Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 18
الصلوٰة ۔۔۔ نماز کی اہمیت، افادیت اور رموز پر
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی کا پُرمغز بیان

تسہیل: محترم سید عروہ عرفان

حضرت عمر بیمار تھے۔ کسی نے پوچھا کہ مزاج کیسا ہے ؟ آپ رضی الله عنہ نے کہا، طبیعت اچھی نہیں ہے۔ بہ ظاہر، یہ جملہ شانِ استقلال کے خلاف معلوم ہوتا ہے ،مگر ”درنیا ید حال پختہ ہیچ خام“ کہ عام آدمی عارفین کا حال نہیں سمجھ سکتا۔

عوام تو عارفین کی اس حالت کو یوں سمجھتے ہیں کہ یہ جملہ شان استقلال کے خلاف ہے، کیوں کہ لوگ تو بزرگی اسے سمجھتے ہیں کہ آدمی پتھر ہو جائے، کچھ حس ہی نہ رہے، بلکہ اس کے افعال فطرت کے خلاف صادر ہوں۔ بعض کی حالت یہ ہوئی کہ بچہ مرگیا تو وہ ہنس پڑے۔ عوام ایسی باتوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں او رکمال سمجھتے ہیں، حال آنکہ کامل حالت تو وہ ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مشابہ ہو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے صاحب زادے ابراہیم کا انتقال ہو گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم روئے۔ پس یہ معلوم ہو گیا کہ مصیبت میں غم نہ ہونا، کوئی کمال نہیں۔

لوگوں نے اسے بھی کمال اور بزرگی سمجھ لیا ہے کہ کسی بات کا اثر ہی نہ ہو، حال آنکہ بزرگوں پر تو ہر شے کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ البتہ جو شریعت کی حدود سے باہر ہو، اس پر عمل نہیں کرتے۔ چناں چہ نامناسب بات پربزرگوں کو غصہ آتا ہے، مگر پھر بھی اس پر عمل کرنے میں اعتدال سے کام لیتے ہیں۔ حسد سے تجاوز نہیں کرتے۔ بادشاہوں کے حواس اتنے سلیم ( لطیف) نہیں ہوتے جتنے ان بزرگوں کے ہوتے ہیں۔ ان کا ادراک بہت صحیح ہوتا ہے، اس لیے انہیں اولاد کی محبت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

حضور صلی الله علیہ وسلم ایک مرتبہ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین او رحضرت حسن رضی الله عنہم کھیلتے ہوئے آگئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم فرطِ محبت سے خطبہ پڑھ کر منبر سے اُتر آئے اور پیار کیا، پھر منبر پر تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو پیار کرتے دیکھ کر ایک صحابی نے کہا کہ یا رسول الله !میرے دس بیٹے ہیں۔ میں نے انہیں کبھی پیار نہیں کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ تمہارے دل سے محبت ہی نکال لیں تو میں کیا کر لوں گا؟

حضرت عمر  بیماری میں کراہ رہے تھے۔ جو صاحب عیادت کو گئے، انہوں نے پوچھا کہ آپ  کا مزاج کیسا ہے؟ آپ  نے فرمایا، اچھا نہیں ہے۔ وہ بولے، آپ تو بے استقلالی ( بے ہمتی) کی بات کرتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا، کیا میں الله کے رُوبہ رُو پہلوان بنوں؟

یہ ہیں عارفین!
یہ حضرات گویا مزاج شناس ہوتے ہیں۔ جس کام میں الله تعالیٰ کی رضا دیکھتے ہیں۔ اس کے مطابق عمل کرتے ہیں کہ اس وقت یہ مناسب ہے، اُس وقت وہ مناسب ہے۔ یہ بات اس مناسبت سے بیان کی کہ حزن وغم بڑی مشقت ہے۔

