Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

5 - 18
تقلید کی حقیقت

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّہِ أَندَاداً یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِّلّہِ وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ إِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّہِ جَمِیْعاً وَأَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ،إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الأَسْبَاب،وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا کَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّؤُواْ مِنَّا کَذَلِکَ یُرِیْہِمُ اللّہُ أَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْْہِمْ وَمَا ہُم بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ،یَا أَیُّہَا النَّاسُ کُلُواْ مِمَّا فِیْ الأَرْضِ حَلاَلاً طَیِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ،إِنَّمَا یَأْمُرُکُمْ بِالسُّوء ِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَی اللّہِ مَا لاَ تَعْلَمُون﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:165 تا169)
اور بعضے لوگ وہ ہیں جو بناتے ہیں الله کے برابر اوروں کو، ان کی محبت ایسی رکھتے ہیں جیسی محبت الله کی۔ او رایمان والوں کو اس سے زیادہ محبت ہے الله کی ۔او راگر دیکھ لیں یہ ظالم اس وقت کو جب کہ دیکھیں گے عذاب کہ قوت ساری الله ہی کے لیے ہے اور یہ کہ الله کا عذاب سخت ہےجب کہ بیزار ہو جاویں گے وہ کہ جن کی پیروی کی تھی ان سے کہ جو ان کے پیرو، ہوئے تھے اور دیکھیں گے عذاب اور منقطع ہو جائیں گے ان کے سب علاقے اور کہیں گے پیرو کیا اچھا ہوتا جو ہم کو دنیا کی طرف لوٹ جانا مل جاتا تو پھر ہم بھی بیزار ہو جاتے ان سے جیسے یہ ہم سے بیزار ہو گئے، اسی طرح پر دکھلائے گا الله ان کو ان کے کام حسرت دلانے کو اور وہ ہر گز نکلنے والے نہیں نار سےاے لوگو !کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ اور پیروی نہ کرو شیطان کی، بے شک وہ تمہارا دشمن ہے صریحوہ تو یہی حکم کرے گا تم کو کہ برے کام اور بے حیائی کرو اورجھوٹ لگاؤ الله پر وہ باتیں جن کو تم نہیں جانتے

ربطِ آیات:گزشتہ آیات میں توحید کے دلائل کا بیان تھا ،اب مشرکین کی اعتقاد ی غلطی اور اس کے نقصان کا تذکرہ فرماتے ہیں۔

تفسیر: کفار آخرت میں بے سہارا ہوں گے
یعنی ان سب دلائل ظاہرہ کے باوجود بعض لوگ الله کو چھوڑ کر اس کا شریک ٹھہراتے ہیں او ران معبودان باطلہ سے ایسی اعتقادی محبت کرتے ہیں، جو صرف الله کے ساتھ رکھنی چاہیے،چناں چہ نصاری کو دیکھ لیجیے ،انہیں الله سے اتنی محبت نہیں جتنی ابن الله سے، یہی حال مشرکین کا ہے ،جو الله کو خالق ومالک ماننے کے باوجود بتوں سے محبت کرتے ہیں، ان کی بتوں سے محبت الله کی محبت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اہل ایمان اور موحّدین کی اپنے رب سے سچی محبت مشرکین کی جھوٹی محبت سے کہیں زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے، کیوں کہ مومن اپنے نفع ونقصان دونوں صورتوں میں الله کی رضا پر راضی رہتا ہے ۔جب کہ مشرک نقصان کی صورت میں اپنے معبود سے عارضی طور پر بیزار بھی ہو جاتا ہے ، چناں چہ مشرکین مکہ جب کشتی پر سوار ہوتے تو خالص الله ہی پر اعتقاد کرکے اسے پکارتے اورجب خشکی پر امن سے پہنچ جاتے تو شرک کرنے لگ جاتے۔

پس اگر یہ مشرکین دنیا میں خود کو یا کسی او رکو سخت مصیبت میں گرفتار دیکھ کر یہ سمجھ لیتے کہ نفع رسانی کی ساری طاقت صرف الله ہی کے پاس ہے، کیوں کہ اس مصیبت میں کوئی معبود باطل کام نہ آسکاپھرغو رکرتے کہ آخرت کے سخت عذاب میں کون کیسے مد دگار بنے گا؟ تو ضرور دولت ایمان سے مالا مال ہو جاتے، لیکن انہوں نے دنیا میں غور وفکر کی زحمت گوارہ ہی نہ کی۔

