Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1436ھ

ہ رسالہ

8 - 20
الصلوٰة
نماز کی اہمیت، افادیت اور رموز پر حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ کا پُرمغز بیان

تسہیل: محترم سید عروہ عرفان

جب نبیوں کی یہ حالت ہے کہ وہ دنیوی اور اخروی اسباب قطعیہ کو نہیں چھوڑتے تو عام لوگوں کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے آخرت کے بارے میں توکل کیسے اختیار کر رکھا ہے کہ اس کے حصول کی کوشش ہی نہیں کرتے؟ مانا کہ یہ اہل توکل ہیں، مگر یہ ایسی چیز میں توکل کرتے ہیں جس میں توکل درست نہیں۔

بہرحال، الله تعالیٰ نے اس مقام پر آخرت کی کام یابی کے اسباب (ذرائع) کو بیان کیا ہے، بلکہ میں تو اور بڑھا کر یہ کہتا ہوں کہ یہ کام یابی کے ” معلق“ اسباب بیان کیے ہیں (دنیا اور آخرت دونوں کے)، کیوں کہ ”فلاح“ میں کوئی قید نہیں لگائی۔ لہٰذا وہ عام فلاح (کام یابی) ہو گی … دنیاوی بھی، اخروی بھی۔

فلاح یعنی کام یابی کو ذکر کرنے کے بعد اس کے طریقے بتا دیے گئے ہیں، جنہیں اختیار کرکے آخرت کی کام یابی ملتی ہے۔

ارشاد ہے:﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی﴾․ (سورة الاعلیٰ، آیت:15-14)

یہاں تین اعمال بیان کیے ہیں۔ ایک تَزَکَّی، دوسرے ذَکَرَ اسْمَ رَبِّہ، تیسرے صلی۔ یہاں تَزَکَّیٰ سے عام معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ باطنی گناہوں سے بھی تزکیہ ہو اور ظاہری (جسمانی) گناہوں سے بھی تزکیہ ہو۔ مگر دوسری آیت ﴿وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ باطنی گناہوں سے پاکی مراد ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے :﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا، فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا، قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا﴾․ (سورہ الشمس، آیت:9-7)
ترجمہ:” اور قسم ہے انسان (جان) کی اور اُس ذات کی جس نے اسے درست بنایا، پھر اسے بد کاری اور پرہیز گاری (دونوں کا) القا کیا۔ یقیناً وہ مراد کو پہنچ گیا جس نے اس (جان) کو پاک کر لیا۔“

زَکَّاہَا میں مفعول کی ضمیر نفس کی طرف ہے کہ نفس کا تزکیہ (پاک) کر لیا۔ اس آیت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ کام یابی کا مدار تزکیہٴ نفس کی طرف ہے کہ نفس کا تزکیہ کر لیا۔ اور ظاہر ہے کہ نفس کا تزکیہ اور اس کی پاکی باطنی برائیوں سے چھٹکارا پاکر ہی ہوتی ہے، کیوں کہ نفس بلاواسطہ انہیں سے متصف ہے، نہ کہ جسمانی اعمال سے، لہٰذا نفس کا تزکیہ بھی اس قسم کی برائیوں (باطنی برائیوں) سے پاک کرکے ہو گا۔

یہاں اس آیت میں اولیٰ ہے کہ باطنی برائیوں سے تزکیہ مراد ہو، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ظاہری اعمال کی ضرورت نہیں، جیسا کہ آج کل بعض لوگ کہتے ہیں، اس لیے تزکیہ باطن کا حکم دینے سے حق تعالیٰ کا مقصد ہر گز نہیں کہ تزکیہٴ ظاہری ضروری نہیں۔اگر ایسا ہی ہوتا تو آگے ﴿وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی ﴾کیوں فرماتے؟ اصل مقصد یہ ہے کہ نفس کی پاکی تو اصل ہے اور ظاہری پاکی اس کا جزو ہے۔