ایک بزرگ ہمیشہ مقروض رہتے تھے۔ عادت یہ تھی کہ ضرورت کے وقت قرض لے لیا۔ جب کہیں سے پیسہ آیا تو قرض واپس کر دیا۔ ساری عمر قرضے میں گزری ہے، حتیٰ کہ موت کے قریب بھی مقروض تھے۔ یہ بزرگی کے منافی نہیں ہے، کیوں کہ جو قرض الله کے واسطے ہو وہ گناہ نہیں ہے۔ یہ بھی الله ہی کے واسطے قرض لیا کرتے تھے، کیوں کہ بزرگوں کے ہاں مہمان آتے ہیں۔ جب ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو قرض لے کر ان کی مہمانی کرتے ہیں۔

اب زندگی کا آخری وقت آیا تو اس حالت میں لوگوں نے آآکر تقاضا شروع کیا کہ ہم نے تو آپ کو بزرگ سمجھ کر قرضہ دیاتھا، اب ادا کیوں نہیں کرتے۔ وہ بزرگ روکھے روکھے جواب دیتے تھے۔ جب قرض خواہوں نے بہت تنگ کیا تو چہرہ ڈھانپ کر پڑ رہے۔ اتنے میں ایک لڑکا حلوا بیچتا ہوا اِدھر آنکلا۔ اس نے آواز لگائی۔ ان بزرگ نے حلوے والے کو بلو الیا اور پوچھا کہ تیرے پاس کتنا حلوا ہے؟ وہ سارا حلوا دو روپے کا تھا۔ سارا حلوا خرید لیا۔ جتنے لوگ پیسوں کا تقاضا لے کر آئے تھے، سب کو وہ حلوا کھلا دیا۔ حلوا فروش نے جب حلوے کی رقم مانگی تو بزرگ نے یہ جواب دیا کہ اگر پیسے ہوتے تو میرے پاس اتنے سارے قرض خواہوں کی یہ بارات کیوں نظر آتی؟ تو بھی بیٹھ جا! یہ دیکھ کر لوگوں نے بزرگ کو اور بھی لتاڑا کہ اس بچے پر بھی آپ نے ظلم کیا۔اگر ہمیں پہلے سے یہ معلوم ہوتا تو ہم کبھی اس لڑکے کا حلوا نہ کھاتے۔ لوگوں کو ان بزرگ کا یہ فعل بُرا لگا مگر …
        در نیابد حال پختہ ہیچ خام
کہ کامل کے حال کو ناقص نہیں سمجھ سکتا۔

حلوے والے لڑکے نے یہ حال دیکھا تو رونا شروع کر دیا کہ میرا استاد مجھے مارے گا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک شخص کچھ روپے او رحلوے کے دام الگ سے لے کر بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ سب رقم ان قرض خواہوں میں تقسیم کر دی گئی کہ وہ رقم اتنی ہی تھی کہ قرض ادا ہو جائے ۔ لڑکے کے حلوے کے دام بھی ادا کر دیے گئے۔

کسی نے بزرگ سے پوچھا، حضرت یہ کیا بات تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ جب لوگ اپنا قرض طلب کرنے آئے اور مجھے تنگ کیا تو میں نے الله تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے الله! میرا قرضہ ادا کر دیجیے کہ میں نے تو آپ کی خاطر قرض لیا تھا۔ وہاں سے جواب ملا کہ ہمارے خزانے میں تو کچھ کمی نہیں، مگر یہاں کوئی رونے والا نہیں۔ بس میں نے سوچا کہ کسی کو رلاؤ۔ پھر میں نے اس حلوے والے کا انتخاب کیا۔ اس کے متعلق مولانا فرماتے ہیں #
        تانہ گرید کودک حلوا فروش
        بحر بخشایش نمی آید بجوش
        تانہ گرید طفل کے جوشد لبن
        تانہ گرید ابر کے خند وچمن
کہ جب تک حلوا بیچنے والا روتا نہیں، اس وقت تک بخشش کے سمندر کو جوش نہیں آتا۔ بچہ جب تک نہ روئے، ماں کو بھی دودھ پلانے کا خیال نہیں آتا۔ جب تک بارش نہ برسے، چمن سے بہار نہیں آتی۔

غرض رونا، خواہ دنیا کی وجہ سے ہو، اس پر بھی رحمت متوجہ ہوتی ہے ۔ پس دنیا کی وجہ سے رونا بھی خشوع سے قریب تر اور الله کی رحمت کی چابی ہے۔ مگر نماز میں اس کی بھی ممانعت ہے۔ ہاں، اگر دین کے خوف سے روئے، مگر چلائے نہیں تو جائز ہے۔ کتنی بڑی شان ہے نماز کی !