لہٰذا جب آخرت میں الله کے عذاب کا سامنا کریں گے اور اپنے دنیوی معبودوں سے برا ء ت کا اظہار پائیں گے او ران سے عقیدت محبت کے سارے رشتے ختم ہو جائیں گے، تو اپنے دانت حسرت کے مارے پیستے ہوئے یہ تمنا کریں گے کہ کاش! ہم دنیا میں واپس لوٹ جائیں اور ہم بھی ان سے ایسی ہی لاتعلقی اختیار کریں جیسے یہ آج کررہے ہیں۔

اس غیظ وغضب اور تمنائے انتقام سے حسرت ہی بڑھے گی، کوئی فائدہ نہ ہو گا او راس طرح یہ لوگ روحانی عذاب میں بھی مبتلا رہیں گے کہ ہم بے فائدہ ان کے لیے مرتے لڑتے اور نذر ونیاز کرتے تھے۔اب مشرکین کی اعتقادی غلطی کے بعد عملی غلطی کی تردید فرماتے ہیں۔

یَا أَیُّہَا النَّاسُ کُلُواْ مِمَّا فِیْ الأَرْض
مشرکین کچھ جانوروں کو بتوں کے نام پر مخصوص کرکے کھلا چھوڑ دیتے تھے اور ان کا کھانا حرام سمجھتے تھے، اسی طرح یہود ونصاری بھی حلال وحرام کے خود ساختہ قوانین بنا کر غلط روی کا شکار ہوچکے تھے۔ حلال وہ ہے جیسے شریعت نے حلال رکھا ہو اور حرام وہ ہے کہ جیسے شریعت محمدیہ نے ناجائز بتایا ہو، طیّب غذائیں وہ ہیں جو جائز ذرائع سے حاصل ہوئی ہوں۔ (التفسیر الکبیر، البقرہ ذیل آیت:168) اسلام ترک لذات کا حکم نہیں دیتا، بلکہ حلال چیزیں جائز طریقے سے حاصل کرکے ان سے فائدہ اٹھانے کا حکم دیتا ہے۔

حلال کو حرام یا حرام کو حلال بنا کر شیطان کی پیروی مت کرو، کیوں کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، لہٰذا وہ یہی حکم کرے گا کہ برائیوں میں لگے رہو او راپنی طرف سے الله پر بہتان باندھو کہ الله نے اسے حرام یا حلال کیا ہے۔﴿إِنَّمَا یَأْمُرُکُمْ بِالسُّوء ِ وَالْفَحْشَاء․․․﴾ یعنی شیطان برائی اور بے حیائی ہی کا حکم دیتا ہے۔

” سُؤء“ ہر وہ چیز جو عقلاً بھی ناپسندیدہ ہواور ”فحشاء“ وہ چیز جسے شریعت نے برا ٹھہرایا ہو۔ (تفسیر بیضاوی ، البقرة ذیل آیت:169) اور ”فحشاء“ کا دائرہ زنا یا دواعی زنا تک محدو د نہیں، بلکہ اس کے تحت ہر وہ برائی آجاتی ہے جو انسانی عزت وناموس کے لیے داغ ہو۔ (تفسیر المنار، البقرہ ذیل آیت:169)

﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّہُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَیْْنَا عَلَیْْہِ آبَاء نَا أَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لاَ یَعْقِلُونَ شَیْْئاً وَلاَ یَہْتَدُونَ،وَمَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لاَ یَسْمَعُ إِلاَّ دُعَاء وَنِدَاء صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَعْقِلُونَ،یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُلُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُواْ لِلّہِ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ،إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْْرِ اللّہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَیْْہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْم﴾․(سورہ بقرہ، آیت:170 تا173)
اور جب کوئی ان سے کہے کہ تابع داری کرو اس حکم کی جو کہ نازل فرمایا الله نے تو کہتے ہیں ہرگز نہیں، ہم تو تابع داری کریں گے اس کی جس پر دیکھا ہم نے اپنے باپ دادوں کو ، بھلا اگرچہ ان کے باپ دادے نہ سمجھتے ہوں کچھ بھی اور نہ جانتے ہوں سیدھی راہ؟اور مثال ان کافروں کی ایسی ہے جیسے پکارے کوئی شخص ایک چیز کو جو کچھ نہ سنے سوا پکارنے اور چلاّنے کے ، بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں ،سو وہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں اے ایمان والو! کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو روزی دی ہم نے تم کو اور شکر کرو الله کا، اگر تم اسی کے بندے ہواس نے تو تم پر یہی حرام کیا ہے مردہ جانور اور لہو اورگوشت سور کا اورجس جانور پر نام پکارا جائے الله کے سوا کسی اور کا ، پھر جو کوئی بے اختیار ہو جائے نہ تو نافرمانی کرے اور نہ زیادتی تو اس پر کچھ گناہ نہیں ،بے شک الله ہے بڑا بخشنے والا، نہایت مہربان

ربطِ آیات: گزشتہ آیات میں اعمال مشرکین کا ابطال تھا اوراب ان باطل اعمال پر دی جانے والی دلیل کی تردید فرماتے ہیں۔

تفسیر: بے سوچے سمجھے آبا واجداد کے غلط طریقوں پر چلنا
وَإِذَا قِیْلَ لَہُمُ مشرکین اور بدعت کی راہوں پر چلنے والوں کو جب دعوت حق دی جائے تو وہ مقابلے میں آباء واجداد کے رسم ورواج او ران کے طریقہ زندگی کو پیش کرتے ہیں، اس پر ان کی مذمت بیان کی جارہی ہے۔

الله کے نازل کردہ احکام کے مقابلے میں گم راہ لوگوں کی روش اختیار کرنا ایسی بے راہ روی ہے جیسے کوئی شخص ایسے جانور کے پیچھے چِلاّ رہا ہو جو محض آواز ہی سنتا ہو اور کچھ سمجھتا نہ ہو، لہٰذا دعوتِ حق سے اعراض کرنے والے در حقیقت بہرے گونگے، اندھے ہیں ،جن پر قبول حق کے سارے ذرائع ناکارہ ہوچکے ہیں، حق بات سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں،آیت سے معلوم ہوا کہ الله اور رسول کے مقابلے میں کوئی بھی شخص قابل اتباع نہیں۔

واضح رہے بعض لوگوں نے اس آیت سے ائمہ مجتہدین کی تقلید پر عدم جواز کا استدلال کیا ہے،حالاں کہ اسی آیت کے اقتضاسے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا جواز ثابت ہو رہا ہے۔ آیت کریمہ میں نفس تقلید کی مذمت بیان نہیں کی گئی، بلکہ مشرکین اور بدعتیوں کے اعمال بد کی تقلید پر ان کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ کہاں الله اور اس کے رسول کی مخالفت میں تقلید او رکہاں اطاعت الہٰی اور اطاعت رسول کے لیے مجتہدین کی محققانہ رائے کی تقلید۔ نیز امور قطعیہ میں عدم تقلید پر اہل علم کا اجماع ہے، تقلید صرف فروعات کے ان مسائل میں ہوتی ہے جن میں نصوص متعارض ہوں یا نصوص وارد نہ ہوں، ایسے مسائل اجتہادیہ میں اہل علم کی تحقیقات پر اعتماد کرکے ان پر عمل کرنے کا نام تقلید ہے۔ ایسی تقلید سے کسی کو مفر نہیں، اگرچہ کسی کو غیر مقلد ہونے کا دعوی ہو۔

آیت فہمی کا عجیب انداز
ہمارے غیر مقلدبھائیوں کی تفسیری توانائی محض اس کوشش میں صرف ہو جاتی ہے کہ مشرکین کے طرز وروش کے بارے میں جتنی بھی آیات ناطق ہیں وہ سب ائمہ مجتہدین کے مقلّدین پر فٹ کرکے ان کی مذمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا جائے۔لہٰذا اپنی تفاسیر میں ایسے مواقع میں ائمہ مجتہدین (جوکہ کتاب الله وسنت رسول پر عبور رکھتے تھے) کی تقلید کرنے والے مسلمانوں پر بے دریغ شرک کے فتوے دیتے چلے جاتے ہیں۔چناں چہ مولانا عبدالستار محدث دہلوی رحمہ الله،جو اہلحدیث کے معروف عالم دین ہیں، اپنی تفسیر میں اسی مقام پر ” رد تقلید ناسدید“ کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں۔