اسی طرح، ایک اور موقع پر یزکیھم فرمایا ہے۔ اس قرینہ سے یہاں بھی تزکیہ نفس مراد ہے، کیوں کہ اصل چیز تو تزکیہ باطن ہی ہے۔ اگر تزکیہٴ باطن اصل چیز نہ ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم یہ کیوں فرماتے:

التقوی ھھنا واشار الی صدرہ کہ ”تقویٰ یہاں پر ہے “ اور یہ فرماتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا۔ اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الغنی غنی النفس کہ غنی ، نفس کا غنا ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ غنا ظاہری کوئی چیز نہیں، بلکہ مطلب یہ کہ اصل غنا تو نفس ہی کا ہے ۔ اور جب نفس میں غنا ہوتا ہے تو ویسے ہی اعمال صادر ہوتے ہیں۔ اسی طرح، یہ مطلب نہیں کہ تقویٰ ظاہری کوئی چیز نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کی جڑ تو قلب میں ہے او رجب قلب میں تقویٰ ہوتا ہے تو افعال بھی اچھے ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف، اگر قلب میں تقویٰ نہ ہو گا تو اچھے اعمال کرنے کی خواہش بھی نہ ہو گی ۔

خوب سمجھ لیجیے کہ جب قلب کی اصلاح ہو جاتی ہے تو ظاہری جسمانی اعمال بھی درست ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا، اصل اصلاح، قلب ہی کی ہو گی ۔

مگر قلب کی اصلاح سے اعمال کی درستی کا مطلب یہ نہیں کہ اصلاح ہوجانے کے بعد اعمال کا ارادہ کرنے کی ضرورت بھی نہ رہے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ قلب کی اصلاح کے بعد اعمال کرنا آسان ہوجائے گا۔ یعنی اصلاح سے پہلے جو اعمال کرنا مشکل ہوتا تھا وہ اصلاح کے بعد کرنا آسان ہو جائیں گے، مگر ارادے کی ضرورت پھر بھی رہے گی۔

اصلاح کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اصلاح قلب سے پہلے برے کاموں کا چھوڑنا ارادے کے باوجود نہایت مشکل تھا، اصلا ح کے بعد آسان ہو گیا۔ جو لوگ اصلاح شدہ ہوتے ہیں، اور جو لوگ اصلاح شدہ نہیں ہوتے، ان میں بس یہی فرق ہے کہ اول الذکر کو دوسرے کے بعد عمل کرنا آسان ہوتا ہے․․․ ورنہ قصد تو سب کو کرنا پڑتا ہے۔

چناں چہ جن لوگوں کی اصلاح ہو چکی ہے، ان کا کام تو معمولی قصد (ارادہ) اور اشارہ ہی پر چلتا ہے۔ او رجنہوں نے اپنی اصلاح نہیں کی ہوتی، انہیں برے کاموں کو چھوڑنے کے لیے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اور بڑی دشواری ہوتی ہے۔ مثلاً، ایک عورت سامنے سے گزری۔ نفس کا تقاضا ہوا کہ اس کو دیکھ لو۔ اگر قلب کی اصلاح ہو چکی ہے ، تب بھی نفس کو روکنے کے لیے ارادے کی تو ضرورت ہو گی، مگر تھوڑے ارادے ہی سے نفس کو روک سکتے ہیں۔ اگر اصلاح نہیں ہوئی ہے تو ارادہ کرنے کے باوجود نفس کو روکنے میں سخت مشکل پیش آئے گی۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح ہو جانے کے بعد نفس میں گناہ کا تقاضا ہی نہیں رہتا، سو یہ بالکل غلط ہے۔ ہاں، یہ تقاضا کمزور ضرور ہو جاتا ہے کہ اگر دبایا جائے تو نہایت آسانی سے دب جاتا ہے۔ اور جس نے اصلاح نہیں کی ہوتی، اس کا گناہ کا تقاضا شدید ہوتا ہے، اسے روکنے میں بھی نہایت دشواری ہوتی ہے۔

