے، جیسا کہ اوپر گذرا۔ میرے نزدیک وہ ذرائع آمدنی میں نہیں، اسبابِ آمدنی میں ہے اور آمدنی کے اسباب بہت سے ہیں: ہبہ ہے، میراث ہے، صدقہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جنہوں نے اس کو کمائی کے اسباب میں شمار کیا ، میرے نزدیک صحیح نہیں، اس لیے کہ نرا صنعت وحرفت کمائی نہیں ہے، کیوں کہ اگر ایک شخص کو جوتے بنانے آتے ہیں یا جوتے بنانے کا پیشہ کرتا ہے، وہ جوتے بنا بنا کر کوٹھی بھر لے ، اس سے کیا آمدنی ہو گی؟ یا تو اس کو بیچے گا یا (پھر یہ جوتے) کسی کا نوکر ہو کر اس کا (مال)بنائے۔یہ دونوں طریقے تجارت یا اجارہ میں آ گئے اور اس سے بھی زیادہ قبیح ”جہاد“ کو کمائی کے اسباب میں شمار کرنا ہے، اس لیے کہ جہاد میں اگر کمائی کی نیت ہو گئی تو جہاد ہی باطل ہے… میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ میرے نزدیک تجارت افضل ہے، وہ بحیثیت پیشہ کے ہے، اس لیے کہ تجارت میں آدمی اپنے اوقات کا مالک ہوتا ہے، تعلیم وتعلم، تبلیغ، افتاء وغیرہ کی خدمت بھی کر سکتا ہے، لہٰذا اگر اجارہ دینی کاموں کے لیے ہوتو وہ تجارت سے بھی افضل ہے، اس لیے کہ وہ واقعی دین کا کام ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہی دین کا کام مقصود ہو اور تنخواہ بدرجہٴ مجبوری ہے۔ میرے اکابرِ دیوبند کا زیادہ معاملہ اسی کا رہا اور اس کا مدار اِس پر ہے کہ کام کو اصل سمجھے اور تنخواہ کو اللہ کا عطیّہ،اس لیے اگر کسی جگہ پر کوئی دینی کام کر رہا ہو، تدریس، افتاء وغیرہ اور اس سے زیادہ کسی دوسرے مدرسہ میں تنخواہ ملے، تو پہلی جگہ کو محض کثرتِ تنخواہ کی وجہ سے نہ چھوڑے۔میں نے جملہ اکابر کا یہ معمول بہت اہتمام سے ہمیشہ دیکھا، جس کو آپ بیتی نمبر6، صفحہ 155 میں لکھوا چکا ہوں کہ انہوں نے اپنی تنخواہوں کو ہمیشہ اپنی حیثیت سے زیادہ سمجھا ……درحقیقت میرے اکابر کے بہت سے واقعات اس کی تائید میں ہیں کہ تنخواہ کو وہ کبھی اصل یا معتد بہ چیز نہیں سمجھتے تھے۔ جیسا میں نے اوپر لکھا اور تنخواہ کو محض عطیہٴ الٰہی سمجھتے تھے، جو ہم لوگوں میں بالکل مفقود ہے، یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر میں نے اجارہٴ تعلیم کو سب انواع سے افضل لکھا ہے۔…اس ملازمت کے بعد تجارت افضل ہے۔ اس لیے کہ تاجر اپنے اوقات کا حاکم ہوتا ہے، وہ تجارت کے ساتھ دوسرے دینی کام تعلیم، تدریس، تبلیغ وغیرہ بھی کر سکتا ہے، اس کے علاوہ تجارت کی فضیلت میں مختلف آیات واحادیث ہیں، چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿إن اللہ اشتریٰ من الموٴمنین أنفسھم وأموالھم بأن لھم الجنة﴾․(التوبة:111)

خدا نے موٴمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں، (اور اس کے)عوض میں اُن کے لیے بہشت (تیار) کی ہے۔

اور بھی بہت سی آیات تجارت کی فضیلت میں ہیں، ان کے علاوہ احادیث میں ہے:”التاجر الصدوق الأمین مع النبیین والصدیقین والشھدآء“․(سنن الترمذي، کتاب البیوع، التجار وتسمیة النبي صلی الله علیہ وسلم إیاھم، رقم الحدیث:1209)