اسی طرح نماز میں تیز چلنے کا بھی روزہ ہے۔ فقہا نے لکھا ہے کہ اگر نماز میں مسلسل چلاتو نماز فاسد ہو جائے گی۔ ایک قدم چلا اور ٹھہر گیا، پھر ایک قدم چلا اور ٹھہر گیا تو نماز فاسد نہیں ہو گی ۔

ایک صحابی سفر میں جارہے تھے۔ نماز پڑھنے کے لیے گھوڑے پر سے اترے۔ گھوڑے کو چرنے چھوڑ دیا، البتہ باگ کی رسی ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے اور نماز پڑھ رہے تھے۔ گھوڑا چرتا ہوا آگے سر کتا تو یہ بھی ایک قدم آگے سرک جاتے۔ ایک خارجی نے دیکھا تو اعتراضاً کہا، سبحان الله یہ صحابی ہیں؟ ان صحابی نے جب خارجی کا یہ اعتراض سنا تو فرمایا:

میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی آسانی کا مشاہد ہ کیا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم سہولت کو پسند فرماتے تھے۔ تم نے یہ تو دیکھا کہ میں دورانِ نماز گھوڑے کے قدم کے ساتھ قدم بڑھاتا ہوں اور اس پر اعتراض کیا۔ مگر یہ نہ دیکھا کہ میں ایسا نہ کرتا (یعنی گھوڑے کی باگ نہ پکڑا رہتا) تو گھوڑا بھاگ جاتا۔ میں پیدل نہیں چل سکتا۔مجھے پھر کتنی تکلیف ہوتی؟

اب اگر کوئی کہے کہ اگر تکلیف ہوتی بھی تو اس سے دین کا کیا نقصان تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیا نقصان سے الله والے پریشان نہیں ہوتے؟ الله والوں کو کسی معاملے میں پریشان نہ دیکھو گے۔ ہاں! کمر میں درد ہو گیا، بیماری ہو گئی ․․․ یہ تو دیکھو گے، مگر حقیقتاً پریشانی جسے کہتے ہیں، وہ الله والوں کو نہیں ہوتی۔

پریشانی کی ایک حقیقت ہے اور ایک صورت ہے ۔ اہل الله میں پریشانی کی صورت تو ہوتی ہے کہ تکالیف میں مبتلا ہوئے ہیں، مگر پریشانی کی حقیقت نہیں ہوتی ۔اگر کوئی کہے کہ ایک شخص مر رہا ہے او رپھر بھی کہے کہ مر نہیں رہا، یہ تو زبردستی کی بات ہے۔ ہم بزرگوں کو بڑی بڑی پریشانیوں میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ کوئی بیماری کی مصیبت میں مبتلا ہے، کوئی فقروفاقہ میں۔ پھر پریشانی کیسے نہ ہوتی ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے پاس وہ گُر دیکھ لیجیے، اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ ان میں پریشانی کے آثار ہیں یا نہیں؟