اب یہ شبہ ختم ہو گیا کہ جب تقاضا اصلاح شدہ اور غیر اصلاح شدہ دونوں طرح کے لوگوں کو ہوتا ہے تو پھر دونوں میں کیا فرق ہوا؟ اور جب دونوں برابر ہیں تو پھر ریاضت کی ضرورت کیا ہے؟ میں نے ان دونوں کا فرق بتادیا ۔

ریاضت کردہ کی مثال ایسی ہے جیسے شائستہ گھوڑا ( منجھا ہوا گھوڑا) اور جس نے مجاہدہ نہیں کیا،اس کی مثال ایسی ہے جیسے شریر گھوڑا۔ سوار اگر ماہر ہوتو شائستہ گھوڑا اگر شوخی کرے تو اس کے لیے ذرا سا اشارہ کافی ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف شریر گھوڑے کو قابو کرنے میں ماہر کو بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ شہ سوار اپنے زور سے گھوڑے کو قابو میں لے آئے وہ اور بات ہے، مگر دقت ضرور ہو گی، بر خلاف شائستہ گھوڑے کے کہ وہ آسانی سے قابو میں آجاتا ہے ۔ یہ فرق ہے نفس کی ریاضت کرنے اور نہ کرنے میں۔

رہا، گناہوں کی طرف میلان (خواہش) تو وہ دونوں کو ہوتا ہے۔ ایسا کوئی شخص نہیں کہ جسے گناہ کی خواہش ہی نہ ہو، البتہ ریاضت سے قبل گناہ کا داعیہ قوی ہوتا ہے، اس لیے اس کا روکنا مشکل ہے۔ مگر طاقت سے باہر نہیں۔ دشواری ہوتی ہے اور نفس اس دشواری کو گوارا نہیں کرتا۔ مثلاً نامحرم کو دیکھ کر نگاہ نیچی کرنا نفس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ نفس اس بوجھ کو برداشت نہیں کرپاتا اور اس کی طرف نگاہ کر لیتا ہے او رکہتا ہے کہ پھر توجہ کر لیں گے۔ اس کے برخلاف، ریاضت کرنے والے میں گناہ کا داعیہ تو ہوتا ہے، مگر بہت کمزو رہوتا ہے۔ پھر ریاضت سے مدافعت کی بہت زیادہ قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ بہت آسانی سے گناہ کے اس داعیہ کی مدافعت کر سکتا ہے کہ داعیہ کمزور ہے اور قوتِ دافعہ طاقت وَر۔ بس اس وجہ سے ریاضت او رمجاہدہ کرتے ہیں۔

تزکیہ کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اثر سے، اس کی اعانت سے ظاہری اعمال بھی درست ہو جاتے ہیں، اس لیے الله تعالیٰ نے نفس کے متعلق فرمایا ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی﴾ کام یاب ہوا وہ شخص جو ( عقائد اوراخلاق کے خبائث و گندگی) سے پاک ہو گیا۔

لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ صرف یہ تزکیہ ہی کافی ہے، ظاہری اعمال کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ فقط قلب کا درست کر لینا کافی ہے۔ یہ لوگ شریعت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ تمام شریعت تو اصلاحِ ظاہر وباطن دونوں سے بھری ہے اور تصوّف کی حقیقت بھی یہی ہے کہ تعمیر الظاہر والباطن یعنی ظاہر و باطن کی اصلاح ہو۔ دونوں ہی کی ضرورت ہے۔ بعض وجہ سے اصلاح ظاہر کی ضرورت ہے اور بعض وجوہ سے اصلاحِ باطن کی ضرورت ہے۔