سچا، امانت دار تاجر(قیامت میں) انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔

”إن أطیب الکسب کسب التجار الذین إذا حدّثوا لم یکذِبوا، وإذا ائتمنوا لم یخونوا، وإذا وعدوا لم یُخلفوا، وإذا اشتروا لم یذموا، وإذا باعوا لم یمدحوا، وإذا کان علیہم لم یمطُلوا، وإذا کان لھم لم یعسروا“․(شعب الإیمان للبیھقي، الرابع والثلاثون من شعب الإیمان، وھو باب في حفظ اللسان، رقم الحدیث: 4854)
بہترین کمائی اُن تاجروں کی ہے، جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے اور خریدتے وقت چیز کی مذمت نہیں کرتے (تا کہ بیچنے والا قیمت کم کر کے دے دے) اور جب (خود) بیچتے ہیں، تو (بہت زیادہ) تعریف نہیں کرتے (تا کہ زیادہ ملے) اور اگر ان کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے اور اگر خود ان کا کسی کے ذمہ نکلتا ہوتو وصول کرنے میں تنگ نہیں کرتے۔

عن أنس رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم : ”التاجر الصدوق تحت ظل العرش یوم القیامة“․ (اتحاف الخیرة المھرة بزوائد المسانید العشرة، کتاب الفتن، باب في التلاعن وتحریم دم المسلم، رقم الحدیث:7752)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سایہ میں ہو گا۔

عن أبي أمامة رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قال: ”إن التاجر إذا کان فیہ أربع خصال طاب کسبہ، إذا اشتریٰ لم یذُمّ، وإذا باع لم یمدح، ولم یدلُس في البییع، ولم یَحلِف فیما بین ذٰلک“․(الترغیب والترھیب، کتاب البیوع، باب فضل التاجر الأمین والترغیب في الصدق في المعاملة، رقم الحدیث: 797)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تاجر میں چار باتیں آ جائیں تو اس کی کمائی پاک ہو جاتی ہے، جب خریدے تو اس چیز کی مذمت نہ کرے اور بیچے تو (اپنی چیز کی بہت زیادہ) تعریف نہ کرے۔ اور بیچنے میں گڑ بڑ نہ کرے اور خرید و فروخت میں قسم نہ کھائے۔

وعن حکیم بن حزامٍ رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قال: ”البیعان بالخیار ما لم یتفرقا، فإن صدقا البیعان وبیّنا بُورک لھما في بیعھما، وإن کتما وکذَبا، فعسیٰ أن یربَحا رِبحاً، ویمحقا برَکةَ بیعھما“․ (صحیح البخاري، کتاب البیوع، باب إذا کان البائع بالخیار ھل یجوز البیع؟ رقم الحدیث: 2114)

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ خرید وفروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے، جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ اگر بائع ومشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت کے عیب اور کھرے کھوٹے ہونے کوبیان کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہوتی ہے اور اگر عیب کو چھپا لیں اور جھوٹے اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کما لیں (لیکن) بیع کی برکت ختم کر دیتے ہیں۔

أخرج سعید بن منصور في سننہ عن نعیم بن عبد الرحمن الأزدي ویحییٰ بن جابر الطائي مرسلا، قال المناوي: رجالہ ثقات، ”تسعة أعشار الرزق في التجارة، والعشر في المواشي، یعنی: النتاج“․ (نظام الحکومة النبویة المسمیٰ التراتیب الإداریة، المقدمة الخامسة: باب ما ذکر في الأسواق،12/2)

فرمایا: رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جانوروں کی پرورش میں ہے۔

أخرج الدیلمي عن ابن عباس رضي اللہ عنہما: ”أوصیکم بالتجار خیرا، فإنھم بُردُ الآفاق وأُمَنَاءُ اللہ في الأرض“․(نظام الحکومة النبویة المسمیٰ التراتیب الإداریة، المقدمة الخامسة: باب ما ذکر في الأسواق،12/2)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتاوٴ کی وصیت کرتا ہوں، کیوں کہ یہ لوگ ڈاکیے اور زمین میں اللہ کے امین ہیں۔

تجارت کے بعد میرے نزدیک زراعت افضل ہے، زراعت کے متعلق حدیث میں آیا ہے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا کہ : ”کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھا لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔“اور مسلم کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ”اس میں سے کچھ چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔“