پریشانی میں انسان بد حواس ہو جاتا ہے۔ والله، وہ حضرا ت ہر حالت میں نہایت مطمئن ہوتے ہیں۔ ان کی یہ حالت ہوتی ہے جیسے کسی کا محبوب ہو اور وہ اس کی جدائی میں مر رہا ہو۔ کھانا پینا چھوٹ گیا ہو۔ وہ محبوب اگر اتفاق سے مل جائے اور عنایت ومہربانی سے اس کی حالت پر ترس کھا کر اُسے بغل میں لے لے․․․اور ایسا دبائے کہ آنکھیں نکلنے لگیں اور وہ یہ دیکھ کر میرے دبانے سے اسے تکلیف ہوتی ہے ، امتحاناً اسے یوں کہے کہ اگر تم کو تکلیف ہو تو میں چھوڑ دوں اور تمہارے بجائے رقیب کو بغل میں لے لوں تو اتنا تو ذوق سب کو ہے کہ وہ شخص کیا کہے گا۔ وہ تو یہی کہے گا:
        نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت
        سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی
کہ دشمن کا یہ نصیب کہاں کہ آپ کے خنجر سے ہلاک ہو؟ آپ کی خنجر آزمائی کے لیے دوستوں کا سر سلامت ہے۔کوئی شخص اس عاشق کو پریشان کہہ سکتا ہے؟ کیا اس کو دبانے سے تکلیف ہو گی؟ ہر گز نہیں! عین راحت ہو گی۔ ہاں! جسم کو تکلیف ہو سکتی ہے، مگر روح کو نہ ہوگی۔ کیا آپ نے پچاس روپے دے کر کبھی آپریشن نہیں کرایا۔ رقم دے کر بھی یہی کہوگے کہ میری رگ رگ میں راحت ہو گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جسمانی تکلیف پر پریشانی کا مدار نہیں۔ چناں چہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جسمانی تکلیف ہوتی ہے، مگر روح کو پریشانی نہیں ہوتی۔ اسی طرح، اہل الله صورتاً پریشان ہوتے ہیں، حقیقتاً پریشان نہیں ہوتے۔ ہاں! صورت نعمت کی ہو سکتی ہے ۔ المختصر یہ کہ الله والوں کو پریشانی نہیں ہوتی۔

اسی طرح، وہ صحابی اگر نماز میں گھوڑے کی باگ نہ پکڑتے تو وہ بھاگ چلتا اور آخرت کے نقصان کا بھی امکان تھا، کیوں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب عبادت کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے تو نفس کہتا ہے کہ میں یہ عبادت نہ کرتا تو اچھا تھا، کیوں کہ عبادت کی وجہ سے میں اس پریشانی میں مبتلا ہوا۔ اسی لیے شریعت نے یہ آسانی کر دی کہ اگر مسلسل نہ چلنا ہو تو نماز ہو جائے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں راحت کے کس قدر احکام ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ اگر نماز کے دوران میں گھوڑا دوڑنے لگے تو پھر کیا کریں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت نے ایسے وقت میں نماز توڑنے کی اجازت دی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص جوتا چرا رہا ہو تو نماز توڑ کر اسے پکڑ لینے کی اجازت ہے۔ چار آنے کی ہانڈی ہی جل رہی ہو، خراب ہو رہی ہو تو اس وقت بھی نماز توڑ دینے کی اجازت ہے۔

کون کہتا ہے کہ شریعت میں تشدد ہے۔ شریعت میں تو رائی برابر بھی تشدد نہیں، بلکہ تشدد کی ممانعت ہے۔ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”لا ینبغی للمؤمن ان یذل نفسہ․“یعنی مومن کو مناسب نہیں کہ خود کو ذلیل کرے۔

صحابہ نے عرض کیا، قالوا یا رسول الله کیف یذل نفسہ؟ یعنی اپنے نفس کو ذلیل کرنے سے کیا مُراد ہے؟ تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” یتحمل من البلاء لما لا یطیقة․“ یعنی ایسی مصیبت میں اپنے آپ کو پھنسائے کہ جس کی برداشت نہ کرسکے۔

دیکھیے، حضور صلی الله علیہ وسلم تشدد سے کس طرح منع فرماتے ہیں اور کیسی آسانی سکھاتے ہیں ۔شریعت کی ہر تعلیم ایسی ہی ہے۔ ہر واقع میں سہولت کی کیسی تدابیر تعلیم فرمائی۔ یہی معاملہ نماز کے احکام کا ہے کہ کھڑے نہ ہوسکو تو بیٹھ کر اور بیٹھ کر نہ پڑھ سکو تو لیٹ کر نماز پڑھ لو۔