” بالکل یہی حال عہد حاضرہ کے نام کے مسلمانوں اور مقلدین کا ہے، ان کے باپ دادا ، رسم ورواج، طور وطریقہ ، عقائد بدعیہ، افعال شرکیہ وکفریہ اور تقلید غیر مفید کے خلاف جس قدر بھی آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ پیش کر دی جائیں تو صاف جواب دے دیں گے کہ ہمارے باپ دادا، ہمارے رسم ورواج ، ہماری قوم، برداری اور ہمارے امام نے چوں کہ اس آیت، اس حدیث کو نہیں لیا، اس لیے ہم بھی ان کے خلاف نہیں کرسکتے، ہو بہو یہی جواب کفار ومشرکین اور یہود ونصاریٰ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیا تھا، جو کہ الله تعالیٰ نے آیت ھذا میں نقل کیا ہے۔ ( قرآن مجید سہ حاشیہ مترجم ، مولانا عبدالستار محدث دہلوی، سورة البقرة ، الاٰیة:170)

ملاحظہ فرمائیں کہ تقلید کی حقیقت کس طرح مسخ کرکے اسے شرک بتلایا گیا ہے۔گویا کہ تمام مسلمان اجتماعی طور پر اس شرک میں مبتلا ہیں۔ حالاں کہ تقلید کا معنی ”دلیل طلب کیے بغیر کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا ہے“۔ (شرح المنار، ص:252، بحوالہ الکلام المفید،31، صفدریہ) لہٰذا اگر کوئی شخص کتاب وسنت پر عبور نہ رکھتا ہو وہ اپنا مسئلہ کسی عالمِ کتاب وسنت سے معلوم کرے اور اس پر اعتماد کرکے یہ نہ پوچھے کہ قرآن وحدیث سے اس کی دلیل کیا ہے ؟ یہی تقلید ہے ، یہ تو عین اتباع قرآن وسنت ہے۔چناں چہ موصوف ایک صفحہ بعد یوں لکھتے ہیں:

” اور جو جاہل ہے اس کو اتنا کافی ہے کہ عالم کتاب وسنت سے ہر مسئلہ وحکم کا حال یوں دریافت کر لیا کرے کہ بتاؤ اس مقدمہ میں الله ورسول کا کیا ارشاد وامر ہے ۔“ یہی معنی ہیں اس آیت شریفہ کے ﴿فَاسْئَلُوا ھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمْوْنَ الخ﴾․

دیکھیں! ایک صفحہ قبل جس چیز کو شرک بتلا رہے تھے اب اسے نہ صرف یہ کہ لازمی کہہ رہے ہیں،بلکہ قرآن سے ثابت کررہے ہیں، بس اپنے ذہن میں یہ نظریہٴ فاسدہ بسا یا ہوا ہے کہ تقلید کسی شخص کی اتباع مطلق کا نام ہے، خواہ کتاب وسنت کے موافق ہو یا مخالف، اسی مفہوم کے خلاف اپنی علمی طغیانی کے ساتھ نبرد آزماہیں، تاکہ فتوی گم راہی سے کوئی مسلمان بچ نہ نکلے۔

آیت ﴿ واذاقیل لہم الخ﴾ میں غور کریں، اس میں مشرکین کی تین برائیوں کا تذکرہ ہے ۔ ایک یہ کہ ان کی اتباع الله ورسول کی مخالفت میں تھی اور دوسری یہ کہ جن کی اتباع کی جاتی ہے وہ عقل وخرد سے محروم ہیں اور تیسری یہ کہ وہ رشد وہدایت سے بھی محروم ہیں۔

اور مسلمان جو ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہیں، وہ محض الله ورسول کا حکم جاننے کے لیے تقلید کرتے ہیں اور جن ائمہ اربعہ کی تقلید کی جاتی ہے، ان کے بارے میں تاریخ سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دور میں نہ صرف فن استنباط واجتہاد کا امام تھا، بلکہ قرآن وحدیث میں بھی بے نظیر مہارت کا حامل تھا اور مسلمانانِ عالم ان کے استنباط واجتہاد کی روشنی میں الله ورسول کے احکام پر عمل پیرا ہیں۔