اور ضرورت کے اعتبار سے بھی زراعت اہم ہے، کیوں کہ اگر زراعت نہ کی جائے تو کھائیں گے کہاں سے؟ !……باقی اپنی زمین دوسرے کو دینا، مزارعت کہلاتا ہے، زراعت اور چیز ہے اور مزارعت اور چیز ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قواعدِ شرعیہ کی رعایت ہر چیز میں ضروری ہے، جیسا کہ اس بارے میں أوجز المسالک:220/5، باب کراء الأرض میں بہت لمبی بحث کی گئی ہے۔ اور شرعی حدود کی رعایت ان ہی تینوں میں نہیں، بلکہ دین کے ہر معاملہ میں ضروری ہے۔… ان سب کے بعد نہایت ضروری اور اہم امر یہ ہے کہ کسب کے اور ہر عمل میں شریعتِ مطہرہ کی رعایت ضروری ہے، جس کو احیاء العلوم: 64/2 میں مستقل باب کے تحت بیان کیا ہے، چناں چہ امام غزالی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ

”بیع اور شراء کے ذریعہ مال حاصل کرنے کے مسائل سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، جو اس مشغلہ میں لگا ہوا ہو، کیوں کہ طلبِ علم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے ان تمام مشاغل کا علم طلب کرنا مراد ہو گا، مشغلہ رکھنے والوں کو جن مسائل کی حاجت ہو۔ اور کسب کرنے والاکسب کے مسائل جاننے کا محتاج ہے اور جب اس سلسلہ کے احکام جان لے تو معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں سے واقف ہو جائے گا، لہٰذا ان سے بچے گا اور ایسے شاذ ونادر مسائل جو باعث اشکال ہوں ان کے ہوتے ہوئے معاملہ کرنے میں سوال کر کے علم حاصل کرنے تک توقف کرے گا، کیوں کہ جب کوئی شخص معاملات کو فاسد کرنے والے امور کو اجمالی طور پر نہ جانے تو اسے یہ معلوم نہیں ہو سکتاکہ میں کس کے بارے میں توقف کروں اور سوال کر کے اس کو جانوں؟ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں پیشگی علم حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک کام کرتا رہوں گا جب تک کوئی واقعہ پیش نہ آجائے، جب کوئی واقعہ پیش آئے گا تو معلوم کر لوں گا، تو اس شخص کو جواب دیا جائے گا کہ جب تک تو اِجمالی طور پر معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں کو نہ جانے گا تجھے کیسے پتہ چلے گاکہ مجھے فلاں موقع پر معلوم کرنا چاہیے۔ جسے اجمالی علم بھی نہ ہو وہ برابر تصرفات کرتارہے گا اور ان کو صحیح سمجھتا رہے گا؟ لہٰذا علم تجارت سے اوّلا اس قدر جاننا ضروری ہے کہ جس سے جائز وناجائز میں تمیز ہو اور یہ پتہ چل سکے کہ کون سا معاملہ وضاحت کے ساتھ جائز ہے اور صحیح ہے اور کس میں اشکال ہے؟“ (ملخص من فضائل تجارت، ص: 72-48، مکتبة البشریٰ)

اِن تفصیلات کے بعد ہم سب کے لیے از حد ضروری ہے کہ ہم حدودِ شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے کسبِ معاش کریں اور حصول معاش سے قبل اس کا علم شرعی ضرور بالضرور حاصل کر لیں، مبادا یہ کہ یہ کمائی کل بروزِ قیامت ہمارے لیے وبال بن جائے اور ہماری آخرت برباد ہو جائے۔

یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بازار میں وہی شخص خرید وفروخت کیا کرے، جس نے اپنے اس کاروبار سے متعلق علم حاصل کر لیا ہو۔

”لا یبیع في سوقنا إلا من قد تفقہ في الدین“․ (سنن الترمذي، کتاب الصلاة، أبواب الوتر، فضل الصلاة علی النبي، رقم الحدیث:487)

اللہ رب العزت زندگی کے ہر ہر شعبے میں احکامات معلوم کر کے ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
اللھم انفَعْنا بما علّمْتَنا، وعلِّمْنا ما یَنفَعُنا، وارزُقْنا علماً تنفَعُنا بہ․

Flag Counter