مرنے سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن کوئی دوسرا معاملہ نہیں۔ اس کے بارے میں کتنی عمدہ تعلیم فرمائی ہے۔ قرآن شریف میں ہے:﴿اذا اصابتھم مُصیبة قالوا انا لله وانا الیہ راجعون﴾․ ترجمہ: جب ان پر مصیبت پڑتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم الله کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

اس آیت میں ہمیں مصیبت میں تسلی کا طریقہ بتایا ہے کہ مصیبت کے وقت انا لله وانا الیہ راجعون کہنے سے تسلی ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہم نے مصیبت کے وقت پڑھا تھا، مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ تو جواب یہ ہے کہ وظیفہ کی طرح پڑھنے کو کس نے کہا تھا، بلکہ ساتھ میں اس کی حقیقت پر بھی غور کرنا چاہیے ۔ وہ یہ کہ مصیبت آنے پر دو باتوں کا لحاظ رہے:

ہم خدا کی ملکیت ہیں، ہم اپنے نہیں ، جب ہم خدا کے ہیں تو انہیں اختیار ہے کہ جیسے چاہیں ، ہمیں استعمال کریں۔ یہاں رکھیں یا اٹھالیں۔ اس میں تو عقل کی تسلی ہو گئی۔

جہاں ہمارے عزیز چلے گئے، ہم بھی وہیں چلے جائیں گے ۔ اس میں طبیعت کی رعایت ہے۔

اس طرح․․․ ایک عقل․․․ دوسرے طبیعت۔ عقل تو الله سے راضی ہو گئی، کیوں کہ عقل تسلیم کرتی ہے کہ جب ہم ہیں ہی الله کے ،تو الله کو ہم میں تصرف کا حق ہے۔ ہمیں رنج کرنے کا کیا حق ہے؟ انہیں اختیار ہے کہ جو چاہیں، کریں ۔ مگر طبع ابھی راضی نہیں ہوئی تھی کہ باپ مر گیا، اب اس کے مرنے کا رنج کیسے نہ ہو؟ تعلق ہوتا ہی ایسا ہے کہ رنج تو ضرور ہوتا ہے ۔ اب ہم کیا کریں ؟ اس لیے دوسرا جملہ طبیعت کو سنبھالنے (قرار دینے) کے لییبتایا کہ جس عشرت کدے میں مرنے والا گیا ہے، ہم بھی وہیں چلے جائیں گے۔ گھبرانے کی بات نہیں۔ جلد ہی ملاقات ہو جائے گی۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی کو حیدر آباد دکن کی وزارت کا عہدہ مل گیا اور وہ وہاں چلا گیا۔ اب اس کے بیٹے کو اس کے حیدرآباد جانے کا بڑا صدمہ ہوا۔ اس سے کسی نے کہا کہ تم کیوں گھبراتے ہو؟ تمہارا باپ تو بڑے عیش میں ہے۔ وزارت کے عہدے پر ہے ۔ تم بھی عن قریب وہیں بلالیے جاؤ گے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سن کر اسے اپنے باپ کی جدائی کا صدمہ باقی رہے گا؟ لہٰذا یہ دوسرا جملہ طبیعت کی تسلی کے لیے بڑھایا ہے۔

غرض انا لله وانا الیہ راجعون(ہم سب الله کے لییہیں اور الله کی طرف لوٹنے والے ہیں) میں عقل اور طبیعت دونوں کی تسلی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے جذبات طبیعہ کی کتنی زیادہ رعایت کی ہے ۔ ساری دنیا کے عقلا اور حکما جمع ہو جائیں تو بھی ایسی تسلی کا ذریعہ نہیں لاسکتے۔