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُلُوا
گزشتہ آیات میں مشرکین کی بد عملی یعنی حلال کو حرام کرنے کا ذکر تھا ،آئندہ آیت میں مسلمان کو مشرکین کے ساتھ موافقت سے روکا جارہا ہے۔ اے مومنو !جو ہم نے تم کو پاکیزہ رزق دیا اس میں سے کھاؤ اور الله کا شکر ادا کرو، اگر تم اسی کے عبادت گزار بندے بنے رہو ۔ کھانے کا حکم تو بطور اباحت ہے، لیکن شکر کا حکم بطور واجب ہے، یعنی الله کی نعمتوں کا شکر واجب ہے۔ (التفسیر الکبیر، البقرہ، ذیل آیت:172)

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَة
حلال کو حرام سمجھنا جس طرح مشرکین کا قبیح فعل تھا، اسی طرح یہ لوگ حرام کو حلال سمجھنے جیسی قباحت میں بھی ملوث تھے۔لہٰذا تردید فرماتے ہیں کہ بے شک الله نے تو تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور حرام کیا ہے جس پر غیر الله کا نام لیا گیا ہو ۔ حرام چیزیں اور بھی ہیں، چوں کہ یہاں تردید مشرکین کی ہو رہی ہے جو اپنی رائے سے ان چیزوں کو حلال قرار دیتے تھے اس لیے ان مخصوص چیزوں کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔ (روح المعانی، البقرہ تحت آیة رقم:173)

ہاں! جس شخص کو شدید بھوک وغیرہ کی وجہ سے مرنے کا خوف ہو تو اسے اجازت ہے کہ ان چیزں کو کھالے، مگر یہ ضروری ہے کہ کھانے میں لذت کا طلب گار بھی نہ ہو اور قدر ضرورت سے زیادہ بھی نہ کھائے، اتنا ہی کھائے جس سے روح کا رشتہ جسم سے جڑا رہے، اس عذر کی وجہ سے الله تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت نہ ہو گی، اگر ایسے موقع پر بے اختیار زیادہ بھی کھا لیا تو الله تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کی مغفرت کر دیں گے۔

مردار
اس جانو رکوکہتے ہیں جو اپنی طبعی موت مر جائے یا غیر شرعی طریقے پر ذبح یا قتل کیا جائے یا زندہ جانور کا گوشت کاٹ لیا جائے۔

شرعی طریقہ پر ذبح کرنا دو طریقوں سے ہوتا ہے ، پہلا طریقہ ذبح اختیاری اور دوسرا طریقہ ذبح اضطراری کا ہے ،ذبح اختیاری تو یہ ہے کہ الله تعالیٰ کا نام لے کر جانور کے گلے پر چھری پھیر کر ذبح کیا جائے۔ اور ذبح اضطراری یہ ہے کہ کوئی وحشی جانور، جسے اختیارسے ذبح کرنا ناممکن ہے، اسے دور سے بسم الله پڑھ کر تیر یا کوئی اور دھار دارہتھیار پھینک کر قتل کیا جائے، پس اس طرح سے قتل کیا گیا جانور بھی شرعی ذبیحہ کہلاتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ بندوق یا پستول کی گولی مارکر قتل کیا گیا جانور مردارہی ہے، ذبیحہ نہیں، کیوں کہ گولی دھار دار نہیں ہوتی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ گلا گھونٹ کر یا بلندی سے نیچے پھینک کر مارا گیا جانور بھی مردار ہی ہے۔

آیت کی رو سے ہر طرح کا مردار شرعاً حرام ہے، البتہ دو مردار جن کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تصریح فرمائی حلال ہیں، ایک ٹڈی اور دوسری مچھلی۔ احناف کے ہاں تو مردار جانور سے کسی قسم کا نفع حاصل کرنا جائز نہیں، یہاں تک کہ مردار گوشت شکاری پرندوں اور کتوں کو بھی کھلانا جائز نہیں۔ کیوں کہ الله تعالیٰ نے اسے مطلقاً حرام قرار دیا ہے ۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرہ ذیل آیت:173) البتہ عمل دباغت کے بعد مردار کی ہڈی او رکھال پاک ہو جاتی ہے، جیسا کہ احادیث وآثار سے ثابت ہے، اس سے نفع اٹھانا درست ہے۔