بہرحال، صرف اصلاحِ باطن کافی نہیں کہ ظاہر ترک کر دیا جائے اور اصلاح باطن ہی کو کافی سمجھاجائے۔ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ محض باطن کی اصلاح مقصود ہے تو ساتھ ہی یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ ”الشیء اذا ثبت بلوازمہ“ کہ جب کوئی چیز پائی جائے گی تو اپنے لوازم کے ساتھ پائی جائے گی۔ یہ طے شدہ قاعدہ ہے، مثلاً سورج کے لیے دھوپ لازم ہے۔ جب سورج نکلے گا تو دھوپ ضرور ہو گی۔ اسی طرح تین کے عدد کو فرد ہونا لازم ہے جہاں تین کا عدد صادق آئے گا، وہاں فرد بھی صادق آئے گا۔

جب یہ معلوم ہو گیا تو سمجھ لیجیے کہ جس وقت باطن میں کوئی کیفیت ہوتی ہے تو ظاہر میں اس کا ظہور ضروری ہے۔ مثلاً، کسی کے دل میں غصے کی کیفیت ہوتی ہے تو چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے کہ چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ دل میں تو محبت ہو اور محبوب کی طرف ہاتھ بڑھے، نہ پاؤں چلے۔

جب دنیا کی محبت کی یہ حالت ہے، جو نہایت ضعیف ہے تو پھر الله تعالیٰ کی محبت میں کہ جو نہایت قوی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قلب میں تو حق تعالیٰ کی محبت ہو اور زبان پر اُس کی تعریف کے کلمات نہ آئے ہوں اور عجز ونیاز نہ ظاہر ہو ؟ اگر ظاہراً کوئی آثار پائے نہیں جائیں گے تو یہی کہا جائے گا کہ اسے خدا تعالیٰ سے محبت ہی نہیں ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قلب میں خدا کی محبت ہواور اس کے سامنے آدمی نہ جھکے۔

اس سے ثابت ہوگیا کہ باطن کے لیے ظاہر لازمی ہے۔ پس جب تزکیہٴ باطن ضروری ہوا تو تزکیہٴ ظاہری بھی لازم ہونے کی وجہ سے ضروری ہو گیا۔ لہٰذا، باطنی اور ظاہری دونوں تزکیے ضروری ہوئے ۔ گو ضروری دونوں تھے ،مگر چوں کہ اصل نفس کا تزکیہ تھا، اس لیے ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی﴾ میں اسے بیان کیاگیا کہ جو شخص عقائد واخلاق کے خبائث سے پاک ہو گیا، وہ کام یاب ہو گیا۔

آگے ہے:﴿ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی﴾․
(ترجمہ: اور اپنے رب کا نام لیتا رہا اور نماز پڑھتارہا)

پہلی آیت میں تزکیہ باطن کا ذکر ہے اور اس آیت میں ظاہری تزکیہ کا۔ یہ ایک حیثیت سے ظاہر اور ایک حیثیت سے باطن ہے اور ان دونوں کا ذکر ہے ۔ وہ اس طرح کہ عمل تین حال سے خالی نہیں :
    یا تو اس کا تعلق باطن سے ہے
    یا اس کا تعلق جسمانی افعال سے ہے
    یا اس کا تعلق زبان سے ہے

جسمانی افعال ظاہر ہیں اور زبان برزخ ہے کہ زبان کا شمار ایک حیثیت سے ظاہر میں ہوتا ہے اور ایک حیثیت سے باطن میں۔ چناں چہ اگر منھ بند رکھو تو زبان باطن میں ہے اور منھ کھول دو تو زبان ظاہر ہے ۔ چناں چہ شرعی احکام میں بھی دیکھ لیجیے کہ کچھ ایسا ہی ہے ۔ تھوک اگر حلق میں چلا گیاتو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ باطن ہے۔ اگر کوئی چیز چکھ کر تھوک دی جائے تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ظاہر ہے۔ اور چوں کہ زبان برزخ ہے، اس لیے اسے الگ قسم قرار دیا گیا۔