جب انا لله کی یہ حقیقت ملحوظ ہو گئی کہ ہم سب الله کی ملکیت ہیں تو کسی عزیز کے مرنے سے عقلاً تو خدا تعالیٰ سے شکایت پیدا نہیں ہو گی۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی کی ملکیت میں دو گھوڑے ہوں۔ ایک کو ایک جگہ باندھے اور دوسرے کو دوسری جگہ باندھے۔ کسی کو کیا حق ہے کہ اس پر یہ اعتراض کرے کہ ایسا کیوں کیا؟ یا الماری میں دو بوتلیں رکھی ہوں۔ ایک کو نیچے کے خانے میں رکھے اور دوسری کواوپر کے خانے میں رکھ دے۔ کسی کو اعتراض کا حق نہیں کہ ایک کو نیچے کیوں رکھا اور دوسری بوتل کو اوپر کس لیے رکھ دیا؟ یہ تو اس کی ملکیت ہے جو چاہے، کر ے۔اسی طرح ہم سب الله تعالیٰ کی چیزیں ہیں ( اس کی ملکیت ہیں) وہ جس کو چاہے، یہاں رکھے اور جس کو چاہے اٹھالے۔ کسی کو باتیں بنانے کی اجازت نہیں۔

باقی طبیعی جذبات ضرور اثر کرتے ہیں، اس لیے دوسرے جملے میں اس کی بہت رعایت ہے ۔ یہ نہیں کہ اس امر طبیعی پر مواخذہ فرماتے، بلکہ اسی اثر کو جائز رکھ کر اس کا تدارک کیا۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں کہ اگر قانون بنانے والا الله کے سوا کوئی اور ہوتا تو مرنے والے کے بعد اس کے مرنے پر کسی کو رونے کی اجازت ہی نہ ہوتی، کیوں کہ جو شخص قانون مقرر کرتا ہے اس کا حکم تو عقل کی اتباع کرنا ہے اور عقل یہاں یہ کہتی ہے کہ جب ہم الله کے ہیں تو وہ جو چاہے، کرے، ہمیں کیاہے کہ اس پر غم کریں چہ جائیکہ رونا؟

مگر قربان جائیے کہ شریعت رونے کی بھی اجازت دیتی ہے، بلکہ اس میں ایک طرح کی فضیلت بھی رکھ دی کہ ھُو رحمة (آنسو بہانا خدا تعالیٰ کی رحمت ہے ) حال آنکہ عقل اسے جائز نہیں کہتی۔ دیکھ لیجیے کہ وہ رونا جسے عقل حرام کہتی ہے، خدا کے قانون میں فضیلت قرار دیاجارہا ہے ۔

افسوس کہ آج کے عقلا دین میں اپنی عقل کا اتباع کرتے ہیں۔ مسائل میں علما سے بحثیں کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ عقل کے خلاف ہے۔ اس مقام پر وہ لوگ اپنی عقل سے فیصلہ کرکے بتائیں کہ عقل زیادہ خیر خواہ ہے ، یا شریعت۔ عقل تو رونے کو جرم بتاتی ہے اور شریعت اسے اچھا شمار کرتی ہے۔ کس کے حکم میں آسانی ہے․․․ شریعت کے یا عقل کے؟ ظاہر ہے، شریعت کا فتوی زیادہ رحم پر مبنی ہے۔ اب جو خیرخواہ انسان کا، یعنی شریعت ،اس کی جگہ یہ لوگ عقل کو امام بنانا چاہتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں #
        آزمودم عقل دور اندیش را
        بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را
کہ میں نے دوراندیش عقل کو آزمایا، جب اس سے کام نہ چلا تو خود کو دیوانہ بنالیا۔

اب سمجھ لیجیے کہ جب شریعت نے موت میں جو کہ اتنی بڑی پریشانی کا واقعہ ہے، اس درجہ سہولت ورعایت کی ہے اور اس قدر راحت پہنچائی ہے تو دیگر معاملات میں راحت اور آسانی کا سامان کیوں نہ کیا گیا ہو گا؟!

اسی طرح شریعت نے ہمیں ہر معاملے میں ایسا طریقہ بتایا ہے کہ اسے اختیار کرنے میں راحت ہی راحت ہے ۔ اسی وجہ سے احکام شریعت کے بارے میں یہ دعوا کیا گیا ہے کہ﴿ الا بذکر الله تطمئن القلوب﴾ کہ الله کے ذکر سے قلوب کو اطمینان ہوتا ہے۔ (جاری)

Flag Counter