Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

11 - 18
سید ناعمر رضی اللہ عنہ

محترم ابویحییٰ نقشبندی
	
        تھے صحابہ پاک سارے سرور دیں کے مرید
        پر عمر فاروق تھے بیشک مراد مصطفی
        جو کوئی کرتا ہے ان کی شان میں گستاخیاں
        ناراض ہوں گے ان پہ حتماََ شافع روز جزاء
ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعاکی تھی کہ اے اللہ !عمر بن الخطاب اور عمروبن ہشام میں سے جوتجھے زیادہ پسند ہو اس سے اسلام کوعزت(غلبہ) عطاکر کتنے عظیم اور کتنے خوش نصیب تھے سیدنا حضرت عمر فاروق ؟ جن کو عالم الغیب، رب مجید ولطیف نے پیغمبر علیہ السلام کے پیش کردہ دو آدمیوں میں سے اپنی پسند اور اپنے پیارکے حوالے سے منتخب فرمایا، بلاشبہ اللہ رب العزت کی اس تخصیص وانتخاب پر حضرت عمر  کو مراد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور عزت الاسلام کہاجاسکتاہے ۔

جنہوں نے اپنے ایمان واسلام، اخلاص وکمالات کے باعث اسلام کے غلبے اور اس کی اشاعت تنفیذ اور تحفیظکے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ کسی منصف مزاج کو اس کا انکار نہیں، چناں چہ شاہ ایران کے والد جب سریر آرائے سلطنت تھے ۔اس وقت مملکت ایران کے تمام علمائے مجتہدین ایک وفد کی شکل میں حاضر دربار ہوئے ۔اور متفقہ طور پر یہ مطالبہ کیاکہ ہمارے ملک کے تعلیمی نصاب سے متعلق تاریخ اسلام میں سے حضرت عمر  کے حالات اور ان کادور خلافت خارج کردیاجائے ۔اس کے مطالبہ کے جواب میں فرمانروائے موصوف نے کہا۔ اگر تاریخ اسلام میں سے حضرت عمر  اور دورخلافت عمر کوخارج کردیاجائے ،تو پھر تاریخ میں باقی ہی کیارہ جاتاہے؟ جسے اسلام کی عظمت وسربلندی کے لیے پیش کیاجائے گا!

فرماں روائے موصوف کایہ وہ منصفانہ اعتراف ہے ۔جس سے کوئی دانش مند بمشکل ہی انکارکرسکے گا۔اللہ رب العزت نے اپنی پسند اوراپنے پیارے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو،اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی عالمی منافعوں پر محیط عظمت والی دعاکوقبول فرماکر ایمان کی دولت سے سرفراز فرمانے کے بعد ،ان کے ایمان کو بھی رہتی دنیا تک ایمان لانے والوں کے لیے معیار حق بنادیا ۔اور مطالبہ فرمادیا کہ ایساایمان چاہیے (پ1 آیت13) جیسے حضرت عمر  اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین لائے ہیں، حضرت عمر  کے اسلام لانے کے بعد حضرت عمر اللہ تعالیٰ کے اس ابدی عظیم اعلان وانعام میں بھی شامل ہوگئے ۔جس میں فرمایاگیاہے ۔رضی اللہ عنہم ورضواعنہ(پ28آیت22)…اللہ رب العزت کی طرف سے انعام واحسان پانے کے بعد اب دیکھنایہ ہے کہ بارگاہ نبوت میں کیا مقام پایا ؟ دوسرے لفظوں میں مانگنے والے نے آنے والے کو کیساپایا ؟

آقائے نام دار، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ لاریب! اللہ نے عمر(رضی اللہ تعالی عنہ ) کی زبان ودل پر حق کو جاری وساری کردیا ہے ۔عقیدے کایہ مسئلہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ ”پیغمبروں کاخواب وحی ہوتاہے ۔،،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نے خواب میں جنت میں سونے کاایک محل دیکھا۔میں نے پوچھاکس کامحل ہے ۔توجواب دیا گیا کہ عمر بن الخطاب کا۔،،

معراج کے واقعات میں بھی حضورصلى الله عليه وسلم نے جنت میں حضرت عمر  کے محل کاذکر فرمایاہے، حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے ایک پیش آمدہ صورت حال کے بعد فرمایا:”اے عمر! جس راستے پرتم چل رہے ہوگے اس پر تمہیں شیطان چلتاہواکبھی نہیں ملے گا۔وہ مجبور ہوگاکہ اپناراستہ بدل کردوسراراستہ اختیارکرے۔،،

سیدناحضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرماناکہ میرے بعد اگرکوئی نبی ہوتاتوعمر  ہوتے ،،عزت وعظمت ،تعریف توصیف کی انتہاہے۔ ہرانسان کے ہم عصر لوگ اس کی جلوت وخلوت، ظاہراورپوشیدہ خوبی ونقص پر جتنی گہری نظر رکھتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہم یہاں یہ دیکھنا چاہیں گیکہ حضرت عمر  کے ہم عصرلوگوں کی آپ کے بارے میں کیارائے تھی ؟ذیل کی سطور میں ملاحظہ فرمائیے ۔

ایک مرتبہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر صدیق کومخاطب فرماتے ہوئے فرمایا”اے تمام انسانوں میں سے بہتر “سیدناصدیق اکبر  نے فرمایا:”اے عمر !کیاآپ مجھے اس لقب سے یاد کرتے ہیں؟حالاں کہ میں نے خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے کہ عمر سے بہتر کسی آدمی پرکبھی سورج طلوع نہیں ہوا۔،،