﴿وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی﴾ ( اوراپنے رب کا نام لیتا رہا اور نماز پڑھتا رہا) میں ظاہری تزکیہ اور ظاہری وباطن تزکیہ کے درمیان (برزخ) دونوں کا ذکر ہو گیا ہے۔ صلی تو ظاہر کے متعلق ہے اور ذکراسمہ ربہ زبان کے متعلق اور (یہ بات ہو چکی ہے کہ ) زبان ظاہر اور باطن دونوں میں سے ہے ۔ غرض، اس آیت میں دونوں قسم کے تزکیے کا ذکر آگیا۔ پس، ان دونوں آیتوں ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی﴾ کا خلاصہ یہ ہوا کہ باطن کی بھی اصلاح کرو اور ظاہر کی بھی اور ایسی چیز کی بھی اصلاح کرو جو ظاہر وباطن دونوں میں سے ہے۔ اس کا حاصل یہ تین فعل ہوئے:
1...زبان کی درستی
2...اعضا کی درستی
3...قلب کی درستی

مطلب یہ ہوا کہ ہر قسم کی درستی کرو۔ چوں کہ وہ تمام امور جن کی درستی ہونی چاہیے، کئی ہیں کہ ہر وقت ان کی تفصیل یا درکھنا مشکل تھا، اس لیے سہولت کی خاطر پوری تفصیل بیان کرنے کے بجائے صرف یہ فرما دیا کہ ﴿َذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی﴾․

اس کا راز یہ ہے کہ اس آیت میں الله تعالیٰ ایک ضابطہٴ حیات بتاتے ہیں کہ اگر اسے اختیار کر لوگے تو بہ آسانی تمام امور کی درستی پر قادر ہو جاؤ گے۔ سب کی فہرست یاد کرنے کی ضرورت نہیں۔

اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اپنا اصل کام ”ذکر“ کو سمجھو گے تو خود بہ خود سب ممنوع چیزوں سے رک جاؤ گے۔

ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم اپنا اصل کام ”ذکر“ کو نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر اصل کام ذکر کو سمجھ لیں تو کبھی برائیوں میں مبتلا نہ ہوں۔ مشائخ اگرچہ برائیوں کے چھوڑنے کی تعلیم تفصیل سے بھی دیتے ہیں، مگر سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے لیے ایک اصل کام تجویز کر لے، پھراس میں مشغول ہونے سے خود ہی ساری برائیاں چھوٹ جائیں گی۔ وہ اصل کام ” ذکر“ ہے۔

اب اس ذکر میں جو جو چیزیں مخل ہوں گی، خود ہی ان کی طرف سے طبیعت ہٹے گی۔ یہ بھی ضرورت کے مطابق ہو گا۔ ضرورت اس کو کہتے ہیں کہ اس کے بغیر نقصان ہونے لگے۔مثلاً نوکر کو کوئی ایسا کام کہنا ہے کہ اگر نہ کہا تو نقصان ہو گا۔ یہ ضرورت ہے۔ وہ یہ کام کرے گا۔ اور ایک ہے مشغلہ کے طور پر باتیں ہانکنا۔ یہ غیر ضروری ہے۔ چناں چہ جو شخص ذکرکو اصلی کام سمجھے گا، وہ کبھی ”مشغلہ“ میں مشغول نہ ہو گا۔

غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ لوگوں کے وقت کا زیادہ حصہ ایسے ہی غیر ضروری قصوں میں صرف ہوتا ہے۔ چناں چہ دوست یار مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو ان کا زیادہ وقت کس میں خرچ ہوتا ہے؟ صرف اسی میں کہ کہیں کی خبریں بیان کرتے ہیں، کسی کی برائی کرتے ہیں۔ ان چیزوں کو لوگوں نے اپنا مشغلہ بنا رکھا ہے ۔ خاص کر جو اہل علم اس میں مبتلا ہیں وہ تو عوام سے بھی بڑھے ہوئے ہیں، کیوں کہ عوام الناس کو تو خبر ہی نہیں کہ یہ گناہ ہے، لیکن اہل علم کو تو یہ علم ہوتا ہے کہ یہ کام گناہ ہے اور پھر بھی کرتے ہیں۔