بہتاخون
یہاں خون سے مطلق خون مراد نہیں، بلکہ بہتا ہوا خون مراد ہے جس کی وضاحت سورة الأنعام میں ﴿دَمًا مَسْفُوْحاً﴾(الانعام:145) سے کی گئی ہے ، لہٰذاذبح کے بعد جانور کے گوشت سے لگا ہوا خون پاک ہے، اگر اسے دھوئے بغیر گوشت کھا لے تو جائز ہے ۔

خنزیر کا گوشت
خنزیر کے گوشت کی طرح اس کے ناخن، دانت ، ہڈی او رکھال وغیرہ بھی حرام او رنجس العین ہیں اوراس سے کسی بھی قسم کا انتفاع حرام ہے۔ گوشت کے تحت جانور کے سارے اجزا اس میں آگئے۔(بدائع الصنائع:1/85)

جس جانور کو غیر الله کی تعظیم میں نام زد کر دیا جائے
جس جانور پر بوقت ذبح الله تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی صنم، بت، بزرگ کا نام لیا جائے اس کے حرام ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔

لیکن مذکورہ آیت میں جس جانو رکی حرمت بیان کی گئی ہے، اس سے وہ جانور مراد ہے جسے غیر الله کی عظمت اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیا جائے، اگرچہ بوقت ذبح الله تعالیٰ کا نام لیا جائے، ایسا جانور بھی حرام ہے، کیوں کہ مذکورہ بالا دونوں طرح کے جانوروں میں ایک ہی فساد عقیدہ کا دخل ہے، وہ ہے غیر الله کا تقرب اور اس کی خوش نودی۔ اب بوقت ذبح الله تعالیٰ کا نام ہو یا بت اور صنم کا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ایسے جانور کی حرمت کا پہلا قرینہ، لغت
ایسے جانور کے لیے الله تعالیٰ نے ”اُھِلّ بہ لغیر الله“ کے الفاظ بیان فرمائے ہیں،”إھلال“ کا معنی ہے آواز بلند کرنا، شہرت دینا، یعنی وہ جانور جسے غیر الله کے لیے مشہور کر دیا جائے، نام زد کر دیا جائے اور اس میں نیت غیر الله کی تعظیم اور خوش نودی کی ہو۔ جس طرح مشرکین لات ومنات کے لیے اور جہلا، پیرومرشد، صاحب مزار کے لیے جانور یا کوئی چیز نام زد کر دیتے ہیں، مثلاً شیخ احمد کبیر کی گائے، شیخ سدّوکا بکرا، شیخ عبدالقادر جیلانی کی گیارہویں، حضرت حسین کی نیاز اور سبیل، امیر حمزہ کے کونڈے اور اس میں ان بزرگوں کی خوش نودی مقصود ہوتی ہے۔

چناں چہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں۔
”صحیح حدیث میں ہے جو شخص ذبح کرنے سے غیر الله کا تقرب حاصل کرنا چاہے وہ معلون ہے، ذبح کے وقت خدا کا نام لے یا نہ لے، کیوں کہ جب اس نے مشہور کر دیا کہ یہ جانور” فلاں غیر خدا“ کے لیے ہے تو ذبح کے وقت خدا کا نام لینے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا، جب وہ جانور بطور نذر ومنت غیر خدا کی طرف منسوب ہو گیا تو اس میں مردار سے بھی بڑھ کر نجاست پیدا ہو گئی اور اس میں اس طرح گھس جائے گی کہ اب وہ خدا کا نام لے کر ذبح کرنے سے حلال نہیں ہو گا، جس طرح کتا اور خنزیر ذبح کرنے سے حلال نہیں ہوتے۔“(فتاوی عزیزی،1/56)

ایک شبہے کا جواب
ممکن ہے کسی کو شبہ ہو کہ اکثر مفسرین نے ”اُھِلّ“ کی تفسیر”غیر الله کے نام سے ذبح کرنے “سے کی ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ’ ’اُھِلّ“ عام ہے۔ دونوں طرح کے جانوروں کی حرمت پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ، چوں کہ زمانہ جاہلیت میں غیر الله کے نام سے ذبح کرنے کا رواج تھا، اس لیے مفسرین نے اسی صورت کو ذکر کیا، جو اسی حرام کا ایک فرد ہے۔

