Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1436ھ

ہ رسالہ

1 - 18
اہل باطل اور اہل حق

عبید اللہ خالد
	
پوری کائنات کا نظام اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا تو ساتھ ہی حق اور باطل کا معرکہ بھی شروع ہوگیا۔ ایک جانب آدم کو کھڑا کیا تو اس کے مقابل ابلیس تھا۔ حق اور باطل کی یہ اولین جماعتیں تھیں جن میں سے حق کو اللہ کی رضا مقصود تھی اور باطل کو اپنی انا کی تسکین ۔ حق کاجھنڈا آدم کے ہاتھ میں تھا تو باطل کا سرغنہ ابلیس ٹھیرا۔ اس دنیا کی تخلیق سے تا قیام قیامت، یہ دونوں برسر پیکار رہے ہیں اور رہیں گے۔

تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کو بہ ظاہر باطل زوروں پر دکھائی دے گا اور اہل حق کمزور اور مغلوب دکھائی دیں گے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اہل حق کا معیار اور ہے، اور اہل باطل کا معیار اور۔ چناں چہ اہل باطل کے ہاں جو شے مطلوب ہے، وہ اہل حق کے ہاں مردود۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اہل باطل کے ہاں اپنے عمل کا کوئی پیمانہ نہیں، جبکہ اہل حق اللہ کے دیے گئے پیمانے کے مطابق چند حدود کے پابند ہیں۔ اور اہل حق کا اصل امتحان یہی ہے، کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھنا اور اللہ کی رضا سے توانائی لینا چاہتے ہیں۔

اہل باطل اپنی خواہشوں کی ترویج چاہتے ہیں اور بہ زعم خود تدبیریں کرتے اور انھیں عملی جامہ پہناتے ہیں تو اہل حق اللہ کی رضا اورتدبیرکو مقدم رکھتے ہیں اور اپنی تدبیر پر خدا کی تدبیر کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی اہل حق کی آزمائش بھی ہے کہ اہل باطل سے مقابلے میں کہیں وہ خدا کی حدود کو نہ چھوڑ بیٹھیں۔ چناں چہ ابتدا میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ اہل حق پر اہل باطل غالب آیا چاہتے ہیں، مگر باطل کی تدابیر میں کامیابی عارضی ہوتی ہے اور حتمی فتح بہ ہر کیف، حق ہی کی ہوتی ہے۔

باطل کے عارضی غلبے اور حق کی عارضی مغلوبیت کا یہ دَور بڑا ہی عجیب ہوتا ہے۔ ایک جانب اہل باطل اپنے عارضی غلبے کو حتمی فتح گردانتے اور اپنی چالوں پر پھولے نہیں سماتے تو دوسری جانب اہل حق اس دورانئے میں انسانی فطرت کے تابع، خود کو بوجھل اور بے کل سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایک ہی حالت باطل اور حق کے درمیان فصیل کھڑی کردیتی ہے۔ باطل اپنے بطلان میں مزید دھت ہوتا ہے تو اہل حق کو اللہ کی طرف رجوع کا موقع ملتا ہے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ومکروا ومکراللہ، واللہ خیرالماکرین کہ ایک طرف اہل باطل منصوبہ بندی اور پلاننگ کررہے ہیں اور دوسری جانب اللہ تعالیٰ بھی اپنی پلاننگ میں لگے ہوئے ہیں ․․․ مگر اللہ تعالیٰ بہترین منصوبہ ساز، بہترین پلانر ہیں۔

خدا کا کلام ایک جانب اہل باطل کیلیے تنبیہ ہے تو اہل حق کے لیے بشارت کہ صبر کرو، یہ حالات وقتی ہیں اور اہل باطل کی تدابیر کے مقابلے میں اللہ اپنی تدابیر بھی کررہا ہے اور جب اللہ مناسب وقت خیال کرے گا، اس وقت اہل باطل کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے، کیوں کہ اللہ کی قوت اور اختیار باطل کی قوت سے کہیں زیادہ ہے، یہ اور بات ہے کہ اللہ اپنی قوت اور اختیار کااستعمال ہر دم نہیں کرتا، اور نہ مجرم کو فوری پکڑتا ہے، کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ میرا بندہ حق کو قبول کرکے راہِ راست پر آجائے تاکہ میری پکڑ سے محفوظ رہے۔

لیکن، ایک تعداد ایسے باطل پرستوں کی بھی ہوتی ہے جو اپنی خواہش کے آگے تو ضرور جھکے رہتے ہیں، مگر خدا کے حکم کے آگے سر جھکانے کو تیار نہیں ہوتے۔ پھر ایک وقت آنے پر کہ جس کا علم صرف اللہ ہی کو ہوتا ہے، وہ ان اہل باطل کو پکڑتا ہے اور دنیا میں سزا دیتا ہے، کبھی انفرادی طور پر تو کبھی اجتماعی طور پر․․․ آخرت کا عذاب تو اس کے ماسوا ہے۔

ہم تو یہی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تو ہمیں ایسے لوگوں کے راستے پر چلا جو تیرے بتائے گئے ہدایت کے راستے پر گامزن رہے اور ہمیں ان بھٹکے ہوؤں سے جدا کردے کہ جن پر تیرا غضب اور عذاب نازل ہوا۔ ہاں، ہم بہت کمزور ہیں، ہماری کمزور ی کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں کڑی آزمائش اور سخت حالات سے ضرور بچا۔ آمین!

Flag Counter