Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

12 - 18
بچوں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا مشفقانہ سلوک

مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
	
آپ علیہ الصلاة والسلام کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ صلی الله علیہ وسلم کامل ومکمل نظر آئیں گے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے تمام ہی معلمین آپ کے خوشہ چین نظر آئیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی ازدواجی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی بیویوں کے لیے بہترین شوہر ہیں، آپ عليه السلام کی مجاہدانہ وسپاہیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے بہادر آپ سے کوسوں دور ہوں گے، اسی طرح بچوں کے ساتھ آپ عليه السلام کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ عليه السلام بہترین مربی بھی ہیں، نیز آپ سے زیادہ کوئی بچوں پر رحم کرنے والابھی نہ ہوگا، آپ عليه السلام نے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت، ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات ہی کے ذریعہ دیا، بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا، آپ صلی الله علیہ وسلمکا فرمان ہے: جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔(سنن ابی داوٴد: 4943باب فی الرحمة) اسی طرح آپ عليه السلام نے فرمایا: جو نرمی سے محروم ہے وہ تمام ہی خیر سے محروم ہے۔ (مسلم: 2592 باب فضل الرفق) بچوں کے تئیں حسنِ سلوک کے عطر بیز سیرت کے چند نمونے ذیل میں مذکور ہیں۔

اولاد واحفاد کے ساتھ
آپ عليه السلام کے فرزند ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ عليه السلام بڑے غم زدہ تھے، آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوف  نے تعجب خیز لہجہ میں استفسار کیا آپ بھی رورہے ہیں؟ آپ عليه السلام نے جواب دیا، اے ابن عوف !یہ رحمت ہے، بلا شبہ آنسو بہہ رہے ہیں، دل غم زدہ ہے، لیکن اس حالتِ غم میں بھی ہم وہی بات کہیں گے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو، پھر آپ   صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابراہیم !ہم تمہاری جدائی سے غم زدہ ہیں، (بخاری: 1303، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم انا بک الخ) اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت انس نے فرمایا: اہل وعیال پر آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ مشفق میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ (مسلم: 2316، باب رحمتہ الصبیان) بچپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا زمانہ ہوتا ہے، اس زمانہ میں بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں، بچے انہیں کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انہیں اپنے قریب رکھتے ہیں، تربیت کا جو حسین موقعہ قربت وانسیت سے ممکن ہے، ڈانٹ ڈپٹ سے زجروتوبیخ سے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کا حسنِ عمل یہی رہا کہ بچوں کو بالکل اپنے سے قریب رکھا، حتی کہ بچوں کے کھیل کا بھی لحاظ کیا، اگر کسی موقعہ پر وہ نماز میں آپ صلی الله علیہ وسلم پر سوار ہوگئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی ضرورت کی تکمیل کا بھر پور خیال رکھا، چناں چہ اپنے نواسوں سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھر پور محبت کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن شداد  اپنے والدسے نقل فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم نماز میں حضرت حسن یا حسین کو ساتھ لائے، آپ صلی الله علیہ وسلمنے نماز پڑھائی، درمیان نماز آپ صلی الله علیہ وسلمنے سجدہ طویل فرمایا، حضرت شداد فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ آپ صلی الله علیہ وسلمکی پشت پر سوار ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سجدہ ریز ہیں، لہٰذا میں دوبارہ سجدہ ریز ہوگیا، جب نماز مکمل ہوگئی تو صحابہ کرام نے سوال کیا کہ حضورصلی الله علیہ وسلم آپ نے دورانِ نماز سجدہ طویل فرمایا، ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کوئی معاملہ پیش آیا ہے یا یہ کہ آپ پر وحی اتررہی ہے، آپعليه السلام نے فرمایا:ان میں سے کوئی بات نہ تھی، بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا، میں نے مناسب نہ سمجھا کہ بچہ کی ضرورت کی تکمیل سے پہلے سجدہ ختم کروں۔(مسند احمد: 16033، حدیث شداد بن الہاد)

اقرع بن حابس نے دیکھا کہ آپ عليه السلام حضرت حسن کو چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضور عليه السلام میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما، آپ عليه السلام نے فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (بخاری: 5997، باب رحمة الولد وتقبیلہ ) ایک د فعہ آپ صلی الله علیہ وسلمحضرت حسن کو چوم رہے تھے، ایک دیہاتی نے اعتراض کیا اور حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں؟!(بخاری: 5998 باب رحمة الولد وتقبیلہ)