دوسرا قرینہ
سورة مائدہ میں الله تعالیٰ نے حرام چیزوں کو بیان کرتے ہوئے من جملہ دو جانوروں کا ذکر فرمایا”ومَا اُھِلّ لغیر اللهِ بہ“ (اور جو جانور غیر الله کے لیے نامزد کر دیا گیا ہو) ”وَمَاذُبِح علی النُّصبِ“ ( اور جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جاوے) اگر ”وَمَا اُھِلَّ لغیر اللهِ بہ“ سے فقط وہ جانور مراد لیا جائے جس پر الله کے علاوہ کسی بت وغیرہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو پھر ”وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصب“ کا مصداق کون سا جانور بنے گا؟ دونوں کا مصداق ایک ٹھہرا تو پھر تکرار کی ضرورت کیوں ہوئی ؟ حقیقت یہ ہے ”وَمَااُھِلّ“ سے وہ جانور مراد ہیں جنہیں غیر الله کی خوش نودی کے لیے الله کا نام لے کر ذبح کیا جائے اور ”وَمَاذُبِحَ علی النَّصب“ سے وہ جانور مراد ہیں جن پر بوقت ذبح غیر الله کا نام لیا جائے۔

تیسرا قرینہ
آپ صلى الله عليه وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے ،جو غیر الله کے لیے ذبح کرتا ہے۔ ( صحیح مسلم: رقم الحدیث 5125)ظاہر ہے کہ ایسے ذبح متنازعہ پر ہی ذبح لغیر الله صادق آتا ہے۔ (ملخص از بیان القرآن البقرہ: ذیل آیت:173)

چناں چہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ نووی فرماتے ہیں:
”غیر الله کے لیے ذبح کرنے سے مراد یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے نام کے بغیر کسی اور کے نام کے لیے نام زد کرے، بت کے نام، یا صلیب کے نام یا حضرت موسی یا حضرت عیسی علیہما السلام کے نام، پس یہ سب حرام ہے اور یہ ذبیحہ بھی حرام ہے، خواہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو ( جو الله کا نام لے کر ذبح کرتا ہے ) یا نصرانی اور یہودی ہو۔یہی امام شافعی  کا موقف ہے ، اور ہمارے اصحاب نے اس پر اتفاق کیا ہے ۔اگر اس کے ساتھ مذبوح لہ کی تعظیم وعبادت مقصود ہو تو کفر ہو گا، پس اگر ذبح کرنے والا مسلمان ہے تو مرتد ہو جائے گا، شیخ ابراہیم مروزی نے فرمایا ہے کہ جو ذبیحہ بادشاہ کی آمد پر (بطور تعظیم) ذبح کیا جائے علماء نجار کا فتویٰ ہے کہ وہ حرام ہے۔ کیوں کہ وہ ”مَااُھِلّ بِہ لغیر الله“ میں داخل ہے۔ ( شرح مسلم للنووی، ص:160)

اگر کوئی کہے بعض لوگوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ جانور الله کی خوش نودی کے لیے ذبح کرکے ان کاثواب بزرگوں کو پہنچایاجائے،لہٰذا یہ جائز ہے ۔ان کے جواب میں اتنا کہنا کافی ہے کہ اگر کسی کامقصد محض ان اولیاء کی ارواح کو ایصال ثواب کرنا ہے تو اسے کہا جائے جانور کی قیمت کے بقدر گوشت یا کوئی اور شے خرید کر صدقہ کردو اور اس کا ثواب ان کو پہنچا دو،اگر وہ دل سے راضی ہوجائے اور اس پر تیار ہو جائے تب واقعی اس کا مقصد تقرب الہٰی کا حصول ہے او راس کا ذبیحہ حلال ہے، لیکن اگر انکار یا چوں وچرا ں کرے توسمجھ لو یہ اپنی نیت میں غلط اور دعوے میں جھوٹا ہے۔ لہٰذا اس کا ذبیحہ کھانا حرام ہے۔ (جاری)

Flag Counter