اہل علم کا بڑا مشغلہ غیبت ہے۔ غیبت بھی کس کی ؟ ابرار کی کہ اکثر ان کے ہاں علماء وصلحا کی برائیاں کی جاتی ہیں۔ ہم لوگوں کی حالت افسوس کے قابل ہے۔ ساری خرابی یہ ہے کہ اس پر توجہ ہی نہیں دیتے کہ ہمارا اصل کام کیا ہے۔ الله تعالیٰ نے اس کے لیے کیا اچھی تدبیر بتا دی: ﴿وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی﴾کہ ذکر کو اصلی کام سمجھ لو، تمام برائیاں چھوٹ جائیں گی۔

یہاں ظاہراً یہ مناسب معلوم ہوتا تھا کہ یوں فرماتے﴿ َذَکَرََ ربہ﴾ لیکن لفظ ”اسم“ کیوں بڑھایا؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر ذکر ربہ فرماتے تو اس میں بعض سالکین کو یہ شبہ ہوتا کہ خدا کو کیسے یا دکریں؟ کیوں کہ یاد کرنا موقوف ہے، تصور پر اور الله کا تصور بڑا مشکل ہے، کیوں کہ الله تک ہماری رسائی کہاں ہو سکتی ہے۔ اس کی تو یہ شان ہے:
        اے برتر از خیال وقیاس وگمان ووہم
        وزہرچہ گفتہ ایم وشنیدیم وخواندہ ایم
        دفتر تمام گشت وبہ پایاں رسید عمر
        ما ہم خیال در اول و صف تو ماندہ ایم
یعنی:”اے الله! آپ ہمارے خیال وقیاس وگمان اور وہم سے برتر ہیں، اس لیے بھی کہ ہم نے جو کچھ پڑھا اور سنا ہے وہ دفتر تمام (ختم) ہو گیا اور عمر انتہا کو پہنچ گئی۔

اور یہ شان ہے:
        در تصور ذات اورا گنج کو
        مادر آید در تصور مثل او
یعنی، ” اس کے ذات کے تصورمیں کہاں گنجائش کہ اس کی طرح کا تصور کرسکے۔“

اس پر ایک حکایت یاد آئی کہ جب حضرت حاجی امداد الله صاحب ہجرت کرکے حرم شریف پہنچے تووہاں ایک شیخ صاحب مثنوی کا درس دے رہے تھے۔ حضرت حاجی صاحب بھی شریک درس ہو کر سننے لگے۔ وہ شیخ صاحب اس شعر کامطلب بیان کر رہے تھے، مگر معنی نہیں بنتے تھے۔ وہ بہ تکلف معنی بنا رہے تھے۔ حاجی صاحب  نے اس تقریر پر اعتراض کیا تو ناراض ہو گئے اور کہنے لگے، اگر میرے معنی غلط ہیں تو آپ صحیح معنی بتا دیں۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہاں یہ قاعدہ ہے کہ پوچھنے والے سے ناخوش ہو جائیں۔ ہمارے ہاں تو یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ اس کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ پوچھنے پر بُرا نہیں مانتے۔ ہمیں تو اساتذہ سے یہ ملا ہے کہ یہ گنج کو ہے ۔ یہ سن کر وہ شیخ صاحبپھڑک گئے کہ بے شک اسی طرح ہونا چاہیے۔

خیر،ذکر ربہ فرمانے سے بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ ذاتِ حق کا جب تصور نہیں ہو سکتا تو اس کی یاد کیسے ہو سکتی ہے؟ بعض سالکین کو اس قسم کے خطرات پیش آتے ہیں اور یہ سب شیطان کے حیلے بہانے ہیں کہ وہ الله کی یاد سے روکنا چاہتا ہے۔ (جاری)

Flag Counter