امیر المومنین سیدناعثمان غنی فرماتے ہیں ”اللہ عمر رضی اللہ عنہ کی قبرکوروشن کرے !جنہوں نے تراویح کی جماعت کانظم قائم کرکے مساجدکو مزین کردیاہے۔“

سید ناحضرت جعفر صادق فرماتے ہیں ”میں اس شخص سے سخت بیزار ہوں جو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اور حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کوبھلائی سے یاد نہ کرے ۔“

سیدناحضرت علیکے پاس ایک چادرتھی، جسے وہ بہت محبوب رکھتے اور بڑے شوق سے زیب تن فرماتے ۔وہ آپ کو حضرت عمر  نے دے تھی۔آپ سے پوچھاگیا کہ آپ اسے بڑے شوق سے پہنتے ہیں ۔آپ نے فرمایااور روپڑے ۔

ترجمہ :مجھے یہ چادر میرے خلیل ،میرے صفی، میرے دوست اور میرے خاص مہربان عمر نے پہنائی ہے ۔بے شک عمرخداکی خیرکے طالب تھے ۔ سواللہ تعالیٰ نے بھی ان سے خیرکامعاملہ کیا۔

حضرت عمرکے بارے میں ان کے ہم عصرحضرات نے جوکچھ فرمایاہے یہ اوران جیسے سینکڑوں ارشادات واقعات مستند مآخذ میں اور سینوں میں موجود ہیں۔ وقت کی گنجائش کے پیش نظراس اختصار پر اکتفا کیا جاتاہے، لیکن نتیجے کے طور پر مندرجہ ذیل امور پر غور فرمالیجیے ۔

سیدناحضرت عمرکی شہادت بھی محرم میں ہوئی اورسیدناحسین  کی شہادت بھی محرم الحرام میں ہوئی، ہرسال محرم کے آنے پر ہماراسرکاری حلقہ ایک خاص طبقہ کو خوش کرنے کے لیے اپنی ناکام سیاست کو چمکانے کے لیے شہادت سبط رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے بیان بازی کرتاہے، بزعم خود شہادت کا فلسفہ بیان کرتے اور سیدنا حضرت حسینکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، لیکن سیدنا حضرت عمر کانام لیتے ہوئے انہیں سانپ سونگھتاہے۔ حالاں کہ ان کے خراج تحسین کے محتاج نہ حضرت عمر  ہیں اور نہ سیدناحضرت حسین ۔جنہیں ابدی طور پر اللہ پاک کی رضا حاصل ہے ۔

اور کسی کے خراج تحسین کے محتاج نہیں ۔ہماری دارین کی کام یابی اور فلاح اسی میں ہے کہ ہم ان کی زندگیوں کوسامنے رکھ کر اپنی زندگیوں کا احتساب کریں ۔موجودہ حکم ران ہمارے اعمال کے نتیجے میں ہم پر مسلط ہیں لیکن ان کی زندگیاں بلاتبصرہ جیسی کیسی بھی ہیں ۔وہ ہر خاص وعام کے سامنے ہیں ۔اول تو یہ حضرات اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے حصول کے بجائے دشمنان خدا کے اشاروں پر ناچتے ہیں ۔اس کے برعکس حضرت عمر کارفق ورحم، للہیت وخشیت دیدنی ہے، ان کے طرز حکم رانی نے جہاں ضرورت مندوں کی کفالت، ذمیوں کاخیال خاطر، ان کے حقوق ومفادات کی تاحیات حفاظت، غلا موں کے ساتھ شفقت آمیزی، ایک ہی دسترخواں پر اکٹھا کھانا اور کھلانا،ان کی آزادی کے لیے ممکنہ انتظامات ،مسلمان کے لیے روزینے اور عطیے ،بندہ اور آقا کے درمیان خودساختہ امتیازات کاخاتمہ میدان جنگ کے مجاہداور ان کے گھروں کا سوداسلف،ان کی بڑی سے بڑی اورمعمولی سے معمولی ضرورتوں کاخیال رکھنا۔اس طرح کے کاموں نے عوام الناس کی زندگیوں میں صالح انقلاب پیداکردیا۔کون نہیں جانتاحضرت عمر کایتیموں، بیواوٴں کی خبرگیری کرنا،راتوں کوچھپ چھپ کرامت کے ضعفاء کاحال دریافت کرنا،ان کی مطلوبہ ضرورتوں کافوراََ پوراکرناآپ کاروزانہ کامعمول تھا۔ہمیں تسلیم ہے، لاریب، یہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعجاز تربیت ہی کاکرشمہ ہے ۔لیکن یہ اخلاقی الوالعزمی کیا مسلمان کہلانے والے حکم رانوں کے لیے قابل تقلید نہیں ہے؟اس پربھی فکرفرمائیے۔بائیس لاکھ پچپن ہزارمربع میل کی وسیع وعریض سلطنت کا بلاشرکت غیرے فرماروادس سال سے زائد عرصہ کی حکم رانی میں ایک بحران نہیں یہاں چندہزار مربع میل کے صدور وزرائے اعظم چند سالوں کی حکم رانی کے پورے عرصہ میں بحران ہی بحران اورذلت آمیز اختتام وانجام ․․․․․․․․․محترم اس پر باربار سوچیے ایساکیوں ہے؟؟ گاندھی جیسا متعصب ہندواپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتاہے کہ اگرامن وسلامتی چاہتے ہو توصدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصول حکم رانی اپناوٴ اورمسلمان کہلانے والے ان عظیم اصولوں کو اپنانے کے راستے میں صرف دشمنان خدایعنی مغربی آقاوٴں کو خوش کرنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کریں #
        ناطقہ سر بگریباں ہے کہ کیاکہیے
        پھر اہانت آمیز انجام نہ ہوتواور کیا ہو؟!

Flag Counter