غور کیجیے ! آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے خود محبت فرمائی؛ بلکہ امت کو بھی اس کی تعلیم دی اور رحیمانہ سلوک کے ترک پر دھمکی دی کہ وہ شخص عند اللہ بھی قابلِ رحم نہیں، لہٰذا بچوں کے ساتھ مشفقانہ برتاوٴ ہمارا وطیرہ ہونا چاہیے، حضرت ابو ہریرة فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر حضرت حسن کے بارے میں دریافت کیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ آگئے، آپ عليه السلام نے انہیں گلے سے لگایا، انہیں بوسہ دیا، نیز فرمایا: اے اللہ میں حسن سے محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھ۔ (بخاری: 3749، باب مناقب الحسن)جب آپصلی الله علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ان کی صاحب زادی امامہ سے آپ عليه السلام بہت زیادہ محبت کا اظہار فرماتے، ان پر بہت زیادہ شفقت فرماتے، بعض دفعہ اپنے ساتھ مسجد بھی لے آتے، وہ آپ عليه السلام پر حالت ِ نماز میں سوار بھی ہوجاتی، جب آپ عليه السلام سجدہ میں جاتے تو انہیں نیچے اتار دیتے، جب قیام فرماتے تو کاندھے پر سوار فرمالیتے۔(بخاری: 516 باب إذا حمل جاریة صغیرة)

بعض دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے نواسوں کے پاس آتے، انہیں گود میں بٹھاتے، انہیں چومتے، ان کے لیے دعا فرماتے، آپ عليه السلام نے اپنے نواسوں کے ذریعہ اپنی آل واولاد کے ساتھ رہنے کا طریقہ سکھلایا۔

دیگر بچوں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرزِ عمل
اگر بچوں سے محبت کا وجود بھی ہے تو اس کا دائرہ تنگ ہے، یہ اپنے ہی بچوں تک محدود ہے، دوسروں کے بچوں کے تعلق سے محبت والفت یکسر ناپید ہے، آپ عليه السلام نے اس تفریق کا خاتمہ فرمایا، جہاں آپ عليه السلام نے اپنے بچوں کے تئیں تعلق کا اظہار فرمایا، وہیں دیگر صحابہ کرام کی اولاد پر بھی نگاہِ شفقت ڈالی۔

ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ میرے گھر ایک لڑکا تولد ہوا، میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے در پر حاضر ہوا، آپ عليه السلام نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجورسے اس کی تحنیک فرمائی اور اس بچے کے لیے برکت کی دعا دی۔ (بخاری: 5467،باب تسمیة المولود) یہ ابو موسی اشعری کے بڑے صا حب زادے تھے، حضرات صحابہ کرام کی عادت طیبہ یہ تھی کہ کسی کے گھر بھی ولادت ہوتی تو اس کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے آتے، آپ عليه السلام بچے کو لیتے، اسے چومتے، اس کے لیے برکت کی دعا کرتے، اسی طرح جب بعض دفعہ دورانِ نماز بچے کی رونے کی آواز آتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس بچے کی رعایت کرتے ہوئے نماز میں تخفیف فرمادیتے۔ (بخاری: 707 ،باب من أخف الصلاة عند بکاء الصبی) اسی طرح ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلمنے ام خالد کو بلایا، بذات خود اس لڑکی کو خصوصی قمیص پہنائی، اور فرمایا: اس وقت تک پہنو کہ یہ پُرانی ہوجائے۔(بخاری: 5823 باب الخمیصة السوداء) ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک بچے کو گود میں اٹھالیا، بچے نے کپڑے پر پیشاب کردیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پر پانی بہا کر صاف کردیا۔ (بخاری: 6002 ،با ب وضع الصبی فی الحجر) حضرت انس فرماتے ہیں کہ میرے ایک چھوٹے بھائی تھے، جن کانام ابو عمیر تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم آئے، ابو عمیر سے فرمانے لگے: ”یا ابا عمیر، ما فعل النغیر؟“ یعنی اے ابو عمیر تمہارے چھوٹے پرندہ کا کیا ہوا؟ (بخاری:612 باب الانبساط إلی الناس) آپ صلی الله علیہ وسلم مشغولیت ومصروفیت کے باوجود آپ ںعليه السلام صحابہ کرام کی اولاد کے ساتھ نرمی، محبت، انسیت، الفت کا معاملہ فرماتے، انہیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے، ان کے پرندوں کے تئیں استفسار کرتے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے سوال کردہ اس محبت بھرے جملے سے فقہائے عظام نے کئی مسائل کا استنباط فرمایا۔

حقوق میں بچوں کی تقدیم
آج تمام تر تنازعات کا حل حقوق کی ادائیگی پر موقوف ہے، ہر کوئی اپنے حق کا طالب ہے، لیکن دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے بیزار ہے ،آپ عليه السلام نے نہ صرف اکابر کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دی، بلکہ آپ عليه السلام نے اصاغر کے حقوق تک کا لحاظ فرمایا اور اصاغر کے حقوق ادا کرتے ہوئے امت کی توجہ اس جانب مبذول فرمائی کہ ہر ایک کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے،حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں : ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا، اس کے بعد آپ ںعليه السلام نے دیکھا کہ آپ کی دائیں جانب ایک بچہ ہے اور بائیں جانب صحابہ کرام ہیں، آپ عليه السلام نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ مشروب ان بڑے حضرات کو عنایت کروں، اس بچے نے کہا، ہر گز نہیں، قسم بخدا! میں اپنے حقوق پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا، یہ سنتے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیالہ اسے تھمادیا۔ (بخاری:2366 باب من رأی أن صاحب الحوض الخ) اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام ہو، بچوں کے حقوق معلوم کر کے انہیں مکمل کرنے کی عادت بنانی چاہیے۔

یہودی بچے کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل
مسلمان بچوں کے ساتھ توہم کسی قدر نرمی کا مظاہرہ کر ہی لیتے ہیں، لیکن کفار کے بچوں کے ساتھ ہمارا جو طرز عمل ہوتا ہے ،وہ نا قابلِ بیان ہے، ان پر تو کوئی نظرِ التفات ہوتی ہی نہیں، قربان جائیے سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم پر! جنہوں نے اپنے اسوہ سے کفار کے بچوں کے ساتھ بھی نرمی کی تلقین کی،ایک یہودی شخص کا لڑکا آپ عليه السلام کی خدمت میں تھا ،وہ ایک دفعہ بیمار ہوگیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے از خود تشریف لا کر اس کی عیادت فرمائی، اس بچے کے سر ہانے بیٹھے، پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کرو، اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی، والد نے بھی کہا ابوالقاسم (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کر، لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا، آپ صلی الله علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے نکلے، الحمد اللہ الذی أنقذہ من النار․ (بخاری : 1356 ،باب إذا أسلم الصبي فمات)کہ تمام تعریفات اسی اللہ کے لیے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچالیا، یہ حدیث بتارہی ہے کہ بچے پر شفقت ونرمی کی جائے، چاہے وہ بچہ کافر ہی کا کیوں نہ ہو۔

لڑکی کا خصوصی مقام
زمانہٴ جاہلیت میں عرب لڑکی کی پیدائش کو اپنے لیے عارسمجھتے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے لڑکیوں کے حقوق کا تحفظ کیا، لڑکیوں کے اکرام کی تعلیم دی، اس کی تربیت ،اس پر خرچ کی تلقین کی، لہٰذا آپ عليه السلام نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی بالغ ہونے تک پرورش کی قیامت کے دن میں اور وہ ایک ساتھ ہوں گے (مسلم :2631 ،با ب فضل الإحسان إلی البنات) الغرض آپ عليه السلام نے اپنے قول وعمل سے معاشرہ کے ایک کمزور طبقہ پر رحم وکرم کے عجیب وغریب نمونے پیش فرمائے، آنے والی امت کو تلقین کی کہ اس طبقہ کا لحاظ کرو، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے پرہیز کرو؛ کیوں کہ یہی بچے مستقبل کے اثاثہ ہیں، ان بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک، ان کی صحیح انداز میں تربیت روشن وتاب ناک مستقبل کی ضامن ہوگی، ابتدائی مراحل میں بچوں کے ساتھ بے اعتنائی وبے احتیاطی بچوں کے لیے غلط راہیں فراہم کریں گی، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا خاتمہ کر کے سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بچوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے۔

Flag Counter